Monday 10 November 2014

بہشتی دروازہ



وہ اولیا جن کا مقصد صرف دین تھا، ان کو ہم مانتے ہیں، میں ان کی محنت دیکھتا ہوں تو میں خود کو ان کی خاک برابر بھی قرار نہیں دے پاتا۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ بابا فرید جس دین کی تبلیغ کرتے رہے میں انھی کا نام لے لے کر اس دین دھجیاں بکھیرتا رہوں۔ میں صرف اس جنتی دروازے کو مانتا ہوں جس کا وعدہ خود میرے پروردگار نے آپ سے ،مجھ سے اور سارے عالَم سے کیا ہے۔ 

پاکپتن کے جنتی دروازے سے گزر کر جنت مل سکتی ہے؟ 

جب میں سوچتا ہوں کہ جنت بہشتی دروازے سے مل سکتی ہے تو مجھے انبیاء کرام علیہم السلام کی سلسلہ بے معنی محسوس ہوتا ہے کہ ہر خطے میں ایک ایک دروازہ بنا لیا جاتا جہاں جنت کے سرٹیفکیٹ ملتے، جنتی دروازے کو ماننے کے بعد اخلاق و ایمان کی کوئی قدر میرے نزدیک اہمیت کی حامل نہیں رہتی، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اخلاقیات، معاشرت دین کا ایک ایک جز مجھے بوجھ لگتا ہے، غرض کہ میرے مدلل تصورات اور ایمان کا محل جسے میں قرآن و سنت سے تعمیر کرنے میں جتا ہوا ہوں، وہ سارا محل زمین بوس ہونے لگتا ہے۔ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا دین اضافی اور غیر ضروری پابندی لگتی ہے۔
سیدنا نوح علیہ السلام کا بیٹا آپ کی گود میں پل کر بھی جنت میں نہ جاسکا، حضور ﷺ امتی امتی کہتے رخصت ہوئے، مگر جنت اتنی آسان ہے کہ تین سو روپے رشوت میں تین بار جنت کی کی سند۔۔۔۔ واللہ کسی کی روح بیت اللہ میں بھی پرواز کرجائے اور وہ ایمان نہ لائے تو جنتی نہیں ہوسکتا۔ خدارا اپنے دین کو کھیل تماشا مت بنائیں ! اگر یہ واقعی بہشتی دروازہ ہے تو اسے ہر وقت کھلا رہنا چاہیے۔۔۔ بہشت کا واحد راستہ ایمان و اخلاق ہے جس کی سند قرآن نے دی ہے،، مسلمان تو ہر وقت بہشت کے لیے کوشاں رہتا ہے،

بہشتی دروازہ کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ خدا کی ذات اقدس، دین اسلام اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدترین مذاق ہے۔

وانڑیاں جب کھُٹتا ہے تو پرانے کھاتے کھولتا ہے۔

ڈائری کا ایک صفحہ: حافظ محمد شارق)
ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے ؛ وانڑیاں جب کھُٹتا ہے تو پرانے کھاتے کھولتا ہے۔ یعنی بنیے پر پیسے کی موت آتی ہے وہ پرانے کھاتے کھولتا ہے، کہیں کسی کو ادھار دے رکھا ہو، کسی نے قرض لیا ہو، کہیں امانت رکھائی ہو، غرض کہ پرانے مردے بھی اکھاڑ کر جہاں کہیں سے وصولی ممکن ہو وہ پائی پائی وصول کرتا ہے۔
یہ کہاوت سنتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ روزِ محشر بھی ہم سب کی حالت کچھ اسی بنیے کی طرح ہوگی، ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہوں گے اور سب سے وصولی میں چکر میں ہوں گے، آپ  نےکسی کی غیبت کی ہو، کسی کی دل آزاری کی، کسی کے گھر کے گیٹ پر بائیک پارک کردی، کسی کو ملاوٹ کرکے کچھ بیچا، کسی کو  قطار میں دھکا دیا ہو، کسی کی  آپ کے حق کی زمین ہڑپ کردی ، کسی کو آپ کو گالی دی ہو، ہر ایک آپ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھاتے کھول کھول پر نیکیاں وصول کرے گا۔ سب پائی پائی کا حساب لیں گے اور ایک ماشے کی نیکی بھی معاف نہیں کریں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ہر ظلم کے مقابلے نیکیوں اور گناہوں کا تبادلہ ہوگا۔
اس صورت حال کو سوچ کر ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہم نے اعمال کے بینک بلنس میں اتنی نیکیاں بھی جمع کر رکھی ہیں کہ ہم اس وصولی کے بعد ہماری نجات ہوسکے؟؟؟ کیا ہم نے حقوق العباد کا اس قدر خیال بھی رکھا ہے کہ روزِ محشر ہم پر اس ظلم کے عوض اس کے گناہ نہ لاد دیے جائیں؟
اگر ہم نجات کے متمنی ہیں تو پھر ہمیں اپنی زندگیوں میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی بہت زیادہ خیال رکھنا ہو گا۔


دین اور جبر



اگر ہمارا رب چاہتا تو زمین پر ساری نوعِ انسانی مومن ہوتی، مگر اللہ جبر پسند نہیں کرتے، ہمیں بھی جبر نہیں کرنا۔ دین اسلام اتنا کمزور نہیں جو جبری نفاذ کا محتاج ہو، یہ دین مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہے، یہ دین اعلیٰ استدلال پر قائم ہے۔ جس شمشیر سے لوگوں نے اس کے آگے سر جھکائے ہیں وہ شمشیر صرف اخلاق ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ دین خیر خواہی کا نام ہے، دین کے سب سے بڑے مبلغ انبیاء ہوتے ہیں مگر ان کا کام بھی انذار و تبشیر ہے۔

ابلیس کی دشمنی





ایک دشمن وہ ہوتا ہے جو چھپ کر وار کرے یا آستین کا سانپ ہو، ایک دشمن کھلا دشمن ہوتا،منہ پر کہتا ہے کہ تمہاری ایسی کی تیسی! تمھیں برباد کرکے ہی میں نے دم لینا ہے، نفس امارہ آستین کا سانپ ہے اور ابلیس کھلا دشمن۔ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ۔۔ اس کم بخت نے ہمیں بہکانے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے، کتنا ہی بھاگ لو، یہ ہر راستے ہر موڑ پر ہمیں بہکائے گا، آگے پیچھے دائیں کے بائیں ہر طرف سے اپنی اپنی چال بازی میں ہمیں لے گا، لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ ۔ اتنی کھلی دشمنی کا اعلان ہے پھر ہم کس خاطر اس سے ٹانکا جوڑ کے رکھیں؟؟ چلو ہم بھی اس سے دشمنی کرلیتے ہیں !!

تعصب


انسان کسی قوم سے تعلق رکھتا ہے تو بسا اوقات وہ اس کے بارے میں ایک خاص قسم کے تعصب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ بس اس کا فرقہ یا قوم ہی سیدھے راستے پر ہے اور باقی سب غلط راستے پر ۔یہ تعصب کی بدترین جذبہ ہے جو اسے کسی دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے پر راضی نہیں ہونے دیتا ۔بعض اوقات ہماری تربیت کرنے والے بھی یہ بات ہمارے ذہن میں ڈال دیتے ہیں کہ بس ہم ہی کامیاب ہیں اور باقی سب اللہ کے غضب کے حق دار ہیں۔ ہمارے نزدیک کسی خاص فرقے میں پیدا ہوجانا ہی حق کی سب سے بڑی دلیل بن جاتی ہے جو قرآن مجید کی رُو سے بدترین گمراہی ہے۔

(عدیلہ کوکب)

آدابِ اختلاف


تنقید کرنا آپ کا حق ہے، بے شک کیجیے مگر کسی کی ذاتیات پر اترنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ۔ اپنے ذاتی اندازوں اور مفروضوں کی بنیاد کسی کے ایمان کا فیصلہ کرنا آپ کا کام نہیں ورنہ روزِ محشر یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کسی کا نقطۂ نظر جانے بغیر آپ نے کیسے اس کے ایمانی کیفیت کا فیصلہ سنا دیا۔

کیا آپ مسلمان ہیں؟

اس بات کی فکر کیجیے کہ آپ کے قول و فعل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اگر آپ کی وجہ سے کسی کو کوئی نقصان پہنچا ہے یا کسی کا دِل دُکھا ہے، تو یہ آپ کے لیے پریشان کن صورت حال ہونی چاہیے، آپ کی نیند اُڑ جانی چاہیے جب تک کہ وہ شخص آپ کو معاف نہ کرے۔
 اگر آپ میں یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو اپنے اس دعوے پر غور کریں کہ آپ مسلمان اور صاحب ایمان ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔" (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان(

علماء کا احترام کیجیے!!

علماء کا احترام کیجیے!!
=============
دلیل کی بنیاد پر کسی عالم دین کی غلطیوں پر تنقید کرنا یقیناً میرا حق ہے مگر ان کی تضحیک کرنے کا حق مجھے میرے پروردگار نے نہیں دیا۔ میں روشن خیالی کے اس نئے مفہوم سے بیزار ہوں جو علمائے دین کی تضحیک کو جائز قرار دے۔

میں نے علم ، دین کے انھی خادموں کی مجلس میں پڑھا ہے، میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں نے علم ان کی جوتیاں اٹھا کر سیکھا ہے، اگر آج دین اسلام پر میرا ایمان مستحکم ہے تو یہ انھی علما کی محنت کا ثمر ہے۔ دین کو سمجھانے کے لیے انھوں نے جو کچھ لکھا ہے ؛ میں اس سے ذرا بھی دامن تو بچاؤں تو میں خود کو برہنہ حسوس کرتا ہوں۔یہ درست ہے کہ میں ان کی سو کوتاہیاں گنواتا ہوں، کئی اختلافات رکھتا ہوں، ان سے ہزار ضد کرتا ہوں، مگر بھائی ! ضد تو بچے ہی کرتے ہیں، میں ان سے کبھی بڑا نہیں ہوسکتا۔۔۔
حافظ محمد شارقؔ

محبت کیا ہے؟


محبت کو سمجھنے کے لیے قرآن پاک سمجھنا پڑتا اور اس پر عمل کرنا پڑتا تب آتا ہے لفظ محبت سمجھ میں ۔ پھر پتا چلتا کہ محبت کیا تھی اور ہم کہاں پہ غلط ہیں ہم محبت کو کیا سمجھتے ہیں اور محبت اصل میں ہے کیا؟۔ محبت وہ ہے جو اللہ ہم سے کرتا ہے۔ کہ ہم گناہ کرتے جاتے اور وہ ہمارے گناہ چھپاتا جاتا اسے ہم سے اتنی محبت ہے کہ ہمارے گناہ دوسروں کے سامنے نہیں کرتا کہ کہیں ہم رسوا نہ ہوں اور ہمیں تکلیف نہ ہوئی
محبت یہ ہے جو اللہ ہم سے کرتا ہے کہ اگر ہم ذرا سا اس کی طرف جھکیں تو وہ اپنی مخلوق کے دل میں ہماری عزت ڈال دیتا ہے۔محبت یہ ہے کہ وہ ہر ہر قدم پر ہمارا خیال رکھتا تب بھی جب ہم اسے بھول جاتے اس کو یاد نہیں کرتے وہ تب بھی ہمیں چاہتا ہے جب ہم بے وفا دوست بن جاتے ہیں وہ ہمیں تب بھی محبت کے حصار میں رکھتا ہے جب ہم اسکی بجائے کسی اور سے بے پناہ محبت کا دعوا کر تے۔

وہ ہمیں ہر دکھ کے بعد خوشی دیتا اور خوشی کہ بعد دکھ دیتا کہ اگر ہم دکھ میں مایوسی کا شکار ہو کر کفر کر چکے تو خوشی میں اسے یاد کر لیں اور اگر ہم خوشی میں اسے بھول گئے تو دکھ میں اسکی محبت کا احساس کر کے اسے پکار لیں۔

محبت تو یہ ہی ہے کہ وہ پوری زندگی ہم سے کرتا ہی جاتا ، ہم اسے یاد نہیں کرتے ،پوری زندگی اسکی بات نہیں مانتے نہ شکر کرتے ہیں مگر وہ ہمیں عطا کرتا جاتا ہے۔ہم خوشیوں میں سکھ میں بھول جاتے مگر وہ اپنی محبت اس طرح نباتا کہ جب بھی ہم کبھی مصیبت میں ہوں تو بھی وہ ہمیں دھتکارتا نہیں وہ بس ایک پکار پر ہماری مصیبتوں کو ختم کرنے کے وصیلے بنا دیتا۔

مگر ہم انسان ایسے ہیں کہ اگر بات اللہ سے محبت کی ہو کہ کیا ہم اللہ سے محبت کرتے تو لاکھوں عذر بناتے ہیں کہ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا۔ اللہ تعالیٰ جتنی محبت ہم تو نہیں کر سکتے نہ ہم تو اس محبت کا قرض نہیں اتار سکتے کہ اسکی محبت کے آگے ہماری محبت کچھ بھی نہیں۔ اور کوشش ہی نہیں کرتے اس کی محبت کا جواب دینے کی۔

ایک حد تک یہ سہی ہے ہم اللہ سے اتنی محبت نہیں کر سکتے جتنی اللہ جی ہم سے کرتے مگر ہم اتنی محبت تو کر سکتے جتنی ہمارے بس میں ہے۔ ہم اس محبت کا قرض نہیں اتار سکتے مگر ہم اتنی زیادہ محبت ملنے پر محبت کرنے والے کا شکر تو ادا کر سکتے ہیں نہ۔ ذرا سوچیئے کیا واقع ہم اس قابل نہیں کہ محبت کو سمجھ کر اسکا شکر ادا کر سکیں اور اپنی استظاعت کے مطابق اس محبت کا قرض اتار سکیں۔ کیا ہم ایسی محبت کر سکتے ہیں یا ہمارے نصیب میں عذر ہی ہیں بس؟

عدیلہ کوکب

Saturday 2 August 2014

حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح


حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح

            حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے متعلق مورخین کے ادھورے بیان کی وجہ سے بہت سے لوگوں میں کئی قسم کی غلط فہمی پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے اکثر اعتراض بھی کیاجاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نکاح کے بارے میں صحیح تفصیل سے لوگ آگاہ ہوں۔
            حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے مسلمان ہونے سے پہلے ان کے والد اور ان کے شوہر دونوں اسلام کے دشمن تھے۔ یہودی قبائل جب مدینہ جنگ کرنے کی تیاری کررہے تھے تو اس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی۔ خبر کی تصدیق کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے بھیجا ، معلوم کرنے پر خبر کی تصدیق ہوگئی کہ واقعی مسلمانوں کے خلاف حملے کی تیاریاں ہورہی ہے۔ جواب میں مسلمانوں نے بھی تیاریاں کیں اور شعبان کی ابتداء میں ہی مسلمان فوج نے رستے میں ہی ان یہودیوں کو گرفتار کرلیا جو حملے کی تیاری کررہے تھے۔ ان یہود میں عورتیں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ ( جنگ کے وقت اسلام میں صرف اُن عورتوں کو گرفتار کرنے کی اجازت ہے جو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں عملی حصہ لے رہے ہوں) یہود کی طرف سے مزاحمت کے نتیجے میں ایک مسلمان اور 11 یہودی مارے گئے۔ انہی میں ایک حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے شوہر بھی تھے۔ بہرحال حضرت جویریہ رضی اللہ عنہاگرفتار ہوئیں۔انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ انھیں فدیہ (جرمانہ) کے بدلے آزاد کردیا جائے۔لیکن یہاں پھر ایک مسئلہ تھا کہ ان کے پاس رقم نہیں تھی۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ میں سردار ہوں، میری شان سے بالاتر ہے کہ میری بیٹی کنیز بنے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خود جویریہ سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ والد نے جاکر حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انھوں نے خود کہا کہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔چنانچہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہاکی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رقم خود ادا کردی اور انھیں آزادکردیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔
اس نکاح سے یہ فائدہ ہوا کہ جتنے بھی لوگ غلام بنائے گئے تھے انھیں سب مسلمانوں نے اس بات سے آزاد کردیا کہ جس خاندان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی وہ غلام نہیں ہونا چاہیے۔ 

Friday 25 April 2014

سوال: ہندوؤں اور مشرکین مکہ کے شرک میں کیا فرق ہے؟

سوال: ہندوؤں اور مشرکین مکہ کے شرک میں کیا فرق ہے؟

قدیم  عرب میں تصورِ الہٰ کیا تھا، اس بارے میں میری زیادہ تحقیق نہیں ہے، قرآن مجید اور سیرت کی کتابوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان بتوں (دیوتاؤں) کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کی طرف سے انھیں خاص اختیار حاصل ہیں اور وہ وہ ہماری سفارش کرکے ہماری   مرادیں   پوری کرتے ہیں، وہ انھیں قرب الٰہی کا ذریعہ مانتے تھے۔ 
جبکہ ہندو کے ہاں دیوتاؤں کا تصور کچھ مختلف ہے۔ نہ وہ انھیں سفارشی مانتے ہیں نہ ہی  خدا کی طرف سے مقرر کردہ صاحب اختیار کوئی مخلوق۔ بلکہ وہ ہر ایک دیوتا کو خدا مانتے ہیں ۔ ویسے تو ہر فرقے میں یہ تصور مختلف ہے لیکن عمومی طور پر ان کا تصور یہ ہے کہ) خدا کے ایک کُل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے جز دیوتا کہلاتے ہیں۔ یہ دیوتا ایک الگ آسمانی دنیا میں رہتے ہیں اور یہ بھی انسان کی اسی طرح یہ بھی (مزاج، عادات، جذبات وغیرہ) کے اعتبار سے ایک مخلوق ہیں۔ یہاں یہ تضاد نظر آتا ہے کہ ایک ہی ہستی بیک وقت مخلوق بھی ہے اور خدا بھی؟ اس کا جواب وہ یوں دیتے ہیں کہ خدا نے اپنے جز تخلیق کیے اس طرح وہ خدا بھی ہیں اور مخلوق بھی۔چنانچہ اگر کسی ایک دیوتا کی عبادت کی جائے تو وہ بھی خدائے واحد کی ہی عبادت ہوگی۔ ہندو انھیں سفارشی نہیں سمجھتے، بلکہ خود انھیں قادر المطلق ہستی سمجھتے ہیں۔ 
ویسے یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب مشرکین میں کچھ ہندو بھی شامل تھے یا کم از وہاں کے ہندوؤں کو ان بتوں سے کچھ نہ کچھ عقیدت ضرور تھی۔ہندوؤں میں  جین مت کے پیروکار عرب کے مشہور بت "ہبل" کو اپنا دیوتا مانتے آئے ہیں۔بہرحال ہندو اور مشرکین عرب  دونوں ہی مشرک رہے۔

Wednesday 5 March 2014

روزِ قیامت اعضاء کی گواہی


تحریر: مدیحہ فاطمہ
انسان ایک بےبس مخلوق ہے۔ اس کا اختیار اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جب قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ روزِ آخرت اس کے ہاتھ، پاؤں، زبان اور جلد اس کے خلاف گواہی دیں گے تو اس میں اہل بصیرت کے لیے کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ یہ ہاتھ، پاؤں اور زبان اس کے نہیں وہ اس کے مالک نہیں، بلکہ مالک تو صرف مختار کل اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہیں ۔ یہ بات ہمارے لیے قابل غور اور عبرت ہے کہ بظاہر ہم اپنے ان اعضاء کا کتنا خیال رکھتے ہیں ، ہزاروں روپے ان کی صحت و زینت کے خاطر خرچ کرتے ہیں ، لیکن روزِ آخرت یہی ہمارے خلاف ہوجائیں گے۔
یہ تو اہل ایمان کے لیے ایک دلیل ہے۔ لیکن اعضائے انسانی کے دینے کی سائنسی دلیل بھی موجود ہے۔ موجودہ دور میں ہارڈ ڈسک ، مائیکرو ایس ڈی، میموری کارڈ وغیرہ نے اس بات کو سمجھنے میں بہت آسانی پیدا کردی ہے۔ ہارڈ ڈسک ، مائیکرو ایس ڈی، میموری کارڈ کے مین کمپونٹس (Components) سیلیکون اور کلورین ہیں۔ اور حیرت انگیز طور پر یہ دونوں عناصر ( Elements) ہمارے جسم میں موجود ہیں۔ سیلیکون ہمارے پورے جسم کے خون میں بھی موجود ہے۔ پورے انسانی جسم میں سیلیکون کی مقدار 2-1 گرام ہے۔ ہڈیوں میں بھی سیلکون پایا جاتا ہے اور اگراس کی کمی واقع ہوجائے تو ہڈیوں کی گروتھ اثر انداز ہوتی ہے اور متبادل کے طور پر ڈاکٹرز سیلیکون کو ڈائیٹری سپلیمنٹ کے طور پر تجویز کرتے ہیں۔
کتنی حیرت کی بات ہے زیادہ تر ہڈیاں ہمارے ہاتھوں اور پیروں میں ہی موجود ہوتی ہے۔ اور اللہ نے ایسا نظام بنا دیا کہ میموری کارڈ کے مین ایلیمنٹ سیلیکون کی کمی ہوجائے تو مصنوعی مین میڈ سیلیکون سے اسکی کمی پوری کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی پانی میں25-5 ملی گرام پر لیٹر کی مقدار سے سیلیکون موجود ہوتا ہے اور ہمارے جسم کا 72 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ دوسرا بنیادی ایلیمنٹ کلورین بھی ہمارے جسم میں 95گرام/ 0.14 فیصد کی مقدار سے موجود ہے۔
qiyammat aur gawaahi
اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات یقین کرنا انتہائی آسان ہے کہ اللہ نے ہمارے جسم میں ایک پورا ڈیٹا بیس سیٹ کیا ہوا ہے جو ہمارے اعمال کا حساب رکھ رہا ہے۔ بس اس کے زبان یا اسکرین دینے کی دیر ہے اور یہ ہمارے سارے اعمال کھول کر بیان کردیں گے۔ بلکل ایسے ہی جیسے ہارڈ ڈسک ، مائیکرو ایس ڈی، میموری کارڈ موبائل اور کمپیوٹر میں جانے سے پہلے بےزبان ہیں اور جب وہ انسے اٹیچ ہوجاتے ہیں تو ان میں موجود وڈیوز بمع تصاویر بول اٹھتی ہیں۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ ہمارے اعضاء کو قوت گویائی عطا کریں گے تو یہ بھی بول اٹھے گے۔ اس لیے ہمیں کچھ بھی کرنے، بولنے اور سننے سے پہلے اس بات کو یاد رکھ لینا چاہیے کہ ہم کسی طرح بچ نہیں سکتے ہماری اپنے ہی چیزیں ہمارے خلاف گواہی دیں گیں۔
صرف ہمارے اجسام ہی نہیں اس پوری کائنات کا ذرہ ذرہ ہر پتھر اور پہاڑ تک ہمارے ریکارڈ رکھ رہے ہیں۔ ہماری پوری زمین کی کی ٹھوس پرت کا 80-90 فیصد حصہ اسی سیلیکا اور سیلیکون کمپوننٹس سے مل کر بنا ہے۔ کائنات کی ہر ہر چیز ہمارا ریکارڈ رکھ رہی ہے۔ تبھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ کہ ہم آخرت کے روز سب اعمال نکال لائیں گے بے شک وہ رائی کے دانے کے برابر بھی کیوں نہ ہو اور کسی پہاڑ میں بھی کیوں نہ چھپا ہو۔ اس لیے ہمیں اللہ اور اس کے حساب سے ڈرنا چاہیے۔ لیکن لوگوں کو جب یہ باتیں بتائی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ پلیز ہمیں ڈراؤ مت۔ کیوں نہ ڈریں ہم؟ اللہ تو خود فرماتے ہیں کہ مجھ سے ڈرو تو پھر ہم کیوں نہ ڈریں؟۔ اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جو کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو کائنات میں غور و فکر کرنے کی صلاحیت عطا فرمائے اور ہمارے دل خوف ِ خدا سے بھر جائیں۔ آمین ثم آمین