Monday, 21 March 2016

www.mazahib.org




ABOUT US

The Center for Interfaith Research (CIR) is a forum dedicated to festering peace between people of different religion through research and education on world Religion. As well CIR is a noncommercial research center designed to serve the needs of students and scholars related to interfaith thoughts. A large database of articles and books on religions like Islam, Christianity, Hinduism, Judaism, Buddhism and Atheism.

Our Mission

The Center for Interfaith Research was established to promote values of peaceful interfaith coexistence and harmony among faith traditions with the aim of using research, dialogue, and practical initiatives.

Vision

  • We envision a plate where the people from all faiths contribute to promotion of Interfaith Peace Harmony.
  • Providing opportunities for dialogues, education and research.
  • Providing moral leadership on mutually agreed-upon issues.

Values

  • Responsible religious freedom
  • Mutual respect and acceptance
  • Interfaith Literacy
  • Communication and Dialogue
  • Interfaith Research

Thursday, 25 February 2016

المبشر فروری 2016




Saturday, 30 January 2016

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور تورات کی تلاوت والی حدیث کی تخریج

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور تورات کی تلاوت والی حدیث کی تخریج
 (جس میں نبی کریمﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تورات پڑھنے سے منع فرمایا)
 از: حافظ محمد شارق/مریم نورین
’’مسند احمد بن حنبل‘‘ میں بحوالہ جابر حدیث مروی ہے
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده ضعيف لضعف جابر
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک کتاب لیکر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہﷺ! بنو قریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا،  اس نے مجھے تورات کی جامع باتیں لکھ کر  مجھے دی ہیں، کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں؟ اس پر نبی کریمﷺ کے روئے انور کا رنگ بدل گیا، میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپﷺ کے چہرے مبارک کونہیں دیکھ رہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر،اسلام کو دین مان کر اور محمدﷺ کو رسول مان کر راضی ہیں، تو نبی کریمﷺ کی وہ کیفیت ختم ہوگئی، پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو گمراہ ہوجاتے،امتوں میں  سے تم میرا حصہ ہو اور انبیاء میں سے میں تمھارا حصّہ ہوں۔
مسند احمد بن حنبل، باب عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ، ج ۳،ص ۴۷۰
یہ حدیث اسی سند کے ساتھ ’’مسند احمد بن حنبل‘‘ میں  دوسری جگہ بھی مذکور ہے۔
15903 - حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرزاق قال أنبأنا سفيان عن جابر عن الشعبي عن عبد الله بن ثابت قال جاء عمر بن الخطاب إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله إني مررت بأخ لي من قريظة فكتب لي جوامع من التوراة ألا أعرضها عليك قال فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه و سلم قال عبد الله فقلت له الا ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال عمر رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد صلى الله عليه و سلم رسولا قال فسرى عن النبي صلى الله عليه و سلم ثم قال والذي نفسي بيده لو أصبح فيكم موسى ثم اتبعتموه وتركتموني لضللتم إنكم حظي من الأمم وأنا حظكم من النبيين
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده ضعيف لضعف جابر - وهو ابن يزيد الجعفي - وفيه اضطراب
مسند احمد بن حنبل، باب عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ، ج ۳،ص ۴۷۰
مسند احمد بن حنبل میں ایک حدیث اسی مفہوم کے ساتھ باضافہ راوی ’’ مجالد‘‘ مروی ہے
14672 - حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا يونس وغيره قال ثنا حماد يعني بن زيد ثنا مجالد عن عامر الشعبي عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تسألوا أهل الكتاب عن شيء فإنهم لن يهدوكم وقد ضلوا فإنكم إما أن تصدقوا بباطل أو تكذبوا بحق فإنه لو كان موسى حيا بين أظهركم ما حل له إلا أن يتبعني
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده ضعيف لضعف مجالد : وهو ابن سعيد
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اہل کتاب سے کسی چیز کے متعلق  مت پوچھا کرو، اس لیے کہ وہ تمھیں صحیح راہ کبھی نہیں کھائیں گے کیوں کہ وہ تو خود ہی گمراہ ہیں، اب یا تو تم کسی غلط بات کی تصدیق کر بیٹھو گے یا کسی حق بات کی تکذیب کرجاؤ گے، اور یوں بھی اگر تمھارے درمیان حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو میری اتباع کے علاوہ انہیں کوئی چارہ نہ ہوتا۔
حوالہ:مسند احمد بن حنبل، باب:  مسند جابر بن عبداللہ،  ج ۳،ص ۳۳۸
مصنف عبدالرزاق
جابر بن یزید الجعفی سے مروی حدیث ’’مصنف عبدالرزاق‘‘ میں بھی  اسی سند اور  ان الفاظ ’’ مسخ الله عقلك ‘‘کے  اضافہ کے ساتھ درج ہے۔
19213 - أخبرنا عبد الرزاق قال أخبرنا الثوري عن جابر عن الشعبي وعن عبد الله بن ثابت وقال عن الشعبي عن عبد الله بن ثابت قال جاء عمر بن الخطاب فقال يا رسول الله إني مررت بأخ لي من يهود فكتب لي جوامع من التوراة قال أفلا أعرضها عليك فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال عبد الله مسخ الله عقلك ألا ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال عمر رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا قال فسري عن النبي صلى الله عليه و سلم ثم قال والذي نفسي بيده لو أصبح فيكم موسى فاتبعتموه وتركتموني [ ص 314 ] لضللتم إنكم حظي من الأمم وانا حظكم من النبيين
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک کتاب لیکر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہﷺ! بنو قریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا،  اس نے مجھے تورات کی جامع باتیں لکھ کر  مجھے دی ہیں، کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں؟ اس پر نبی کریمﷺ کے روئے انور کا رنگ بدل گیا، میں (عبداللہ بن ثابت)نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپﷺ کے چہرے مبارک کونہیں دیکھ رہے ؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر،اسلام کو دین مان کر اور محمدﷺ کو رسول مان کر راضی ہیں، تو نبی کریمﷺ کی وہ کیفیت ختم ہوگئی، پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو گمراہ ہوجاتے،امتوں میں  سے تم میرا حصہ ہو اور انبیاء میں سے میں تمھارا حصّہ ہوں۔
مصنف عبدالرزاق، ج ۱۰،ص ۳۱۳، بابھل  یسئل  اھل کتاب عن شئی
معجم الصحابۃ مشکول / معرفۃ الصحابۃ
معجم الصحابۃ   مشکول  اور معرفۃ الصحابۃ میں یہی حدیث  باضافہ راویان ’’ معاذ بن المثنی،محمد بن کثیر اور سلیمان‘‘ مذکور ہیں۔
536- عبد الله بن ثابت الأنصاري
- حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، حَدَّثَنَا جَابِرٌ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيِّ ، قَالَ : جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِجَوَامِعَ مِنَ التَّوْرَاةِ ، فَقَالَ : إِنِّي زُرْتُ أَخًا لِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ ، فَكَتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنَ التَّوْرَاةِ ، أَفَأَعْرِضُهَا عَلَيْكَ ؟ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، فَقُلْتُ : أَلا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ؟ فَقَالَ عُمَرُ : رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا ، وَبِالإِسْلامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولا ، فَذَهَبَ مَا كَانَ بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَوْ أَنَّ مُوسَى أَصْبَحَ فِيكُمْ ، فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ ، أَنْتُمْ حَظِّي مِنَ الأُمَمِ ، وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنَ الأَنْبِيَاءِ
ترجمہ: عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تورات کی جامع باتیں لیکر آئے، اور کہنے لگے  بنو قریظہ میں میراگذر اپنے ایک بھائی پر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں،کیا  وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں؟  اس پر نبی کریمﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔  میں (عبداللہ بن ثابت)  نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپﷺ کے چہرے مبارک کونہیں دیکھ رہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر،اسلام کو دین مان کر اور محمدﷺ کو رسول مان کر راضی ہیں، تو نبی کریمﷺ کی وہ کیفیت ختم ہوگئی، پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو گمراہ ہوجاتے،امتوں میں  سے تم میرا حصہ ہو اور انبیاء میں سے میں تمھارا حصّہ ہوں۔
معجم الصحابہ مشکول، باب: حرف الصاد، ج ۲،ص ۹۱۔
معرفة الصحابة، باب عبداللہ بن ثابت انصاری حدیثہ، ص 1600، ج 3
سنن الدارمی میں یہ حدیث  بحوالہ ’’مجالد‘‘ مروی ہے
435 - أخبرنا محمد بن العلاء ثنا بن نمير عن مجالد عن عامر عن جابر : ان عمر بن الخطاب أتى رسول الله صلى الله عليه و سلم بنسخة من التوراة فقال يا رسول الله هذه نسخة من التوراة فسكت فجعل يقرأ ووجه رسول الله يتغير فقال أبو بكر ثكلتك الثواكل ما ترى بوجه رسول الله صلى الله عليه و سلم فنظر عمر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال أعوذ بالله من غضب الله ومن غضب رسوله رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم والذي نفس محمد بيده لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتموني لضللتم عن سواء السبيل ولو كان حيا وأدرك نبوتي لاتبعني
قال حسين سليم أسد : إسناده ضعيف لضعف مجالد ولكن الحديث حسن
واسناد الأثر علی شرط الصحیح غیر مجالد (فتح المنان، شرح دارمی)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ:ایک بار عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر تشریف لائے اور فرمایا : اے اللہ کے رسول اللہ ﷺیہ تورات کا ایک نسخہ ہے ۔ آپ ﷺ چپ ہوگئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پڑھنا شروع کیا تو نبیﷺکے چہرے کا رنگ متغیر ہونے لگا۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا : تمہاری ماں تم کو روئے ، کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرا بدل رہا ہے؟
پھر عمر ﷺ نے رسول اللہ ﷺکے چہرے کی طرف دیکھا اور فرمایا : میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے اور رسول  اللہﷺ کے غصے سے ، ہم راضی ہوئے اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر ، محمد ﷺکے نبی ہونے پر
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ، اگر آج موسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئیں اور تم لوگ میرے بجائے ان کی اتباع شروع کر دو ، تو سیدھی راہ سے گمراہ ہو جاؤ گے ۔ اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو وہ بھی میری ہی اتباع کرتے ۔
(سنن الدارمي،ص 126، ج 1)
فتح المنان شرح دارمی میں اس سند کے بارے میں لکھتے ہیں
اس حدیث کی سند صحیح کے درجے کی ہے مجالد کے علاوہ، وہ ضعیف ہے۔
’’شعب الایمان‘‘ میں یہ حدیث  ’’جابر جعفی  کے نام سے  ہی مروی ہے
4836 - أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبِ بْنِ حَرْبٍ، ثنا أَبُو حُذَيْفَةَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ -[171]- عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: دَخَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَتَابٍ فِيهِ مَوَاضِعُ مِنَ التَّوْرَاةِ، فَقَالَ: هَذِهِ كُتُبٌ أَصَبْتُهَا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أَعْرِضُهَا عَلَيْكَ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَغَيُّرًا شَدِيدًا لَمْ أَرَ مِثْلَهُ قَطُّ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْحَارِثِ لِعُمَرَ: أَمَا تَرَى وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ عُمَرُ: رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، فَسُرِّيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " §لَوْ نَزَلَ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ، أَنَا حَظُّكُمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَأَنْتُمْ حَظِّي مِنَ الْأُمَمِ "
ترجمہ:
شعب الإيمان، ص 170
جابر بن یزید الجعفی کے متعلق ائمہ حدیث کا موقف
جابر بن یزید الجعفی:  رواه أحمد والطبراني ورجاله رجال الصحيح إلا أن فيه جابرا الجعفي وهو ضعيف
 رواه: أحمد، والطبراني؛ بإسناد فيه جابر الجُعفي، وهو ضعيف. اتهم بالكذب
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،ج۱،ص ۴۲۰
(133) جابر بن يزيد الجعفي ضعفه الجمهور ووصفه الثوري والعجلي وابن سعد بالتدليس (تعریف اھل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس،ابن حجر عسقلانی)
رواه: أحمد، والطبراني؛ بإسناد فيه جابر الجُعفي، وهو ضعيف.
(تخریج احادیث وآثار کتاب فی ظلال القرآن، ج ۱،ص ۵۰)
حدیث میں  مذکور راوی ’’مجالد‘‘ کے متعلق ائمہ حدیث   کا موقف
مجالد بن سعید بن عمیر الھمدانی کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے آپ کو ’’ لیس بالقوی وقد تغیر  فی آخر عمرہ ‘‘  لکھا۔ جب کہ  امام الذھبی نے آپ کو بحوالہ ابن معین  ضعیف اور  امام نسائی   ’’لیس بالقوی‘‘ کہا ہے۔
یحیی بن سعید القطان :" ضعیف"
احمد بن حنبل "لیس بشیئ " 
یحیی بن معین "لا یحتج بحدیثہ "ومرۃ "ضعیف واھی"
خلاصہ حکم: ضعیف
)جابر جعفی کو امام اعظم اور دیگر ائمہ و محدثین نے  ضعیف  اور کذاب قرار دیا ہے۔مجالد کو بھی محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے(


Sunday, 29 November 2015

ہندومت کا تفصیلی مطالعہ


ہندومت اور اسلام
ہندومت کے عقائد، تاریخ، کتب مقدسہ، معاشرتی قوانین اور دیگر امور سے متعلق اصل ماخذ پر مبنی تفصیلی اور تحقیقی کتاب
(جلد اوّل)
مصنف
حافظ محمد شارق

Institute of Intlectual Studies & Religious Affairs










تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دورِ حاضر میں مذاہب کے درمیان مکالمے (Interfaith dialogue)کو ایک بڑی ضرورت اور خواہش کے طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ البتہ اس کا بنیادی اصول ہے کہ ہم اپنے مخاطب کے مذہب ، نظریات اور خیالات سے اچھی طرح واقف ہوں تاکہ اس کی نفسیات ، عقائد اور مذہب کو مدنظر رکھتے ہوئے  اس سے بات کی جا سکے۔  اکثر اہل علم اور پُرجوش مذہبی مبلغین اس بات کا خیال نہیں رکھتےاور وہ اپنی زبا ن سے ایسی منفی باتیں نکال بیٹھتے ہیں جس سے مخاطب کے دل میں شدید  نفرت جنم لیتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مذاہب کے مابین جو اختلافات ہیں، اور ان کے جو عقائد ہیں ان کا ایک غیرجانبدارانہ (Impartial) مطالعہ کیا جائے اور ان کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ ان کے استدلال کا جائزہ بھی لیا جائے۔
اسلامک اسٹڈیز پروگرام  میں ہم نے اسی ضرورت کے پیش نظر دنیا کے مشہور مذاہب سے متعلق ایک سیریز شامل کی ہے جس کا عنوان ہے ’’مذاہب عالم پروگرام۔’‘ یہ تقابل ادیان کے عام کورسز سے کچھ مختلف ہے۔ تقابل ادیان کے جو کورسز بالعموم پڑھائے جارہے ہیں ان میں سے اکثر متعصبانہ انداز میں لکھا جاتا ہے اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مصنف کے مذہب کی برتری  کو بھونڈے سے انداز میں بیان کیا جائے۔  دیگر مذاہب کی منفی باتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا جاتا ہے اور مثبت چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مذہب کے مثبت پہلوؤں کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ اس سے قوم پرستی کے جذبے کی تسکین تو ہوجاتی ہے ، مگر دیگر مذاہب کی صحیح تصویر سامنے نہیں آپاتی۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دیگر مذاہب کا نہایت ہی بے تعصبی سے غیر جانبدارانہ بلکہ ہمدردانہ مطالعہ کریں  تاکہ ان کا صحیح فہم حاصل ہواور مکالمے کی بنیاد طعن و تشنیع کے بجائے  علمی دلائل ہوں۔
 اس پروگرام میں ہم نے یہی کوشش کی ہے کہ تمام مذاہب کے نقطہ نظر کو جیساکہ وہ ہیں، بغیر کسی کمی بیشی کے بیان کردیا جائے۔کسی بھی معاملے میں ہم نے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے سے گریز کیا ہے تاکہ قاری درست اور غلط نقطہ نظر کا فیصلہ خود کرسکے۔ مختلف مذاہب، علاقے اور پس منظر کے اعتبار سے ہم نے اس پروگرام کو مندرجہ ذیل  ماڈیولز میں تقسیم کیا گیا ہے:
·         ماڈیولWR01: اس ماڈیول میں دنیا کے بڑے مذاہب جیسے ہندومت، عیسائیت، یہودیت، بدھ مت اور الحاد کاتعارف اور ان کی تاریخ کا اجمالی مطالعہ  پیش کیا گیا ہے۔
·         ماڈیول WR02: اس ماڈیول میں ہندومت کا تفصیلی مطالعہ آسان اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔
·         ماڈیول WR03: یہ ماڈیول الحاد کے مفصل مطالعے پر مشتمل ہو گا۔
·         ماڈیول WR04: اس ماڈیول میں ہم یہودیت کا تفصیلی مطالعہ کریں گے۔
·         ماڈیول WR05: اس ماڈیول میں ہم عیسائیت کا مفصل مطالعہ کریں گے۔
·         ماڈیول WR06: یہ ماڈیول بدھ مذہب کے مطالعہ کے لیے وقف ہو گا۔
·         ماڈیول WR07: یہ ماڈیول دنیا کے اہم مذاہب کے علاوہ دیگر مذاہب مثلاً کنفیوشسزم، تاؤازم، پارسی اور دیگر  پر مشتمل ہو گا۔  اس کے ساتھ ساتھ اس ماڈیول میں مختلف مذہبی تحریکوں کا بھی مطالعہ بھی کریں گے۔
اس پروگرام کے مقاصد یہ ہیں:
·         دنیا کے بڑے مذاہب سے واقفیت حاصل کرنا
·         ان علوم سے واقفیت حاصل کرنا جو دنیا کی دیگر اقوام میں پائے جاتے ہیں
·         مذاہب کے درمیان مشترک پہلو تلاش کرنا تاکہ باہم رواداری اور  ہم آہنگی کو فروغ ہو۔
یہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں ہم نے دنیا کے تیسرے بڑے مذہب ہندومت کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے ۔ اس کتاب کے مصنف حافظ محمد شارق صاحب، جو ہماری ٹیم کے انتہائی محنتی رکن ہیں، خصوصی شکریے اور تحسین کے مستحق ہیں۔
پروفیسر محمد عقیل۔ کوآرڈنیٹر آئی ایس پی۔
31  اگست 2014



کچھ اس کتاب کے بارے میں۔۔۔

مذاہب عالم کے پیروکاروں میں باہمی ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ہم غیر جانبدارانہ انداز میں دوسرے مذاہب کا مطالعہ کریں، ان کی خوبیوں کا اعتراف کریں اور جائز تنقید دلیل کے ساتھ پیش کریں۔ اسی ضرورت  کے پیش نظر ماہرین ِعلم الانسان ، علم عمرانیات اور تہذیب و تمدن سے دلچسپی رکھنے والے کئی اہل علم حضرات نے مذاہب پر تحقیقی مواد لکھا ہے اور اب تک مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے پر کثرت سے ادب شائع ہوچکا ہے۔دنیا کی بہت سی زبانیں اس موضوع سے آراستہ ہیں۔
اس وقت ہمیں اردو زبان میں مذاہب عالم کے تقابل پر مبنی بہت سی مستند کتابیں مل سکتی ہیں ۔جن میں تمام مذاہب عالم پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔لیکن خاص طور کسی ایک مذہب کے تفصیلی  مطالعے پر اردو زبان میں بہت کم مواد موجود ہے۔ اس حوالے سے عیسائیت پر بہت کتابیں لکھی  گئی ہیں لیکن ہندومت پر ان کتابوں  کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس مذہب کے متعلق اردو میں ہمیں جو کتابیں ملتی ہیں ان میں ہندو مت کی کتب مقدسہ میں درج مذہب پر غیرجانبدارانہ انداز میں روشنی ڈالنے کی بجائے منفی باتوں کا نمایاں کیا گیا ہے جن پر بے جا تنقید کی گئی ہے۔ نیز ان میں مقدس صحائف کے حوالے بھی کم  ملتے ہیں۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندو مت  کے غیرجانبدارانہ تفصیلی مطالعے پر مبنی تحقیقی مواد سے اردو ادب اب تک محروم نظر آتا ہے۔ہندومت پر ایسی کتاب کی کمی کو پورا کرنے  کے لیے میں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ۔تاکہ نہ صرف خود ہنود اپنے مذہب  کو پڑھیں اور سمجھیں بلکہ دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی اس مذہب کو اس کے مقدس صحائف کی روشنی میں دیکھیں۔
 کتاب شروع کرنے سے قبل اس کتاب کے بارے میں چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کتا ب اہل زبان ‘ بالخصوص ادب شناسوں کے لیے یقینا معیاری نہ ہو گی ۔ تحریر میں بہت سی اغلاط نمایاں ہوسکتی ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں انتہائی معذرت خواہ ہوں ۔کیونکہ یہ کوئی ادبی کتاب نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف او ر صرف اصلاح ہے۔ اقتباسات کے ترجمہ کے متعلق بھی یہ بتانا لازم ہے کہ اردو زبان میں چونکہ ہندومت کی کتابیں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دستیاب ہیں اس لیے ان میں سے بیشتر اقتباسات کا ترجمہ کرنے کی جسارت مجھے خود کرنی پڑی ۔ البتہ  اقتباسات کو توڑ مروڑ کر خود ساختہ مطلب بیان کرنے سے بالکل پرہیز کیا گیا ہے ۔ ترجمہ کرتے ہوئے میں نے کتاب کا اصل متن، علماء کے تراجم ، بالخصوص ہندی تراجم کو مدنظر رکھا ہے ۔
کتاب میں جن مسائل پر بحث کی گئی ہے،ان کے لیے ، حالات، شخصیات اور خود مصنّف نے اپنی ذاتی رائے کو نظر انداز کرکے قدیم کتابوں سے تحقیق کی  اور جابجا اقتباسات بھی دیے ہیں تاکہ یہ تمام تر مواد غیر جانبدارانہ اور حقیقت پسندانہ ہو۔مقدس کتابوں سے جو اقتباسات نقل کیے گئے ہیں ان کے حوالے بھی درج کر دیے گئے ہیں، تاکہ اگر کوئی اصل عبارت دیکھنا چاہے توکتاب میں بلا پریشانی تلاش کرلے۔کتابوں کے ایڈیشن، تراجم اور ناشر وغیرہ سے متعلق تفصیلات آخر میں ببلیوگرافی میں دیکھ سکتے ہیں ۔
زیر   نظر کتاب میں ہم چھ حصوں کے تحت ہندومت کے نظام حیات، عقائد اوراسلام سے اس کے تعلق  اور  اس مذہب کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔ ان چھ حصوں سے پہلے چند صفحات میں ہندودھرم کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے تاکہ قاری کو معلوم ہو کہ وہ جس مذہب کا گہریائی سے مطالعہ کرنے جارہا ہے وہ کیا ہے۔ اس کےبعد کتاب کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہےجس کی ترتیب و تقسیم حسب ذیل انداز میں کی گئی ہے۔
·         حصہ اول میں ہم قدیم دور سے دور حاضر تک ہندو دھرم کی تاریخ کا تفصیلی مطالعہ کریں گے۔
·         حصہ دوم میں ہم ہندودھرم کے عقائد کا جائزہ لیں گے جس میں خدا کا تصور، آخرت اور دیگر نظریاتی مباحث آئیں گے۔
·         حصہ سوم ہندو دھرم کے ماخذ کے متعلق ہے اور اس میں کوشش کی گئی ہے کہ ہندوؤں کی مقدس کتابوں کا تفصیلی تعارف کرایا جائے اور تاریخی شواہد سے ان کی مذہبی و استنادی حیثیت کو واضح کیا جائے۔
·         حصہ چہارم میں ہم ہندوؤں فقہ، قانون اور عملی احکامات کا مطالعہ کریں گے ۔ اس میں نظام عبادت، رسوم و رواج، تہوار اور دیگر اہم امور شامل ہیں۔ نیز ہندو کتب مقدسہ کی رُو سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک ہندو معاشرے کا قیام کس اصولوں پر ہوتا ہے۔
·         پانچویں حصے میں ہم ہندوؤں کے مختلف فرقوں اور مذہبی تحریکوں کے بارے میں پڑھیں گے۔
·         چھٹے یعنی آخری  حصے میں ہم ہندودھرم اور اسلام کے تعامل (Interaction) پر گفتگو کریں گے۔یہ حصہ اس کتاب سے علیحدہ ہے۔
اپنے قارئین کی خدمت میں ایک اور بات عرض کرنا چاہوں گا کہ میں بحیثیت ایک ذمہ دارانسان، کسی کی بھی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا۔ اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہی جائے جوکسی کی بھی دل آزاری کا موجب ہو۔ لیکن ممکن ہے بعض معاملات ایسے ہوں جن سے کسی کے جذبات کو تکلیف پہنچے۔ اس کے لیے میں اپنے اسلوب کے متعلق معذرت خواہ ہوں۔ اس کتاب کو پیش کرنے کا مقصد اشتعال پیدا کرنا ہرگز نہیں۔ بلکہ، بخدا میرا مقصد صرف مذہب کے متعلق صحیح شعور پیدا کرنا اور مذاہب سے متعلق حقائق سے آگاہ کرنا ہے۔بعض جگہوں پر اہل ہندو عقائد کے متعلق غیر ہنود کی تنقید اور دلائل بھی اسی مقصد سے دیے ہیں کہ انھیں معلوم ہوسکے کہ کن بنیادوں پر وہ ان کے عقائد سے اتفاق نہیں کرتے۔
اس تحقیقی کام کی تکمیل پر میں محمد مبشر نذیر اور پروفیسر محمد عقیل صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمیشہ نہ صر ف میری ادبی و تعلیمی سرگرمیوں میں حوصلہ افزائی کی بلکہ ہر مرحلے میں میرا بھرپور ساتھ دیا۔کتاب کی ترتیب کے مختلف مرحلوں میں مجھے جو بھی دشواریاں پیش آئیں، انہی دونوں نے اپنی محبت ، توجہ اور بھرپور دلچسپی سے رفع کردیا ۔ اس کے علاوہ مقدس کتابوں سے ترجمہ کرنے میں میرے ساتھ تعاون کرنے پر اگر میں مشرف احمد انصاری (یوپی ،مظفرنگر، بھارت )کا شکر ادا نہ کروں تو یہ احسان فراموشی ہوگی ۔
کتاب پر بارہا نظر ثانی کی جاچکی ہے ، سہواً جو اغلاط ہوگئیں تھیں، ان کی تصحیح کا بھی اہتمام کیا گیا، تاہم انسان ’انسان ہے ،اور چونکہ خطا کا پتلا ہے اس لیے اس کی ہر کاوش کامل نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس کتاب میں بھی یقینا بہت سے نقائص رہ گئے ہوں گے ۔ امید کرتا ہوں قارئین انہیں معاف فرمائیں گے اور مزید مشوروں سے نوازیں گے۔
آخر میں اپنے مالک و خالق کا مشکور ہوں جس نے مجھے یہ کتاب پیش کرنے کی سعادت عطا فرمائی ۔ اسی مالک و مختار کل سے دعا ہے کہ وہ اس احقر کی معمولی سی سعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور انسانیت کے لیے اسے نفع کا سبب بنائے ۔آمین۔
                                                            محتاجِ دعا
                                                                        حافظ محمد شارق ؔ سلیم