Sunday 11 November 2012

اختلافی مسائل میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟




السلام و علیکم ورحمتہ اللہ!
میں کافی عرصے سے فیس بُک پراسلام اور فرقہ واریت کے متعلق آپ کی پوسٹس دیکھتا رہا ہوں، آپ کے بلاگ پر کچھ مضامین بھی دیکھے۔ مجھے بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ ہمیں اپنے فرقے کے بجائے اسلام کی پیروی کرنی چاہیے۔ لیکن میرا سوال ہے کہ دین کے بنیادی عقائد تک تو مسئلہ نہیں ہوتا لیکن وہ مسائل جن پر مختلف فرقوں کا باہم اختلاف ہے، ہمیں ان میں سے کسی ایک رائے کو لازماً ماننا ہی ہوگا، جب ہم ایسے اختلافی معاملے میں کسی ایک جماعت کی بات مان لیں تو کیا پھر ہم اس فرقے میں شامل نہیں ہوجاتے۔ نیز ہم اختلافی معاملات میں کیا رویہ اختیار کریں ؟

حماد یوسف، کراچی 

جواب:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے بہت ہی اچھا سوال پوچھا ہے، ہمارے ہاں اکثر لوگ اس مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایسی صورتحال میں کیا کریں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ آپ کسی فرقے کے بجائے خدا کے دین کے متعلق مخلص ہیں اللہ آپ کا یہ اخلاص یونہی قائم رکھے۔ (آمین)۔

آپ کے سوال کے برعکس میں پہلے اختلافی معاملات میں ہمارے رویے کے متعلق بات کروں گا۔ اس بارے میں میرا مشورہ ہے کہ دین کے متعلق  ایک اوسط (نورمل ) سطح کا علم رکھنے والے شخص کو چاہیے کہ وہ دین کے بنیادی فرائض باقاعدگی سے اداکرے، اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان کے دیگر تمام حصوں پر پختہ یقین رکھے ۔ آپ یہ کیجیے کہ قرآن مجید کا کوئی سادہ سا ترجمہ لیں اور کسی قدیم مستند تفسیر کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کریں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ فائدہ ہوگا کہ آپ میں دین کے بنیادی اصولوں کی سمجھ پیدا ہوگی اور صحیح اور غلط سمجھنے کے لیے قرآنی اصول موجود ہیں گے۔اس کے ساتھ ہی کوشش کیجیے کہ کسی استاد یا کتاب کی مدد سے قرآنی عربی بھی سیکھیں تاکہ آپ قرآن مجید کا مطالعہ بہتر انداز سے کرسکیں۔ اس کے بعد اگر کوئی فقہی مسئلہ پیش آجائے تو کسی بھی قریبی عالم یا مفتی سے مسئلہ معلوم کرلیں۔


ان بنیادی امور اور عقائد کے بعد دیگر بحثوں اور فروعات میں نہ ہمیں نہیں لگنا چاہیے، البتہ وہ مسائل جن میں مختلف مکاتب فکر کا اختلاف ہے(مثلاً حاضر و ناظر، میلاد، علم غیب وغیرہ) اس میں اپنی رائے ہمیشہ معتدل رکھیں اور غیر جانبداری اور بناء کسی تعصب سے ہر ایک فریق کے دلائل کا مطالعہ معروضی طریقے پر کریں۔یعنی دلائل کا جائزہ لیتے ہوئے پہلے سے کوئی چیز طے نہ کریں کہ آپ اس پر یقین کرنا چاہتے ہیں بلکہ قرآن و سنت سے ملنے والی روشنی سے فیصلہ کیجیے اور ہر قسم کے تعصب وبد دیانتی سے خود کو بچائیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ ہماری کمٹمنٹ اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے نہ کہ کسی عالم یا کسی فرقے سے لہٰذا کوئی بات محض اس لئے نہ تسلیم کریں کہ بزرگوں نے اسے اسی طرح فرمایا تھا بلکہ اسے دلیل کی بنیاد پر دیکھیں ۔جو بات قرآن و سنت کے مطابق ہو، اور جس پر دل اور عقل مطمئن ہو اسے قبول کرلیجیے جو بات غلط ہو اسے رد کردیجیے اور خدا تعالیٰ سے اچھی امید رکھیں۔ساتھ ساتھ اپنے خیالات اور اعمال کا احتساب جاری رکھیں اور جب کبھی یہ واضح ہو کہ جس رائے پر پہلے تھے، وہ غلط تھی تو فوراً رجوع کر لیں۔

اس کے بعد یہ بات سمجھ لیجیے کہ جب ہم فرقہ پرستی سے بچنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ کسی بھی مکتب فکر کی کسی رائے سے متفق نہ ہوں، بلکہ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ حق صرف ایک ہی مکتب فکر میں محدود نہ سمجھیں۔فرقہ پرستی دراصل تب ہوتی ہے جب آپ کسی ایک ہی مکتب فکر کو مکمل طور پر حق سمجھ لیں۔ مکاتب فکر سے بیزاری کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنی دنیوی زندگی (مذہبی معاملات) میں اس کی پوزیشن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ مکتبِ فکر کی حیثیت اگر ایک رائے کی ہی رہے تو بہتر ہوتا ہے ۔ لیکن جب یہ گروہ بندی اور فرقہ واریت کی صورت اختیار کرلے ‘ اور ہمارا مسلک ہی ہمارے لیے سارا کا سارا دین بن جائے تو یہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔اگر آپ اسلامی تاریخ دیکھیں تو بے شمار مثالوں میں آپ کو ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ کار نظر آئے گا کہ وہ فرقے کو نہیں مانتے تھے حق بات کو مانتے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حنفی علماء نے خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے اختلاف کیا لیکن انہیں اپنا استاد بھی مانا اور ان کے احترام میں کوئی کمی نہ کی ۔ اسی طرح دیگر علماء کا بھی معاملہ رہا۔امام ابوحنیفہ کے شاگر د امام محمد، امام مالک کے شاگرد بھی ہیں۔ یہ حضرات بعض معاملات میں کسی اور عالم دین کو ترجیح دیتے تھے اور بعض معاملات میں کسی اور کو۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ اور فرقہ واریت کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہمارا مسلک اور ہمارے مسلک کے علماء جو کچھ کہیں گے وہ حق ہی ہوگا اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہی رویہ شخصیت پرستی اور فرقہ پرستی کہلاتی ہے۔دین کے متعلق اپنی تمام تر وفاداریاں حق کے ساتھ رکھیں نہ کے اپنے مکتبہ فکر سے ۔ کسی معاملے میں مکاتب فکر سے متفق ہوتے ہوئے شخصیت پرستی سے بچنا ہی دراصل مشکل کام ہے جس پر ہمارے اسلاف عمل کیا کرتے تھے۔ انہوں نے دینی معاملات میں بھی کسی بھی ایک شخص کو معیار نہیں بنایا بلکہ ہر ایک رائے پر احترام کے ساتھ تنقیدی نگاہ ڈال کر اس کا جائزہ لیا ۔ ذاتی الزامات پر مبنی کتابوں پر ہرگز توجہ نہ دیں، سبھی مکاتب فکر کی شخصیات کا احترام کریں ، ان کے علمی کام سے استفادہ کریں لیکن جہاں کہیں بات غلط معلوم ہو اختلاف بھی کیجیے، اور جہاں اپنی بات غلط معلوم ہو وہاں اپنی اصلاح میں کوئی شرم محسوس نہ کریں۔یہ آپ کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو دین اسلام کی مزید فہم سے نوازے۔ آمین۔ اگر جواب میں کوئی شک و شبہ رہ گیا ہو تو آپ بلا تکلف دوبارہ پوچھ سکتے ہیں۔ 
والسلام
حافظ محمد شارقؔ

اس پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ کے مختلف گروہوں اور مکاتب فکر کے مابین جو اختلافات پائے جاتے ہیں، ان کا ایک غیر جانبدارانہ (Impartial)مطالعہ کیا جائے اور ان کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ ان کے استدلال کا جائزہ بھی لیا جائے۔

اسلام اور سماجی خدمات


السلام و علیکم بھائی!


میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسلام سوشل ورکنگ (یعنی سماجی خدمات) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ کیا بہترین انسان صرف ایک مذہب کا مبلغ ہوتا ہے؟

احسن سلیم، کراچی

جواب:

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے بہت ہی بہترین سوال پوچھا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عمومی طور یہ خیال پایا جاتا ہے کہ نیک اور بہترین انسان صرف وہی ہوتا ہے جو عبادات میں مشغول رہتا ہو اور ہمارے دین کا مبلغ ہو۔ یقینایہ اعمال اچھے ہیں ان کی ایک خاص اہمیت ہے لیکن سارا کا سارا دین یا نیکی اسی کو سمجھ لینا ایک سنگین غلطی ہے۔اسلام ہماری زندگی کو صرف نماز روزہ حج و زکوٰة پر نہیں لگاتا بلکہ یہ ہمیں اُس راستے پر گامزن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کا مکمل راستہ یہی ہے کہ انہوں نے صرف نماز و روزہ کی تلقین نہیں کی بلکہ حقوق انسانی کے متعلق سب سے بڑھ کر کام کیا اور اپنے ساتھیوں (رضی اللہ عنہم) کو بھی اس کی تلقین کی۔

اگر آپ اسلامی تاریخ اور سیرت النبی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح سماج کی خدمت کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت سے قبل بھی سماجی کام میں مشغول ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ اس کی شہادت ہمیں صحیح البخاری کتاب الوحی میں ملتی ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے کہا کہ ”آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ©‘کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیںناداروں کی خبر گےری کرتے ہیں‘مہمانوں کی مےزبانی کرتے ہیںاور مصےبت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔“ آج کوئی سماجی ادارہ خواتین کے لیے کام کرتا ہے، کوئی بچوں کے لیے کام کرتا ہے، کوئی تعلیم کے لیے کوئی صحت کے لیے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی خدمات کسی ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط تھی۔ میرے نزدیک تاریخ انسانی کے اس سب سے بڑھ کر سماجی کام کیا ہوگا کہ عرب میں زندہ بچیوں کو دفنادیا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظالمانہ رسم کے خلاف قدم اٹھایا ۔ خواتین حقوق سے محروم تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہر قسم کے حقوق دلائے۔غلام طبقہ پِس رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آزادی کی بہت سی راہیں (حکم خداوندی کے تحت) نکالیں اور انہیں وہ مقام عطا کیا کہ ایک غلام بھی قیادت کا اہل قرار پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی میں سماجی خدمات کی اور بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔سیرت النبی کے بعد اگر آپ قرآن مجید دیکھیں تو وہاں بھی نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے اس میں سوشل سروس ایک لازمی حصہ ہے۔سورة نمبر ۲، البقرہ آیت نمبر ۷۷۱ میں اللہ فرماتے ہیں: 

”نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور االلہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰ? دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔“

قرآن مجید کی یہ آیت اسلام میں نیکی کے جامع تصور کو بالکل کھول کر بیان کردیتی ہے۔اس آیت میں صرف عبادات کو نیکی سمجھ لینے کے خیال کی واضح طور پر تردید بھی کی گئی ہے اور صرف سماجی خدمات کو نیکی سمجھنے کی بھی۔یہ آیت خود اتنی واضح ہے کہ اس سے زیادہ وضاحت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سماجی خدمات صرف مشہوری کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن قرآن نے نہ صرف سوشل سروس کی تلقین کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ایمان باللہ اور آخرت کے تصور سے اس میں اخلاص بھی پیدا کردیا کہ جو بھی کام ہو صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو نہ کہ دنیاوی دکھلاوے کے لیے۔اس طرح کئی احادیث بھی اس متعلق موجود ہیں۔ اگر ہم ان سب کو یہاں بیان کریں تو یہ جواب بہت زیادہ طویل ہوجائے گا۔ لہٰذا انہی نکات پر اکتفاءکرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔مجھے امید ہے آپ کو سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔ اگر کوئی شبہ باقی رہ جائے تو بلا تکلف دوبارہ پوچھ سکتے ہیں۔

والسلام
حافظ محمد شارق