Thursday, 7 June 2012

سائنس اور مذہب : ایک ہی اصول


حافظ محمد شارق

یورپ کی تاریک وادیوں میں جب علمی تہذیب کا جنم ہوا اور علماء و محققین اندھی تقلید کو طوق گلے سے اتار کر پھینک چکے تو انہوں نے عقل و فطرت کے خلاف ہر نظریے کا انکار کردیا ۔عیساان کےئیت میں چونکہ کئی تحریفات اور نت نئے عقائد کا اضافہ ہوگیا تھا لہٰذا ان عقل پسند محققین نے بڑی جسارت کے ساتھ اس مذہب پر بھی تنقید کی اور اس کے عقائد کی کھوکھلی بنیادیں ظاہر کردیں۔ انہوں نے عیسائیت کے بنیادی عقائد پر ایسے منطقی حملے کیے جس سے عوام کے دلوں میں عیسائیت پر ایمان کمزور ہوتا گیا اور انہیں اپنا دین دقیانوسی خیالات کا مجموعہ محسوس ہونے لگا۔ عقل و سائنس کے دلدادہ ان محققین کی کارفرمائیوں سے روز بروز مذہبی گروہ کی بازاری خطرے میں پڑ رہی تھی ۔ چنانچہ یہ جرأت ارباب کلیسا کیلئے انتہائی غصہ کا سبب بننی اور ان کے دلوں میں سائنس کے خلاف کو ہِ آ تش فشاں پھٹ پرا۔ چونکہ ملکیت و اقتدار اسی مذہبی طبقے کے پاس تھا لہٰذا انہوں نے علماء طبیعیات اور محققین کے خلاف پرتشدد کاروائیاں شروع کردیں۔ لاکھوں علماء زندہ جلائے دیے گئے ‘ اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔مشہور طبیعی عالم گلیلیو بھی انہی میں سے ایک تھا جسے سائنسی نظریات کی وجہ سے سزائے موت دی گئی۔ 
یہ پرتشدد تحریک جب انتہائی شدت اختیار کرگئی اور ظلم و ستم اپنے عروج کو پہنچ گیا تو پھر مظلوم ترقی پسند علماء کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا اور انہوں نے مذہبی گروہ کے خلاف اعلان بغاوت کردیا ۔ ان کے لیے مذہب سے وابستہ تمام امور قابل نفرت ہوچکے تھے ۔مذہب کے غیر ضروری عقائد، نفس کشی، عبادات اور دیگر تمام حدود سے وہ تنگ آکر باہر آگئے اور ان کے لیے کسی بھی نظریے کو حق و باطل ماننے کا میزان سائنس تھا ، گویا انہوں نے سائنس کو ہی اپنا دین و ایمان بنا لیا ۔
مذہبی طبقے کی جانب سے ہونے والے مظالم کے درعمل میں اب ان جدید روشن خیال یورپی مفکرین کی عقلوں پر مادیت کا ایسا گرہن لگ چکا ہے کہ ان کے نزدیک مذہب اور خدا کی اب کوئی حقیقت ہی نہیں رہی ۔ وہ مذہب و عقیدے کو کسی بھی صورت تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہیں ‘ اگرچہ یہ سب تحریف شدہ عیسائیت کا ہی کیا ڈھراتھا لیکن تجدد پسند علماء کے ذہنوں میں مذہب کے خلاف اب ایک ایسی عداوت پیدا ہوچکی ہے کہ ہر مذہب و عقیدہ انہیں اپنی علمی تحریک کے لیے خطرہ محسوس ہونے لگاہے اور انہوں نے یہ بات اپنے ذہن میں راسخ کرلی ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے ضد اور مقابل تصور ہیں اگر علم و عقلیت اور سائنسی ترقی کو جاری رکھنا ہے تو مذہب کا ان کار کرنا ہی پڑیگا ۔ دین و مذہب سے کفر کے لیے انہوں نے سائنس کو ہی آلۂ کار بناکر استعمال کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ دنیا میں سائنسی حقائق کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں ہے۔ 
مذہب کے ان کار کے لیے ان کا سب سے مضبوط استدلال یہ تھا کہ جو شے ہمارے ادراک و حواس سے باہر ہو وہ حقیقت نہیں ہے ۔ حقیقت صرف وہ ہے جس کا ہم حواسِ خمسہ مشاہدہ کرسکیں ۔ مذہبی عقائد و نظریات کی چونکہ کوئی واضح ٹھوس دلیل نہیں ہوتی‘یہ ہمارے حواس کی زد میں نہیں آسکتے اور نہ ہی ان کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے لہٰذا یہ سب محض قدامت پسندی ہے ۔ ان کے نزدیک مذہب دراصل قدیم انسانوں کی ایجاد ہے جسے انہوں نے اپنے فہم سے بالاتر سوالوں کے جواب نہ ہونے پر ذہنی تسکین کے لیے اپنا لیا تھا ۔ لیکن اب سائنس کی ترقی نے انسان کو وہ سب کچھ بتادیا ہے جس سے وہ پہلے لاعلم تھا۔ مثلاً گزشتہ زمانوں کے لوگوں نے جب سورج کو ایک مخصوص وقت پر طلوع ہوتے اور غروب ہوتے دیکھا تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اس کے پس پردہ ایک عظیم الشان اور مافوق الفطرت ہستی کے وجود کو تسلیم کرلیں۔انہوں نے دیکھا کہ فضا میں خوبصورت قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں تو اسے انہوں خدا کا جشن قرار دے دیا۔ اسی طرح دیگر بہت سے سوالات جس کی بابت ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا اس کے متعلق انہوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ یہ اسی غیبی ہستی کا کارنامہ ہے ۔ لیکن چونکہ اب ہم اس دور میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں ان سب کے فطری اسباب معلوم ہوچکے ہیں‘ ہم جانتے ہیں کہ سورج کا نکلنا اور ڈوبنا اس کے زمین کے گرد گھومنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔سو ہمیں اس کا کریڈٹ کسی خدا کو دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ اسکی حقیقی توجیہہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے ۔موت واقع ہوجانے کے انسان کا تعلق اس دنیا سے ختم ہوجاتا ہے اور پھر وہ کبھی لوٹ کے نہیں آتا۔ مرنے سے پہلے ہم موت کے بعد کیا ہوتا، اور کچھ ہوتا بھی ہے یا نہیں اس کا مشاہدہ نہیں کرسکتے اس لیے عقید�ۂ آخرت کو تسلیم کرنا غیر ضروری ہے ۔ان کے نزدیک چونکہ مذہبی عقائد کی کوئی ٹھوس قابل مشاہدہ دلیل نہیں ہوتی لہٰذا اسے اب ایک گزرے ہوئے زمانے کا قصہ سمجھ کر بھول جانا چاہیے اور مذہبی عقائد کو تسلیم کرناانسانی عقل کی شان کے خلاف ہے کیونکہ جن سوالات اور مسائل کے لیے خدا اور مذہب کا وجود تھا اب ہمارے پاس ان کے خالص ٹیکنیکل اور منطقی جوابات موجود ہیں۔ان ملحدین فلاسفہ کا اصرار ہے کہ ایک عقل پسند شخص ایسی کسی بات پر ایمان نہ لائے جس کا مشاہدہ حواس خمسہ سے نہ ہو۔ یہ دلیل بظاہر وزنی معلوم ہوتی ہے اور ہم میں سے بیشتر لوگوں کا جب کسی ایسے ملحد سے سامنا ہوجاتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی منطقی جواب بھی نہیں ہوتا۔ لیکن غور کریں تو یہ مذہب کے رد کے لیے ایک کھوکھلا اور غیر معیاری استدلال ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر اس نکتے پر مذہب کے خلاف کھڑا ہوجایا جائے تو پھر سائنس کی پوری عمارت بھی اسی نکتے سے زیر ہوجاتی ہے ۔کیونکہ یہ نکتہ کہ ناقابل مشاہدہ حقائق پر ایمان لانا غیر عقلی بات ہے ، سائنس خود اسی ایمان کے قفس میں پھنسی ہوئی ہے ۔ سائنس میں بیشتر نظریات (Scientific Theories) کی بنیاد ’’ ناقابل مظاہرہ استنباط‘‘ (non-demonstratable inference) ہے ۔ اسکی ایک مثال الیکٹرون ہے جسے سائنس کی دنیا میں ناقابل انکار حقیقت سمجھا جاتا ہے‘ الیکٹرون ایک ناقابل مظاہرہ امر ہے اور انسان اپنے حواس سے ان کا ادراک نہیں کرسکتا‘ بڑی سے بڑی خوردبین اسکی نمائش نہیں کراسکتی لیکن مختلف تجربات کی بناء پر اس کے کچھ ایسے اثرات (Effects) ہمارے سامنے آتے ہیں کہ ہمیں الیکٹروں کے وجود کو دیکھے بناء تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔ عموماً سائنس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف انہی امور پر بحث کرتی ہے جس کے وجود کی گواہی ہمارے حواس خمسہ دے سکیں لیکن سائنس کے مطابق ایسے ناقابل مظاہرہ حقائق استنباط (Inference) کے ذریعے معلوم ہوجاتے ہیں۔ یعنی کسی ایک چیز کے وجود اور اس پر ہونے والے اثرات سے دوسری ناقابل مشاہدہ حقیقت کو تسلیم کرنا۔ ایسی تھیوڑیز ناقابل مظاہرہ استنباط (non-demonstratable inference) کہلاتی ہیں۔ اور سائنس اسے معقول (Valid) مانتی ہے ۔ ایک اور مثال نظریہ ارتقاء (Evolution) ہے جسکی حیثیت سائنسدانوں کے ہاں یقینی ہے لیکن وہ خود بھی اس بات کو جانتے اور مانتے ہیں کہ نظریۂ ارتقاء کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بالفاظ دیگر نظریۂ ارتقاء ایک ایسی تھیوری ہے جس کی دلیل اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے لیکن ارتقاء پسند علماء کے نزدیک یہ ایک ثابت شدہ نظریہ تسلیم کرلیا گیا ہے ۔یہاں صرف دو مثالیں بیان کی گئیں ورنہ اس کی امثال کیلئے ایک مستقل کتاب درکار ہوگی۔بحرحال ناقابل مظاہرہ استنباط کے لحاظ سے سائنس خود عقائد پر منحصر ہے۔
ارباب عقل سے گزارش ہے کہ اگر وہ اپنے عقلی مزاج کے زیر اثر ہی مذہب پر غور کرلیں تو معلوم ہوگا یہی (non-demonstratable inference) مذہب کی بنیاد ہے کہ وہ امور جو ناقابل مظاہرہ ہیں اور انسان اپنے حواس سے ان کا ادراک نہیں کرسکتا تو وہ قابل مشاہدہ امور پر غور و فکر کرکے یعنی استنباط سے اس پر ایمان لائے اسی کو قرآنی اصطلاح میں ایمان بالغیب ہے۔