Monday 10 November 2014

وانڑیاں جب کھُٹتا ہے تو پرانے کھاتے کھولتا ہے۔

ڈائری کا ایک صفحہ: حافظ محمد شارق)
ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے ؛ وانڑیاں جب کھُٹتا ہے تو پرانے کھاتے کھولتا ہے۔ یعنی بنیے پر پیسے کی موت آتی ہے وہ پرانے کھاتے کھولتا ہے، کہیں کسی کو ادھار دے رکھا ہو، کسی نے قرض لیا ہو، کہیں امانت رکھائی ہو، غرض کہ پرانے مردے بھی اکھاڑ کر جہاں کہیں سے وصولی ممکن ہو وہ پائی پائی وصول کرتا ہے۔
یہ کہاوت سنتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ روزِ محشر بھی ہم سب کی حالت کچھ اسی بنیے کی طرح ہوگی، ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہوں گے اور سب سے وصولی میں چکر میں ہوں گے، آپ  نےکسی کی غیبت کی ہو، کسی کی دل آزاری کی، کسی کے گھر کے گیٹ پر بائیک پارک کردی، کسی کو ملاوٹ کرکے کچھ بیچا، کسی کو  قطار میں دھکا دیا ہو، کسی کی  آپ کے حق کی زمین ہڑپ کردی ، کسی کو آپ کو گالی دی ہو، ہر ایک آپ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھاتے کھول کھول پر نیکیاں وصول کرے گا۔ سب پائی پائی کا حساب لیں گے اور ایک ماشے کی نیکی بھی معاف نہیں کریں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ہر ظلم کے مقابلے نیکیوں اور گناہوں کا تبادلہ ہوگا۔
اس صورت حال کو سوچ کر ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہم نے اعمال کے بینک بلنس میں اتنی نیکیاں بھی جمع کر رکھی ہیں کہ ہم اس وصولی کے بعد ہماری نجات ہوسکے؟؟؟ کیا ہم نے حقوق العباد کا اس قدر خیال بھی رکھا ہے کہ روزِ محشر ہم پر اس ظلم کے عوض اس کے گناہ نہ لاد دیے جائیں؟
اگر ہم نجات کے متمنی ہیں تو پھر ہمیں اپنی زندگیوں میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی بہت زیادہ خیال رکھنا ہو گا۔


2 comments:

  1. Masha Allah, nehayat sabaq amoz baat kahi hai, Allah hum sb pr apna khas karam farmain Ameen. jazakumullaho fiddarain sir.

    ReplyDelete