تقابل ادیان کیوں؟؟؟
سوال:
کیا ہم
اپنے دین کو پوری طرح سمجھ چکے ہیں ، پوری طرح سے اس کی تعلیمات ، اس کے مسائل اور
سب سے اہم قرآن و حدیث جان چکے ہیں؟ ہم ابھی تک ان کو ہی صحیح طرح نہیں سمجھے ، ان
پر پورا عمل نہیں کیا تو یہ تقابل ادیان کی ضرورت کیوں کر پیش آئی؟ اپنا دین
سمجھا نہیں دوسرے میں گھُس چلے ہیں ہم۔ ہم دوسرے کے مذہب کو اہمیت ہی کیوں
دیں جب کہ اپنا اسلام ہمارے لیے کافی ہے؟ کیا صوفیاء بھی تقابل ادیان میں کام کرتے
تھے؟
)محمد بلال عطاری۔ کراچی(
جواب:
السلام و علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ! ہر انسان کے لیے دعوت و تبلیغ کا ایک علاحدہ
میدان ہوتا ہے، یہ ضروری نہیں ہے ہر داعی مفتی ہو، یا ہر مفتی محدث ہو۔ بنیادی
تعلیم کے بعد جس کا جو میدان ہوتا ہے وہ وہیں کام کرتا ہے۔ اسی طرح دعوت و تبلیغ
کے لیے تقابل ادیان بھی ایک اہم ذریعہ ہے، اسلامی تاریخ میں تقابل ادیان کوئی نیا
موضوع نہیں ہے،
تقابل
ادیان کے میدان میں اگر کوئی اسلام کے بنیادی علوم سیکھے بغیر آئے گا بلا شبہ یہ
غلط ہے۔ دین کے بنیادی علوم حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تقابل ادیان کے طالب علم
کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک عام مسلمان کو بھی اسلام کے بنیادی علوم مثلاً مڈل سطح کی
عربی قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جاسکے، فقہ جس سے ہماری عبادات اور حلال و حرام کا
علم ہوجائے ، ایمانیات کے چھ بنیادی اصول پر بلا تاویل یقین ہو اور اسلام ہم سے
کیا چاہتا ہے ، اسلام کی روح کیا ہے، اسے سمجھنا ‘ یہ بنیادی علم ضروری ہے۔ اس کے
بعد اگر کوئی مسلمان علیحدہ میدان منتخب کرتا ہے تواس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ ایک
مسلمان ان علوم کو حاصل کرلینے کے بعد ڈاکٹر بنے یا انجینیر، دعوت و تبلیغ کے لیے
وہ ہر طرح سے کام کرسکتا ہے ۔پھر جو لوگ دین کی دعوت دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں
، اور علوم اسلامیہ میں اسپیشلائز کرتے ہیں ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دیگر
مذاہب سے بھی اچھی طرح واقف ہوں تاکہ وہ ان مذاہب کے لوگوں کے سامنے اپنی دعوت پیش
کر سکیں۔
سنن درامی
کی ایک حدیث ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بار تورات کی تلاوت کی تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا ‘ بعض حضرات اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں
کہ تقابل ادیان پڑھنا غلط ہے۔ اول تو یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ محدثین کی نظر سے
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا ایک راوی جابر الجعفی متہم بالکذب ہے جس کے بعد اس روایت
پر استدلال درست نہیں رہتا۔ البتہ اگر یہ حدیث کسی طور پر اپنے مفہوم کے اعتبار سے
بھی صحیح ثابت ہوجائے تو بھی حدیث پر معمولی سا غور واضح کردیتا ہے کہ حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تورات کی تلاوت اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کے متعلق
منع فرمایا کیونکہ خود اس حدیث کے آخری حصے میں یہ صراحت ہے کہ اگر حضرت موسیٰ
علیہ السلام دوبارہ آجائیں تو وہ بھی اپنی شریعت تورات کے بجائے قرآن پر عمل کریں
گے۔ لہٰذا بات بالکل واضح ہے کہ اس ممانعت میں پیش نظر تورات کو بحیثیت کتاب ہدایت
پڑھنا تھا ۔ تقابل ادیان کے بغیر غیر مسلمین کے سامنے یہ بات واضح کرنا ممکن نہیں
ہے کہ ان کے دین اور ہمارے دین میں آخر فرق کہاں اور کیا واقع ہے، کیوں اسلام کو
دیگر مذاہب پر فوقیت حاصل ہے اورکن امور پر ان کی کتب مقدسہ اور اسلام متفق ہیں۔
دعوت و
تبلیغ کے لیے تو تقابل ادیان کے شعبے کو وجود قرآن مجید اور احادیث سے ملتا ہے۔
چند مثالیں دیکھیں۔
اللہ
تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ان سے توحید کے مشترکہ عقیدے پر بات کی جانے
چاہیے۔اللہ فرماتے ہیں ”آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب ایسی بات کی طرف آؤ جو کہ ہم
تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ ہی اس کے
ساتھ کسی کو شریک بنائیں اور نہ ہی اللہ تعالی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب
بنائیں پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔ “(سورہ
آل عمران آیت ۴۶)
ان آیات
میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اہل کتاب سے مشترکہ نکات پر اتحاد کیا جائے اور ان
سے بات کی جائے۔ یہ مشترکہ نکات کیا ہیں؟ اس کی وضاحت خود اس آیت میں توحیدہے۔اس
حکم کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اہل کتاب کے مشترکہ امور معلوم کیے بغیر کس طرح ان سے
بات کی جائے؟ معلوم کرنے کے دوع ہی ذرائع ہوں گے یا تو ان مذاہب کے ماننے والوں کی
موجودہ صورت دیکھی جائے یا ان کی کتب مقدسہ کا مطالعہ کیا جائے۔ اگر ہم اہل کتاب
کی موجودہ حالت دیکھیں تو یہی معلوم ہوگا کہ موجودہ عیسائیت میں توحید کا کوئی
واضح عقیدہ موجود ہی نہیں ہے۔ لہٰذا تثلیث کے شرکیہ عقیدے کے ہوتے ہوئے یہ مشترکہ
امور عیسائیوں کو دیکھ کر ہرگز معلوم نہیں کیے سکتے۔ یہ عقائد بلاشبہ ان کی کتب
مقدسہ کے خلاف ہیں۔ یہ مشترکہ امور یقیناً ان کے دین اور ان کی کتابوں کے مطالعے
سے ہی معلوم ہوں گے تاکہ ان سے بات کی جاسکے۔
قرآن مجید
کا یہ دعویٰ ہے کہ توریت و انجیل محرف کتابیں ہیں ، یہ ہمارا مجمل ایمان ہے لیکن
اس کی تفصیل اور یہ دعویٰ اسی وقت ثابت ہوگا جب ہمیں ان کتابوں کی تاریخی حیثیت کا
علم ہو۔
دعوت و
تبلیغ کے لیے اس کی اہمیت کا انکار کسی بھی طرح نہیں کیا سکتا۔ چنانچہ ہم دور نبوت
میں دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ
کو خاص یہود کی زبان عبرانی سیکھنے کا حکم دیا تاکہ یہود کی دستاویزات پڑھ
سکیں۔ بعد میں بہت سے صحابہ و
تابعین نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور کعب الاحبار سے یہود کی روایات
کا علم حاصل کیا۔حضرت شاہ ولی اللہ نے اصول تفسیر کی کتاب الفوز الکبیر میں قرآن
مجید کے جو موضوعات گنوائے ہیں، تقابل ادیان بھی انھی میں سے ایک شاخ ہے۔امام
غزالی، شیخ عبد القادر جیلانی غوث صمدانی نے بھی اپنی کتب میں فرقہ باطلہ کا رد
کیا ہے، چنانچہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھوں نے اسلام کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو
اہمیت دی ہے۔ کیونکہ یہ کام ہمارے صوفیاء، علماء اور سب سے بڑھ کر خود قرآن مجید
میں موجود ہے۔ امام رازی، ابو منصور عبد القاہر، امام غزالی،ابوالہذیل، ابو اسحاق
ابراہیم بن سیار نظام، ہشام بن الحکم، ابن حزم، علامہ محمد عبد الکریم شہرستانی،
ابن تیمہ، یعقوب کندی، جاحظ وغیرہ کے نام آشنا ہر شخص جانتا ہے۔ جدید مثالوں میں
آپ شاہ ولی اللہ، حضرت مجدد الف ثاثی، شیخ احمد دیدات، پیر کرم علی شاہ ازہری،
مولانا ثنااللہ امرتسری، مولانا قاسم نانوتوی، اور دیگر علما ہیں اور آپ جانتے ہوں
گے کہ ان میں کون کون صوفیاء ہیں۔
ان سب کے پیش نظر بلا شبہ یہ کہنا صحیح ہے کہ
اپنے دین کی بنیادی تعلیم حاصل ہوجانے کے بعد بلا تردد کسی بھی مذہب کا مطالعہ کیا
جاسکتا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ۔بشرطیکہ کہ کسی استاد کی رہنمائی میں ہو، تاکہ
گمراہی کا اندیشہ نہ رہے۔
والسلام
حافظ محمد
شارقؔ
No comments:
Post a Comment