ایک بے یارو مددگار لڑکی کی بے گھری سے ھارورڈ یونیورسٹی تک پہنچنے کی سچی داستان
ء۱۹۹۷ ء کی بات ہے، جب میں نے خود کو ایسے حالات میں پایا جو میرے وہم و گمان میں نہ تھے۔ میں تنہا ہو چکی
تھی اور نیویارک کی سڑکوں پر بھیک مانگتی پھرتی تھی۔ میری عمر سولہ سال تھی اور بے گھری کا عذاب مجھ پر سوار تھا۔ کھانے کو غذا نہیں تھی اور نہ پہننے کو کپڑا، پھر بھی میری سب سے بڑی تمنا یہی تھی کہ کسی سکول میںداخلہ مل جائے۔ گو میں آٹھویں جماعت پاس تھی لیکن دو برس سے بھگوڑی چلی آرہی تھی۔
دراصل تین سال پہلے میرامنشیات فروش باپ اپنی بیوی سے اتنا زیادہ ناراض ہوا کہ گھر چھوڑ گیا اور پھر پلٹ کر نہ آیا۔ مجھے علم تھاکہ اس نے بوڑھوں کے ایک گھر میں پناہ لے رکھی ہے مگر اب وہ اس قابل نہ تھا کہ میری کوئی مدد کر سکے۔ اُدھر چند ماہ قبل ایڈز کا موذی مرض ماں کو مجھ سے جدا کر گیا تھا۔ میں نے چند ہفتے تو ایک سہیلی کے گھر گزارے۔ جب اس کے والدین آئے تو گھر تنگ ہو گیا، لہٰذا میں علاقہ برونکس کے مختلف وسیع و عریض اپارٹمنٹوں کی سیڑھیوں کے فرش پر راتیں گزارنے لگی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ شدید سردی کے عالم میں مجھے ٹھنڈے فرش پر لیٹنا پڑتا تھا۔ اپنے سفری تھیلے کو میں بطور تکیہ استعمال کرتی لیکن میرے پھٹے پرانے کپڑے سردی روک نہ پاتے اور میں دیر تک ٹھٹھرتی اور سسکتی ہی رہتی۔
سیڑھیوں کے مدھم بلب کی معمولی روشنی ماحول کی خنکی میں اضافہ کر دیتی۔ میں اپنی جگہ دبکی مختلف اپارٹمنٹوں سے آتی آوازیں سنتی رہتی۔ مثلاً بچوں کی باتیں، والدین کے حکم، کارٹون فلموں کا شور، برتنوں کی کھنک … غرض وہ تمام آوازیں جو دیواروں کے ڈھانچے کو ایک گھر میں بدلتی ہیں۔
حالات کی سختی اور اپنی تنہائی سے بچنے کی خاطر میں جاگتے میں سہانے سپنے دیکھنے لگتی۔ میں تصور ہی تصور میں دیکھتی کہ میں اپنے ماں باپ اور چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھی ہوں، ہم ہنسی خوشی باتیں کر رہے ہیں۔ ماما جب ہنستیں تو ان کی آنکھوں کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی لکیریں بن جاتی جو بہت بھلی لگتیں۔ تب ہمارا چھوٹا سا خاندان ایک چھت تلے مطمئن زندگی گزار رہا تھا لیکن پھر … میں سب سے زیادہ اپنے مستقبل کے بارے میں خواب دیکھتی۔
یہ سوچ کر میرے ذہن میں گلاب کی کلی پھوٹ پڑتی کہ میںاسکول کی جماعت میں بیٹھی تندہی سے نوٹس اتارنے میں مصروف ہوں۔ پھر میں دیکھتی کہ میں یونیورسٹی کی بلند و بالا دیواروں تلے گھوم پھر رہی ہوں۔ میرے قدموں کے نیچے خزاں کے پتے چرمرا رہے ہیں اور میں بے تابی سے جماعت کی طرف رواں دواں ہوں۔ ایسے ہی میٹھے سپنے دیکھتے اور امید کے دیے جلاتے میں نیند کی آغوش میں پہنچ جاتی۔
٭٭
آج میری زندگی ماضی کی تلخیوںاور مصیبتوں سے یکسر مختلف ہو چکی۔ میں نہ صرف ہائی سکول پاس کر چکی بلکہ اب میں ہارورڈ یونیورسٹی جیسے دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے کی ڈگری رکھتی ہوں ۔ ایک عمدہ ملازمت کر رہی ہوںاور میرے پاس رقم کی کوئی کمی نہیں۔ میں پھٹے پرانے نہیں خوبصورت کپڑے زیب تن کرتی ہوں۔ سیڑھیوں کے برآمدے میں نہیں سوتی، بلکہ مین ہیوسٹن میں میرا اپنا اپارٹمنٹ ہے۔ اب میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہ بن چکا کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی انسان اپنی زندگی خود بنانا چاہتا ہے، میں اس کی مدد کروں۔ مختصر یہ کہ میں اپنی سابقہ ہیت سے بالکل تبدیل ہو چکی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میری زندگی اور ملنے والے تجربات نے مجھے یہ سبق سکھایا ہے کہ انسان کو کسی حد تک تمنائیں اور خواہشیں ضرور پالنی چاہئیں… یہ ایک صحت مند فطری رویہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ تمنائیں ہی ہیںجو انسان کو کچھ کرنے پر ابھارتیں اور اسے آگے بڑھنے پر اکساتی ہیں۔ یہ تمنائیں ہی ہیں جنھوں نے مجھے میٹھے سپنے دکھائے، میری راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں بلکہ منزل تک پہنچانے میں مدد گار بن گئیں اور یہ خواب ہی ہیں جو ہمیشہ مجھے متحرک رکھتے ہیں۔
۱۶؍ برس کی عمر میں میرے پاس رہنے کا ٹھکانہ نہیں تھا، چنانچہ میں دن بھر نیو یارک کی گلیوں اور سڑکوں میں گھومتی رہتی۔ دراصل مجھے ایسے سکول کی تلاش تھی جو مجھے مفت تعلیم فراہم کر سکے اور میری قسمت کا دھارا بدل سکے۔ ایسا وقت عام انسان کے لیے بڑا اذیت ناک ہوتا ہے لیکن میں نے اسے اپنا آپ تباہ کرنے کا موقع نہیں دیا۔ مجھے یقین تھا کہ میں نے ٹھنڈے فرش پر لیٹے لیٹے، خوشحال مستقبل کے جو خواب دیکھے ہیں، وہ ایک نہ ایک دن ضرور پورے ہوں گے۔
اگرچہ اس دور کی تلخ یادیں میں آج بھی بھول نہیں پائی اور وہ گانوں کی شکل میں آج بھی میرے پاس موجود ہیں۔ دراصل میرے پاس ایک پرانا سی ڈی پلیئر تھا۔ جب میں اداس اور مایوس ہوتی تو اس میں امنگ پیدا کرنے والے گانے، مثلًا پائولا کول کا ’’می‘‘ (Me) یا کیک کا ’’دی ڈسٹینس‘‘ (The Distance) سننے لگتی۔ یہ لاجواب گانے میری مایوسی دور کرتے اور مجھے اپنا مستقبل روشن اور صاف نظر آنے لگتا۔
تب میں اپنا خاندان کھو چکی تھی اور میری کل کائنات چند جوڑوں، ایک سی ڈی پلیئر، میری ماں کی تصویراور بھیک میں مانگی گئی خوراک پر مشتمل تھی۔ اس کے باوجود میں نے مستقبل کے سپنے دیکھنے نہیں چھوڑے بلکہ اس عمل کو تب آپ میری واحد تفریح سمجھ لیجیے۔ درحقیقت میں یہ خواب دیکھ کر اتنی ہی خوش ہوتی تھی جتنی خوشی مجھے ہارورڈ میں داخل ہو کر ملی۔
ہوائی جہاز ہو یا بحری جہاز، اس کا کپتان اپنی سواری کو منزل کی جانب گامزن رکھتا ہے۔ ایسے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ میری منزل کہاں ہے۔ چنانچہ میری منزل ہی پھر میری روزمرہ سرگرمیوں کی راہ نما بن گئی اور میں قدم بہ قدم اس کی جانب سفر کرنے لگی۔
مجھے سب سے پہلے اندھیرے میں امید کی کرن ایک اکیڈمی، ہیومنٹیز پری پریٹری اکیڈمی (Humanities Preparatory Academy) نے دکھائی۔ دنیا پہلے ’’نہ‘‘ سے بھری پڑی تھی، لیکن اس کی ایک ’’ہاں‘‘ نے میرے دل کی کلی کھلا دی اور میں وہاں مفت تعلیم پانے لگی۔
اسی کے بعد ’’ڈور‘‘ (Door) نامی ادارہ میری زندگی میں بہار بن کر داخل ہوا۔ اس فلاحی ادارے نے مجھے نہ صرف خوراک اور ادویہ مفت مہیا کیں بلکہ مستقبل کے متعلق مفید مشورے بھی دیے اور میری ہمت بندھائی۔ ڈور ہی نے رات کو میری رہائش کا بندوبست بھی کر دیا جہاں میں سو سکتی تھی۔
جب میں اکیڈمی سے فارغ ہوتی تو قریبی باغ پہنچ کر پڑھتی رہتی۔ شام سر پر آتی تو ریلوے اسٹیشن چلی جاتی۔ وہاں کی چکا چوند روشنیاں مجھے پڑھنے کا موقع فراہم کر دیتیں۔
لیکن مجھے حیران کر دینے والی مدد خلافِ توقع جگہ سے ملی اور خود چل کر میرے پاس آئی۔ ہوا یہ کہ بے گھری اور عالمِ کسمپرسی کے عالم کے باوجود میں نے مسلسل دو برس تک مضامین میں اے ون گریڈ حاصل کیے۔ کسی طرح’’ دی نیویارک ٹائمز‘‘کے ایک رپورٹر کو میری جدوجہدِ زندگی معلوم ہو گئی۔ پھر اس نے میرے جاننے والوں اور مجھ سے میری کہانی سنی اور اخبار میں شائع کر دی۔
اس کے بعد آنے والے ہفتوں میں درجنوں مرد و زن نے مجھے فون کیے اور خط لکھے۔ خطوط میں میری حوصلہ افزائی کی گئی اور مجھے تعریف و توصیف سے نوازا گیا۔ پھر بعض ایسے اجنبی نمودار ہوئے جنھوں نے مجھے تحفتاً کپڑے، کتابیں اور قلم دیے اور جاتے جاتے ہم آغوش بھی ہو جاتے۔
جب درجِ بالا مضمون شائع ہوا تو میں ہارورڈ جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ الاسکا کی ایک خاتون نے بطورِ خاص میرے لیے کمبل ہاتھ سے تیار کیا اور اس رُقعے کے ساتھ مجھے بھجوایا: ’’ یونیورسٹی کے کمروں میں بہت سردی ہوتی ہے۔ تم یہ کمبل اوڑھنا اور گرم ہو کر یہ ضرور سوچنا کہ تمھاری دیکھ بھال کرنے والے لوگ موجود ہیں۔‘‘
یہ سب لوگ میرے لیے اجنبی تھے اور بہت سوں کے تو میںنام بھی نہیں جانتی۔ ان سے ملنے سے پہلے مجھے احساس تک نہ تھا کہ دنیا میں اچھے لوگ بھی پائے جاتے ہیں… لیکن اب یہ بات جانتی ہوں اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ انہی لوگوں نے ہمیشہ کے لیے مجھ کو بدل ڈالا۔
آج میں ’’ڈور‘‘ کے بورڈ کی سرگرم رکن ہوںاور میں ایک وجہ سے اس تنظیم میں شامل ہوئی۔ دراصل یہ تنظیم بے گھر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے ایک ہائی سکول کھولناچاہتی ہے لہٰذامیں بھی اپنی بساط بھر کوششوں سے اس کارِ خیر میں حصہ لے رہی ہوں۔ میں نے دوسروں کے لیے راستہ بنانا اپنا مقصدِ حیات بنا لیا ہے۔