Sunday, 1 April 2012

بامقصد زندگی


بامقصد زندگی!

 


ہم میں سبھی لوگوں نے کسی نہ کسی جانور کو ضرور دیکھا ہوگا، اوران کی زندگی کیا ہے؟ اس بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک جانورکی جب پیدائش ہوتی ہے تو ابتداء میں اس کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کھائے پیئے اور سوئے ‘ اس کے ماں باپ اسے غذا کے حصول کا طریقہ سکھاتے ہیں اور اس کے بعد وہ اپنی غذا کا خود کفیل ہوجاتا ہے‘ یعنی جنگل میں اسے خود شکار کرنا ہوتا ہے‘ یا جو گھاس پودے وغیرہ کھاتے ہیں اس کا انتظام خود کرنا ہوتا اور کسی مخالف جنس سے اختلاط کے بعد بچوں کی پیدائش کا عمل بھی اسے انجام دینا ہوتا ہے۔ کوئی بھی جانور ہو،اس کی جنس نر ہو یا مادہ اس کے بنیادی طور پر یہی کام ہوتے ہیں ۔ اسی عمل میں اس کی ساری زندگی گزر جاتی ہے حتیٰ کہ اسے طبعی یا پھر کسی اور ذریعے سے موت آجاتی ہے ۔
لیکن ہم میں سے اکثر وبیشتر کی زندگی اور حیوانوں کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ یعنی ابتدائی عمر میں کھانا پینا اور سونا ۔ کچھ عمر بڑھی تو رسمی تعلیم حاصل کی۔پھر اسی تعلیم کے بل بوتے غذا یعنی معاش کے لیے محنت اور پھر مخالف جنس سے اختلاط (شادی) کے بعد بچوں کی پیدائش اور پھر اسی طرح دن گزرنے کے بعد موت۔ فرق صرف یہ کہ انسان اپنی تعلیم اسکول ، مدرسہ یونیورسٹی میں حاصل کرتا ہے اور جانور اپنے ماں باپ اور قدرتی ماحول سے ۔ انسان اپنے روزگار کے لیے ملازمت کرتا ہے اور جانور شکار یا دوسرا طریقہ۔ بنیادی طور پر کوئی بڑا فرق نظر نہیں آرہا کیونکہ دونوں کا کام صرف زندگی گزار کے دنیا سے گزر جانا ہے اور کچھ نہیں۔ لیکن ایک لمحہ سوچ لیں کہ کیا واقعی خدا نے آپ کو دنیا میں اسی لیے بھیجا ہے کہ کھاؤ پیو ، بچے پیدا کرو اورچلے جاؤ؟ آپ کا ذہن مذہب کی طرف گیا ہوگا کہ ہم ممتاز ہیں کیونکہ ہم خدا کی عبادت کرتے ہیں لیکن یہ بات نہ بھولیں کہ ہ اگر ہم خدا کو خوش کرنے کے لیے اس کی ظاہری پرستش کرتے ہیں تو کئی روایتوں کے مطابق حیوانات، حشرات ، پرندے وغیرہ بھی خدا کی عبادت حمد و ثناء کرتے ہیں ‘ تو پھر یہ عبادت کا فرق بھی ختم ہوجاتا ہے ۔ اگر ہم ایسی ہی زندگی گزارتے ہیں تو تمام مخلوقات میں ہماری حیثیت صرف اضافی سی رہ جاتی ہے۔
یہ محض حقیقت ہی نہیں بلکہ المیہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت ہم جس روش پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں اس میں اور ایک جانور کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔یعنی کھانا پیناسونا اور بچے پیدا کرنا اور اسی جدوجہد میں زندگی گزار دینا۔آج ہم میں سے ہر ایک بے مقصد زندگی گزار رہا ہے اورساری زندگی اسے جو بھی مصائب و تکالیف کا سامنا ہوتا ہے وہ اس کے لیے شکایت اور احتجاج کا مجسمہ بن کررہتا ہے اور اسی عمل میں زندگی گزار دیتا ہے ۔ ہر ایک کے سامنے مسائل کا انبار لگا ہوا ہے، ہر کسی کو زمانے، معاشرے اور خود اپنی قسمت سے شکایت ہے کیونکہ اس کا کوئی نصب العین ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے تو صرف سہولت کے ساتھ ایک حیوانی زندگی گزارنی ہوتی ہے ۔
لیکن یاد رکھیں! انسان اور حیوان کی زندگی کبھی ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ انسان کا وجود سب سے جدا ہے ، وہ اشرف المخلوقات ہے اور اس کی فطری صلاحیتیں اس لیے نہیں ہیں کہ وہ اپنی زندگی اچھی سے اچھی گزار کے دنیا سے گزر جائے بلکہ یہ سب انسان کے لیے حصول مقصد کا معاون سامان ہیں۔زندگی کی یہی وہ حقیقت ہے جسے (پیغمبروں اور مقدس ہستیوں کے علاوہ ) غزالی، اقبال، رومی،بو علی سینا، البیرونی اور جابر بن حیان جیسی کئی شخصیات نے سمجھا اور اس مختصر سی زندگی کو بامقصد بناکر تاریخ کے دھارے اور نسل انسانی پربہت ہی گہرے اثرات مرتب کرگئے۔
انہوں نے جانا کہ وہ حیوان نہیں انسان ہیں اور انسانوں والی بامقصد زندگی ہی گزارنی ہے ۔ لہٰذا ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے آپ کو بھی سب سے پہلے اپنی زندگی کے مقصد کا تعین کرنا ہوگا۔آپ اُس مسافر کا تصور کریں جو ایک بس میں سوار ہو لیکن اسے اپنے منزل یاد نہ ہو ا۔ بالآخر جب بس اپنے آخری اسٹاپ پر پہنچے گی تو مسافر کو بس سے اترنا پڑیگا۔ ہمارا جسم وہ بس ہے اور روح مسافر۔ مسافر (روح) بس (جسم) میں سوار ہوچکا اور اگر وہ اپنی منزل پہ پہنچا تو پھر آخری اسٹاپ پہ بس اسے اتار ہی دیگی اور اس آخری اسٹاپ سے مراد موت ہے۔
مقصد کے بغیر آپ کی زندگی دنیا میں ایک دورے کے سوا کچھ نہیں ہے۔آپ بامقصد ہیں تو یہ مقصد عبادت ہی ہے۔ لیکن کس طرح ؟ اس کا تعین آپ کو خود اپنے آپ کو پہچان کے کرنا ہوگا۔ دیگر مخلوقات کی نسبت انسان میں سیکھنے ‘بدلنے‘ اور ترقی کرنے کی جبلت زیادہ ہے ۔ہمیں انسانوں کے علاوہ کسی بھی مخلوق میں اس قسم کی ترقی‘اور ارتقائی شعور کی شہادت نہیں ملتی ۔ انسان کے علاوہ ایسی کوئی مخلوق نہیں ہے جو ازخود چاند تک پہنچ گئی ہو اور قدرت کے اسرار سے ہر روز نئے پردے اٹھا رہی ہو۔ انسان کے علاوہ کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جس کے پاس معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام ہو۔اور جو ان امور پر غور و فکر کرسکے ۔ہمارے پاس بہت سے میدان میں جن کے لیے ہم اپنی زندگی وقف کرکے بامقصد بن سکتے ہیں ۔آپ کو اپنی زندگی بامقصد بنانے کے لیے اپنے آپ کو ، اپنے ماحول کو، اپنی صلاحیتوں کو، اپنی خواہشات کو پہچاننا ہوگا۔
 کامیاب ہونے کے لیے ایک اہم امر اپنی صلاحیت کو پہچاننا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہر ایک انسان میں کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہے جسے تلاش کرنا آپ کا کام ہے ۔اگر آپ کو معلوم ہی نہ ہو کہ آپ میں کس کام کی صلاحیت سب سے زیادہ ہے تو آپ کی کامیابی کے مواقع بہت کم ہوں گے ۔"سب لوگوں کو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ وہ جانیں کہ وہ کیا ہیں؟ لیکن اس بات میں بہت کم لوگ دلچسپی لیتے ہیں کہ وہ کیا بن سکتے ہیں؟" اپنی صلاحیت کو پہچاننے کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کریں۔ 
 کچھ دیر کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ذہن کو آزاد چھوڑ کر یہ غور کریں کہ آپ اپنی زندگی کو کس طرح کی دیکھنا چاہتے ہیں اور پانچ سالوں کے اندر ایسے کیسا ہو نا چاہئے۔ اس سلسلے میں جن وضاحتوں کی ضرورت ہے اسے ذہن میں رکھیں۔
·         آپ میں کیا کیا صلاحیتیں ہیں؟
·         جب آپ کسی کام میں مشغول نہیں ہوتے تو پھر آپ کیا کرتے ہیں ؟
·         آپ  کس ماحول میں رہتے ہیں اور آپ کے معاشرے میں کس چیز کی ضرورت زیادہ ہے؟
 ان سارے سوالات کے جوابات تحریر کرنے کی کوشش کیجیے۔دوسرا نکتہ آپ کی صلاحیت تلاش کرنے میں اہم ہے۔ تاہم یہ یاد رکھیں کہ یہ کام ایک دن کا نہیں بلکہ کچھ ہفتوں تک اپنا ذاتی مشاہدہ کریں اور اس بات پر بھی نگاہ رکھیں کہ آپ کی طبیعت کا رجحان یا میلان کس جانب ہے۔ اس سلسلہ میں جو لوگ آپ سے اچھی طرح واقف ہیں ان لوگوں سے بھی دریافت کیجیے۔ تاکہ یہ بات سامنے آئے کہ ان پر آپ کا کیا اثر ہے۔یا انہوں نے آپ کے متعلق کیا تاثر قائم کیا ہے۔ اس طرح چند دن میں آپ کے سامنے ایک نکات کی ایک فہرست ہوگی جسے دیکھ کر آپ کواپنی ذات میں چھپی ہوئی صلاحیت کا اندازہ ہوجائے گا۔
ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے نزدیک آخر کامیابی کس چڑیا کا نام ہے؟یاد رکھیں کامیابی کی تعریف ہر شخص کے حساب سے الگ ہوتی ہے۔ اب اگر آپ کو اپنی کامیابی کو مقرر کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنا ہدف متعین کرنا ہوگا۔ اوپر دیے گئے طریقے پر عمل کرکے آپ اپنی صلاحیتوں کو پہچان گئے ہیں، مثلاً آپ جان چکے ہیں کہ آپ کا رجحان تحریر و تصنیف کی طرف ہے۔ اب آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ آپ اسے استعمال کرکے اس کس طرح کوئی اہم کام سرانجام دے سکتے ہیں۔ یہی کام دراصل آپ کے لیے کامیابی ہوگی۔
مقصد  کا تعین کرنا دراصل ان تین  سوالات میں باہم تطبیق کرنا ہے۔
·         آپ کے اندر کیا صلاحیتیں ہیں؟
·         آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟
·         آپ جس ماحول و معاشرے میں رہتے ہیں اس میں کس چیز کی ضرورت ہے؟
 یہ بات انتہائی اہم ہے کہ آپ کی طرف سے دیے گئے ان دونوں سوالات کے جوابات میں ہم آہنگی ہو۔ایسا نہ ہو کہ کسی میں تقریر کی صلاحیت ہو اور کرکٹر  بننے کی خواہش کرے۔کوئی شخص معذوری کا شکار ہو اور وہ Athlete بننا چاہے۔ بلکہ جیسی صلاحیتیں ہوں ویسا ہی آپ کا ہدف ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی ہدف کے تعین کے لیے کوئی ایسی بات تلاش کریں جس کی آپ کو معاشرے میں کمی محسوس ہوتی ہو۔یہ کمی مادی ہی نہیں بلکہ دیگر معاملات پربھی ہوسکتی ہیں۔ مثلاً آپ جہاں رہتے ہوں وہاں کا کسی خاص طبقے پر ظلم و ستم جاری ہو، وہاں کوئی ایسی وباء یا بداخلاقی ہو جو آپ کے لیے ذہنی اذیت بن رہی ہو۔ یا آپ کے مشاہدے میں ہو کہ لوگوں کو اس سہولت کی کمی ہے یا اس چیز کی ضرورت ہے یا آپ کو معلوم ہو کہ آپ اس میدان میں بہترین خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ ۔
ایک مثال لیجئے۔محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی زندگی کو دیکھیں۔ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ پاکستان دفاعی قوت میں مضبوط نظر آتا ہے لیکن اس کے پاس ایک چیز کی کمی ہے اوروہ ہے ایٹم بم۔ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ بنا تو آئندہ نسلیں تک اپنے حریف کے سامنے احساس کمتری کا شکار رہے گی۔ ساتھ ہی انھیں اپنی صلاحیتوں کا ادراک تھا۔ چنانچہ انہوں دونوں باتوں کو محسوس کیا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ ابتداء میں ان کے لیے یہ خواب ہی تھا اور بعض لوگ کو پختہ یقین تھا کہ وہ ناکام ہوجائیں گے لیکن یقین تھا کہ خدا نے انہیں ایسی صلاحیات دی ہیں کہ وہ یہ عظیم کام کرسکتے ہیں اور یہی وہ لگن اور ایمان تھا جس کی بدولت انہوں نے بالآخر اپنا مقصد پورا ہی کیا۔
ایٹم بم کی تخلیق نہ سہی مگر آپ کو بھی کچھ ایسا ہی مقصد تلاش کرنا ہے جس میں آپ اپنی بھرپور قوتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں ۔ مثلاً اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ طب کے میدان میں بہترین خدمات انجام دی سکتے ہیں تو آپ کا مقصد ڈاکٹربن کر مریضوں کا علاج و معالجہ ہی ہونا چاہیے ۔ ڈاکٹر بن کر پیسہ کمانا نہیں بلکہ اپنے معاش کے ساتھ لوگوں کی خدمت ہونی چاہیے۔ لیکن میں صرف اس بات پر "بس" نہیں کرتا بلکہ میں آپ کو ایک مشورہ دوں گا کہ ہمیشہ اپنے شعبے اپنی بونس ویلیو (Bonus Value) بنائیں۔ یعنی آپ کا مقصد ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے تو ضرور بنیں لیکن آپ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر سوچیں کہ آپ کو اس میدان میں نت نئے اسرار معلوم کرنے ہیں‘ آپ کو رواجی طریق سے ہٹ کر کچھ کام کرنا ہے جس سے لوگوں کی بہترین اسلوب سے خدمت ہوسکے۔یا آپ کو مذہبی علوم کا شوق ہے تو آپ اس سے متعلقہ نظام زندگی کے پانچ بڑے میدان سیاست‘ معیشت‘ طب‘ قانون اور جدید فکر و فلسفے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں اور اس پر محنت کریں۔ مذہبی لوگوں کے لیے اس کی واضح اور عمدہ مثال جسٹس مفتی تقی عثمانی ہیں جنہوں معاشی میدان میں تہہ تک پہنچ کر تمام مسائل کا اسلامی حل پیش کیا۔ آپ کو بھی جس شعبے میں دلچسپی ہو اس کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردیں تو یہ میدان سر ہوکر رہیں گے اور یہ انسانیت کے لیے آپ کی طرف سے ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔
اگر آپ کا مقصد اجتماعی زندگی سے متعلق مثلاً تعلیم یا سیاست وغیرہ ہےتو  تو آپ کو اپنے مقصد کے لیے خونی انقلاب یا قوت و اقتدار نہیں بلکہ اعلیٰ اذہان اور روشن دماغوں کو اپنی گرفت میں لے کر  انہیں اپنا ہم خیال بنانا ہوگا ۔ یہاں بھی آپ کو یہی کرنا ہوگا کہ قدرت نے آپ کو جو صلاحیتیں دی ہیں، انہیں پہچان کر آپ  اپنی زندگی ایک رخ پہ رکھنی ہوگی۔اگر آپ کو شاعری سے دلچسپی ہے، آپ کو مصوری کا شوق ہے، آپ کو تصنیف و تالیف کا شوق ہے ۔ تو ان وسائل کو بروئے کار لائیے۔ اپنی شاعری کے ذریعے، مصوری کے ذریعے تصنیف و تالیف کے ذریعے اپنے مقصد کو تقویت دیں اور اسے حاصل کریں۔ لیکن ان سب کو بروئے کار لانے کے لیے بھی جوں کا توں استعمال نہ کریں بلکہ اپنے مقصد کے حصول میں آپ کا پہلا مرحلہ ان وسائل میں مہارت حاصل کرنا ہوگا اور پھر اس کے ساتھ ہی عملی طور پر آپ اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کرتے رہیں۔ (اﷲ نہ کرے)آپ کو خدا نے کوئی خاص صلاحیت نہیں دی‘ یا پھر آپ اسے انجام نہیں دے سکتے تو بھی آپ اپنی بساط کی حد تک ہاتھ پاؤں مار سکتے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں آپ کی پرخلوص جدوجہد میں خدا آپ کے لیے ایسے معاون کردار پیش کرےگا جو مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوں گے اور آپ کی کشتی (مقصد )کو وہ سنبھال کر کنارے تک لے جائیں گے۔ لیکن شرط صرف یہ ہے کہ روپیہ ، شہرت اور مادی آسائش جو کہ آپ کے مقصد کے دوران حاصل ہونے والی ذیلی پیداوار ضرور ہوسکتی ہے لیکن یہ آپ کی زندگی کا مقصد نہ ہو ۔اگر آپ کا ہدف صحیح طے ہو گیا تو اپنے مقصد کے لیے صحیح اور مثبت رہنمائی تلاش کرو جو آپ کو صحیح سمت میں آپ کی منزل تک پہنچنے کا راستہ بتا سکے۔
آپ کسی سفر پر نکلے، لیکن آپ کو رستہ معلوم نہیں، تو کیا آپ امید رکھ سکتے ہیں کہ آپ منزل کو پہنچ پائیں گے؟ ہر گز نہیں۔ عملی زندگی میں بھی وہی لوگ کامیاب ہوتے جن کے پاس اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک باقاعدہ پلان ہوتا ہے۔موت برحق ہے جو اپنے وقت پر سب کو آنی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ مستقبل کی منصوبہ بندی چھوڑ دیں۔بلکہ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کس طرح سے اپنی منزل کو پہنچ سکتے ہیں۔اپنے ہدف کے تعین کے بعد  اس کے حصول کے لیے صحیح  منصوبہ بندی ایک بنیادی اور سب سے اہم ضرورت ہے۔پرسنل ڈویلپمنٹ کے ماہرین اسے گول سیٹنگ(Goal Setting) کا نام دیتے ہیں۔
 گول سیٹنگ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے آپ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ منصوبہ بندی کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ اطمینان کر لیجئے کہ ایک وقت کا انتخاب کریں جس وقت آپ اکیلے ہوں۔ آپ کے کم از کم آدھے گھنٹے کی تنہائی میسر ہو۔ پھر ایک سادہ کاغذ لیجیے اور ان پر مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات لکھیے۔
·         اپنے مقصد کے حصول کے لیے میرے پاس کیا وسائل موجود ہیں؟
·         مجھے کتنی محنت کرنی پڑے گی؟
·         میرے اندر کیا اور کتنی صلاحیتیں ہیں؟
·         میرے اندر کیا خامیاں ہیں؟
·         وہ کون سی چیزیں ہیں جو مجھے سیکھنے کی ضرورت ہے؟
·         مجھے اپنی ذات میں کون کون سی تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں جو میری شخصیت پر کشش بنا دیں؟
 خوب سوچ سمجھ کر پوری ایمانداری کے ساتھ ان سوالات کے جوابات لکھئے۔ان سوالات کے جواب لکھ لینے کے بعد اب اپنے ٹارگٹ (ہدف) کو چھوٹے چھوٹے مختلف مراحل میں تقسیم کرلیں اور ہر ایک  کے لیے ڈیڈ لائن مقرر کرلیں کہ فلاں مرحلہ آپ کو فلاں وقت تک مکمل کرنا ہوگا۔ مدت کا یہ تعین آپ کو متحرک رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
 کامیابی حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلی ضرورت محنت ہے۔ اگر آپ محنتی ہیں، محنت کرسکتے ہیں تو پھر آج نہیں تو کل آپ کامیاب ہی ہیں، لیکن اگر آپ محنت نہیں توپھر یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ آپ کامیاب ہوسکتے ہیں کیونکہ محنت ہی کامیابی کی سیڑھی ہے۔یہاں ہنری فورڈ کے اس قول کو ذہن نشین کرلینا بہتر رہے گاکہ '' آپ جتنی محنت کریں گے، قسمت آپ پر اتنا ہی مہربان ہوگی۔"
محنت کے بعد جو دوسری سب سے ضروری چیز ہے، وہ ہے خود اعتمادی۔ کامیابی کا حصول ہو یا کسی بھی مسئلہ کے حل : ، کسی بھی خوف سے نمٹنے کے لیے خود اعتمادی بہت ہی ضروری ہے۔اگر آپ میں خود اعتمادی نہیں تو گھبرائیں مت، کیونکہ خود اعتمادی کبھی راتوں رات نہیں آتی۔ نہ تو یہ فوری طور پر بڑھتی ہے اور نہ ہی فوری طور پر کم ہوتی ہے۔ اس کا سارا دار و مدار محنت پر ہوتا ہے ۔ کوئی بھی شخص زندگی میں جیسے جیسے محنت کرتا ہے ویسے ویسے اس کا اعتماد بھی بڑھتا جاتا ہے۔گذشتہ ابواب میں ہم اس بارے میں تفصیل سے پڑھ آئے ہیں۔
  کئی ایسے لوگ ہیں جن قسمت میں کامیابی دستک دیتی ہے لیکن وہ اسے پہچان نہیں پاتے۔ ہم میں سے اکثرو بیشتر لوگ آنے والے موقع کا ادراک نہیں کرتے اور جب موقع ہاتھ سے چھٹنے لگتا ہے تو اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اس لیے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لینا انتہائی ضروری ہے۔اس کے لیے ہر ایک صورت حال میں جلد بازی سے کام لینے کے بجائے سوچ سمجھ کر، مسئلے کو تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے، ہر قسم کے اندیشوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔
ہم ایک انسان ہے جو خطا کا پتلا ہے، لہٰذا ہم سے کوئی غلطی ہونا عجیب بات نہیں۔غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن وہ اس قدر سنگین نہیں ہوتی جتنا کہ اس کا احساس ہونے کے بعد اسے دہرانا ہے۔ جو سمجھ دار ہوتے ہیں وہ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں نہ کہ پچھتاوے میں وقت کا ضیاع۔ اور غلطی صرف اپنی ہی نہیں بلکہ جو عقلمند ہوتے ہیں وہ دسرو کی غلطیوں بھی سے بھی سیکھتے ہیں۔ 
جب آپ ایک مقصد کا تعین کرلیں تو پھر اس کے حصول کے لیے سب کچھ کریں جو جائز ہو۔ اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ سے گزرتے جائیں۔ اس دریا کی طرح جس کی ابتداء پہاڑوں سے ہوتی ہے ۔ وہ اپنی ابتداء سے بہتاہیں اور ایک طویل سفر گزارتا ہے ۔ وہ اپنی فطری رفتار کے ساتھ گزرتا رہتا ہے ۔ پستی اور بلندی، پتھر اور کانٹے اس کا کچھ نہیں بگاڑتے ۔ اپنی ابتداء کے بعد وہ سمندر میں پہنچے کے لیے اس طرح بہتا ہے کہ اسے رکنا ہی نہیں ہے اور بالآخروہ اپنے نصب العین یعنی سمندر میں جاکر ہی ختم ہوتا ہے ۔ گویا اس کا مقصد سمندر سے ملن ہے اور وہ اس کے لیے ہر رکاوٹ کو سہتے ہوئے بے پرواہ ہوکر آگے بڑھتا ہے ۔
 غور کریں قدرت نے دریا کی زندگی سے ہمیں کتنا عظیم سبق دیا ہے ۔ ہم بھی دریا ہیں اور ہمیں بھی اپنے سمندر تک پہنچنا ہے ، پھر چاہے پہنچنے کے لیے ہماری زندگی میں کتنے ہی نشیب و فراز کیوں نہ آئے ۔ مشکلات آئیں گی، کانٹے، پتھر، چٹان سب کچھ ہوگا اس راہِ زندگی میں لیکن آپ کو ان سب کے اوپر سے گزر کر پہنچنا ہے، اگر آپ ایمان و یقین، اصول اور خلوص کے ساتھ ڈٹے رہے تو پھر یقیناًکامیابی آپ کا مقدر ہوگی۔
(مصنف : حافظ محمد شارق)
·         آپ میں سب سے اہم خوبی اور صلاحیت کیا ہے؟
·         وہ کون سا کام ہے جس میں آپ کی ذاتی دلچسپی ہو؟
·         آیندہ تین سالوں میں آپ خود کو کس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں؟




No comments:

Post a Comment