Friday 25 April 2014

سوال: ہندوؤں اور مشرکین مکہ کے شرک میں کیا فرق ہے؟

سوال: ہندوؤں اور مشرکین مکہ کے شرک میں کیا فرق ہے؟

قدیم  عرب میں تصورِ الہٰ کیا تھا، اس بارے میں میری زیادہ تحقیق نہیں ہے، قرآن مجید اور سیرت کی کتابوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان بتوں (دیوتاؤں) کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کی طرف سے انھیں خاص اختیار حاصل ہیں اور وہ وہ ہماری سفارش کرکے ہماری   مرادیں   پوری کرتے ہیں، وہ انھیں قرب الٰہی کا ذریعہ مانتے تھے۔ 
جبکہ ہندو کے ہاں دیوتاؤں کا تصور کچھ مختلف ہے۔ نہ وہ انھیں سفارشی مانتے ہیں نہ ہی  خدا کی طرف سے مقرر کردہ صاحب اختیار کوئی مخلوق۔ بلکہ وہ ہر ایک دیوتا کو خدا مانتے ہیں ۔ ویسے تو ہر فرقے میں یہ تصور مختلف ہے لیکن عمومی طور پر ان کا تصور یہ ہے کہ) خدا کے ایک کُل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے جز دیوتا کہلاتے ہیں۔ یہ دیوتا ایک الگ آسمانی دنیا میں رہتے ہیں اور یہ بھی انسان کی اسی طرح یہ بھی (مزاج، عادات، جذبات وغیرہ) کے اعتبار سے ایک مخلوق ہیں۔ یہاں یہ تضاد نظر آتا ہے کہ ایک ہی ہستی بیک وقت مخلوق بھی ہے اور خدا بھی؟ اس کا جواب وہ یوں دیتے ہیں کہ خدا نے اپنے جز تخلیق کیے اس طرح وہ خدا بھی ہیں اور مخلوق بھی۔چنانچہ اگر کسی ایک دیوتا کی عبادت کی جائے تو وہ بھی خدائے واحد کی ہی عبادت ہوگی۔ ہندو انھیں سفارشی نہیں سمجھتے، بلکہ خود انھیں قادر المطلق ہستی سمجھتے ہیں۔ 
ویسے یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب مشرکین میں کچھ ہندو بھی شامل تھے یا کم از وہاں کے ہندوؤں کو ان بتوں سے کچھ نہ کچھ عقیدت ضرور تھی۔ہندوؤں میں  جین مت کے پیروکار عرب کے مشہور بت "ہبل" کو اپنا دیوتا مانتے آئے ہیں۔بہرحال ہندو اور مشرکین عرب  دونوں ہی مشرک رہے۔