Sunday 11 November 2012

اختلافی مسائل میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟




السلام و علیکم ورحمتہ اللہ!
میں کافی عرصے سے فیس بُک پراسلام اور فرقہ واریت کے متعلق آپ کی پوسٹس دیکھتا رہا ہوں، آپ کے بلاگ پر کچھ مضامین بھی دیکھے۔ مجھے بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ ہمیں اپنے فرقے کے بجائے اسلام کی پیروی کرنی چاہیے۔ لیکن میرا سوال ہے کہ دین کے بنیادی عقائد تک تو مسئلہ نہیں ہوتا لیکن وہ مسائل جن پر مختلف فرقوں کا باہم اختلاف ہے، ہمیں ان میں سے کسی ایک رائے کو لازماً ماننا ہی ہوگا، جب ہم ایسے اختلافی معاملے میں کسی ایک جماعت کی بات مان لیں تو کیا پھر ہم اس فرقے میں شامل نہیں ہوجاتے۔ نیز ہم اختلافی معاملات میں کیا رویہ اختیار کریں ؟

حماد یوسف، کراچی 

جواب:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے بہت ہی اچھا سوال پوچھا ہے، ہمارے ہاں اکثر لوگ اس مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایسی صورتحال میں کیا کریں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ آپ کسی فرقے کے بجائے خدا کے دین کے متعلق مخلص ہیں اللہ آپ کا یہ اخلاص یونہی قائم رکھے۔ (آمین)۔

آپ کے سوال کے برعکس میں پہلے اختلافی معاملات میں ہمارے رویے کے متعلق بات کروں گا۔ اس بارے میں میرا مشورہ ہے کہ دین کے متعلق  ایک اوسط (نورمل ) سطح کا علم رکھنے والے شخص کو چاہیے کہ وہ دین کے بنیادی فرائض باقاعدگی سے اداکرے، اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان کے دیگر تمام حصوں پر پختہ یقین رکھے ۔ آپ یہ کیجیے کہ قرآن مجید کا کوئی سادہ سا ترجمہ لیں اور کسی قدیم مستند تفسیر کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کریں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ فائدہ ہوگا کہ آپ میں دین کے بنیادی اصولوں کی سمجھ پیدا ہوگی اور صحیح اور غلط سمجھنے کے لیے قرآنی اصول موجود ہیں گے۔اس کے ساتھ ہی کوشش کیجیے کہ کسی استاد یا کتاب کی مدد سے قرآنی عربی بھی سیکھیں تاکہ آپ قرآن مجید کا مطالعہ بہتر انداز سے کرسکیں۔ اس کے بعد اگر کوئی فقہی مسئلہ پیش آجائے تو کسی بھی قریبی عالم یا مفتی سے مسئلہ معلوم کرلیں۔


ان بنیادی امور اور عقائد کے بعد دیگر بحثوں اور فروعات میں نہ ہمیں نہیں لگنا چاہیے، البتہ وہ مسائل جن میں مختلف مکاتب فکر کا اختلاف ہے(مثلاً حاضر و ناظر، میلاد، علم غیب وغیرہ) اس میں اپنی رائے ہمیشہ معتدل رکھیں اور غیر جانبداری اور بناء کسی تعصب سے ہر ایک فریق کے دلائل کا مطالعہ معروضی طریقے پر کریں۔یعنی دلائل کا جائزہ لیتے ہوئے پہلے سے کوئی چیز طے نہ کریں کہ آپ اس پر یقین کرنا چاہتے ہیں بلکہ قرآن و سنت سے ملنے والی روشنی سے فیصلہ کیجیے اور ہر قسم کے تعصب وبد دیانتی سے خود کو بچائیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ ہماری کمٹمنٹ اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے نہ کہ کسی عالم یا کسی فرقے سے لہٰذا کوئی بات محض اس لئے نہ تسلیم کریں کہ بزرگوں نے اسے اسی طرح فرمایا تھا بلکہ اسے دلیل کی بنیاد پر دیکھیں ۔جو بات قرآن و سنت کے مطابق ہو، اور جس پر دل اور عقل مطمئن ہو اسے قبول کرلیجیے جو بات غلط ہو اسے رد کردیجیے اور خدا تعالیٰ سے اچھی امید رکھیں۔ساتھ ساتھ اپنے خیالات اور اعمال کا احتساب جاری رکھیں اور جب کبھی یہ واضح ہو کہ جس رائے پر پہلے تھے، وہ غلط تھی تو فوراً رجوع کر لیں۔

اس کے بعد یہ بات سمجھ لیجیے کہ جب ہم فرقہ پرستی سے بچنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ کسی بھی مکتب فکر کی کسی رائے سے متفق نہ ہوں، بلکہ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ حق صرف ایک ہی مکتب فکر میں محدود نہ سمجھیں۔فرقہ پرستی دراصل تب ہوتی ہے جب آپ کسی ایک ہی مکتب فکر کو مکمل طور پر حق سمجھ لیں۔ مکاتب فکر سے بیزاری کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنی دنیوی زندگی (مذہبی معاملات) میں اس کی پوزیشن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ مکتبِ فکر کی حیثیت اگر ایک رائے کی ہی رہے تو بہتر ہوتا ہے ۔ لیکن جب یہ گروہ بندی اور فرقہ واریت کی صورت اختیار کرلے ‘ اور ہمارا مسلک ہی ہمارے لیے سارا کا سارا دین بن جائے تو یہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔اگر آپ اسلامی تاریخ دیکھیں تو بے شمار مثالوں میں آپ کو ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ کار نظر آئے گا کہ وہ فرقے کو نہیں مانتے تھے حق بات کو مانتے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حنفی علماء نے خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے اختلاف کیا لیکن انہیں اپنا استاد بھی مانا اور ان کے احترام میں کوئی کمی نہ کی ۔ اسی طرح دیگر علماء کا بھی معاملہ رہا۔امام ابوحنیفہ کے شاگر د امام محمد، امام مالک کے شاگرد بھی ہیں۔ یہ حضرات بعض معاملات میں کسی اور عالم دین کو ترجیح دیتے تھے اور بعض معاملات میں کسی اور کو۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ اور فرقہ واریت کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہمارا مسلک اور ہمارے مسلک کے علماء جو کچھ کہیں گے وہ حق ہی ہوگا اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہی رویہ شخصیت پرستی اور فرقہ پرستی کہلاتی ہے۔دین کے متعلق اپنی تمام تر وفاداریاں حق کے ساتھ رکھیں نہ کے اپنے مکتبہ فکر سے ۔ کسی معاملے میں مکاتب فکر سے متفق ہوتے ہوئے شخصیت پرستی سے بچنا ہی دراصل مشکل کام ہے جس پر ہمارے اسلاف عمل کیا کرتے تھے۔ انہوں نے دینی معاملات میں بھی کسی بھی ایک شخص کو معیار نہیں بنایا بلکہ ہر ایک رائے پر احترام کے ساتھ تنقیدی نگاہ ڈال کر اس کا جائزہ لیا ۔ ذاتی الزامات پر مبنی کتابوں پر ہرگز توجہ نہ دیں، سبھی مکاتب فکر کی شخصیات کا احترام کریں ، ان کے علمی کام سے استفادہ کریں لیکن جہاں کہیں بات غلط معلوم ہو اختلاف بھی کیجیے، اور جہاں اپنی بات غلط معلوم ہو وہاں اپنی اصلاح میں کوئی شرم محسوس نہ کریں۔یہ آپ کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو دین اسلام کی مزید فہم سے نوازے۔ آمین۔ اگر جواب میں کوئی شک و شبہ رہ گیا ہو تو آپ بلا تکلف دوبارہ پوچھ سکتے ہیں۔ 
والسلام
حافظ محمد شارقؔ

اس پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ کے مختلف گروہوں اور مکاتب فکر کے مابین جو اختلافات پائے جاتے ہیں، ان کا ایک غیر جانبدارانہ (Impartial)مطالعہ کیا جائے اور ان کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ ان کے استدلال کا جائزہ بھی لیا جائے۔

اسلام اور سماجی خدمات


السلام و علیکم بھائی!


میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسلام سوشل ورکنگ (یعنی سماجی خدمات) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ کیا بہترین انسان صرف ایک مذہب کا مبلغ ہوتا ہے؟

احسن سلیم، کراچی

جواب:

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے بہت ہی بہترین سوال پوچھا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عمومی طور یہ خیال پایا جاتا ہے کہ نیک اور بہترین انسان صرف وہی ہوتا ہے جو عبادات میں مشغول رہتا ہو اور ہمارے دین کا مبلغ ہو۔ یقینایہ اعمال اچھے ہیں ان کی ایک خاص اہمیت ہے لیکن سارا کا سارا دین یا نیکی اسی کو سمجھ لینا ایک سنگین غلطی ہے۔اسلام ہماری زندگی کو صرف نماز روزہ حج و زکوٰة پر نہیں لگاتا بلکہ یہ ہمیں اُس راستے پر گامزن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کا مکمل راستہ یہی ہے کہ انہوں نے صرف نماز و روزہ کی تلقین نہیں کی بلکہ حقوق انسانی کے متعلق سب سے بڑھ کر کام کیا اور اپنے ساتھیوں (رضی اللہ عنہم) کو بھی اس کی تلقین کی۔

اگر آپ اسلامی تاریخ اور سیرت النبی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح سماج کی خدمت کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت سے قبل بھی سماجی کام میں مشغول ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ اس کی شہادت ہمیں صحیح البخاری کتاب الوحی میں ملتی ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے کہا کہ ”آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ©‘کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیںناداروں کی خبر گےری کرتے ہیں‘مہمانوں کی مےزبانی کرتے ہیںاور مصےبت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔“ آج کوئی سماجی ادارہ خواتین کے لیے کام کرتا ہے، کوئی بچوں کے لیے کام کرتا ہے، کوئی تعلیم کے لیے کوئی صحت کے لیے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی خدمات کسی ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط تھی۔ میرے نزدیک تاریخ انسانی کے اس سب سے بڑھ کر سماجی کام کیا ہوگا کہ عرب میں زندہ بچیوں کو دفنادیا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظالمانہ رسم کے خلاف قدم اٹھایا ۔ خواتین حقوق سے محروم تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہر قسم کے حقوق دلائے۔غلام طبقہ پِس رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آزادی کی بہت سی راہیں (حکم خداوندی کے تحت) نکالیں اور انہیں وہ مقام عطا کیا کہ ایک غلام بھی قیادت کا اہل قرار پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی میں سماجی خدمات کی اور بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔سیرت النبی کے بعد اگر آپ قرآن مجید دیکھیں تو وہاں بھی نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے اس میں سوشل سروس ایک لازمی حصہ ہے۔سورة نمبر ۲، البقرہ آیت نمبر ۷۷۱ میں اللہ فرماتے ہیں: 

”نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور االلہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰ? دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔“

قرآن مجید کی یہ آیت اسلام میں نیکی کے جامع تصور کو بالکل کھول کر بیان کردیتی ہے۔اس آیت میں صرف عبادات کو نیکی سمجھ لینے کے خیال کی واضح طور پر تردید بھی کی گئی ہے اور صرف سماجی خدمات کو نیکی سمجھنے کی بھی۔یہ آیت خود اتنی واضح ہے کہ اس سے زیادہ وضاحت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سماجی خدمات صرف مشہوری کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن قرآن نے نہ صرف سوشل سروس کی تلقین کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ایمان باللہ اور آخرت کے تصور سے اس میں اخلاص بھی پیدا کردیا کہ جو بھی کام ہو صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو نہ کہ دنیاوی دکھلاوے کے لیے۔اس طرح کئی احادیث بھی اس متعلق موجود ہیں۔ اگر ہم ان سب کو یہاں بیان کریں تو یہ جواب بہت زیادہ طویل ہوجائے گا۔ لہٰذا انہی نکات پر اکتفاءکرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔مجھے امید ہے آپ کو سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔ اگر کوئی شبہ باقی رہ جائے تو بلا تکلف دوبارہ پوچھ سکتے ہیں۔

والسلام
حافظ محمد شارق

Thursday 18 October 2012

تقابل ادیان


تقابل ادیان کیوں؟؟؟
سوال
کیا ہم اپنے دین کو پوری طرح سمجھ چکے ہیں ، پوری طرح سے اس کی تعلیمات ، اس کے مسائل اور سب سے اہم قرآن و حدیث جان چکے ہیں؟ ہم ابھی تک ان کو ہی صحیح طرح نہیں سمجھے ، ان پر پورا عمل نہیں کیا تو یہ تقابل ادیان کی ضرورت کیوں کر پیش آئی؟ اپنا دین سمجھا نہیں دوسرے میں گھُس چلے ہیں ہم۔  ہم دوسرے کے مذہب کو اہمیت ہی کیوں دیں جب کہ اپنا اسلام ہمارے لیے کافی ہے؟ کیا صوفیاء بھی تقابل ادیان میں کام کرتے تھے؟
)محمد بلال عطاری۔ کراچی(

جواب: السلام و علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ! ہر انسان کے لیے دعوت و تبلیغ کا ایک علاحدہ میدان ہوتا ہے، یہ ضروری نہیں ہے ہر داعی مفتی ہو، یا ہر مفتی محدث ہو۔ بنیادی تعلیم کے بعد جس کا جو میدان ہوتا ہے وہ وہیں کام کرتا ہے۔ اسی طرح دعوت و تبلیغ کے لیے تقابل ادیان بھی ایک اہم ذریعہ ہے، اسلامی تاریخ میں تقابل ادیان کوئی نیا موضوع نہیں ہے،
تقابل ادیان کے میدان میں اگر کوئی اسلام کے بنیادی علوم سیکھے بغیر آئے گا بلا شبہ یہ غلط ہے۔ دین کے بنیادی علوم حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تقابل ادیان کے طالب علم کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک عام مسلمان کو بھی اسلام کے بنیادی علوم مثلاً مڈل سطح کی عربی قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جاسکے، فقہ جس سے ہماری عبادات اور حلال و حرام کا علم ہوجائے ، ایمانیات کے چھ بنیادی اصول پر بلا تاویل یقین ہو اور اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے ، اسلام کی روح کیا ہے، اسے سمجھنا ‘ یہ بنیادی علم ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی مسلمان علیحدہ میدان منتخب کرتا ہے تواس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ ایک مسلمان ان علوم کو حاصل کرلینے کے بعد ڈاکٹر بنے یا انجینیر، دعوت و تبلیغ کے لیے وہ ہر طرح سے کام کرسکتا ہے ۔پھر جو لوگ دین کی دعوت دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں ، اور علوم اسلامیہ میں اسپیشلائز کرتے ہیں ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دیگر مذاہب سے بھی اچھی طرح واقف ہوں تاکہ وہ ان مذاہب کے لوگوں کے سامنے اپنی دعوت پیش کر سکیں۔
سنن درامی کی ایک حدیث ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بار تورات کی تلاوت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا ‘ بعض حضرات اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تقابل ادیان پڑھنا غلط ہے۔ اول تو یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ محدثین کی نظر سے یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا ایک راوی جابر الجعفی متہم بالکذب ہے جس کے بعد اس روایت پر استدلال درست نہیں رہتا۔ البتہ اگر یہ حدیث کسی طور پر اپنے مفہوم کے اعتبار سے بھی صحیح ثابت ہوجائے تو بھی حدیث پر معمولی سا غور واضح کردیتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تورات کی تلاوت اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کے متعلق منع فرمایا کیونکہ خود اس حدیث کے آخری حصے میں یہ صراحت ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام دوبارہ آجائیں تو وہ بھی اپنی شریعت تورات کے بجائے قرآن پر عمل کریں گے۔ لہٰذا بات بالکل واضح ہے کہ اس ممانعت میں پیش نظر تورات کو بحیثیت کتاب ہدایت پڑھنا تھا ۔ تقابل ادیان کے بغیر غیر مسلمین کے سامنے یہ بات واضح کرنا ممکن نہیں ہے کہ ان کے دین اور ہمارے دین میں آخر فرق کہاں اور کیا واقع ہے، کیوں اسلام کو دیگر مذاہب پر فوقیت حاصل ہے اورکن امور پر ان کی کتب مقدسہ اور اسلام متفق ہیں۔
دعوت و تبلیغ کے لیے تو تقابل ادیان کے شعبے کو وجود قرآن مجید اور احادیث سے ملتا ہے۔ چند مثالیں دیکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ان سے توحید کے مشترکہ عقیدے پر بات کی جانے چاہیے۔اللہ فرماتے ہیں ”آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب ایسی بات کی طرف آؤ جو کہ ہم تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں اور نہ ہی اللہ تعالی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب بنائیں پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔ “(سورہ آل عمران آیت ۴۶)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اہل کتاب سے مشترکہ نکات پر اتحاد کیا جائے اور ان سے بات کی جائے۔ یہ مشترکہ نکات کیا ہیں؟ اس کی وضاحت خود اس آیت میں توحیدہے۔اس حکم کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اہل کتاب کے مشترکہ امور معلوم کیے بغیر کس طرح ان سے بات کی جائے؟ معلوم کرنے کے دوع ہی ذرائع ہوں گے یا تو ان مذاہب کے ماننے والوں کی موجودہ صورت دیکھی جائے یا ان کی کتب مقدسہ کا مطالعہ کیا جائے۔ اگر ہم اہل کتاب کی موجودہ حالت دیکھیں تو یہی معلوم ہوگا کہ موجودہ عیسائیت میں توحید کا کوئی واضح عقیدہ موجود ہی نہیں ہے۔ لہٰذا تثلیث کے شرکیہ عقیدے کے ہوتے ہوئے یہ مشترکہ امور عیسائیوں کو دیکھ کر ہرگز معلوم نہیں کیے سکتے۔ یہ عقائد بلاشبہ ان کی کتب مقدسہ کے خلاف ہیں۔ یہ مشترکہ امور یقیناً ان کے دین اور ان کی کتابوں کے مطالعے سے ہی معلوم ہوں گے تاکہ ان سے بات کی جاسکے۔
قرآن مجید کا یہ دعویٰ ہے کہ توریت و انجیل محرف کتابیں ہیں ، یہ ہمارا مجمل ایمان ہے لیکن اس کی تفصیل اور یہ دعویٰ اسی وقت ثابت ہوگا جب ہمیں ان کتابوں کی تاریخی حیثیت کا علم ہو۔

دعوت و تبلیغ کے لیے اس کی اہمیت کا انکار کسی بھی طرح نہیں کیا سکتا۔ چنانچہ ہم دور نبوت میں دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو خاص یہود کی زبان عبرانی سیکھنے کا حکم دیا تاکہ یہود کی دستاویزات پڑھ سکیں۔ بعد میں بہت سے صحابہ و تابعین نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور کعب الاحبار سے یہود کی روایات کا علم حاصل کیا۔حضرت شاہ ولی اللہ نے اصول تفسیر کی کتاب الفوز الکبیر میں قرآن مجید کے جو موضوعات گنوائے ہیں، تقابل ادیان بھی انھی میں سے ایک شاخ ہے۔امام غزالی، شیخ عبد القادر جیلانی غوث صمدانی نے بھی اپنی کتب میں فرقہ باطلہ کا رد کیا ہے، چنانچہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھوں نے اسلام کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اہمیت دی ہے۔ کیونکہ یہ کام ہمارے صوفیاء، علماء اور سب سے بڑھ کر خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ امام رازی، ابو منصور عبد القاہر، امام غزالی،ابوالہذیل، ابو اسحاق ابراہیم بن سیار نظام، ہشام بن الحکم، ابن حزم، علامہ محمد عبد الکریم شہرستانی، ابن تیمہ، یعقوب کندی، جاحظ وغیرہ کے نام آشنا ہر شخص جانتا ہے۔ جدید مثالوں میں آپ شاہ ولی اللہ، حضرت مجدد الف ثاثی، شیخ احمد دیدات، پیر کرم علی شاہ ازہری، مولانا ثنااللہ امرتسری، مولانا قاسم نانوتوی، اور دیگر علما ہیں اور آپ جانتے ہوں گے کہ ان میں کون کون صوفیاء ہیں۔
 ان سب کے پیش نظر بلا شبہ یہ کہنا صحیح ہے کہ اپنے دین کی بنیادی تعلیم حاصل ہوجانے کے بعد بلا تردد کسی بھی مذہب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ۔بشرطیکہ کہ کسی استاد کی رہنمائی میں ہو، تاکہ گمراہی کا اندیشہ نہ رہے۔
والسلام
حافظ محمد شارقؔ 


Tuesday 16 October 2012

کیا سالگرہ منانا حرام ہے؟


السلام و علیکم ! اسلام میں سالگرہ منانے کا کیا تصور ہے؟ بعض اسے بدعت کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں جائز ہے۔کیا سالگرہ منانا حرام ہے؟
محمد سلمان حنیف، کوئٹہ پاکستان 
جواب:
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ! 
 سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ سالگرہ کو ہم بدعت نہیں کہہ سکتے کیونکہ کوئی چیز بدعت اس وقت بنتی ہے جب اسے دین میں داخل کیا جائے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سالگرہ منانا کوئی دینی عمل ہے، خواہ وہ اسے فرض سمجھے یا مستحب، تو پھر یہ اس کے لیے بدعت ہو گی۔لیکن لوگ اسے دینی نہیں بلکہ دنیاوی عمل سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں سالگرہ اور اس قسم کی دیگر دنیاوی رسومات کے متعلق بدعت یا حرام ہونے کا فیصلہ کرنے سے قبل یہ معلوم کرلینا چاہیے کہ جس چیز کے متعلق ہم معلوم کرنا چاہ رہے ہیں اس کی تاریخ اور موجودہ صورت کیا ہے۔ سالگرہ منانے کا رواج کب سے اور کیوں کر ہوا ہے، اور اس کی موجودہ صورت کیا ہے، ان سب چیزوں کو دیکھ لیا جائے تو بات واضح ہوجائے گی۔ 
سالگرہ منانے کا رواج تاریخ میں ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور سے قبل ملتا ہے۔ روم و یونان کی قدیم تہذیب میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ارواح اپنی سالگرہ کے دن زمین پر آتی ہیں،لہٰذا اس دن ان کی پرستش کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا، تاہم اُس وقت تحائف وغیرہ کا سلسلہ نہیں تھا۔ مصر کی تہذیب میں بھی دیوتاؤں کی پرستش خاص ان کے یوم پیدائش پر کی جاتی تھی، امریکی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق قدیم دیوتا پرست تہذیبوں میں دیوتاؤں کی سالگرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اس دن خاص ان کی پوجا کی جاتی تھی۔البتہ سالگرہ کی وہ صورت جو آج رائج ہے، یعنی کیک کاٹنا ، تحائف دینا اور چھوٹی سی تقریب کرنا ، اس کا تعلق خاص یونانی تہذیب سے ہے۔یونانی تہذیب کے لوگ چاند کی دیوی ارتمس کو پوجتے تھے اور اس کی سالگرہ کے دن ٹیبل پر کیک رکھ کر موم بتیاں روشن کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ سالگرہ عیسائیوں کے ہاں رائج ہوئی، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اپنی سالگرہ مناتے ہیں۔سالگرہ کی مبارک باد دینے کا رواج بھی عیسائیوں کے ہاں سے شروع ہوا۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہندو اور مسلمانوں میں سالگرہ کا رواج عام ہوا۔ 
تاریخ جاننے کے بعد اب ہم علمائے کرام کے موقف کی طرف جاتے ہیں۔ اس بارے میں جدید علماء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ بعض کے نزدیک یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک ناجائز۔ دونوں گروہوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔
 جو علماء اسے ناجائز کہتے ہیں ان کے نزدیک سالگرہ اس زاویہ نگاہ سے ناجائز ہے جس طرح بسنت، ہولی، مہندی مایو، اور شادی کی ہندوانہ رسوم غلط ہیں، کیونکہ عام طور پر جب مسلمان اپنی شادیوں میں یہ رسومات کرتے ہیں تو ان کا مقصد بھی خوشی ہوتا ہے لیکن یہ اپنی اصل کی وجہ سے ناجائز ہے کیونکہ یہ حقیقت میں مشرکین کا تہوار ہے جو ہمارے ہاں رائج ہوا۔ اس کے علاوہ ان علماء کے نزدیک سالگرہ چونکہ سال گزرنے پر منائی جاتی ہے لہٰذا زندگی کا ایک سال کم ہونے پر مبارک باد دینا یا خوشی منانا غیر منطقی ہے۔
 جو علماء اسے جائز سمجھتے ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ سالگرہ منانا کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی بھی عام دنیاوی کام جیسے کھانا پینا، تفریح کرنا، کھیل کود وغیرہ کی ہے۔ اگر اس میں کوئی ناجائز کام ہو گا تو اسے ناجائز کہا جائے گا اور اگر نہیں ہو گا تو مباح اور جائز ہے۔ سالگرہ کی تاریخ اگرچہ قدیم مشرکانہ تہذیب سے ملتی ہوں لیکن ہمارے مسلمان بھائی کسی مشرکانہ یا عیسائی پس منظر میں سالگرہ نہیں مناتے بلکہ وہ اس دن کو بطور خوشی مناتے ہیں، ان کے پیش نظر صرف تفریح کرنا ہوتا ہے۔
میرا ذاتی رویہ اس بارے میں یہ رہا ہے کہ میں اپنی سالگرہ مناتا نہیں ہوں لیکن اس دن خاص اس بات پر ضرور غور کرتا ہوں کہ مقصد حیات اور منزل کی طرف کتنا اور کس طرح کا سفر طے کیا ہے ، کمی کوتاہی وغیرہ دیکھتا ہوں اور آیندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرتا ہوں۔کبھی کبھار اس دن روزہ اور صدقہ بھی کرلیا کرتا ہوں، میرے خیال میں جو لوگ سالگرہ مناتے ہیں ان کے یہ بات مناسب ہوگی کہ اگر وہ لوگ دن سے خود احتسابی کے تصور کو منسلک کردیں تو فائدہ ہوگا ۔

آپ دونوں جانب کے دلائل کا مطالعہ کرکے اپنی رائے قائم کرسکتے ہیں۔

دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ 
والسلام
حافظ محمد شارقؔ

Monday 1 October 2012

Is 9:29 ayah of Quran encourage Muslims to kill disbelievers?









Question (asked by Christian):


If Quran says in 2:256, "There is no compulsion in religion". Then why it is said in Surah Taubah 9:29 said, “Fight those who do not believe in God, nor in the latter day, nor do they prohibit what God and His Apostle have prohibited, nor follow the religion of truth, out of those who have been given the Book, until they pay the tax in acknowledgment of superiority and they are in a state of subjection.”

Answer: (By Hafiz Muhammad Shariq)

9:29 of Quran doesn't encourage Muslims to kill them who don’t believe in Islam, because if we read this ayah carefully it says:

“Fight those who believe not in God nor the Last Day, nor hold that forbidden which hath been forbidden by God and His Apostle, nor acknowledge the religion of Truth”..

But is it ended here? No, it continues and gives the actual reason for the fighting, it is:

“until they pay the Jizya with willing submission, and feel themselves subdued”

The reason is ONLY and ONLY if they refuse to pay the jizya – Willingly. there is no single verse in Quran which says to kill the disbelievers just because they are disbelievers. Muslims are not permitted to attack non-Muslims who signed peace pacts with them, even Quran enjoins Muslims to be respectful and justice with them.

Allah forbids you only about those who fought you on account of faith, and expelled you from your homes, and helped (others) in expelling you, that you have friendship with them. Those who develop friendship with them are the wrongdoers. (Surah 60: Ayah 8)
Once they pay the jizya tax they can continue to believe in their atheistic pagan beliefs and they are allowed to do their religious practices. they can live under the protection of the Islamic State. And we all know that jizya is applicable only in an Islamic state. Neither India, nor U.S and Britain are Islamic states.

Now people might say isn’t it unfair that they have to pay the jizya tax? Not really, the jizya tax is very cheap and affordable, it can be just about 0.4%, but it grants the non-Muslims many benefits, which even the Muslims don’t get! For instance, the non-Muslims who are paying jizya in an Islamic state are not obliged to take part in any battle or war, And you should know that According to Islamic law as quoted by Malik's Muwatta Book 17, Number 17.24.46:

"The sunna is that there is no jizya due from women or children of people of the Book, and that jizya is only taken from men who have reached puberty.”

So It is a perfectly fair that verse 9:29 doesn't encourage the Muslims to do terrorism.

Monday 24 September 2012

راستے کے حقوق ۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہتے ہیں؟


راستے کے حقوق ۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہتے ہیں؟


اللہ تعالیٰ نے اسلامی معاشرے میں لوگوں کے درمیان محبت و الفت قائم رکھنے کے لیے کچھ معاشرتی تعلیمات دی ہیں ؛ جن پر عمل پیرا ہوکر ہم آپس میں محبت و اتفاق سے رہ سکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک تعلیم یہ ہے مسلمان کسی بھی انسان کو اذیت و تکلیف نہ پہنچائے اور نہ ہی اس کا سبب بنے۔ بکثرت قرآنی آیات اور احادیث نبوی موجود ہیں جو کسی بھی انسان بالخصوص مسلمان کو اذیت و تکلیف پہنچانا سے سختی سے منع کرتی ہیں ۔اگر آپ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ حسی و معنوی ، قول و فعلی کسی بھی شکل اور کسی بھی رنگ میں کسی کو بھی نقصان پہنچانے پر سخت وعید و تنبیہ آئی ہے۔
ہمارے ہاںیہ ایک عجیب طرزِ عمل بن گیا ہے کہ لوگ سڑکوں پر ٹینٹ (خیمے) لگا کر شادی، مہندی، مایو وغیرہ کرتے ہیں۔ربیع الاوّل آتے ہیں ہر گلی سڑک پہ خیمے نظر آتے ہیں جہاں محفل سجی ہوئی ہوتی ہیں اور بعض مذہبی جماعتیں خود یہ محفل میلاد، قراء ت اور دیگر مذہبی محافل منعقد کرواتی ہیں جس کا اہتمام سڑکوں پر ہوتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان محفلوں صرف عوام ہی نہیں بلکہ بعض ’’ علماء‘‘ بھی شریک ہوتے ہیں اور گھنٹوں مذہب اسلام پر تقریر کرکے جاتے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس طرح سڑکوں پر محفل منعقد کرنے کے بارے میں اسلام کا کیا نقطۂ نظرہے۔
اسلام نے انسانوں کو جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کے متعلق احکام دیے وہیں ہمیں اس بات سے بھی جاہل نہیں رکھا کہ ہمیں بحیثیت ایک مسلمان شہری معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے ۔ اسلام نے انسان کی اپنی ذات کے حقوق بھی بتلائے تو پھر گھر کے حقوق بھی بتائے۔ ان سب کے بعد اسلام گھر سے باہر کے معاملات میں کے متعلق حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کرتا بلکہ راستے کے حقوق کے تحفظ کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
’’ راستوں میں بیٹھنے سے باز رہو ، اگر تم بیٹھنے سے باز نہیں رہ سکتے تو راستے کا حق ادا کرو ۔ صحابہ نے عرض کیا ؛اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! راستے کا حق کیا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
نگاہیں جھکا کر رکھنا ، دوسروں کو اذیت نہ پہنچانا ، لوگوں کے سلام کا جواب دینا ، نیکی کا حکم کرنا ، اور برائی سے روکنا ۔ ‘‘
اس حدیث کو پڑھنے کے بعد آپ خود سوچیں کہ اس بارے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمارہے ہیں اور ہم لوگ جو عشقِ رسول کا دعویٰ کرتے ہیں ہیں، کیا کررہے ہیں؟کس قدر شرم کا مقام ہے کہ ہم اسی دین کے نام پر سڑکیں بلاک کرکے دین کی تبلیغ کرتے ہیں جو اس حرکت سے ہمیں منع کرتا ہے؟ کیا یہ ہمارے لیے شرم کا مقام نہیں کہ جس نبی نے ہمیں لوگوں کو اذیت پہنچانے سے منع کیا، ہم اسی نبی کی میلاد پر اسی کی نافرمانی کرتے ہوئے سڑکیں بلاک کردیتے ہیں، لاؤڈ سپیکر میں نصف شب تک نعتیں بجاتے رہتے ہیں۔ 
یاد رکھیں ! اسلام دین رحمت ہے، اس کی تبلیغ و اشاعت کسی کے لیے زحمت بناکر نہ کیجیے یہ عمل کسی بھی صورت میں آپ کے لیے باعث خیر نہیں ہوگا، اس تقریب میں چاہے تلاوت قرآن ہی کیوں نہ ہو رہی ہو اس میں آپ کی شرکت آپ کے لیے روزِ آخرنجات کا سبب نہیں ہوگی، بلکہ اس عمل سے محلے والوں کو ، راہ چلنے والوں کو جو تکلیف پہنچ رہی ہوگی وہ آپ کے لیے آخرت میں وبال بن جائے گا۔ ایسی محافل میں اہتمام کرنے والے اوراس میں شرکت کرنے والے دونوں پر ہی یہ وبال ہوگا۔ 

جس شخص پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لعنت ثابت ہوجائے پھر کیا اس کے لیے محشر میں کوئی شفاعت کی امید ہوسکتی ہے؟کچھ لوگ ۱۲ ربیع الاول کے دن جلوس نکالتے ہیں ؛ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان جلوس کی سرپرستی کرنے والوں میں بعض ’’علماء‘‘ بھی شامل ہوتے ہیں ۔ ان جلوس کی وجہ سے اولا تو راستے بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو نقل و حرکت میں تکلیف پہنچتی ہے ، ایک مرکزی شاہراہ بند ہونے سے سارے شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ نیز لاؤڈ سپیکر کی آواز اور دیگر آلات وغیرہ سے بھی بزرگ اور بیماروں کو سخت اذیت ہوتی ہے اور ان کے آرام میں زبردست خلل پڑتا ہے حالانکہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا بہت گناہ کا کام ہے ۔ علمائے کرام نے کبھی اس قسم کے تقاریب کی تائید نہیں کی، بلکہ وہ خود اس سے منع کیا کرتے تھے۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
’’محفلِ میلاد اور ہر قسم کا ذکر مبارک نہایت خلوص سے ہو کوئی حال بناوٹ پر نہ ہو، اور نہ کسی کی نیند خراب ہو اور نہ ہی کسی کی نماز میں خلل واقع ہو۔‘‘
(احکام شریعت: صفحہ ۱۷۴)
اپنے علمائے کرام کے نامکا دم بھرنے والے ہم مسلمان اپنے دل سے تو پوچھیں کہ ہم اس محفل کے وقت ہم کتنے لوگوں کی نیند خراب کررہے ہوتے ہیں ؟ کتنے بوڑھے ہیں جو بے چارے گولیاں کھاکر سوتے ہیں اور آپ کے لاؤڈ سپیکر کی ایک آواز سے ان کی آنکھ کھل جاتی ہے؟ ہماری وجہ سے کتنے طلباء کی پڑھائی میں خلل واقع ہورہا ہوتا ہے؟ کتنے لوگ عبادت میں مصروف ہوتے ہیں جو آپ کی وجہ سے عبادت نہیں کرپاتے۔ خدا کی قسم اسلام تو وہ دین ہے جو غیر مسلموں کے مذہبی حقوق کی بھی حفاظت کرتا ہے، انہیں اپنے مذہبی فرائض انجام دینے کی آزادی دیتا ہے اور ہم اسی دین کے ماننے والے مسلمانوں کی نماز میں خلل واقع کریں اور پھر اس حرکت پر جنت کی امید رکھیں؟
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اذان بھی تو لاؤڈ سپیکر پر ہوا کرتی ہے تو کیا ہم وہ بھی نہ دیں؟ سڑکوں پر روز سیاسی جلوس بھی تو نکالے جاتے ہیں تو کیا ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سال میں ایک دن بھی جلوس نہیں نکال سکتے؟ 
ارے خدا کے بندوں! اذان بے وقت نہیں ہوتی، مقررہ وقت پر ہوتی ہے، نصف شب کو کبھی کوئی اذان نہیں ہوتی، سڑکوں پر سیاسی جلوس نکالے جاتے ہیں تو وہ بھی غلط ہے لیکن آپ کی مذہبی محفل سے دین کو نقصان پہنچتا ہے۔ کیا ہمارا دین اس طرح سے ہے کہ سڑکیں بلاک کرکے لوگوں کو اذیت دے کر آپ نبی صلی اللہ علیہ کا ذکر کرو؟ 
ہم لاکھوں روپیخرچ کرکے جناب اویس رضا قادری اور ان جیسے دیگر نعت خواں کو نعت پڑھنے کے لیے مدعو کرتے ہیں ، حیرت تو یہ ہے کہ ہم ان محفلوں میں بارہا انہی علماء کا نام لیتے نہیں تھکتے جوہمیں یہ کہتے ہیں کہ:
’’اجرت پر میلادکرانا جائز نہیں یہ بھی اس محفل کے آداب کے خلاف ہے۔‘‘
(احکام شریعت: صفحہ ۱۴۴)
کیا ہمارا یہ عمل منافقانہ نہیں ہے کہ ہم ایک طرف خود ان علماء کا نام لیوا اور عاشق کہلوائیں اور دوسری طرف انہی کی تعلیمات سے انکار کردیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ محافل خود محلے کے لوگ کرتے تو پھر اس سے ان کی وضامندی ثابت ہوگئی ۔ لیکن ذرا عقل سے کام لے کر سوچیں کیا واقعی سب لوگ آپ کی ان حرکتوں پر راضی ہوتے ہیں؟ کیا آپ کے محلے میں ایسا ایک بھی فرد نہیں جو اس سے پریشان ہو؟ کوئی بالغ فرد تو چھوڑ دیں اگر کوئی نومولود بچہ بھی سو رہا ہو تو اسے تکلیف نہیں ہوگی؟بالفرض تمام محلے والے بھی راضی ہیں تو آمد و رفت کے لیے استعمال ہونے والے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرکے محفل کرنے سے ایسا نہیں ہوتا کہ راہ گزرنے والوں کو آپ کی وجہ سے اپنا راستہ تبدیل کرنا پڑجاتا ہے؟ انہیں جو تکلیف ہوتی ہے اس کی ذمہ داری یقیناًآپ پر ہی ہوگی۔ اپنے دل و دماغ کو ہر قسم کے تعصب سے پاک کرکے یہ حدیث پڑھیں اور خود فیصلہ کرلیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 جس نے مسلمانوں کو ان کے راستے میں ایذاء پہنچائی اس پر مسلمانوں کی لعنت ثابت ہوگئی۔ (طبرانی)
ذرا پھر سوچیں کہ کیا ہمارا یہ عمل منافقانہ نہیں کہ ہم عشق رسول کی محفل سجائیں، سیرت رسول کے جلسے کریں ، لیکن اسی محفل اور جلسے میں اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دھجیاں بکھیر دیں۔ مجھے نعت اور سیرت کی ان محفلوں کے انعقاد سے قطعی کوئی اختلاف نہیں ہے ، بلاشبہ ایسی محفلیں سجانا ایمان کی دلیل ہے ،لیکن کیا ان کا اہتمام سیمینار ہال میں نہیں کیا جاسکتا؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو تکلیف دے کر ہی یہ کام کریں؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان سلامت رہیں 
(بخاری: کتاب الایمان) 
اب آپ خود اپنا یہ عمل محاسبہکیجئے کہ آپ اپنے ہاتھوں سے کس اذیت میں لوگوں کو مبتلا کررہے ہیں؟اپنے زبان سے لاؤڈ سپیکر پر نعت و قراء ت پڑھ پڑھ کر لوگوں کو کیا تکلیف پہنچا رہے ہیں؟خدارا ذرا سوچیے! اسلام ایک باوقار دین ہے ؛ اسلام کیسے کسی کو تکلیف دینے کی تعلیم دے سکتا ہے؟ اس کی یہ ہرگز تعلیم نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو تکلیف پہنچاکر اسلام کے گیت گائیں۔ لوگوں کو تکلیف پہنچا کر قراء ت کرنا بھی آپ کے لیے ثواب نہیں وبال ہوگا۔
ترمذی شریف میں سہل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اﷲعلیہ وسلم کے ساتھ غزوہ کیا ، راستہ میں پڑاؤ ہوا تو لوگوں میں خیمے قریب قریب لگا لیے اور راستہ تنگ کردیا۔ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو بھیج کر لوگوں کے درمیان اعلان کرایا کہ جو شخص راستہ میں تنگی پیدا کریگا یا راستہ کو کاٹے گا تو اس کا جہاد جہاد نہیں۔
اس واقعے کو بار بار پڑھیں، میرے خیال میں اس سے زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ، اس حدیث سے کس قدر واضح ہے کہ وہ معاملات جنہیں ہم بہت معمولی سمجھتے ہیں کتنے سنگین ہوتے ہیں۔ جہاد کی فضیلت قرآن و حدیث میں بہت زیادہ وارد ہوئی ہے لیکن حقوق العباد کی بظاہر معمولی سی کوتاہی بھی اس عظیم عبادت کو غیر مقبول بناسکتی ہے۔ 
یہ روایت خاص ان مذہبی لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے جو سڑکوں پر رکاوٹیں ڈال کر محفل نعت و ذکر سجاتے ہیں اور اس گمان میں ہوتے ہیں انہیں بہت سا ثواب مل رہا ہوگا لیکن حقوق العباد میں لاپرواہی کرتے ہوئے لوگوں کو تکلیف دینا ، راستہ بند کرنا انکا سارا عمل برباد کردیتا ہے اور انکے لیے وہ عمل ثواب نہیں وبال بن سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب دین کی صحیح فہم عطا فرمائے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلائے۔
واخردعوانا ان الحمد اللہ رب العٰلمین

Wednesday 5 September 2012

International Islamic SMS Service


Join our Islamic SMS service and get daily alerts or updates about Islamic knowledge on your Mobile Phone.we send all Islamic messages on Mobile phone as SMS in two language, that is, Urdu (Roman) and English. we share the Fiqh message which about most of younger have no knowledge. like Salah, Taharat, etc please join and invite other to join this service. it will be sadqa for you.

To join this service Go to write message and Type:

follow hamaraislam

and send this SMS for one-time to (below-mentioned) number of your country:

  • Afghanistan: 40404 (Roshan & Etisalat)
  • Argentina: 89338 (Movistar, Personal, Nextel & Claro)
  • Australia: 0198089488 (Telstra)
  • Azerbaijan: 4040 (Bakcell)
  • Bahrain: 88000 (VIVA) & 98555 (Zain)
  • Bangladesh: 9594 (Citycell)
  • Brasil: 40404 (TIM & Nextel)
  • Bhutan: 40404 (B-mobile)
  • Canada: 21212 (All Networks)
  • Cambodia: 40404 (Cellcard & Smart Mobile)
  • Colombia: 40404 (Tigo)
  • Denmark: 40404 (Telmore)
  • Egypt: 4040 (Vodafone) & 2222 (Mobinil)
  • Georgia: 40404 (Beeline & Geocell)
  • Grenada: 176 (Digicel)
  • India: 53000 (Bharti Airtel, Reliance, Videocon & TATA DOCOMO)
  • Indonesia: 89887 (AXIS, 3, Telkomsel, XL Axiata, Bakrie Telecom, TelkomFlexi, Indosat)
  • Iraq: 71117 (Zain), 1432 (Asiacell) & 9988 (KOREK)
  • Ireland: 51210 (Vodafone & Meteor Mobile)
  • Italy: 4880804 (Wind), 3424486444 (Vodafone) & 3399940424 (TIM)
  • Jordan: 90903 (Zain) & 98788 (Umniah)
  • Kazakhstan: 4040 (Beeline & Kcell/Activ)
  • Kenya: 89888 (Safaricom) & 40404 (Airtel)
  • Kuwait: 89887 (Zain)
  • Korea: #1234 (LG U+)
  • Liberia: 4040 (Cellcom)
  • Malaysia: 28933 (Maxis, Tune Talk, DiGi & Celcom)
  • Maldives: 4040 (Wataniya)
  • Morocco: 404 (inwi)
  • New Zealand: 8987 (Vodafone & Telecom NZ)
  • Nigeria: 40404 (Zain, MTN & Visafone) & 20644 (Glo Mobile)
  • Oman: 90914 (Nawras), 91200 (Omantel)
  • Pakistan: 40404 (Mobilink, Zong, Ufone, Waridtel & Telenor)
  • Palestinian Territories: 40404 (Wataniya) & 37373 (Jawwal)
  • Panama: 3010 (Digicel) & 89887 (Movistar)
  • Russia: 8080 (Beeline), 7070 (MegaFone Moscow)
  • Rwanda: 3434 (MTN)
  • Saudi Arabia: 840404 (STC), 710001 (Zain) & 606040 (Mobily)
  • Serbia: 40404 (Vip mobile, mt:s & Telenor)
  • Sri Lanka: 40404 (Dialog, Telecom Mobitel & Etisalat Lanka)
  • Sudan: 40404 (Zain)
  • Sweden: 71017 (3)
  • Tunisia: 871220 (Tunisiana)
  • Turkey: 2444 (Vodafone & KKTC Telsim), 2555 (Turkcell)
  • Uganda: 179 (MTN)
  • United Kingdom: 86444 (Vodafone, Orange, 3, O2, Sure CWC)
  • Ukraine: 40404 (life)
  • United Arab Emirates: 8080 (du)
  • United States: 40404 (All Networks)
  • Uzbekistan: 89338 (Beeline & Ucell)
  • Venezuela: 89338 (Movistar)
  • Yemen: 7070 (MTN)
To stop receiving messages on Mobile phone after subscription, type: UNFOLLOW hamaraislam and send to same number listed above or same number as you are receiving messages on your Mobile phone.

Wednesday 22 August 2012

آیت رجم۔ بکری کھا گئی؟


    یہ ایک بہت مشہور اعتراض جو مخالفین ِ اسلام کی جانب سے تحریف قرآن کے متعلق کیا جاتا ہے وہ ابن ماجہ میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے کہ آیت رجم کے متعلق ایک آیت بکری کھا گئی۔ ابن ماجہ کی روایت یوں ہے:
''ام المومنین عائشہ سے روایت ہے رجم کی آیت اور بڑ ے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی آیت تھی اور یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے موجود تھیں۔ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی وفات میں مشغول تھے تو گھر کی پلی ہوئی بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی۔ “
(سنن ابن ماجہ ، رقم 1944، کتاب النکاح)
    اس اعتراض کے متعلق اول تو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وہ آیت قرآن کی تھی یا بائبل کی، اس بات کی تصریح روایت میں نہیں ہے ، اور اگر کسی حدیث میں قرآن کی آیت ہونے کی صراحت ہے بھی تو اس سے قرآن کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اللہ نے سب سے پہلے قرآن کی حفاظت کا کام حفاظ کرام سے لیا۔ اس وقت قرآن کے بیشمار حافظ صحابہ موجود تھے۔ صرف جنگ یمامہ میں سات سو حافظان نے شرکت کی تھی ، تو اگر وہ آیت بکری کھا گئی تو ان حفاظ کے حافظے سے کونسی بکری کھا سکتی تھی؟

Saturday 7 July 2012

فرقہ واریت; بہتر فرقوں والی حدیث


اتحاد امّت کانفرنس میں مجھ سے ایک صاحب نے فرقہ واریت سے متعلق ایک بہت اہم سوال کیا، ملاحظہ کریں:


’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ: بنی اسرائیل میں سے لوگ بہتر(72) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور امت مسلمہ تہتر(73)فرقوں میں تقسیم ہو گی اِن میں سے بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنّت میں ، اور وہ ہے جماعت۔ ‘‘ کیا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی فرقے میں رہنا ضروری ہے ؟

الجواب:
(سائل علم حدیث اور اصول شریعت سے واقف نہیں ہے اس لیے جواب میں حدیث پر زیادہ فنی بحث نہیں کی گئی۔)
آپ نے جو حدیث بتائی وہ مکمل مشکوٰۃ شریف میں یوں ہے کہ :
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر (۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئی تھی اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔‘‘
سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھ لیجیے کہ یہ حدیث جید محدثین نے قبول نہیں کی ہے   اور اسے ضعیف  قرار دیا ہے بالخصوص حدیث کا آخری حصہ کہ ایک میں اور باقی جہنم میں جائیں گے، اس پر محدثین نے خاصا کلام کیا ہے۔ یہ حدیث دراصل دوسرے تیسرے درجے کی کتابوں میں آئی ہے، یہ حدیث دوسرے انداز سے اور بھی کئی مجموعوں میں آئی ہے،لیکن سب کا حال یہی ہے۔  تاہم اس مضمون پر احادیث کی کثرت کی اور دوسرے طرق کی بناء پر یہ حسن کے درجے پر پہنچ جاتی ہے یعنی آپ اسے قابل قبول کہہ سکتے ہیں اور اس کے مضمون پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے جید محدثین نے کیا ہے ۔
لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سے کسی مولانا صاحب نے بیان کیا ہے آپ کا سوال کہ اس حدیث سے فرقہ واریت کی تائید ہوتی ہے یا نہیں ، تو اس ضمن میں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ آپ کی بیان کردہ حدیث مکمل کرنے کے لیے میں لفظ فرقہ استعمال کیا؛ لیکن آپ نے جو حوالہ دیا اس حدیث میں فرقے کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا، ’’ملت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔فرقہ اور ملت میں فرق ہوتا۔ کسی خاص سوچ و فکر کو اپنا دین بنا کر اس پر عمل کرنے والوں کو ملت کہتے ہیں، مثلاً آپ حدیث کا انکار کرنے والوں کو ملت قرار دے سکتے ہیں۔ قادیانیوں کو ملت قرار دے سکتے ہیں، یعنی ایسے لوگ جو بنیاد سے ہی منحرف ہوجائیں ۔ اور فرقہ اسے کہتے ہیں جو دین اسلام میں ہی رہے لیکن کچھ معاملات میں اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیں، کسی فروعی اختلاف کی بناء پر اپنی دو اینٹھ کی مسجد بنا لینا دراصل فرقہ واریت ہے۔ 
محض فقہی مسائل اور اْن میں بھی محض فروعی اختلافات کی بنا پر الگ الگ سوچ و فکر رکھنے والوں پر شرعی طور پر فرقہ ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ، البتہ اس مضمون کی بہت سی احادیث میں فرقے کا لفظ بھی آیا ہے مثلاً ابن ماجہ والی روایت میں لفظ فرقہ موجود ہے، لیکن ہم فرقہ بھی کہیں تو بھی اس سے فرقہ واریت کی دلیل نہیں بنتی ۔ کیونکہ اس میں فرقہ واریت کی پیشین گوئی ہے نہ کہ حکم۔۔ دین میں فرقہ واریت کی حرمت تو نص قطعی سے واضح ہے۔ اس حدیث کو قرآن مجید کی ہی روشنی میں سمجھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن میں  بے شمار آیات فرقہ واریت کی مذمت کرتی ہیں۔

اور پھر ذرا یہ بھی سوچیں کہ جس جماعت کے جنتی ہونے کی بشارت آقا علیہ السلام نے دی ہے وہ کون ہے؟ خود اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ ما انا علیہ واصحابہ، یعنی جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔ اس حدیث سے جو لوگ فرقہ پرستی کی دعوت دیتے ہیں میں انھیں کہتا ہوں کہ آپ ذرا یہ تو دیکھ لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا طرز کیا تھا؟ (وقت کم ہے اس لیے )میں آپ کو یہاں صرف صحابہ کرام کے متعلق بتاتا ہوں۔
صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے مابین بہت سے معاملات میں اختلاف تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے اختلافات تو ایک طرف میں آپ کو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہی تقریباً ۳۰ سے زائد مسائل میں اختلافات گنوا سکتا ہوں ان سب مسائل پر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے بیٹھ کر گفتگو کی ، لیکن کیا کہیں سے کفر کے فتوے لگے؟ کیا کسی ایک صحابی نے اپنا علاحدہ فرقہ بنایا؟ کسی ایک صحابی نے (معاذ اللہ) یہ کہا کہ اختلافی مسائل میں میری ہی پیروی کرنا، ورنہ ایمان سے خارج ہوجاؤگے؟ جنت اور نجات صرف یہیں مل سکتی ہے۔ 
اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو خدارا میرے سامنے تاریخ سے کسی ایک صحابی کا صحیح قول پیش کردیں جنہوں نے کہا ہو کہ فلاں صحابی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا، فلاں کو کافر جاننا، فلاں کو سلام نہ کرنا، جیسا کہ ہم کہتے ہیں۔
سارے اختلافات کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین وہ تھے جو باہم محبت و اخوت سے رہتے تھے، آپس میں رشتے طے کرتے تھے، ایک دوسرے سے علمی و روحانی فیض حاصل کرتے تھے۔مگر افسوس کہ ہم اختلافات کرتے ہیں تو لڑتے بھی ہیں، فتوے بھی لگاتے ہیں؛ اور پھر انتہاء تو دیکھیں کہ اپنے ناپاک عمل کی دلیل نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بتاتے ہیں،ہمیں خدا کا کوئی خوف نہیں ہے، خدا کی قسم اگر وہ لوگ جن پر فتوے لگائے ہیں اگر ان میں سے ایک بھی اللہ کا ولی نکلا تو روز محشر ان تکفیری ملاؤں کی رسوائی ہی ہوگی۔ 

اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ (آمین)



حافظ محمد شارق

Monday 25 June 2012

دماغ کو صحت مند رکھیے



حافط محمد شارق
 
دماغ کو اگر صحت مند رکھنا ہے تو مصروف رہیں۔ جی ہاں، آپ نے تو ورزش، غذائیت سے بھرپور خوراک اور پھل کھا کر دماغ کو صحت مند کرنے کی تجاویز پڑھے ہی ہوں گے، لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ مصروف رہنے سے دماغ صحت مند رہتا ہے۔ جس طرح سے جسمانی ورزش کر کے جسم کو چست درست کیا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح دماغی سرگرمیوں سے بھی ذہنی ورزش ہو جاتی ہے اور دماغ صحت مند رہتا ہے۔ لوگ دماغی ورزش نہ کرنے کی وجہ سے اپنی پڑھائی لکھائی بھول جاتے ہیں۔ دماغ کو مصروف رکھنے سے آپ نہ صرف اپنا حافظہ قوی کرسکتے ہیں بلکہ سائنسی تجربات کے مطابق اس سے آپ کی شخصیت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آپ میں خود اعتمادی بڑھ جاتی ہے۔
:دماغ کو مصروف رکھنے کے کچھ طریقے :
 ۱)
آپ دماغ کا جتنا استعمال کرتے ہیں، آپ کا دماغ اتنا ہی سرگرم رہ پاتا ہے۔ اس لیے اپنے دماغ کو زیادہ سے زیادہ سرگرم رکھیں۔

۲)
مطالعہ باقاعدگی سے کریں ۔ فرصت کے لمحات کتابوں کے ساتھ گزاریں۔ ٹی وی دیکھنے کے لیے آپ جو وقت نکالتے ہیں اس میں سے مکمل نہ سہی نصف ہی آپ کتابوں اور خط میگزین کو مزید وقت دیجیے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ آپ بڑے ادیبوں کی ہی کتاب پڑھے۔ بچوں کی کتابوں میں بہت ہی آسان زبان کا استعمال ہوتا ہے، جو آپ آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی۔

۳)
اگر آپ کا ذریعہ تعلیم اردو رہی ہے اور آپ کی انگریزی کمزور ہے تو اپنی اچھی کریں۔ ایک عمر کے بعد سمجھنے کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ طالب علم کی زندگی میں جو تعلیم آپ مشکل سے سمجھ پاتے تھے، بڑے ہونے پر وہ بہت آسانی سے اور جلدی سے سمجھ میں آ جائے گا۔

۴)
اگر آپ کو لکھنے کا شوق ہے تو میگزین اور پیپر میں شائع آرٹیکلز پراپنے خیالات کے لکھیں۔ شروع میں ممکن ہے کہ ٓپ کے خیالات بے تکے یا بچوں جیسے معلوم ہوں لیکن آپ باقاعدگی سے یہ کام کریں گے چند ہفتوں بعد آپ خود موازنہ کرکے دیکھ سکیں گے آپ کا طرزِ تحریر کتنا تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ بھی دماغی ورزش کا طریقہ ہے اور آپ کو لکھنے کی عادت بھی دھیرے دھیرے پڑ جائے گی۔

۵)
اگر آپ ٹی وی دیکھتے ہیں تو ڈرامہ سیریل کے بجائے ایسے پروگرام دیکھیے جس سے آپ کے علم میں اضافہ ہو۔
 
۶)
زندگی میں آنے والی کام سے متعلق مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے آپ کی حاضر جوابی کا پتہ چلے گا۔

۷)
کچھ نئے کام جیسے؛ نئی زبان سیکھنا، کمپیوٹرگرافکس، بینک اور بازار کے ضروری کاموں کو سمجھنا وغیرہ کام کر کے آپ اپنا دماغی ورزش کر سکتے ہیں۔
  
 دماغی ورزش کے علاوہ ہمیشہ خوش رہنے کی عادت ڈالے۔ خوش رہنے سے دماغ صحت مند رہتا ہی ہے             
ساتھ ہی کشیدگی نہیں ہوتا ہے جس سے دماغی پر دباؤ نہیں بنتا ہے۔

Monday 18 June 2012

: فارسی زبان سیکھیں

Hafiz Muhammad Shariq: فارسی زبان سیکھیں: فارسی زبان  سیکھیں حافظ محمد شارق فارسی ایک قدیم ہند یورپی زبان ہے جوای...

Wednesday 13 June 2012

حیوانات اور صفائی

حیوانات اور صفائی
حافط محمد شارق, 
صرف انسان ہی نہیں، بلکہ جانوروں میں بھی صاف ۔ صفائی کی عادتیں ہوتی ہیں۔ یہ اپنے ارد گرد ماحول اور کھانے پینے میں صفائی پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ جانوروں کی زندگی میں معمولی سا جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا یہ انسانوں کو سکھاتے ہیں کہ ہمیں اپنی صاف صفائی کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ یہ ہمارے صحت کے لئے بہت ضروری ہے اور اپنے کھانے پینے اور ارد گرد کے ماحول کی صفائی کی وجہ سے ہم کئی طرح کی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ دنیا میں ایسے کئی جانور ہیں، جن کی صاف صفائی کی عادتیں اتنی اچھی ہوتی ہیں کہ ہم انسان بھی ان سے یہ باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ہم چھوٹے تھے تو ہماری اوہمارے آس پاس کی صاف صفائی کا خیال رکھنے کے لئے ہمارے ماں باپ ہوتے ہیں، لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ان جانوروں کا ایسا کون ہوتا ہوگا؟ دراصل، یہ خود ہی اپنی صاف صفائی کرتے ہیں۔ چلیں اب کچھ جانوروں میں صاف صفائی کی اچھی عادتوں کو دیکھتے ہیں۔

بلی:
بلیاں اپنے جسم کی صفائی کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ اپنی فطرت کے مطابق وہ خود کو چاٹ کر صاف رکھتی ہیں۔ ساتھ ہی بلیوں کی کھانے کی عادتیں بھی بہت اچھی ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بلی بہت طریقے سے کھانا کھاتی ہے۔ یعنی ان کا کھانا یہاں وہاں نہیں گرتا۔ دوسرا، کھانا کھاتے وقت بلی کوئی آواز نہیں کرتی۔
بندر:
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بندر ایک دوسرے کے جسم پر جمی گندگی کو صاف کرتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی بندر میں کئی خصوصیات انسانوں والے ہوتے ہیں۔ جیسے پھل کو چھیل کرکھانے کی عادت۔
کتا:
کتے اپنے اٹھنے، بیٹھنے اور سونے کی جگہ کو ہمیشہ صاف رکھتے ہیں۔ کتے کہیں بھی بیٹھنے سے پہلے اپنی پونچھ سے اس جگہ کو صاف کرتی ہیں، پھر بیٹھتے ہیں۔ اگر آپ نے کہیں پالتو کتا دیکھا ہو تو ضرور نوٹس کیا ہوگا کہ وہ ہمیشہ صاف جگہ پر ہی بیٹھنا پسند کرتا ہے اور پونچھ سے بیٹھنے کی جگہ کو صاف کرتا ہے۔
رکون:
رکون اپنا کھانا ہمیشہ دھو کر کھاتا ہے۔ یہ بات مطالعے سے بھی ثابت ہو چکی ہے کہ رکون اپنا کھانا پہلے پانی سے دھوتا ہے، پھر اسے کھاتا ہے۔ کھانے سے گندگی کو ہٹا کر کھانا ایک اچھی عادت ہے۔
ہاتھی:
خشکی کے سب سے بڑے جانور ہاتھی بھی اپنی برادری یعنی دوسرے جانوروں کی طرح صاف صفائی کا خیال رکھتے ہیں۔ انہیں نہانا بہت پسند ہوتا ہے۔ ہاتھی روزانہ خود ہی نہانا پسند کرتے ہیں۔ اپنی سوڈ میں پانی بھر کر اپنے جسم پر گراتے ہیں۔ اس سے ان کی گرمی بھی کم ہوتی ہے اور ساتھ ہی ان کی صفائی بھی ہو جاتی ہے۔

Thursday 7 June 2012

: خدا کا وجود

 خدا کا وجود: خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل مکالمہ ملاحظہ کیجئے جس میں خدا کے وجود کو کس بالغانہ انداز میں ثابت کیا گیا ہے ۔   ’’آپ کسی...

: {حجر معلق } ہوا میں پتھر کی حقیقت

حجر معلق } ہوا میں پتھر کی حقیقت: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ وہ پتھر ہے جب نبی علیہ السلام معراج کی رات براق پر بیٹھنے لگے تو یہ پ...

سائنس اور مذہب : ایک ہی اصول


حافظ محمد شارق

یورپ کی تاریک وادیوں میں جب علمی تہذیب کا جنم ہوا اور علماء و محققین اندھی تقلید کو طوق گلے سے اتار کر پھینک چکے تو انہوں نے عقل و فطرت کے خلاف ہر نظریے کا انکار کردیا ۔عیساان کےئیت میں چونکہ کئی تحریفات اور نت نئے عقائد کا اضافہ ہوگیا تھا لہٰذا ان عقل پسند محققین نے بڑی جسارت کے ساتھ اس مذہب پر بھی تنقید کی اور اس کے عقائد کی کھوکھلی بنیادیں ظاہر کردیں۔ انہوں نے عیسائیت کے بنیادی عقائد پر ایسے منطقی حملے کیے جس سے عوام کے دلوں میں عیسائیت پر ایمان کمزور ہوتا گیا اور انہیں اپنا دین دقیانوسی خیالات کا مجموعہ محسوس ہونے لگا۔ عقل و سائنس کے دلدادہ ان محققین کی کارفرمائیوں سے روز بروز مذہبی گروہ کی بازاری خطرے میں پڑ رہی تھی ۔ چنانچہ یہ جرأت ارباب کلیسا کیلئے انتہائی غصہ کا سبب بننی اور ان کے دلوں میں سائنس کے خلاف کو ہِ آ تش فشاں پھٹ پرا۔ چونکہ ملکیت و اقتدار اسی مذہبی طبقے کے پاس تھا لہٰذا انہوں نے علماء طبیعیات اور محققین کے خلاف پرتشدد کاروائیاں شروع کردیں۔ لاکھوں علماء زندہ جلائے دیے گئے ‘ اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔مشہور طبیعی عالم گلیلیو بھی انہی میں سے ایک تھا جسے سائنسی نظریات کی وجہ سے سزائے موت دی گئی۔ 
یہ پرتشدد تحریک جب انتہائی شدت اختیار کرگئی اور ظلم و ستم اپنے عروج کو پہنچ گیا تو پھر مظلوم ترقی پسند علماء کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا اور انہوں نے مذہبی گروہ کے خلاف اعلان بغاوت کردیا ۔ ان کے لیے مذہب سے وابستہ تمام امور قابل نفرت ہوچکے تھے ۔مذہب کے غیر ضروری عقائد، نفس کشی، عبادات اور دیگر تمام حدود سے وہ تنگ آکر باہر آگئے اور ان کے لیے کسی بھی نظریے کو حق و باطل ماننے کا میزان سائنس تھا ، گویا انہوں نے سائنس کو ہی اپنا دین و ایمان بنا لیا ۔
مذہبی طبقے کی جانب سے ہونے والے مظالم کے درعمل میں اب ان جدید روشن خیال یورپی مفکرین کی عقلوں پر مادیت کا ایسا گرہن لگ چکا ہے کہ ان کے نزدیک مذہب اور خدا کی اب کوئی حقیقت ہی نہیں رہی ۔ وہ مذہب و عقیدے کو کسی بھی صورت تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہیں ‘ اگرچہ یہ سب تحریف شدہ عیسائیت کا ہی کیا ڈھراتھا لیکن تجدد پسند علماء کے ذہنوں میں مذہب کے خلاف اب ایک ایسی عداوت پیدا ہوچکی ہے کہ ہر مذہب و عقیدہ انہیں اپنی علمی تحریک کے لیے خطرہ محسوس ہونے لگاہے اور انہوں نے یہ بات اپنے ذہن میں راسخ کرلی ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے ضد اور مقابل تصور ہیں اگر علم و عقلیت اور سائنسی ترقی کو جاری رکھنا ہے تو مذہب کا ان کار کرنا ہی پڑیگا ۔ دین و مذہب سے کفر کے لیے انہوں نے سائنس کو ہی آلۂ کار بناکر استعمال کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ دنیا میں سائنسی حقائق کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں ہے۔ 
مذہب کے ان کار کے لیے ان کا سب سے مضبوط استدلال یہ تھا کہ جو شے ہمارے ادراک و حواس سے باہر ہو وہ حقیقت نہیں ہے ۔ حقیقت صرف وہ ہے جس کا ہم حواسِ خمسہ مشاہدہ کرسکیں ۔ مذہبی عقائد و نظریات کی چونکہ کوئی واضح ٹھوس دلیل نہیں ہوتی‘یہ ہمارے حواس کی زد میں نہیں آسکتے اور نہ ہی ان کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے لہٰذا یہ سب محض قدامت پسندی ہے ۔ ان کے نزدیک مذہب دراصل قدیم انسانوں کی ایجاد ہے جسے انہوں نے اپنے فہم سے بالاتر سوالوں کے جواب نہ ہونے پر ذہنی تسکین کے لیے اپنا لیا تھا ۔ لیکن اب سائنس کی ترقی نے انسان کو وہ سب کچھ بتادیا ہے جس سے وہ پہلے لاعلم تھا۔ مثلاً گزشتہ زمانوں کے لوگوں نے جب سورج کو ایک مخصوص وقت پر طلوع ہوتے اور غروب ہوتے دیکھا تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اس کے پس پردہ ایک عظیم الشان اور مافوق الفطرت ہستی کے وجود کو تسلیم کرلیں۔انہوں نے دیکھا کہ فضا میں خوبصورت قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں تو اسے انہوں خدا کا جشن قرار دے دیا۔ اسی طرح دیگر بہت سے سوالات جس کی بابت ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا اس کے متعلق انہوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ یہ اسی غیبی ہستی کا کارنامہ ہے ۔ لیکن چونکہ اب ہم اس دور میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں ان سب کے فطری اسباب معلوم ہوچکے ہیں‘ ہم جانتے ہیں کہ سورج کا نکلنا اور ڈوبنا اس کے زمین کے گرد گھومنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔سو ہمیں اس کا کریڈٹ کسی خدا کو دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ اسکی حقیقی توجیہہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے ۔موت واقع ہوجانے کے انسان کا تعلق اس دنیا سے ختم ہوجاتا ہے اور پھر وہ کبھی لوٹ کے نہیں آتا۔ مرنے سے پہلے ہم موت کے بعد کیا ہوتا، اور کچھ ہوتا بھی ہے یا نہیں اس کا مشاہدہ نہیں کرسکتے اس لیے عقید�ۂ آخرت کو تسلیم کرنا غیر ضروری ہے ۔ان کے نزدیک چونکہ مذہبی عقائد کی کوئی ٹھوس قابل مشاہدہ دلیل نہیں ہوتی لہٰذا اسے اب ایک گزرے ہوئے زمانے کا قصہ سمجھ کر بھول جانا چاہیے اور مذہبی عقائد کو تسلیم کرناانسانی عقل کی شان کے خلاف ہے کیونکہ جن سوالات اور مسائل کے لیے خدا اور مذہب کا وجود تھا اب ہمارے پاس ان کے خالص ٹیکنیکل اور منطقی جوابات موجود ہیں۔ان ملحدین فلاسفہ کا اصرار ہے کہ ایک عقل پسند شخص ایسی کسی بات پر ایمان نہ لائے جس کا مشاہدہ حواس خمسہ سے نہ ہو۔ یہ دلیل بظاہر وزنی معلوم ہوتی ہے اور ہم میں سے بیشتر لوگوں کا جب کسی ایسے ملحد سے سامنا ہوجاتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی منطقی جواب بھی نہیں ہوتا۔ لیکن غور کریں تو یہ مذہب کے رد کے لیے ایک کھوکھلا اور غیر معیاری استدلال ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر اس نکتے پر مذہب کے خلاف کھڑا ہوجایا جائے تو پھر سائنس کی پوری عمارت بھی اسی نکتے سے زیر ہوجاتی ہے ۔کیونکہ یہ نکتہ کہ ناقابل مشاہدہ حقائق پر ایمان لانا غیر عقلی بات ہے ، سائنس خود اسی ایمان کے قفس میں پھنسی ہوئی ہے ۔ سائنس میں بیشتر نظریات (Scientific Theories) کی بنیاد ’’ ناقابل مظاہرہ استنباط‘‘ (non-demonstratable inference) ہے ۔ اسکی ایک مثال الیکٹرون ہے جسے سائنس کی دنیا میں ناقابل انکار حقیقت سمجھا جاتا ہے‘ الیکٹرون ایک ناقابل مظاہرہ امر ہے اور انسان اپنے حواس سے ان کا ادراک نہیں کرسکتا‘ بڑی سے بڑی خوردبین اسکی نمائش نہیں کراسکتی لیکن مختلف تجربات کی بناء پر اس کے کچھ ایسے اثرات (Effects) ہمارے سامنے آتے ہیں کہ ہمیں الیکٹروں کے وجود کو دیکھے بناء تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔ عموماً سائنس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف انہی امور پر بحث کرتی ہے جس کے وجود کی گواہی ہمارے حواس خمسہ دے سکیں لیکن سائنس کے مطابق ایسے ناقابل مظاہرہ حقائق استنباط (Inference) کے ذریعے معلوم ہوجاتے ہیں۔ یعنی کسی ایک چیز کے وجود اور اس پر ہونے والے اثرات سے دوسری ناقابل مشاہدہ حقیقت کو تسلیم کرنا۔ ایسی تھیوڑیز ناقابل مظاہرہ استنباط (non-demonstratable inference) کہلاتی ہیں۔ اور سائنس اسے معقول (Valid) مانتی ہے ۔ ایک اور مثال نظریہ ارتقاء (Evolution) ہے جسکی حیثیت سائنسدانوں کے ہاں یقینی ہے لیکن وہ خود بھی اس بات کو جانتے اور مانتے ہیں کہ نظریۂ ارتقاء کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بالفاظ دیگر نظریۂ ارتقاء ایک ایسی تھیوری ہے جس کی دلیل اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے لیکن ارتقاء پسند علماء کے نزدیک یہ ایک ثابت شدہ نظریہ تسلیم کرلیا گیا ہے ۔یہاں صرف دو مثالیں بیان کی گئیں ورنہ اس کی امثال کیلئے ایک مستقل کتاب درکار ہوگی۔بحرحال ناقابل مظاہرہ استنباط کے لحاظ سے سائنس خود عقائد پر منحصر ہے۔
ارباب عقل سے گزارش ہے کہ اگر وہ اپنے عقلی مزاج کے زیر اثر ہی مذہب پر غور کرلیں تو معلوم ہوگا یہی (non-demonstratable inference) مذہب کی بنیاد ہے کہ وہ امور جو ناقابل مظاہرہ ہیں اور انسان اپنے حواس سے ان کا ادراک نہیں کرسکتا تو وہ قابل مشاہدہ امور پر غور و فکر کرکے یعنی استنباط سے اس پر ایمان لائے اسی کو قرآنی اصطلاح میں ایمان بالغیب ہے۔