Monday, 25 June 2012

دماغ کو صحت مند رکھیے



حافط محمد شارق
 
دماغ کو اگر صحت مند رکھنا ہے تو مصروف رہیں۔ جی ہاں، آپ نے تو ورزش، غذائیت سے بھرپور خوراک اور پھل کھا کر دماغ کو صحت مند کرنے کی تجاویز پڑھے ہی ہوں گے، لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ مصروف رہنے سے دماغ صحت مند رہتا ہے۔ جس طرح سے جسمانی ورزش کر کے جسم کو چست درست کیا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح دماغی سرگرمیوں سے بھی ذہنی ورزش ہو جاتی ہے اور دماغ صحت مند رہتا ہے۔ لوگ دماغی ورزش نہ کرنے کی وجہ سے اپنی پڑھائی لکھائی بھول جاتے ہیں۔ دماغ کو مصروف رکھنے سے آپ نہ صرف اپنا حافظہ قوی کرسکتے ہیں بلکہ سائنسی تجربات کے مطابق اس سے آپ کی شخصیت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آپ میں خود اعتمادی بڑھ جاتی ہے۔
:دماغ کو مصروف رکھنے کے کچھ طریقے :
 ۱)
آپ دماغ کا جتنا استعمال کرتے ہیں، آپ کا دماغ اتنا ہی سرگرم رہ پاتا ہے۔ اس لیے اپنے دماغ کو زیادہ سے زیادہ سرگرم رکھیں۔

۲)
مطالعہ باقاعدگی سے کریں ۔ فرصت کے لمحات کتابوں کے ساتھ گزاریں۔ ٹی وی دیکھنے کے لیے آپ جو وقت نکالتے ہیں اس میں سے مکمل نہ سہی نصف ہی آپ کتابوں اور خط میگزین کو مزید وقت دیجیے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ آپ بڑے ادیبوں کی ہی کتاب پڑھے۔ بچوں کی کتابوں میں بہت ہی آسان زبان کا استعمال ہوتا ہے، جو آپ آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی۔

۳)
اگر آپ کا ذریعہ تعلیم اردو رہی ہے اور آپ کی انگریزی کمزور ہے تو اپنی اچھی کریں۔ ایک عمر کے بعد سمجھنے کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ طالب علم کی زندگی میں جو تعلیم آپ مشکل سے سمجھ پاتے تھے، بڑے ہونے پر وہ بہت آسانی سے اور جلدی سے سمجھ میں آ جائے گا۔

۴)
اگر آپ کو لکھنے کا شوق ہے تو میگزین اور پیپر میں شائع آرٹیکلز پراپنے خیالات کے لکھیں۔ شروع میں ممکن ہے کہ ٓپ کے خیالات بے تکے یا بچوں جیسے معلوم ہوں لیکن آپ باقاعدگی سے یہ کام کریں گے چند ہفتوں بعد آپ خود موازنہ کرکے دیکھ سکیں گے آپ کا طرزِ تحریر کتنا تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ بھی دماغی ورزش کا طریقہ ہے اور آپ کو لکھنے کی عادت بھی دھیرے دھیرے پڑ جائے گی۔

۵)
اگر آپ ٹی وی دیکھتے ہیں تو ڈرامہ سیریل کے بجائے ایسے پروگرام دیکھیے جس سے آپ کے علم میں اضافہ ہو۔
 
۶)
زندگی میں آنے والی کام سے متعلق مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے آپ کی حاضر جوابی کا پتہ چلے گا۔

۷)
کچھ نئے کام جیسے؛ نئی زبان سیکھنا، کمپیوٹرگرافکس، بینک اور بازار کے ضروری کاموں کو سمجھنا وغیرہ کام کر کے آپ اپنا دماغی ورزش کر سکتے ہیں۔
  
 دماغی ورزش کے علاوہ ہمیشہ خوش رہنے کی عادت ڈالے۔ خوش رہنے سے دماغ صحت مند رہتا ہی ہے             
ساتھ ہی کشیدگی نہیں ہوتا ہے جس سے دماغی پر دباؤ نہیں بنتا ہے۔

Monday, 18 June 2012

: فارسی زبان سیکھیں

Hafiz Muhammad Shariq: فارسی زبان سیکھیں: فارسی زبان  سیکھیں حافظ محمد شارق فارسی ایک قدیم ہند یورپی زبان ہے جوای...

Wednesday, 13 June 2012

حیوانات اور صفائی

حیوانات اور صفائی
حافط محمد شارق, 
صرف انسان ہی نہیں، بلکہ جانوروں میں بھی صاف ۔ صفائی کی عادتیں ہوتی ہیں۔ یہ اپنے ارد گرد ماحول اور کھانے پینے میں صفائی پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ جانوروں کی زندگی میں معمولی سا جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا یہ انسانوں کو سکھاتے ہیں کہ ہمیں اپنی صاف صفائی کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ یہ ہمارے صحت کے لئے بہت ضروری ہے اور اپنے کھانے پینے اور ارد گرد کے ماحول کی صفائی کی وجہ سے ہم کئی طرح کی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ دنیا میں ایسے کئی جانور ہیں، جن کی صاف صفائی کی عادتیں اتنی اچھی ہوتی ہیں کہ ہم انسان بھی ان سے یہ باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ہم چھوٹے تھے تو ہماری اوہمارے آس پاس کی صاف صفائی کا خیال رکھنے کے لئے ہمارے ماں باپ ہوتے ہیں، لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ان جانوروں کا ایسا کون ہوتا ہوگا؟ دراصل، یہ خود ہی اپنی صاف صفائی کرتے ہیں۔ چلیں اب کچھ جانوروں میں صاف صفائی کی اچھی عادتوں کو دیکھتے ہیں۔

بلی:
بلیاں اپنے جسم کی صفائی کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ اپنی فطرت کے مطابق وہ خود کو چاٹ کر صاف رکھتی ہیں۔ ساتھ ہی بلیوں کی کھانے کی عادتیں بھی بہت اچھی ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بلی بہت طریقے سے کھانا کھاتی ہے۔ یعنی ان کا کھانا یہاں وہاں نہیں گرتا۔ دوسرا، کھانا کھاتے وقت بلی کوئی آواز نہیں کرتی۔
بندر:
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بندر ایک دوسرے کے جسم پر جمی گندگی کو صاف کرتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی بندر میں کئی خصوصیات انسانوں والے ہوتے ہیں۔ جیسے پھل کو چھیل کرکھانے کی عادت۔
کتا:
کتے اپنے اٹھنے، بیٹھنے اور سونے کی جگہ کو ہمیشہ صاف رکھتے ہیں۔ کتے کہیں بھی بیٹھنے سے پہلے اپنی پونچھ سے اس جگہ کو صاف کرتی ہیں، پھر بیٹھتے ہیں۔ اگر آپ نے کہیں پالتو کتا دیکھا ہو تو ضرور نوٹس کیا ہوگا کہ وہ ہمیشہ صاف جگہ پر ہی بیٹھنا پسند کرتا ہے اور پونچھ سے بیٹھنے کی جگہ کو صاف کرتا ہے۔
رکون:
رکون اپنا کھانا ہمیشہ دھو کر کھاتا ہے۔ یہ بات مطالعے سے بھی ثابت ہو چکی ہے کہ رکون اپنا کھانا پہلے پانی سے دھوتا ہے، پھر اسے کھاتا ہے۔ کھانے سے گندگی کو ہٹا کر کھانا ایک اچھی عادت ہے۔
ہاتھی:
خشکی کے سب سے بڑے جانور ہاتھی بھی اپنی برادری یعنی دوسرے جانوروں کی طرح صاف صفائی کا خیال رکھتے ہیں۔ انہیں نہانا بہت پسند ہوتا ہے۔ ہاتھی روزانہ خود ہی نہانا پسند کرتے ہیں۔ اپنی سوڈ میں پانی بھر کر اپنے جسم پر گراتے ہیں۔ اس سے ان کی گرمی بھی کم ہوتی ہے اور ساتھ ہی ان کی صفائی بھی ہو جاتی ہے۔

Thursday, 7 June 2012

: خدا کا وجود

 خدا کا وجود: خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل مکالمہ ملاحظہ کیجئے جس میں خدا کے وجود کو کس بالغانہ انداز میں ثابت کیا گیا ہے ۔   ’’آپ کسی...

: {حجر معلق } ہوا میں پتھر کی حقیقت

حجر معلق } ہوا میں پتھر کی حقیقت: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ وہ پتھر ہے جب نبی علیہ السلام معراج کی رات براق پر بیٹھنے لگے تو یہ پ...

سائنس اور مذہب : ایک ہی اصول


حافظ محمد شارق

یورپ کی تاریک وادیوں میں جب علمی تہذیب کا جنم ہوا اور علماء و محققین اندھی تقلید کو طوق گلے سے اتار کر پھینک چکے تو انہوں نے عقل و فطرت کے خلاف ہر نظریے کا انکار کردیا ۔عیساان کےئیت میں چونکہ کئی تحریفات اور نت نئے عقائد کا اضافہ ہوگیا تھا لہٰذا ان عقل پسند محققین نے بڑی جسارت کے ساتھ اس مذہب پر بھی تنقید کی اور اس کے عقائد کی کھوکھلی بنیادیں ظاہر کردیں۔ انہوں نے عیسائیت کے بنیادی عقائد پر ایسے منطقی حملے کیے جس سے عوام کے دلوں میں عیسائیت پر ایمان کمزور ہوتا گیا اور انہیں اپنا دین دقیانوسی خیالات کا مجموعہ محسوس ہونے لگا۔ عقل و سائنس کے دلدادہ ان محققین کی کارفرمائیوں سے روز بروز مذہبی گروہ کی بازاری خطرے میں پڑ رہی تھی ۔ چنانچہ یہ جرأت ارباب کلیسا کیلئے انتہائی غصہ کا سبب بننی اور ان کے دلوں میں سائنس کے خلاف کو ہِ آ تش فشاں پھٹ پرا۔ چونکہ ملکیت و اقتدار اسی مذہبی طبقے کے پاس تھا لہٰذا انہوں نے علماء طبیعیات اور محققین کے خلاف پرتشدد کاروائیاں شروع کردیں۔ لاکھوں علماء زندہ جلائے دیے گئے ‘ اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔مشہور طبیعی عالم گلیلیو بھی انہی میں سے ایک تھا جسے سائنسی نظریات کی وجہ سے سزائے موت دی گئی۔ 
یہ پرتشدد تحریک جب انتہائی شدت اختیار کرگئی اور ظلم و ستم اپنے عروج کو پہنچ گیا تو پھر مظلوم ترقی پسند علماء کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا اور انہوں نے مذہبی گروہ کے خلاف اعلان بغاوت کردیا ۔ ان کے لیے مذہب سے وابستہ تمام امور قابل نفرت ہوچکے تھے ۔مذہب کے غیر ضروری عقائد، نفس کشی، عبادات اور دیگر تمام حدود سے وہ تنگ آکر باہر آگئے اور ان کے لیے کسی بھی نظریے کو حق و باطل ماننے کا میزان سائنس تھا ، گویا انہوں نے سائنس کو ہی اپنا دین و ایمان بنا لیا ۔
مذہبی طبقے کی جانب سے ہونے والے مظالم کے درعمل میں اب ان جدید روشن خیال یورپی مفکرین کی عقلوں پر مادیت کا ایسا گرہن لگ چکا ہے کہ ان کے نزدیک مذہب اور خدا کی اب کوئی حقیقت ہی نہیں رہی ۔ وہ مذہب و عقیدے کو کسی بھی صورت تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہیں ‘ اگرچہ یہ سب تحریف شدہ عیسائیت کا ہی کیا ڈھراتھا لیکن تجدد پسند علماء کے ذہنوں میں مذہب کے خلاف اب ایک ایسی عداوت پیدا ہوچکی ہے کہ ہر مذہب و عقیدہ انہیں اپنی علمی تحریک کے لیے خطرہ محسوس ہونے لگاہے اور انہوں نے یہ بات اپنے ذہن میں راسخ کرلی ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے ضد اور مقابل تصور ہیں اگر علم و عقلیت اور سائنسی ترقی کو جاری رکھنا ہے تو مذہب کا ان کار کرنا ہی پڑیگا ۔ دین و مذہب سے کفر کے لیے انہوں نے سائنس کو ہی آلۂ کار بناکر استعمال کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ دنیا میں سائنسی حقائق کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں ہے۔ 
مذہب کے ان کار کے لیے ان کا سب سے مضبوط استدلال یہ تھا کہ جو شے ہمارے ادراک و حواس سے باہر ہو وہ حقیقت نہیں ہے ۔ حقیقت صرف وہ ہے جس کا ہم حواسِ خمسہ مشاہدہ کرسکیں ۔ مذہبی عقائد و نظریات کی چونکہ کوئی واضح ٹھوس دلیل نہیں ہوتی‘یہ ہمارے حواس کی زد میں نہیں آسکتے اور نہ ہی ان کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے لہٰذا یہ سب محض قدامت پسندی ہے ۔ ان کے نزدیک مذہب دراصل قدیم انسانوں کی ایجاد ہے جسے انہوں نے اپنے فہم سے بالاتر سوالوں کے جواب نہ ہونے پر ذہنی تسکین کے لیے اپنا لیا تھا ۔ لیکن اب سائنس کی ترقی نے انسان کو وہ سب کچھ بتادیا ہے جس سے وہ پہلے لاعلم تھا۔ مثلاً گزشتہ زمانوں کے لوگوں نے جب سورج کو ایک مخصوص وقت پر طلوع ہوتے اور غروب ہوتے دیکھا تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اس کے پس پردہ ایک عظیم الشان اور مافوق الفطرت ہستی کے وجود کو تسلیم کرلیں۔انہوں نے دیکھا کہ فضا میں خوبصورت قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں تو اسے انہوں خدا کا جشن قرار دے دیا۔ اسی طرح دیگر بہت سے سوالات جس کی بابت ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا اس کے متعلق انہوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ یہ اسی غیبی ہستی کا کارنامہ ہے ۔ لیکن چونکہ اب ہم اس دور میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں ان سب کے فطری اسباب معلوم ہوچکے ہیں‘ ہم جانتے ہیں کہ سورج کا نکلنا اور ڈوبنا اس کے زمین کے گرد گھومنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔سو ہمیں اس کا کریڈٹ کسی خدا کو دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ اسکی حقیقی توجیہہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے ۔موت واقع ہوجانے کے انسان کا تعلق اس دنیا سے ختم ہوجاتا ہے اور پھر وہ کبھی لوٹ کے نہیں آتا۔ مرنے سے پہلے ہم موت کے بعد کیا ہوتا، اور کچھ ہوتا بھی ہے یا نہیں اس کا مشاہدہ نہیں کرسکتے اس لیے عقید�ۂ آخرت کو تسلیم کرنا غیر ضروری ہے ۔ان کے نزدیک چونکہ مذہبی عقائد کی کوئی ٹھوس قابل مشاہدہ دلیل نہیں ہوتی لہٰذا اسے اب ایک گزرے ہوئے زمانے کا قصہ سمجھ کر بھول جانا چاہیے اور مذہبی عقائد کو تسلیم کرناانسانی عقل کی شان کے خلاف ہے کیونکہ جن سوالات اور مسائل کے لیے خدا اور مذہب کا وجود تھا اب ہمارے پاس ان کے خالص ٹیکنیکل اور منطقی جوابات موجود ہیں۔ان ملحدین فلاسفہ کا اصرار ہے کہ ایک عقل پسند شخص ایسی کسی بات پر ایمان نہ لائے جس کا مشاہدہ حواس خمسہ سے نہ ہو۔ یہ دلیل بظاہر وزنی معلوم ہوتی ہے اور ہم میں سے بیشتر لوگوں کا جب کسی ایسے ملحد سے سامنا ہوجاتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی منطقی جواب بھی نہیں ہوتا۔ لیکن غور کریں تو یہ مذہب کے رد کے لیے ایک کھوکھلا اور غیر معیاری استدلال ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر اس نکتے پر مذہب کے خلاف کھڑا ہوجایا جائے تو پھر سائنس کی پوری عمارت بھی اسی نکتے سے زیر ہوجاتی ہے ۔کیونکہ یہ نکتہ کہ ناقابل مشاہدہ حقائق پر ایمان لانا غیر عقلی بات ہے ، سائنس خود اسی ایمان کے قفس میں پھنسی ہوئی ہے ۔ سائنس میں بیشتر نظریات (Scientific Theories) کی بنیاد ’’ ناقابل مظاہرہ استنباط‘‘ (non-demonstratable inference) ہے ۔ اسکی ایک مثال الیکٹرون ہے جسے سائنس کی دنیا میں ناقابل انکار حقیقت سمجھا جاتا ہے‘ الیکٹرون ایک ناقابل مظاہرہ امر ہے اور انسان اپنے حواس سے ان کا ادراک نہیں کرسکتا‘ بڑی سے بڑی خوردبین اسکی نمائش نہیں کراسکتی لیکن مختلف تجربات کی بناء پر اس کے کچھ ایسے اثرات (Effects) ہمارے سامنے آتے ہیں کہ ہمیں الیکٹروں کے وجود کو دیکھے بناء تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔ عموماً سائنس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف انہی امور پر بحث کرتی ہے جس کے وجود کی گواہی ہمارے حواس خمسہ دے سکیں لیکن سائنس کے مطابق ایسے ناقابل مظاہرہ حقائق استنباط (Inference) کے ذریعے معلوم ہوجاتے ہیں۔ یعنی کسی ایک چیز کے وجود اور اس پر ہونے والے اثرات سے دوسری ناقابل مشاہدہ حقیقت کو تسلیم کرنا۔ ایسی تھیوڑیز ناقابل مظاہرہ استنباط (non-demonstratable inference) کہلاتی ہیں۔ اور سائنس اسے معقول (Valid) مانتی ہے ۔ ایک اور مثال نظریہ ارتقاء (Evolution) ہے جسکی حیثیت سائنسدانوں کے ہاں یقینی ہے لیکن وہ خود بھی اس بات کو جانتے اور مانتے ہیں کہ نظریۂ ارتقاء کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بالفاظ دیگر نظریۂ ارتقاء ایک ایسی تھیوری ہے جس کی دلیل اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے لیکن ارتقاء پسند علماء کے نزدیک یہ ایک ثابت شدہ نظریہ تسلیم کرلیا گیا ہے ۔یہاں صرف دو مثالیں بیان کی گئیں ورنہ اس کی امثال کیلئے ایک مستقل کتاب درکار ہوگی۔بحرحال ناقابل مظاہرہ استنباط کے لحاظ سے سائنس خود عقائد پر منحصر ہے۔
ارباب عقل سے گزارش ہے کہ اگر وہ اپنے عقلی مزاج کے زیر اثر ہی مذہب پر غور کرلیں تو معلوم ہوگا یہی (non-demonstratable inference) مذہب کی بنیاد ہے کہ وہ امور جو ناقابل مظاہرہ ہیں اور انسان اپنے حواس سے ان کا ادراک نہیں کرسکتا تو وہ قابل مشاہدہ امور پر غور و فکر کرکے یعنی استنباط سے اس پر ایمان لائے اسی کو قرآنی اصطلاح میں ایمان بالغیب ہے۔

Wednesday, 6 June 2012

اصل قوت


پلوٹارک ایک یونانی مصنف ہے، وہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا ہم عصر تھا۔ اس   (Bioi Paralleloi) نے یونانی زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا نام 
ہے ، اس کا اصل نسخہ بھی اپنی زبان میں اب تک موجود ہے، اسکا سب سے پہلا   ( Parallel Lives )ترجمہ انگریزی زبان میں ۱۵۷۹ میں 
 کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں یونانی اور رومی ہیرؤوں کے واقعات بیان کیے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی وجہ سے یونانیوں کو ایک زمانہ میں تمام دنیا میں سب سے اونچا مقام ملا۔

اسی کتاب میں ایک رومی جنرل کا واقعہ ہے کہ وہ ایک ملک میں فتوحات کرتے ہوئے اس قلعے تک پہنچا، یہ قلعہ بہت بڑا تھا اور اس میں ضرورت کا تمام سامان موجود تھا۔ چنانچہ وہ لوگ قلعہ کا پھاٹک بند کرکے بیٹھ گئے۔ رومی جنرل کی فوج قلعہ کے باہر گھیرا ڈالے ہوئے تھی لیکن باوجود کوششوں کے اب تک اس قلعے کو فتح نہیں کرپائی تھی۔
قلعے کے اندر ایک اسکول واقعے تھا جس میں بڑے بڑے سرداروں کے لڑکے پڑھتے تھے۔ اسکول کے استاد کے ذہن میں یہ لالچ آئی کہ اس نازک موقع پر اگر میں رومی فوج کی مدد کروں تو قلعہ فتح کرکے وہ مجھ سے بہت خوش ہونگے اور انعامات سے نوازینگے۔ چنانچہ اس نے خاموشی کے ساتھ ایک روز بچوں کو ساتھ لیا اور ان کو پھراتے ہوئے قلعہ کے پوشیدہ راستے پر لے گیا اور اس راستے سے گزر کر بچوں سمیت باہر آگیا اور رومی جنرل سے ملا۔ اس نے کہا کہ یہ بڑے بڑے سرداروں کے بچے ہیں ان کو آپ بندھک بنا کر رکھ لیں اور قلعہ والوں پر دباؤ ڈال کر اپنی شرائط منوا لیں۔
رومی جنرل یہ سب سن کر خوش ہونے کے بجائے نہایت برہم ہوا اور اس استاد کو ڈانٹے ہوئے کہا کہ طریقہ یہ نہیں ہے کہ ہم کمینہ پن کے ساتھ قلعہ کو فتح کریں، ہم جو کچھ کریں گے بہادری کے ساتھ کرینگے، تم فوراً ان بچوں کو واپس لے جاؤ اور ہمیں قلعے کا خفیہ راستہ بھی نہ بتاؤ۔ استاد بچوں کو لیکر قلعے میں واپس آگیا اور اہل قلعہ کو پوری کہانی سنائی، یہ بات سن کر اہل قلعہ بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ ہمیں ایسے شریف لوگوں سے جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے خود اپنی طرف سے قلعہ کے دروازے کھول دیے۔
اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ نادان انسان تشدد ، ہتھیار اور ظاہری اسباب کو چاہے کتنی ہی اہمیت دیدے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شرافت اور بلند اخلاق ہی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔

Tuesday, 5 June 2012

کامیاب لڑکی


ایک بے یارو مددگار لڑکی کی بے گھری سے ھارورڈ یونیورسٹی تک پہنچنے کی سچی داستان
ء۱۹۹۷ ء کی بات ہے، جب میں نے خود کو ایسے حالات میں پایا جو میرے وہم و گمان میں نہ تھے۔ میں تنہا ہو چکی
تھی اور نیویارک کی سڑکوں پر بھیک مانگتی پھرتی تھی۔ میری عمر سولہ سال تھی اور بے گھری کا عذاب مجھ پر سوار تھا۔ کھانے کو غذا نہیں تھی اور نہ پہننے کو کپڑا، پھر بھی میری سب سے بڑی تمنا یہی تھی کہ کسی سکول میںداخلہ مل جائے۔ گو میں آٹھویں جماعت پاس تھی لیکن دو برس سے بھگوڑی چلی آرہی تھی۔
دراصل تین سال پہلے میرامنشیات فروش باپ اپنی بیوی سے اتنا زیادہ ناراض ہوا کہ گھر چھوڑ گیا اور پھر پلٹ کر نہ آیا۔ مجھے علم تھاکہ اس نے بوڑھوں کے ایک گھر میں پناہ لے رکھی ہے مگر اب وہ اس قابل نہ تھا کہ میری کوئی مدد کر سکے۔ اُدھر چند ماہ قبل ایڈز کا موذی مرض ماں کو مجھ سے جدا کر گیا تھا۔ میں نے چند ہفتے تو ایک سہیلی کے گھر گزارے۔ جب اس کے والدین آئے تو گھر تنگ ہو گیا، لہٰذا میں علاقہ برونکس کے مختلف وسیع و عریض اپارٹمنٹوں کی سیڑھیوں کے فرش پر راتیں گزارنے لگی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ شدید سردی کے عالم میں مجھے ٹھنڈے فرش پر لیٹنا پڑتا تھا۔ اپنے سفری تھیلے کو میں بطور تکیہ استعمال کرتی لیکن میرے پھٹے پرانے کپڑے سردی روک نہ پاتے اور میں دیر تک ٹھٹھرتی اور سسکتی ہی رہتی۔
سیڑھیوں کے مدھم بلب کی معمولی روشنی ماحول کی خنکی میں اضافہ کر دیتی۔ میں اپنی جگہ دبکی مختلف اپارٹمنٹوں سے آتی آوازیں سنتی رہتی۔ مثلاً بچوں کی باتیں، والدین کے حکم، کارٹون فلموں کا شور، برتنوں کی کھنک … غرض وہ تمام آوازیں جو دیواروں کے ڈھانچے کو ایک گھر میں بدلتی ہیں۔
حالات کی سختی اور اپنی تنہائی سے بچنے کی خاطر میں جاگتے میں سہانے سپنے دیکھنے لگتی۔ میں تصور ہی تصور میں دیکھتی کہ میں اپنے ماں باپ اور چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھی ہوں، ہم ہنسی خوشی باتیں کر رہے ہیں۔ ماما جب ہنستیں تو ان کی آنکھوں کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی لکیریں بن جاتی جو بہت بھلی لگتیں۔ تب ہمارا چھوٹا سا خاندان ایک چھت تلے مطمئن زندگی گزار رہا تھا لیکن پھر … میں سب سے زیادہ اپنے مستقبل کے بارے میں خواب دیکھتی۔
یہ سوچ کر میرے ذہن میں گلاب کی کلی پھوٹ پڑتی کہ میںاسکول کی جماعت میں بیٹھی تندہی سے نوٹس اتارنے میں مصروف ہوں۔ پھر میں دیکھتی کہ میں یونیورسٹی کی بلند و بالا دیواروں تلے گھوم پھر رہی ہوں۔ میرے قدموں کے نیچے خزاں کے پتے چرمرا رہے ہیں اور میں بے تابی سے جماعت کی طرف رواں دواں ہوں۔ ایسے ہی میٹھے سپنے دیکھتے اور امید کے دیے جلاتے میں نیند کی آغوش میں پہنچ جاتی۔
٭٭
آج میری زندگی ماضی کی تلخیوںاور مصیبتوں سے یکسر مختلف ہو چکی۔ میں نہ صرف ہائی سکول پاس کر چکی بلکہ اب میں ہارورڈ یونیورسٹی جیسے دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے کی ڈگری رکھتی ہوں ۔ ایک عمدہ ملازمت کر رہی ہوںاور میرے پاس رقم کی کوئی کمی نہیں۔ میں پھٹے پرانے نہیں خوبصورت کپڑے زیب تن کرتی ہوں۔ سیڑھیوں کے برآمدے میں نہیں سوتی، بلکہ مین ہیوسٹن میں میرا اپنا اپارٹمنٹ ہے۔ اب میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہ بن چکا کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی انسان اپنی زندگی خود بنانا چاہتا ہے، میں اس کی مدد کروں۔ مختصر یہ کہ میں اپنی سابقہ ہیت سے بالکل تبدیل ہو چکی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میری زندگی اور ملنے والے تجربات نے مجھے یہ سبق سکھایا ہے کہ انسان کو کسی حد تک تمنائیں اور خواہشیں ضرور پالنی چاہئیں… یہ ایک صحت مند فطری رویہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ تمنائیں ہی ہیںجو انسان کو کچھ کرنے پر ابھارتیں اور اسے آگے بڑھنے پر اکساتی ہیں۔ یہ تمنائیں ہی ہیں جنھوں نے مجھے میٹھے سپنے دکھائے، میری راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں بلکہ منزل تک پہنچانے میں مدد گار بن گئیں اور یہ خواب ہی ہیں جو ہمیشہ مجھے متحرک رکھتے ہیں۔
۱۶؍ برس کی عمر میں میرے پاس رہنے کا ٹھکانہ نہیں تھا، چنانچہ میں دن بھر نیو یارک کی گلیوں اور سڑکوں میں گھومتی رہتی۔ دراصل مجھے ایسے سکول کی تلاش تھی جو مجھے مفت تعلیم فراہم کر سکے اور میری قسمت کا دھارا بدل سکے۔ ایسا وقت عام انسان کے لیے بڑا اذیت ناک ہوتا ہے لیکن میں نے اسے اپنا آپ تباہ کرنے کا موقع نہیں دیا۔ مجھے یقین تھا کہ میں نے ٹھنڈے فرش پر لیٹے لیٹے، خوشحال مستقبل کے جو خواب دیکھے ہیں، وہ ایک نہ ایک دن ضرور پورے ہوں گے۔
اگرچہ اس دور کی تلخ یادیں میں آج بھی بھول نہیں پائی اور وہ گانوں کی شکل میں آج بھی میرے پاس موجود ہیں۔ دراصل میرے پاس ایک پرانا سی ڈی پلیئر تھا۔ جب میں اداس اور مایوس ہوتی تو اس میں امنگ پیدا کرنے والے گانے، مثلًا پائولا کول کا ’’می‘‘ (Me) یا کیک کا ’’دی ڈسٹینس‘‘ (The Distance) سننے لگتی۔ یہ لاجواب گانے میری مایوسی دور کرتے اور مجھے اپنا مستقبل روشن اور صاف نظر آنے لگتا۔
تب میں اپنا خاندان کھو چکی تھی اور میری کل کائنات چند جوڑوں، ایک سی ڈی پلیئر، میری ماں کی تصویراور بھیک میں مانگی گئی خوراک پر مشتمل تھی۔ اس کے باوجود میں نے مستقبل کے سپنے دیکھنے نہیں چھوڑے بلکہ اس عمل کو تب آپ میری واحد تفریح سمجھ لیجیے۔ درحقیقت میں یہ خواب دیکھ کر اتنی ہی خوش ہوتی تھی جتنی خوشی مجھے ہارورڈ میں داخل ہو کر ملی۔
ہوائی جہاز ہو یا بحری جہاز، اس کا کپتان اپنی سواری کو منزل کی جانب گامزن رکھتا ہے۔ ایسے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ میری منزل کہاں ہے۔ چنانچہ میری منزل ہی پھر میری روزمرہ سرگرمیوں کی راہ نما بن گئی اور میں قدم بہ قدم اس کی جانب سفر کرنے لگی۔
مجھے سب سے پہلے اندھیرے میں امید کی کرن ایک اکیڈمی، ہیومنٹیز پری پریٹری اکیڈمی (Humanities Preparatory Academy)  نے دکھائی۔ دنیا پہلے ’’نہ‘‘ سے بھری پڑی تھی، لیکن اس کی ایک ’’ہاں‘‘ نے میرے دل کی کلی کھلا دی اور میں وہاں مفت تعلیم پانے لگی۔
اسی کے بعد ’’ڈور‘‘ (Door) نامی ادارہ میری زندگی میں بہار بن کر داخل ہوا۔ اس فلاحی ادارے نے مجھے نہ صرف خوراک اور ادویہ مفت مہیا کیں بلکہ مستقبل کے متعلق مفید مشورے بھی دیے اور میری ہمت بندھائی۔ ڈور ہی نے رات کو میری رہائش کا بندوبست بھی کر دیا جہاں میں سو سکتی تھی۔
جب میں اکیڈمی سے فارغ ہوتی تو قریبی باغ پہنچ کر پڑھتی رہتی۔ شام سر پر آتی تو ریلوے اسٹیشن چلی جاتی۔ وہاں کی چکا چوند روشنیاں مجھے پڑھنے کا موقع فراہم کر دیتیں۔
لیکن مجھے حیران کر دینے والی مدد خلافِ توقع جگہ سے ملی اور خود چل کر میرے پاس آئی۔ ہوا یہ کہ بے گھری اور عالمِ کسمپرسی کے عالم کے باوجود میں نے مسلسل دو برس تک مضامین میں اے ون گریڈ حاصل کیے۔ کسی طرح’’ دی نیویارک ٹائمز‘‘کے ایک رپورٹر کو میری جدوجہدِ زندگی معلوم ہو گئی۔ پھر اس نے میرے جاننے والوں اور مجھ سے میری کہانی سنی اور اخبار میں شائع کر دی۔
اس کے بعد آنے والے ہفتوں میں درجنوں مرد و زن نے مجھے فون کیے اور خط لکھے۔ خطوط میں میری حوصلہ افزائی کی گئی اور مجھے تعریف و توصیف سے نوازا گیا۔ پھر بعض ایسے اجنبی نمودار ہوئے جنھوں نے مجھے تحفتاً کپڑے، کتابیں اور قلم دیے اور جاتے جاتے ہم آغوش بھی ہو جاتے۔
جب درجِ بالا مضمون شائع ہوا تو میں ہارورڈ جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ الاسکا کی ایک خاتون نے بطورِ خاص میرے لیے کمبل ہاتھ سے تیار کیا اور اس رُقعے کے ساتھ مجھے بھجوایا: ’’ یونیورسٹی کے کمروں میں بہت سردی ہوتی ہے۔ تم یہ کمبل اوڑھنا اور گرم ہو کر یہ ضرور سوچنا کہ تمھاری دیکھ بھال کرنے والے لوگ موجود ہیں۔‘‘
یہ سب لوگ میرے لیے اجنبی تھے اور بہت سوں کے تو میںنام بھی نہیں جانتی۔ ان سے ملنے سے پہلے مجھے احساس تک نہ تھا کہ دنیا میں اچھے لوگ بھی پائے جاتے ہیں… لیکن اب یہ بات جانتی ہوں اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ انہی لوگوں نے ہمیشہ کے لیے مجھ کو بدل ڈالا۔
آج میں ’’ڈور‘‘ کے بورڈ کی سرگرم رکن ہوںاور میں ایک وجہ سے اس تنظیم میں شامل ہوئی۔ دراصل یہ تنظیم بے گھر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے ایک ہائی سکول کھولناچاہتی ہے لہٰذامیں بھی اپنی بساط بھر کوششوں سے اس کارِ خیر میں حصہ لے رہی ہوں۔ میں نے دوسروں کے لیے راستہ بنانا اپنا مقصدِ حیات بنا لیا ہے۔

کامیابی کیسے؟


کامیابی کیسے؟
(نوٹ: یہ مضمون مذہبی تناظر میں نہیں لکھا گیا ہے )
حافظ محمد شارق

اپنی صلاحیت پہچانیں:

کامیاب ہونے کے لیے ایک اہم امر اپنی صلاحیت کو پہچاننا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہر ایک انسان میں کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہے جسے تلاش کرنا آپ کا کام ہے ۔اگر آپ کو معلوم ہی نہ ہو کہ آپ میں کس کام کی صلاحیت سب سے زیادہ ہے تو آپ کی کامیابی کے مواقع بہت کم ہوں گے ۔ اپنی صلاحیت کو پہچاننے کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کریں۔ 
کچھ دیر کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ذہن کو آزاد چھوڑ کر یہ غور کریں کہ آپ اپنی زندگی کو کس طرح کی دیکھنا چاہتے ہیں اور پانچ سالوں کے اندر ایسے کیسا ہو نا چاہئے۔ اس سلسلے میں جن وضاحتوں کی ضرورت ہے اسے ذہن میں رکھیں۔
آپ کس ماحول میں رہتے ہیں اور آپ کے معاشرے میں کس چیز کی ضرورت زیادہ ہے؟
آپ کس طرح کا کام کرنا پسند کرتے ہیں ؟
جب آپ کسی کام میں مشغول نہیں ہوتے تو پھر آپ کیا کرتے ہیں ؟
آخری نکتہ آپ کی صلاحیت تلاش کرنے میںاہم ہے۔ تاہم یہ یاد رکھیں کہ یہ کام ایک دن کا نہیں بلکہ کچھ ہفتوں تک اپنا ذاتی مشاہدہ کریں اور اس بات پر بھی نگاہ رکھیں کہ آپ کی طبیعت کا رجحان یا میلان کس جانب ہے۔ اس سلسلہ میں جو لوگ آپ سے اچھی طرح واقف ہیں ان لوگوں سے بھی دریافت کیجیے۔ تاکہ یہ بات سامنے آئے کہ ان پر آپ کا کیا اثر ہے۔یا انہوں نے آپ کے متعلق کیا تاثر قائم کیا ہے۔ اس طرح چند دن میں آپ کے سامنے ایک نکات کی ایک فہرست ہوگی جسے دیکھ کر آپکواپنی ذات میں چھپی ہوئی صلاحیت کا اندازہ ہوجائے گا۔

ہدف کا تعین:

کامیابی کی تعریف ہر شخص کے حساب سے الگ ہوتی ہے۔ اب اگر آپ کو اپنی کامیابی کو مقرر کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنا ہدف متعین کرنا ہوگا۔ جب تک آپ کا ہدف مقرر نہ ہو جائے اس وقت تک کسی بھی شخص کی راہ بغیر پتوار کی کشتی کی طرح ہوتی ہے۔ ہدف کا تعین کرنے کے لیے سب سے ضروری ہے کی آپ کا رجحان کیا ہے؟ آپ کس علاقے میں اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں؟ اگر یہ طے ہو گیا تو اپنے مقصد کے لیے صحیح اور مثبت رہنمائی تلاش کرو جو آپ کو صحیح سمت میں آپ کی منزل تک پہنچنے کا راستہ بتا سکے۔
ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے نزدیک آخر کامیابی کس چڑیا کا نام ہے؟یاد رکھیںکامیابی کی تعریف ہر شخص کے حساب سے الگ ہوتی ہے۔ اب اگر آپ کو اپنی کامیابی کو مقرر کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنا ہدف متعین کرنا ہوگا۔ جب تک آپ کا ہدف مقرر نہ ہو جائے اس وقت تک کسی بھی شخص کی راہ بغیر پتوار کی کشتی کی طرح ہوتی ہے۔ ہدف کا تعین کرنے کے لیے سب سے ضروری ہے کی آپ کا رجحان کیا ہے؟ آپ کس علاقے میں اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں؟ اگر یہ طے ہو گیا تو اپنے مقصد کے لیے صحیح اور مثبت رہنمائی تلاش کریں جو آپ کو صحیح سمت میں آپ کی منزل  تک پہنچنے کا راستہ بتا سکے۔ اس سلسلے میں یہ تحریر آپ کے لیے انتہائی مفید ہوگی۔  بامقصد زندگی

 منصوبہ بندی:

آپ کسی سفر پر نکلے، لیکن آپ کو رستہ معلوم نہیں، تو کیا آپ امید رکھ سکتے ہیں کہ آپ منزل کو پہنچ پائیں گے؟ ہر گز نہیں۔ عملی زندگی میں بھی وہی لوگ کامیاب ہوتے جن کے پاس اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک باقاعدہ پلان ہوتا ہے۔اموت برحق ہے جو اپنے وقت پر سب کو آنی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ مسقبل کی منصوبہ بندی چھوڑ دیں۔بلکہ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کس طرح سے اپنی منزل کو پہنچ سکتے ہیں۔
محنت:
کامیابی حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلی ضرورت محنت ہے۔ اگر آپ محنتی ہیں، محنت کرسکتے ہیں تو پھر آج نہیں تو کل آپ کامیاب ہی ہیں، لیکن اگر آپ محنت نہیںتوپھر یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ آپ کامیاب ہوسکتے ہیں کیونکہ محنت ہی کامیابی کی سیڑھی ہے. یہاں ہنری فورڈ کے اس قول کو ذہن نشین کرلینا بہتر رہے گا -'' آپ جتنی محنت کریں گے، قسمت آپ پر اتنا ہی مہربان ہوگی۔

خود اعتمادی:

محنت کے بعد جو دوسری سب سے ضروری چیز ہے، وہ ہے خود اعتمادی۔ کامیابی کا حصول ہو یا کسی بھی مسئلہ کے حل : یاد رکھیں، کسی بھی خوف سے نمٹنے کے لیے خود اعتمادی بہت ہی ضروری ہے۔اگر آپ میں خود اعتمادی نہیں تو گھبرائیں مت، کیونکہ خود اعتمادی کبھی راتوں رات نہیں آتی۔ نہ تو یہ فوری طور پر بڑھتی ہے اور نہ ہی فوری طور پر کم ہوتی ہے۔ اس کا سارا دار و مدار محنت پر ہوتا ہے ۔ کوئی بھی شخص زندگی میں جیسے جیسے محنت کرتا ہے ویسے ویسے اس کا اعتماد بھی بڑھتا جاتا ہے۔
بہترین مواقع کی تلاش:
کئی ایسے لوگ ہیں جن قسمت میں کامیابی دستک دیتی ہے لیکن وہ اسے پہچان نہیں پاتے۔ ہم میں سے اکثرو بیشتر لوگ آنے والے موقع کا ادراک نہیں کرتے اور جب موقع ہاتھ سے چھٹنے لگتا ہے تو اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اس لیے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لینا انتہائی ضروری ہے۔

غلطیوں سے سبق:

یاد رکھیں، ہم ایک انسان ہے جو خطا کا پتلا ہے لہٰذا ہم سے کوئی غلطی ہونا عجیب بات نہیں۔غلطیاں سب سے ہوتی ہےں لیکن وہ اس قدر سنگین نہیں ہوتی جتنا کہ اس کا احساس ہونے کے بعد اسے دہرانا ہے۔ جو سمجھدار ہوتے ہیں وہ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں نہ کہ پچھتاوے میں وقت کا ضیاع۔ اور غلطی صرف اپنی ہی نہیں بلکہ جو عقلمند ہوتے ہیں وہ دسرو کی غلطیوں سے بھی سے بھی سیکھتے ہیں۔ 

Sunday, 3 June 2012

حجر معلق ۔ ہوا میں پتھر کی حقیقت




بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ وہ پتھر ہے جب نبی علیہ السلام معراج کی رات براق پر بیٹھنے لگے تو یہ پتھر اوپر کو اُٹھ گیا تھا، مگر یہ جھوٹ ہے، وہ پتھر زمین پر ہی ہے اورکہا جاتا ہے کہ یہ سعودی عرب کے مشرقی ریجن کے قدیم شہر الاحساء میں ہے۔۔ میرےعزیزوں کا وہاں سے کئی بار گزر ہوچکا ہے تاہم یہ معلق چٹان کہاں ہے یہ نہیں دیکھ سکا مگر حقیقت میں یہ پتھر گنبد صخرہ فلسطین میں ہے۔ اگر اس پتھر کے متعلق یہ بات سچ ہے کہ یہ ہوا میں ہے تو پھر حیرت ہے کہ ہمارے وہ مورخین جنہوں نے ہند و یونان کا سفر کرکے اس کے بارے میں سب کچھ لکھ دیا لیکن ۱۴۰۰ سال کے لٹریچر میں کہیں کسی اس پتھر کا ذکر تک نہیں کیا؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جس بات کو سنے (بغیر تحقیق کیے) اسے نقل کردے (مسلم)"۔

میں اپنے تمام مسلمان بھائی اور بہنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اسلام کے متعلق کئی بھی چیز آگے پھیلانے سے قبل کسی عالم دین سے اس کی تصدیق کروالیں ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کا الزام اسی کے سر ہوگا۔






English

Assalam-o-alekom, Today i am going to discuss about this claimed miracle associated to our beloved Prophet Muhammad S.A.W. Many people shecked by this. There are many stories attributed to this stone. some people say that When Holy Prophet (PBUH) reached Masjid-ul-Aqsa in the night in Jerusalem from Masjid al-Haram (Makkah) the big stone also went up in the air besides Burraq when the Prophet resumed its journey. Looking at this, the Prophet ordered the floating stone to stay there which is hanging till that time in the air. Many Muslims believe the stories and account the picture to be true, I want to show them these picture of claimed flying stone. (above), if this story were true then it would be wonder that Muslim historians wrote about Iran, Rome, Arab, Greece and the other parts of the world even they wrote they wrote about India and China but none of Muslims authors and scholars write upon this miracle of Prophet Muhammad S.A.W !

 I request all Muslims, new and old alike to be more critical and investigate stories and pictures before putting and believing and sharing them up on websites, blogs, forums and social networks. Also, to be more responsible in forwarding emails and links to websites without knowing more about these concepts and ideas being offered.