Saturday 7 July 2012

فرقہ واریت; بہتر فرقوں والی حدیث


اتحاد امّت کانفرنس میں مجھ سے ایک صاحب نے فرقہ واریت سے متعلق ایک بہت اہم سوال کیا، ملاحظہ کریں:


’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ: بنی اسرائیل میں سے لوگ بہتر(72) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور امت مسلمہ تہتر(73)فرقوں میں تقسیم ہو گی اِن میں سے بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنّت میں ، اور وہ ہے جماعت۔ ‘‘ کیا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی فرقے میں رہنا ضروری ہے ؟

الجواب:
(سائل علم حدیث اور اصول شریعت سے واقف نہیں ہے اس لیے جواب میں حدیث پر زیادہ فنی بحث نہیں کی گئی۔)
آپ نے جو حدیث بتائی وہ مکمل مشکوٰۃ شریف میں یوں ہے کہ :
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر (۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئی تھی اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔‘‘
سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھ لیجیے کہ یہ حدیث جید محدثین نے قبول نہیں کی ہے   اور اسے ضعیف  قرار دیا ہے بالخصوص حدیث کا آخری حصہ کہ ایک میں اور باقی جہنم میں جائیں گے، اس پر محدثین نے خاصا کلام کیا ہے۔ یہ حدیث دراصل دوسرے تیسرے درجے کی کتابوں میں آئی ہے، یہ حدیث دوسرے انداز سے اور بھی کئی مجموعوں میں آئی ہے،لیکن سب کا حال یہی ہے۔  تاہم اس مضمون پر احادیث کی کثرت کی اور دوسرے طرق کی بناء پر یہ حسن کے درجے پر پہنچ جاتی ہے یعنی آپ اسے قابل قبول کہہ سکتے ہیں اور اس کے مضمون پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے جید محدثین نے کیا ہے ۔
لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سے کسی مولانا صاحب نے بیان کیا ہے آپ کا سوال کہ اس حدیث سے فرقہ واریت کی تائید ہوتی ہے یا نہیں ، تو اس ضمن میں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ آپ کی بیان کردہ حدیث مکمل کرنے کے لیے میں لفظ فرقہ استعمال کیا؛ لیکن آپ نے جو حوالہ دیا اس حدیث میں فرقے کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا، ’’ملت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔فرقہ اور ملت میں فرق ہوتا۔ کسی خاص سوچ و فکر کو اپنا دین بنا کر اس پر عمل کرنے والوں کو ملت کہتے ہیں، مثلاً آپ حدیث کا انکار کرنے والوں کو ملت قرار دے سکتے ہیں۔ قادیانیوں کو ملت قرار دے سکتے ہیں، یعنی ایسے لوگ جو بنیاد سے ہی منحرف ہوجائیں ۔ اور فرقہ اسے کہتے ہیں جو دین اسلام میں ہی رہے لیکن کچھ معاملات میں اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیں، کسی فروعی اختلاف کی بناء پر اپنی دو اینٹھ کی مسجد بنا لینا دراصل فرقہ واریت ہے۔ 
محض فقہی مسائل اور اْن میں بھی محض فروعی اختلافات کی بنا پر الگ الگ سوچ و فکر رکھنے والوں پر شرعی طور پر فرقہ ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ، البتہ اس مضمون کی بہت سی احادیث میں فرقے کا لفظ بھی آیا ہے مثلاً ابن ماجہ والی روایت میں لفظ فرقہ موجود ہے، لیکن ہم فرقہ بھی کہیں تو بھی اس سے فرقہ واریت کی دلیل نہیں بنتی ۔ کیونکہ اس میں فرقہ واریت کی پیشین گوئی ہے نہ کہ حکم۔۔ دین میں فرقہ واریت کی حرمت تو نص قطعی سے واضح ہے۔ اس حدیث کو قرآن مجید کی ہی روشنی میں سمجھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن میں  بے شمار آیات فرقہ واریت کی مذمت کرتی ہیں۔

اور پھر ذرا یہ بھی سوچیں کہ جس جماعت کے جنتی ہونے کی بشارت آقا علیہ السلام نے دی ہے وہ کون ہے؟ خود اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ ما انا علیہ واصحابہ، یعنی جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔ اس حدیث سے جو لوگ فرقہ پرستی کی دعوت دیتے ہیں میں انھیں کہتا ہوں کہ آپ ذرا یہ تو دیکھ لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا طرز کیا تھا؟ (وقت کم ہے اس لیے )میں آپ کو یہاں صرف صحابہ کرام کے متعلق بتاتا ہوں۔
صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے مابین بہت سے معاملات میں اختلاف تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے اختلافات تو ایک طرف میں آپ کو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہی تقریباً ۳۰ سے زائد مسائل میں اختلافات گنوا سکتا ہوں ان سب مسائل پر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے بیٹھ کر گفتگو کی ، لیکن کیا کہیں سے کفر کے فتوے لگے؟ کیا کسی ایک صحابی نے اپنا علاحدہ فرقہ بنایا؟ کسی ایک صحابی نے (معاذ اللہ) یہ کہا کہ اختلافی مسائل میں میری ہی پیروی کرنا، ورنہ ایمان سے خارج ہوجاؤگے؟ جنت اور نجات صرف یہیں مل سکتی ہے۔ 
اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو خدارا میرے سامنے تاریخ سے کسی ایک صحابی کا صحیح قول پیش کردیں جنہوں نے کہا ہو کہ فلاں صحابی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا، فلاں کو کافر جاننا، فلاں کو سلام نہ کرنا، جیسا کہ ہم کہتے ہیں۔
سارے اختلافات کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین وہ تھے جو باہم محبت و اخوت سے رہتے تھے، آپس میں رشتے طے کرتے تھے، ایک دوسرے سے علمی و روحانی فیض حاصل کرتے تھے۔مگر افسوس کہ ہم اختلافات کرتے ہیں تو لڑتے بھی ہیں، فتوے بھی لگاتے ہیں؛ اور پھر انتہاء تو دیکھیں کہ اپنے ناپاک عمل کی دلیل نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بتاتے ہیں،ہمیں خدا کا کوئی خوف نہیں ہے، خدا کی قسم اگر وہ لوگ جن پر فتوے لگائے ہیں اگر ان میں سے ایک بھی اللہ کا ولی نکلا تو روز محشر ان تکفیری ملاؤں کی رسوائی ہی ہوگی۔ 

اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ (آمین)



حافظ محمد شارق