Sunday 11 November 2012

اسلام اور سماجی خدمات


السلام و علیکم بھائی!


میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسلام سوشل ورکنگ (یعنی سماجی خدمات) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ کیا بہترین انسان صرف ایک مذہب کا مبلغ ہوتا ہے؟

احسن سلیم، کراچی

جواب:

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے بہت ہی بہترین سوال پوچھا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عمومی طور یہ خیال پایا جاتا ہے کہ نیک اور بہترین انسان صرف وہی ہوتا ہے جو عبادات میں مشغول رہتا ہو اور ہمارے دین کا مبلغ ہو۔ یقینایہ اعمال اچھے ہیں ان کی ایک خاص اہمیت ہے لیکن سارا کا سارا دین یا نیکی اسی کو سمجھ لینا ایک سنگین غلطی ہے۔اسلام ہماری زندگی کو صرف نماز روزہ حج و زکوٰة پر نہیں لگاتا بلکہ یہ ہمیں اُس راستے پر گامزن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کا مکمل راستہ یہی ہے کہ انہوں نے صرف نماز و روزہ کی تلقین نہیں کی بلکہ حقوق انسانی کے متعلق سب سے بڑھ کر کام کیا اور اپنے ساتھیوں (رضی اللہ عنہم) کو بھی اس کی تلقین کی۔

اگر آپ اسلامی تاریخ اور سیرت النبی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح سماج کی خدمت کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت سے قبل بھی سماجی کام میں مشغول ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ اس کی شہادت ہمیں صحیح البخاری کتاب الوحی میں ملتی ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے کہا کہ ”آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ©‘کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیںناداروں کی خبر گےری کرتے ہیں‘مہمانوں کی مےزبانی کرتے ہیںاور مصےبت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔“ آج کوئی سماجی ادارہ خواتین کے لیے کام کرتا ہے، کوئی بچوں کے لیے کام کرتا ہے، کوئی تعلیم کے لیے کوئی صحت کے لیے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی خدمات کسی ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط تھی۔ میرے نزدیک تاریخ انسانی کے اس سب سے بڑھ کر سماجی کام کیا ہوگا کہ عرب میں زندہ بچیوں کو دفنادیا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظالمانہ رسم کے خلاف قدم اٹھایا ۔ خواتین حقوق سے محروم تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہر قسم کے حقوق دلائے۔غلام طبقہ پِس رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آزادی کی بہت سی راہیں (حکم خداوندی کے تحت) نکالیں اور انہیں وہ مقام عطا کیا کہ ایک غلام بھی قیادت کا اہل قرار پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی میں سماجی خدمات کی اور بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔سیرت النبی کے بعد اگر آپ قرآن مجید دیکھیں تو وہاں بھی نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے اس میں سوشل سروس ایک لازمی حصہ ہے۔سورة نمبر ۲، البقرہ آیت نمبر ۷۷۱ میں اللہ فرماتے ہیں: 

”نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور االلہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰ? دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔“

قرآن مجید کی یہ آیت اسلام میں نیکی کے جامع تصور کو بالکل کھول کر بیان کردیتی ہے۔اس آیت میں صرف عبادات کو نیکی سمجھ لینے کے خیال کی واضح طور پر تردید بھی کی گئی ہے اور صرف سماجی خدمات کو نیکی سمجھنے کی بھی۔یہ آیت خود اتنی واضح ہے کہ اس سے زیادہ وضاحت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سماجی خدمات صرف مشہوری کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن قرآن نے نہ صرف سوشل سروس کی تلقین کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ایمان باللہ اور آخرت کے تصور سے اس میں اخلاص بھی پیدا کردیا کہ جو بھی کام ہو صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو نہ کہ دنیاوی دکھلاوے کے لیے۔اس طرح کئی احادیث بھی اس متعلق موجود ہیں۔ اگر ہم ان سب کو یہاں بیان کریں تو یہ جواب بہت زیادہ طویل ہوجائے گا۔ لہٰذا انہی نکات پر اکتفاءکرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔مجھے امید ہے آپ کو سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔ اگر کوئی شبہ باقی رہ جائے تو بلا تکلف دوبارہ پوچھ سکتے ہیں۔

والسلام
حافظ محمد شارق