Monday 27 May 2013

خدا کا غلط تصور

تحریر: پروفیسر محمد عقیل

کچھ عرصے قبل ایک افسانہ پڑھا کہ ایک صاحب کو راستے میں ایک بزرگ ملتے ہیں ۔ وہ صاحب بزرگ کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے اور ان کی مدد کرتے ہیں۔نتیجے کے طور پر بزرگ خوش ہوکر انہیں دعا دیتے اور کہتے ہیں
” میاں! تمہیں اجازت ہے کہ جو چاہو اپنے لئے مانگو لیکن تمہارے پاس صرف ایک خواہش کرنے کا آپشن ہے “۔ کافی سوچ بچار اور بیوی سے مشورے کے بعد وہ صاحب ایک خواہش کرتے ہیں کہ وہ جسمانی طور پر جیسے ہیں ہمیشہ ویسے ہی رہیں اور ان کے جوان بدن میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ اس خواہش کا مقصد یہ تھا کہ وہ ہمیشہ جوان رہیں۔ دعا مانگنے کے بعد وہ صاحب سوجاتے ہیں ۔ دوسرے دن صبح کو جب ان صاحب کی بیوی اٹھتی ہے تو دیکھتی ہے کہ اس کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے۔ آخر میں افسانہ نگار یہ تبصرہ کرتا ہے کہ چونکہ موصوف نے ہمیشہ اپنے بدن کو غیر متغیر رکھنے کی خواہش کی تھی اس لئے خدا نے اسکی دعا سن لی اور اس کا بدن ہمیشہ کے لئے غیر متغیر ہوگیا۔
اس افسانے کو پڑھ کر ایک ایسے خدا کا تصور پیدا ہوتا ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ وہ صرف ظاہری الفاظ کو سن کر فیصلے کرتا اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔خدا کی ذات کا یہ تصور صرف اس افسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہماری روزمرہ کی گفتگو میں سرایت کرگیا ہے۔ ہم روزانہ اس قسم کہ باتیں سنتے ہیں کہ کوئی ایسی ویسی بات منہ سے نہ نکالو کہیں قبول نہ ہوجائے، یا ناکامی پیش آنے پر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ خدا کی یہی مرضی تھی۔ خدا کی بے حکمتی کی باتیں ہمارے مذہبی حلقوں میں بھی مشہور ہیں۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ خدا چاہے تو کسی صالح مومن کو جہنم اور ابوجہل و ابولہب کو جنت میں داخل کرسکتا ہے، یا پھر یہ کہ خدا نے تقدیر مقرر کردی اور لوگوں کو مجبور محض بنادیا ہے اس کے باوجود وہ لوگوں جنت اور جہنم میں ڈالے گا وغیرہ۔
اس کے برعکس ہمارا یقین ہے کہ اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے۔ چنانچہ یہ کس طرح ممکن ہے وہ حکمت سے عاری ہو۔ اللہ کی ایک صفت ہے الحكيم۔ اس کا مطلب صاحب حکمت، عالم، دانا، دانشور، باشعور ہستی کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے حکیم ہونے کا مفہوم یہی ہے کہ وہ لامتناہی طور پر دانا، سمجھدار اور دانش رکھنے والاہے ۔ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی کار کو بےعقل اور اناڑی ڈرائیور چلائے تو جلد یا بدیر کار کسی جگہ سے ٹکرا کر تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر یہ کائینات کسی غیر حکیم اور بے شعور ہستی کے ہاتھ میں ہوتی تو اب تک کئی مرتبہ تباہ ہوچکی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت، انتہائی درجے کی غایت اور مصلحت پر مبنی ہوتا ہے لیکن ان کاموں کی مصلحتوں کو کامل طور پر احاطہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔حکمت کا معاملہ یہ ہے کہ ایک دانا شخص کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے کم از کم اتنی ہی دانائی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی دانائی اور دانش تک کوئی نہیں پہنچ سکتا چنانچہ اس کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھ لینا ممکن نہیں۔ چنانچہ زلزلوں سے بستیوں کا اجڑ جانا، انسان کی معذوری، کیڑے مکوڑوں کی تخلیق، اور دیگر سمجھ میں نہ آنے والے کاموں کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ اس حکمت کے ایک پہلو کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضرت موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں سمجھایا ہے۔اسی لئے اس دنیا کی بہت سے امور سمجھ سے باہر ہیں ۔ چنانچہ اللہ کے بارے میں یہ تصور کرنا ایک جرم ہے کہ اس کے فیصلے الل ٹپ ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو معاملہ سمجھ میں آجائے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور سمجھ سے باہر ہو اس پر اللہ کی حکمت پر اجمالی ایمان اور اطمینان رکھنا ہی ایمان کا تقاضا ہے ۔
پروفیسر عقیل صاحب بہترین مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Wednesday 15 May 2013

غیر مسلموں کو دعوتِ دین

سوال

السلام و علیکم ، میرے پڑوس میں ایک غیر مسلم ہندو فیملی رہنے آئی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میں انہیں دین اسلام کی دعوت دوں۔ کیا آپ اس متعلق میری رہنمائی کرسکتے ہیں؟برائے مہربانی تفصیل سے جواب دیں۔(محمد عرفان۔ لاڑکانہ)

جواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! مجھے خوشی ہوئی کہ آپ دین کے جذبے کے تحت انہیں اسلام کی دعوت دینا چاہتے ہیں، آپ کے پڑوس میں غیر مسلم رہنے آیا ہے تو خدا کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے اپنے دین کی دعوت انہیں دینے کے لیے آپ کو منتخب کیا۔ آپ نے جن مخصوص حالات کے پیش نظر رہنمائی طلب کی ہے اس کے لیے درج ذیل باتیں پیش خدمت ہیں۔

عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب ہمارے دوستوں میں یا پڑوس میں کوئی غیر مسلم (بالخصوص ہندو ) آجائے تو ہم ان سے تعلق نہیں رکھتے، ان سے کتراتے ہیں اور محبت سے بھی پیش نہیں آتے۔ ہمارا رویہ ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی ایک طبقاتی نظام میں جکڑے معاشرے میں نچلی ذات والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔آپ جب بھی کسی غیر مسلم سے ملیں تو یہ ضرور سوچیں کہ آپ کو اللہ نے اگر مسلمان بنایا ہے تو اس میں آپ کا کیا کمال ہے؟ انہیں دیکھتے ہوئے یہ ضرور سوچیں کہ اگر خدا آپ کو مسلمان گھرانے میں پیدا نہ کرتا اور آپ تک دین نہ پہنچا ہوتا تو آپ کی مذہبی حالت کیا ہوتی؟یہ بات یقینا درست ہے کہ غیر مسلم چاہے ہندو ہو یا کوئی اور؛ جن غلط اعمال و عقائد میں وہ مبتلا ہیں اس سے بیزاری ہمارے ایمان کا حصہ ہے ‘ لیکن ان سے کسی بھی درجے میں نفرت نہ کریں ، ان سے بیزاری کا اظہار ہرگز نہ کریں، بلکہ انھیں پیار و محبت سے دین کی دعوت دیں، ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیں، اپنی دعوت کی بنیاد نفرت کے بجائے محبت و خلوص اور خیر خواہی کے جذبے پر رکھیں۔ دعوت دیتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیں پروردگار نے ہمیں اپنے دین کی دعوت ان تک پہچانے کے لیے مکلف کیا ہے نہ کہ ان سے جھگڑا کرنے کے لیے۔ اگر ہم ان سے جھگڑا کرنے لگ جائیں تو پھر بھلا کیوں وہ ہماری بات سنیں گے؟ یہ ہم مسلمانوں کا کا م ہے کہ انہیں دعوت دیں اور اپنے اخلاق کے ذریعے ان تک اسلام پہنچائیں۔

چونکہ یہ فیملی آپ کے پڑوس میں رہتی ہے اس لیے آپ کے پاس ان سے تعلقات کے مواقع زیادہ ہیں۔ ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع ہو، مثلاً تہوار، بچے کی ولادت، شادی وغیرہ، تو آپ انہیں تحائف دیجیے۔ یا کم از کم انہیں شادی یا بچے کی ولادت جیسے موقعوں پر مبارک باد ضرور دیں۔ ان کی خوشیوں اور غم میں شریک ہو، ضرورت کے وقت ان کا ساتھ دیں۔(مذہبی تہوار جن میں شرکیہ رسوم ادا کی جاتی ہیں ان میں شرکت نہ کی جائے)
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جب تک آپ ان سے مانوس نہ ہوجائیں، باہمی تعلق گہرا نہ ہوجائے تب تک ان سے براہ راست مذہبی گفتگو سے پرہیز کریں، ان سے اخلاق سے بات کریں، ان کے مسائل پوچھیں، ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کیجیے اور ان کے دل میں اپنی جگہ بنائیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سالہا سال ان سے صرف تعلق بنانے کا ہی انتظار کرتے رہیں بلکہ مناسب موقع پر آپ ان سے دین کے بارے میں بھی گفتگو کرسکتے ہیں، اگر کبھی اچانک مذہبی گفتگو کا موقع ملے تو آ پ GORAP ٹیکنیک استعمال کیجیے۔ یہ دعوت دینے کا ایک اسلوب ہے ۔ اس کی تفصیل آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
https://www.facebook.com/biiguk/posts/182517461873666


اس کے علاوہ خیال رکھیں کہ  بات کرتے ہوئے کسی بھی موقع پر انہیں Indirectly بھی یہ نہ کہیں کہ وہ غلط دین پر چل رہے ہیں یا غیر عقلی کام کررہے ہیں، بلکہ سب سے پہلے آپ مذہب کے متعلق ان کی اچھی سوچ کو پہلے بیدار کیجیے مثلاً اس حوالے سے میری ذاتی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ پہلے ان سے یہ بات کرتا ہوں کہ ہمیں اپنی شخصیت کو مثبت بنانا چاہیے۔ انھیں کسی ناصحانہ انداز میں نہیں، بلکہ عمومی اسلوب میں یہ بتاتا ہوں اور اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ایک غیر متعصب اور بہترین Personality کا انسان وہ ہوتا ہے جس کا ذہن ہمیشہ صحیح بات کو تسلیم کرنے کے لیے راضی رہتا ہے، چاہے وہ اپنی گذشتہ غلط بات پر وہ خود کتنے عرصے سے ،اور وہ نظریہ چاہے کتنی نسلوں سے ہی کیوں قائم نہ ہو۔ صحیح بات تسلیم کرنے میں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے وہ اسے ضرور تسلیم کرتا ہے ۔اگر ہمارے نظریات و خیالات کے خلاف واضح دلائل ہمارے سامنے آجائیں توہمیں چاہیے کہ بلاتردد اور زمانے کے خوف یا تعصب کے اسے تسلیم کرلیں۔(اس حوالے سے قرآن مجید کی سورة البقرة ۲ ۔ آیت ۹۰۲ کا بھی حوالہ دیا جاسکتا ہے)۔ جب باہم کچھ اُنسیت ہوجائے تو پھر مذہب پر بات کرنا شروع کیجیے ، البتہ مذہبی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کا خاص خیال رکھیں۔

1.     مخاطب کے Moodکو اہمیت دیں، ایسا نہ ہو کہ وہ آپ سے کوئی ضروری مسئلہ ڈسکس کرنا چاہتے ہوں اور آپ مذہبی گفتگو لے کر بیٹھ جائیں۔
2.     ہر قسم کی بحث اور جھگڑے سے پرہیز کریں۔اگر دورانِ گفتگو کہیں ایسا محسوس ہو کہ بات بحث میں تبدیل ہورہی ہے اور ماحول ناخوشگوار ہورہا ہے تو اس بات کو ترک کردیجیے اور موضوع بدل دیں۔
3.     دورانِ گفتگو اگر ان کے مذہب کی کوئی مقدس شخصیت مثلاً شری رام، کرشن ، گوتم بدھ وغیرہ کا نام آئے تو (اردو کے اعتبار سے) ان کے لیے جمع کے صیغے استعمال کیجیے ۔ بعض اوقات ہم مسلمان کم علمی کی بنا پر ان شخصیات کے متعلق نازیبا کلمات کہہ دیتے ہیں، یہ رویہ غلط ہے، اس بارے میں اسلام کے اس انتہائی اہم اصول کا پابند رہنا ہمارے لیے لازم ہے کہ ممکن ہے یہ خدا کے نیک بندے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ نہ ہو، تاہم ان ہستیوں کے سلسلے میں کوئی گستاخانہ رویہ اختیار کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔ اسلام ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔اس کے علاوہ دعوتی نقطہ نظر سے بھی غور کریں تو یہ بات واضح ہے کہ اگر آپ ان کی مقدس شخصیات کا نام احترام سے نہ لیں گے، یا ان پر تنقید کریں گے تو وہ کسی بھی صورت میں آپ کی بات سننا پسند نہیں کریں گے۔ انسان کے دل میں سب سے زیادہ محترم اور محبوب مذہبی شخصیات ہوتی ہیں، اگر آپ ان شخصیات کا احترام نہ کریں گے تو ان سے یہ کسی بھی طرح یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ آپ کی دعوت سنیں گے۔
4.     عام طور پر ہندو حضرات بت پرستی یا گائے پرستی پر بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا کوشش کیجیے کہ اس موضوع پر ابتداء میں ہی جلد بازی میں کوئی ڈائریکٹ بات نہ کی جائے۔
5.     اوپر جن موضوعات پر بات کرنے سے پرہیز کا کہا گیاہے، اگر وہ خود ہی اس پر بات کرنا چاہیں تو اسے Avoid   نہ کریں بلکہ اچھے انداز میں بات کریں۔
6.     اگر وہ اسلام پر تنقید کریں تو خود پر قابو رکھیں اور صبر کے ساتھ ان کی تنقید سنیں اور تسلی بخش جواب دیں ۔ ان کے کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو تو جواب کے لیے کچھ وقت مانگ لیں اور کسی نزدیکی عالم دین سے جواب معلوم کرلیں۔ 
7.     گفتگو کی ابتداءمشترکہ نکات پر سے کیجیے پھرغیر شعوری انداز میں ان پر مشترکہ نکات اور ان کے مذہب کا ان سے تضاد واضح کیجیے۔اس کی مثال آخر میں دیے گئے مکالمے میں واضح ہے۔
8.     مشکل اسلامی اصطلاحات کا استعمال نہ کریں، سادہ انداز میں بات کریں۔

عام طور پر میں غیرمسلم مخاطب سے "خدا " کے موضوع سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی صفات کے متعلق ایک عام آدمی اکثر ایک ہی عقیدہ رکھتا ہے۔ کوئی باعقل شخص چاہے وہ ہندو ہو کسی اور مذہب سے، خدا کے متعلق کبھی کوئی ناقص بات واضح طور پر نہیں مانے گا، اگرچہ اس کا عقیدہ یا اس کے مذہب کی مقدس کتابوں میں ایسا کچھ لکھا ہی کیوں نہ ہو۔ آپ انہیں پہلے خدا کی صفات پر متفق کریں پھر انہیں خود دعوت دیں کہ وہ اپنی مقدس کتابوں کا مطالعہ کرے۔جب وہ خود خدا کی صفات پر متفق ہو کر اپنی کتابوں کا مطالعہ کریں گے اور اسے خلاف عقل پائیں گے تو انشاءاللہ ان پر اسلام کی حقانیت واضح ہوجائے گی۔ہندوؤں کے سلسلے میں آپ میری کتاب”ہندو دھرم اور اسلام“ کا مطالعہ کرسکتے ہیں اس سے آپ کو مدد ملے گی۔ دین کی دعوت کس طرح دینی چاہیے اس سلسلے میں تفصیل سے آپ ذیل میں دیے گئے لنک میں مطالعہ کریں۔ امید ہے آپ کے لیے یہ تفصیل کافی ہوگی، اگر کسی بارے میں مزید وضاحت درکار ہو تو بلاتکلف دوبارہ پوچھ لیجیے۔

والسلام
حافظ محمد شارقؔ