Monday 23 September 2013

پورن موویز کی عادت سے نجات



سوال
السلام علیکم سر! ۔ میں تقریباً دو سالوں سے پورن موویز دیکھے کی  بری عادت میں مبتلاء ہوں،  میرا گزرا ہوا وقت بہت برا تھا، اب میں نےاس وقت سے توبہ کرلی ہے ، لیکن چاہتے ہوئے بھی میں یہ گندی عادت نہیں چھوڑ  پارہا جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں۔ایک دوست نے بتایا کہ آپ کچھ مدد کر سکتے ہیں، اگر آپ کچھ مشورہ دے سکیں تو بہت مہربانی ہو گی ۔
(ایک بھائی) ستمبر 2013


جواب


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


محترم بھائی۔آپ کی ای میل پڑھ کر مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اللہ کی طرف رجوع کیا ہے، اور اب آپ چاہتےہیں کہ آپ مکمل طور پر دین پر عمل کرتے ہوئے فواحشات سے بچیں۔ آپ کا جذبہ واقعی قابل قدر ہے، اگر یہی جذبہ قائم رہے تو پھر آپ ہر بڑی برائی سے بچ سکتے ہیں باقی اللہ غفور و رحیم ہے۔

آپ نے جس مسئلے کا ذکر کیا ہے، وہ معاملہ نہایت ہی سنجیدہ اور اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ ناسور ہے جو مغرب کے علاوہ آج ہمارے نام مذہبی اور مشرقی سماج میں بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے اسی بلاگ پر برطانوی وزیر ڈیوڈ کیمرون کے بیان کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا جس میں واضح کیا تھا کہ یہ وبا ء مغرب میں  عام ہونے کے بعد اب وہاں انتہائی وحشت ناک مسائل پیدا ہورہے ہیں، جنسی اور ذہنی امراض، طلاق، زنا اور فواحش کی بے لگام رجحان وہاں پہنچ چکا ہے، اور اگر ہم نے اس ضمن میں کچھ عملی اقدام نہ کیے توہماری صورت حال بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی، کچھ اثرات تو ہم اب بھی دیکھ ہی رہے ہیں، اسے 100 سے ضرب کرکے سوچ لیجیے کیا ہوسکتا ہے۔بہرحال پورنو گرافی (Pornography) کیا ہوتی ہے، یہ آج ہم میں سے اکثر لوگ جانتے ہی ہیں، اس لیےاس کے تعارف و تاریخ کے بجائے میں بلا تمہید آپ کے اصل مسئلے کی طرف آنا چاہوں گا کہ پورنو گرافی کی عادت سے کس طرح نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ سب سے پہلے تو اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ

ایک بار پختہ یقین کرلینے کے پورنوگرافی سے بچنا کوئی مشکل کام نہیں۔ آج اگر آپ یہ یقین کرتے ہیں کہ "پورن" آپ کی جسمانی و ذہنی صحت ، دین اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے ، تو آپ ابھی سے ہی اس سے بچ سکتے ہیں۔

پورن گرافی سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنا سکتے ہیں۔
  •      اس بات پر غور کیجیے کہ وہ کیا مواقع ہوتے ہیں جن کی وجہ سے آپ کے دل میں "پورنو گرافی" کا نشہ کرنے کی خواہش جاگ جاتی ہے۔ (ورڈ /کاغذپر) ان کی ایک فہرست بنا لیں اور پھر  ان وجوہات سے ، جو آپ نے تلاش کیں، سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ اس لسٹ میں وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق اضافہ یا کمی بھی کرتے رہیں، ساتھ ہی اپنا احتساب جاری رکھیں۔یاد رکھیے شیطان ہر حربے سے آپ کو واپس پورن کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔
  •       آپ اپنا مشاہدہ کریں کہ آپ کس وقت "پورنو گرافی" کا نشہ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔زیادہ تر افراد یہ نشہ رات کی تنہائی میں پورا کرتے ہیں۔ لہٰذا  ان اوقات میں کمپیوٹر سے خود کو دور رکھیں۔
  •       کوشش کریں کہ کمپیوٹر کو ایسے کمرے میں یا ایسی جگہ رکھیں جہاں سب لوگ موجود ہوں یا آنا جانا ہو، مثلاً ڈرائنگ روم یا ٹی وی لاؤنج۔ تاہم اگر یہ ممکن نہ ہوتو مانیٹر کا رُخ ایسی جانب رکھیں کہ جس طرف سے کسی کے آنے کا اندیشہ آپ کو زیادہ ہوں، اس طرح سے آپ نفس کو روک سکتے ہیں۔کوشش کریں کہ کمرے کا دروازہ کھلا رکھیں۔
  •       ایک مسئلہ جو مجھےاکثر بھائیوں نے  بتایا وہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر کام کرتے ہوئے ، بعض اوقات نامعلوم لنکس پورن سائٹس تک لے جاتے ہیں، اور دوبارہ بے اعتدالی ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے نفس پر قابو رکھنا اور مشکل ہوجاتا ہے۔
  • o    اپنے ڈی ایس ایل موڈیم میں پورن کو بلاک کروا دیں۔یہ کام آپ خود نہ کریںبلکہ بہتر ہو گا کہ کسی دوست یا کمپنی نمائندے سے یہ کام کروائیں تاکہ شیطان آپ کو اکسائے بھی تو بھی آپ کے پاس آپشن نہ ہو۔
  • o    موڈیم کنفیگریشن میں جا کر ایسے "کی ورڈز" داخل کر دیں  جو بالعموم پورن سائٹس پر ہوسکتے ہیں۔ اس طرح آپ جیسے ہی ان "کی ورڈز" کی ویب سائٹ پر پہنچیں گے، آپ کا موڈیم خود ہی اس کو بلاک کر دے گا اور وہ کسی طور بھی کھل نہ پائیں گی۔ اس کی مدد سے آپ 90 فیصد پورن سائٹس بلاک کر سکتے ہیں۔
  • o    ویب سائٹس کے ناموں کا اندازہ لگا کر اس کو کھولنے کی کوشش نہ کریں۔ کیونکہ کئی پورن سائٹس ایسی ہوتی ہیں جنہوں نے اپنے نام اپنے کام سے مختلف رکھے ہوتےہیں۔
  •       کمپیوٹر کے سٹارٹ اپ میں کوئی قرآنی تلاوت ڈال دیں۔ اسی طرح جب انٹرنیٹ استعمال کریں تو کوئی نعت وغیرہ سنتے رہیں۔ ڈیسک ٹاپ سکرین پر وال پیپر (wallpaper) کوئی اسلامی یا قرآنی استعمال کریں۔
  • کمپیوٹر کےپاس ڈرافٹ پیڈ پر اپنی To do لسٹ بناکر رکھیے اور انٹرنیٹ کا استعمال اس وقت ہی کیجیے جب آپ کو اس فہرست میں سے کوئی کام کرنا ہو۔ 

  • کمپیوٹر کھولتے وقت قرآن کی چند ایات کی تلاوت کر لیں ۔ وال پیپر پر کوئی آیت،حدیث وغیرہ لگادینے سے یہ فائدہ ہوگا کہ آپ اسے ہر بار کمپیوٹر کھولتے وقت پڑھیں سکیں گے۔
  • نٹرنیٹ پرخود کو متبادل سرگرمیوں میں مصروف کرنے کی کوشش کریں۔بہت سے  نوجوان انٹرنیٹ  پر بوریت کو ختم کرنے کے لیے "پورنو گرافی" کو استعمال تلاش کر لیتے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ پر  دلچسپ ، نفع بخش اور قابل دید مواد بھی کثرت سے دستیاب ہے، کوئی اچھی سی سائٹ یا علمی فورم کو جوائن کر لیں۔ ان فورمز سے آپ کو سیکھنے کا موقع بھی ملے گا اور آپ پورن کے نشے  سے بھی دور رہیں گے۔آخر میں کچھ مفید سائٹس دی جارہی ہیں، جہاں آپ اپنے مزاج کے اعتبار سے جائیں ۔ مجھے یقین ہےآپ ہرگز بور نہیں ہوں گے۔
  •   ہمارے ایک استاد محترم مشورہ دیا کرتے تھے کہ (اللہ نہ کرے) بالفرض  اگر کسی نہ کسی وجہ سے پورن کے نشے میں تڑپ کر کسی ویڈیو کو دیکھنے کی سعی بھی کرتے ہیں  تو دیکھتے ہوئےیہ گمان کریں کہ اس کریکٹر کی صورت آپ کے کسی (بھائی، والد، ماں ، بہن،بیٹی وغیرہ )سے ملتی ہے۔ اس طرح آپ بڑی تعداد میں ویڈیوز سےبچ سکتےہیں، مثلاً اگرآپ کے گھر میں کسی کا چہرہ خالص ایشین (چینی، جاپانی ، فلپائنی، انڈونیشن وغیرہ)ہے تو آپ کا ضمیراس مماثلت کی وجہ سے گوارا نہیں کرے گاکہ آپ اسے دیکھیں۔
  •    جس حد تک ممکن ہو انٹرنیٹ بلا غرض سرچنگ سے گریز کریں اور  خود کو چند مخصوص سائٹس یا فورمز تک محدود رکھیں۔کیونکہ جتنا آپ اِدھر اُدھر پھریں گے ، آپ اتنا ہی خود کو حملوں کے رسک میں ڈالیں گے۔
  •   فحش موسیقی  اور موویز سے ہر صورت پرہیز کریں، پورنوگرافی کے نشے کو بڑھانے کا سب سے اہم سبب یہی ہوتا ہے۔اس کے بجائے نعت، ملی نغمےیا کوئی معلوماتی شو /ڈاکیومینٹری دیکھ لیں۔
  •    پورنو گرافی آپ کو کس معاملے میں زیادہ نقصان دے سکتی ہے ، ایک لسٹ بنائیں اور  اس لسٹ کا صبح اور رات کو مطالعہ کریں ۔ گویا  خود کو یاد دہانی کروائیں کہ آپ کو ہر صورت ان نقصانات سے بچنا ورنہ یہ آپ کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔
  •    اگرآپ گوگل کروم استعمال کرتے ہیں تو (اس میں یہ سہولت موجود ہے کہ) آپ اس پر اپنے عزیز مثلاً ماں، بیٹی کی تصویر لگادیں، ہر ایک نیا ٹیب کھونے پر وہ تصویر آپ کو نظر آتی رہے گی۔
  •      ہر وقت باوضو رہیں، وضو ہمارے اندر روحانیت کو قائم رکھتا ہے۔
  •       نماز باجماعت پڑھیں اور روزانہ قرآن مجید اورتفسیر ضرور پڑھیں۔
  •       مطالعے کا شوق بلکہ نشہ پیدا  کیجیے۔اس سے آپ کا وقت صحیح جگہ صرف ہوگا۔اس سائٹ پر آپ کے مطالعے کےلیے کافی کچھ دستیاب ہے۔  http://mubashirnazir.org/Index.htm  
  •       بد نظری سے بچیں۔
  •      نوّے فیصد سے  زائد نوجان بلوغت کےوقت شادی نہ ہونے کی وجہ سے یہ نشہ کرتے ہیں، لہٰذا والدین سےگذارش ہےبچوں کی شادی جلد از جلد کیجیے۔
  •       شادی میں تاخیر کی سب سے اہم وجہ "شادی کے اخراجات" ہیں۔ شادی سنت کے مطابق کی جائے تو اس میں کوئی زیادہ خرچہ نہیں ہوتا، لہٰذا شادی کو آسان بنائیں۔


ان  سب تجاویز پر عمل کرنے کے نتیجے میں ان شاء اللہ آپ بڑی حد تک اس عادت سے محفوظ ہو جائیں گے اگر کبھی آپ ایسا کر بیٹھیں تو اللہ تعالی سے تعلق کے اپنے احساس اور اس جذبے کو مرنے مت دیجیے اور فوراً توبہ کر لیجیے۔اللہ ہم سب کویہی جذبہ عطا فرمائے۔دعاؤں کی درخواست ہے۔
والسلام
حافظ محمد شارق



سائٹس

دینی و مذہبی کتابیں

تعمیر شخصیت پروگرام/ تزکیہ نفس
ڈاکٹر ذاکر نائک کے دلچسپ لیکچرز
علوم اسلامیہ/ فری اسلامک کورسز/کتابیں/سوالات و جوابات/مضامین
بہترین ، فائدہ مند گیمز
فری کورسز(انگلش، مینجمنٹ،بزنس  وغیرہ)
تقابل ادیان
تلاوتِ قرآن
www.nurquran.com/qiraet-mp3.php




Friday 13 September 2013

پانی ۔۔ ایک عظیم نعمت اور ہماری لاپرواہی

حافظ محمد شارق

پانی ۔۔ ایک عظیم نعمت اور ہماری لاپرواہی

پانی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت اور انسانی زندگی کا ایک اہم عنصر ہے۔ کائنات کی ہر ذی روح اور بے جان شے کے لیے پانی کا وجود انتہائی ضروری ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پانی کے بغیر کسی بھی سیارے پر زندگی کے وجود کا سوچنا محال ہے۔ہماری زمین پر زندگی کا سارا دارومدار اسی نعمت  پر ہے۔ نہ صرف حیاتیاتی اعتبار سے ہم انسانوں اور دیگر جانداروں  کی زندگی بلکہ کسی بھی سرزمین  کی تمدنی اور صنعتی زندگی کو بھی قائم رکھنے کے لیے پانی ایک بنیادی شے ہے۔
باوجود اس کے کہ ہماری زندگی اسی ایک قیمتی نعمت پر منحصر ہے، بدقسمتی سے ہمیں اس نعمت کی قیمت کا کوئی احساس نہیں ہے اور ہم اس نعمت کا انتہائی بے رحمی سے اسراف کررہے ہیں۔ دورِ حاضر میں پانی کا بحران (Water scarcity) ایک عالمی بحران بن چکا ہے بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں اس کی صورتحال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔ حتیٰ کہ اس مسئلہ پر مستقبل میں جنگیں ہونے کا بھی امکان ہے۔اقوام متحدہ  کے نیشن ڈیولپمنٹ پروگرام(UNDP) کی ایک رپورٹ کے مطابق آج  ایک بلین افراد کی رسائی پانی تک ممکن نہیں ہے اور تین کروڑ سے زائد افراد ہر سال پانی کے بحران کی وجہ سے لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق 2050 تک دنیا کی ایک تہائی آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوسکتا ہے۔یہ بھی واضح رہنا چاہیے  یہ صرف اُس 0.3 فیصد کے متعلق ہے جو زمین پر پینے (اور استعمال) کے لیے دستیاب ہے جبکہ باقی صرف سمندر کا کھارا پانی ہے۔لیکن اس بھیانک صورت حال کے باوجود تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم لاپرواہی کی انتہاء کو چھوتے ہوئے مسلسل پانی کو ضائع کئے چلے جارہے ہیں اور اس بارے میں ہمارا رویہ دن بدن بد سے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے۔
قرآن مجید میں میں ہمیں بارہاں یہ بتایا گیا ہے کہ "ہر ذی روح کو پانی سے ہی تخلیق کیا گیا ہے"۔ اسی اہمیت کے پیش پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ہمیں انسانی زندگی کے ہر ایک معاملے پر رہنمائی فراہم کی ہے، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے Water scarcity کے اس  معاملے کو بھی انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کے متعلق ارشادات فرمائے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مقامات پر پانی کے ضیاع کی سختی سے ممانعت کی اور اس قیمتی نعمت کی حفاظت کا حکم دیا۔
ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جو اس وقت وضو کررہے تھے (اور پانی کا غیر محتاط استعمال کررہے تھے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر  خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: یہ پانی کا اس قدر ضیاع کیوں؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا وضو میں بھی پانی کا ضیاع (ممکن ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: بالکل۔ خواہ تم بہتے ہوئے دریا پر ہی کیوں نہ ہو۔ (مسند احمد)
ایک اور مقام  پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ حکم دیا کہ " پانی کا ضیاع مت کرو۔ ضرورت سے زیادہ پانی کا استعمال نہیں کرو۔ " (ابن ماجہ)
ان احادیث کی روشنی میں بحیثیت مسلمان ہم سب پر لازم ہے کہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم مانتے ہوئے پانی کے قیمتی ہونے کا اس طرح احساس کریں جس طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیااور اس کے بے جا استعمال  اور ضیاع سے پرہیز کریں۔ جس طرح آج ہم اپنے بہتر مستقبل کے لیے پیسے جمع کرتے ہیں، اسے بچاتے ہیں ، اسی ہمیں نہ صرف اپنے بلکہ ساری انسانیت کے مستقبل کے لیے پانی  کے استعمال میں محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا۔
اپنی روز مرہ زندگی میں ان معمولی سی عادات کو اپنا کر ہم ایک بہت بڑی نیکی کرسکتے ہیں۔حتیٰ الامکان کوشش کیجیے کہ آپ بھی ان باتوں پر عمل کریں اور اپنے گھر والے، عزیز و قارب کو بھی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے اس پر عمل کرنے کی تلقین کریں۔
·         تمام لیکیج (leakage) کو چیک کرکے فوراً اس کی مرمت کروائیں ۔
·         برش کرتے ہوئے، مسح کرتے ہوئے اور اس طرح کے کسی اور عمل کثیر کے دوران نل (tap)بند رکھیے۔
·         ڈش واشر سے پانی کا بے جا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا استعمال نہ کریں۔
·         غسل میں بے انتہاء پانی ضایع مت کریں۔ گھنٹوں باتھ لینے کے بجائے ضرورت کی حد تک پانی استعمال کریں۔
·         نل میں ڈھکن (faucet) لگائیں تاکہ پانی ٹپکتے ہوئے ضایع نہ ہوتا رہے۔ (واضح رہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پانی کا اسراف اسی طرح ہوتا ہے۔)
·         کار واش سروس میں پانی کا بے تہاشا ضیاع ہوتا ہے۔ وہاں اپنی گاڑی دھلوانے کے بجائے اسے (پانی کے ساتھ) ہاتھ سے صاف کریں۔ یہ آپ کے رقم اور پانی دونوں کو بچائے گا۔
·         پینے اور دیگر استعمال کے لیے اتنا ہی پانی لیں جتنا کہ ضرورت ہو۔ بچا ہوا پانی پھینکنے کے بجائے کہیں (کسی برتن میں) جمع کرتے رہیں  اور اسے موزوں جگہ پر استعمال کیجیے۔(دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ پانی کا اسراف اسی طرح ہوتا ہے۔)
·         گارڈن میں پائپ کے بجائے کین سے پودوں کو پانی دیں۔یہ آپ کے پودوں کی صحت کے لیے بھی اچھا ہے۔
·         ماہانہ پانی کا بل چیک کرتے رہیں اور احتساب جاری رکھیں۔
·         یہ تمام ٹپس پر خود عمل کرتے ہوئے  دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔ عوام میں اس معاملے پر شعور بیدار کرنے کے لیے ایک ٹیم بناکر کام کریں۔
یاد رکھیے، آج ہمارے پاس بظاہر پانی کا بہت ذخیرہ ہے، لیکن دوسری طرف لاکھوں لوگ  ہماری ہی ان بد اعمالیوں کی وجہ سے قطرہ قطرہ پانی کو ترس رہے ہیں، ہمیں اپنے ، اپنے بچوں کے ، ساری انسانیت اور اس زمین کے مستقبل کے لیے اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ورنہ (خدا نہ کرے) وہ دن دور نہیں جب ہمارے لیے زندہ رہنا بھی مشکل ہوگا۔

Monday 2 September 2013

اسلام کیا ہے؟


حافظ محمد شارق

برائے مطالعہ


یونٹ 1

اس یونٹ میں ہم نے لفظ اسلام کے متعلق پڑھا۔ اس ضمن میں ہماری نظر سے کچھ آیات اور ایک حدیث نبوی بھی نظر گزری۔سب سے پہلے ہم اس حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ حدیث کئی اعتبار سے انتہائی اہم ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک الفاظ میں ” مسلمان وہ ہے “کہہ کر یہ واضح کردیاکہ اسلام کو بطور دین دل و جان سے قبول کرلینے کے بعد اس کا فطری نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ آدمی کا قول وفعل دوسروں کے لیے ضرر رساں نہ رہے۔گویا مسلمان کہتے ہی اس کو ہیں جس میں یہ اعلیٰ صفات پائی جائیں، اگر کوئی شخص ایمان و اسلام کا مخلص دعوے دار ہے اور اس میں یہ صفات نہیں پائی جاتی تو اس کے زبانی دعوے کے برعکس حقیقت یہ ہوگی کہ وہ ابھی تک اسلامی تعلیمات پر صحیح طرح عمل پیرا نہیں ہے۔اس حدیث سے ہم مندرجہ ذیل اصول و مبادیات اخذ کرسکتے ہیں۔

اصولِ اخلاقیات

اول

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب یہ الفاظ احادیث کی دیگر کتابوں میں بھی ہمیں ملتے ہیں؛ زبان خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، انسان کے لیے یہی وہ اولین ذریعہ ہے جس کے وسیلے وہ اپنے جذبات کا مکمل طور پر اظہار کرتا ہے، لیکن دو دھاری تلوار کی مانند یہ نعمت جس قدر اہم ہے اسی قدراس کی نگہداشت انتہائی ضروری ہے۔حدیث میں پہلی بات جو بیان کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ ایک صحیح مسلمان وہی ہوسکتا ہے جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔اس ضمن میں اور ان جیسے دیگر سبھی گناہ شامل ہیں جن کا تعلق انسان کے قول سے ہوتا ہے، گناہ میں شامل ہوں گی۔

·         جھوٹ بولنا
·         بُرے نام و القاب رکھنا۔
·         تلخ کلامی
·         تہمت اور جھوٹے الزام لگانا۔
·         گالی دینا ۔
·         چغل خوری۔
·         مذاق اڑانا۔
·         غصہ کرنا۔
·         غیبت ۔
·         بلا وجہ تنقید۔

 اسٹڈی

مندرجہ ذیل آیات اور ان کی تفسیر کا مطالعہ کریں اور غور و فکر کریں کہ قرآن مجید آپ کی شخصیت کی تعمیر آپ کے قول کے حوالے سے کیا احکامات دیتا ہے۔
·         سورة الحجرات ۔ آیت 12
·         سورة بنی اسرائیل۔ آیت63
·         سورة ق۔ آیت 81

فعل

اس حدیث کا دوسرا حصہ انسان سے سرزد ہونے والے اعمال سے متعلق ہے۔ ایک مسلمان سے یہ ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس کے ہاتھ سے کسی دوسرے کو کوئی تکلیف پہنچے۔ موجودہ دور میں اہل مغرب کے ہاں سوک سینس کے نام پر جو کچھ سکھایا جاتا ہے، وہ اس حدیث کے تحت آ جاتا ہے۔ہمارے ہاں  ہاتھ سے تکلیف پہنچانے کوبعض ظاہری صورتوں سے متعلق ہی سمجھا جاتا ہے  مثلاً کسی کو مارنا، چوری کرنا ، راستے میں کچڑا پھینکا وغیرہ۔ کئی دیگر حرکات کو ایذا شمار نہیں کیا جاتا، جبکہ حقیقت یہ ہے ہاتھ سے تکلیف پہنچانے سے مراد اور بھی بہت سے  افعال ہیں کیوں کہ انسان اپنے بیشتر افعام ہاتھوں سے ہی انجام دیتا ہے۔ اس ضمن میں پڑوسیوں کو تکلیف نہ دینا، اونچی آواز سے حمد و نعت یا گانے نہ لگانا، گاڑی کی پارکنگ میں خیال رکھنا کہ کسی کو تکلیف نہ ہو، اور ایسے بے شمار پہلو ہیں جو اس حدیث کے تحت آ جاتے ہیں۔

اصول عبادات و رسوم

یونٹ 1 میں آنے والی مذکورہ آیات اور حدیث دونوں ہی سے عبادت اور مذہبی رسوم سے متعلق بنیادی طور پر دو اصول اخذ کیے جاسکتے ہیں ۔ پہلا اصول ہمیں حدیث اور دوسرا اصول ہمیں آیت سے معلوم ہوتا ہے۔

پہلا اصول
حدیث سے یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں کسی بھی ایسے عمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس سے دوسروں کو تکلیف ہو چاہے وہ معمولی سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔کسی کو تکلیف دے کر اگر آپ کوئی نیک عمل انجام دے رہے ہیں تو وہ آپ کے ہرگز ثواب کا باعث نہیں ہوگا۔ چنانچہ اس حدیث کی رو سے کسی کا راستہ روک کر، سڑک بلاک کرکے نجی یا مذہبی و سیاسی محفل و مجالس کا انعقاد جائز نہیں ہوگا۔

یہاں اس حوالے سے دو واقعات بیان کرنا مناسب ہوگا جو ہمارے مذہبی و سیاسی  لوگوں کے لیے خاص طور پر ایک نصیحت ہے جو سڑکوں پر رکاوٹیں ڈال کر محفل نعت و ذکر سجاتے ہیں یا سیاسی جلسہ کرتے ہیں اور اس گمان میں ہوتے ہیں انہیں بہت سا ثواب مل رہا ہوگا اور اس سے قوم کو فائدہ ہورہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ حقوق العباد میں لاپرواہی کرتے ہوئے لوگوں کو تکلیف دینا ، راستہ بند کرنا ان کا سارا عمل برباد کردیتا ہے اور ان کے لیے وہ عمل ثواب نہیں وبال بن سکتا ہے۔
·         صحابہ کی ایک جماعت نے رسول اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ کیا ، راستہ میں پڑاؤ ہوا تو لوگوں نے  خیمے قریب قریب لگا لیے اور راستہ تنگ کردیا۔ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو بھیج کر لوگوں کے درمیان اعلان کرایا کہ جو شخص راستہ میں تنگی پیدا کرے گا یا راستہ کو کاٹے گا تو اس کا جہاد (صحیح) جہاد نہیں۔(ابوداؤد)
 جہاد کی فضیلت قرآن و حدیث میں بہت زیادہ وارد ہوئی ہے لیکن حقوق العباد کی بظاہر معمولی سی کوتاہی بھی اس عظیم عبادت کو غیر مقبول بناسکتی ہے۔

·         سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک صاحب مسجد نبوی میں آکر وعظ کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ(مکان) مسجد نبوی سے بالکل متصل تھا۔( اگرچہ اس زمانے میں لاؤڈ سپیکر نہیں تھا، مگر )وہ صاحب بلند آواز میں وعظ کیا کرتے تھے۔ ان کی آواز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے اندر پہنچتی۔آپ اپنی عبادات، تلاوت، ذکر و اذکار یا دوسرے کاموں میں مشغول ہوتیں اور ان صاحب کی آواز سے آپ کو تکلیف پہنچتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ ایک صاحب اس طرح سے میرے حجرے کے قریب آکر وعظ کرتے ہیں، مجھے اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ وعظ کسی اور جگہ جاکر کریں، یا آہستہ آواز کریں۔ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے ان صاحب کو بلایا اور سمجھا کہ آپ کی آواز سے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوتی ہے ، آپ اپنا وعظ اس جگہ پر بند کریں ۔ چنانچہ وہ صاحب رُک گئے مگر وہ صاحب وعظ کے شوقین تھے۔ چند روز بعد دوبارہ وعظ شروع کردیا ۔ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی تو آپ نے انہیں دوبارہ بلایا اور فرمایا کہ یہ لکڑی کی چھڑی تمہارے اوپر توڑ دوں گا۔ (یعنی اتنی سزا دوں گا کہ تمہارے اوپر یہ لکڑی ٹوٹ جائے گی۔)
ان دونوں واقعات کو غور پڑھیں ۔ ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ گھر اور مساجد میں کوئی محفل کرتے ہوئے لاؤڈ سپیکر کی آواز اس قدر رکھتے ہیں کہ سارا محلہ سنے۔ اگر کوئی شخص جاکر منع کرے تو اس پر طعن و تشنیع کی جاتی ہے کہ یہ صاحب سچے مسلمان نہیں ہیں ، ان کو واعظ، تلاوت یا نعت وغیرہ سے تکلیف ہوتی ہے۔حالانکہ اس”نیک “ عمل کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو پامال کیا جارہا ہوتا ہے ، دوسروں کو تکلیف پہنچائی جارہی ہوتی ہے، ان کی نیند، ان کی پڑھائی، تلاوت و عبادات میں خلل کیا جارہا ہے ، مسلمان کو اذیت دی جارہی ہے لیکن پھر بھی خدا سے ثواب و رحمت کی امید رکھی جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ طرزِ عمل اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔

دوسرا اصول
سورۃ المائدہ کی آیت کے تحت ہمیں عبادت کے متعلق جو دوسرا اصول معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام بالکل مکمل اور جامع دین ہے۔ اس میں کسی قسم کے اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جو کچھ عبادات اور احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور قرآن مجید میں بیان کردیے گئے ہیں وہ ہمارے لیے کافی ہیں۔۔ لہٰذا اپنے رب کے تقرب ، اس کی خوشنودی اور حصولِ ثواب کے لیے دین کے مجوزہ طریقوں سے منحرف ہو کر کوئی نیا طریقہ نکالنا جس کی حقیقت کتاب و سنت کسی میں بھی نہ ہو وہ جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص دین میں کوئی نئی چیز شامل کرتا ہے تو وہ دراصل دین اسلام ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کی توہین کر رہا ہوتا ہے کیونکہ بندہ دین میں کوئی چیز ایجاد کرتا ہے، یا اس پر عمل کرتا ہے تو درحقیقت وہ باطنی طور پر اپنے عمل اور زبان حال سے یہ ثابت کر رہا ہوتا ہے کہ وہ رسول خدا ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی تقسیر کر رہا ہے ، انہوں نے یہ نیکی یا اعلیٰ عمل نہ کیا ۔ وہ ان باتوں کو نہ سمجھ سکے جنہیں وہ ادا کر رہا ہے اور وہ اس بدعت کا اضافہ کرکے دین اسلام کو مزید بہتر کر رہا ہے ۔ بلکہ یہ ایک صورت میں دین اسلام کو ہمارا چیلنج ہوتا ہے کہ ہم وہ عمل کر رہے ہیں جو اس میں ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ہے ۔

اسلام کیا ہے؟




حافظ محمد شارقؔ

یونٹ 1 : اسلام
اسلام کا لفظ مادہ سلم سے نکلا ہے۔ اس کے لغوی معنی بچنے، محفوظ رہنے، (To save)مصالحت اور امن و سلامتی (Peace)پانے اور فراہم کرنے کے ہیں۔ حدیث نبوی میں اس کے لغوی معنی کے لحاظ سے ارشاد ہے:

المسلم من سلم المسلمون من السانہ ویدہ
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔[1]

اسی مادہ کے بابِ افعال سے لفظ ’ اسلم‘ بنا ہے۔اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید میں بھی یہ الفاظ مختلف صورتوں میں استعمال ہوا ہے،جس کے معنی و مفہوم اطاعت(To submit) اور (To surrender)فرمانبرادی کے ہیں ۔ چنانچہ کی قرآن مجید کی سب سے طویل سورت(باب ) البقرة میں ہے:

ہاں! جو بھی اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکا دے اور وہ نیکی کرنے والا ہے تو اس کے لےے اسکا اجراس کے رب کے پاس ہے ۔[2]

اسی سورة میں چند آ یات بعد فرمانبرداری کے مفہوم کے ساتھ ارشاد ہے:

جب اس کے رب نے اس سے کہا کہ تو فرمانبردار ہوجا تو اس نے کہا میں فرمانبردار ہوگیا ۔[3]

اس کے علاوہ ایک اور مقام پر ہے:

دیہاتی کہتے ہیں ہم ایمان لائے، کہہ دو نہیں! تم ایمان نہیں لائے ہو۔ ہاں یہ کہوکہ ہم نے اطاعت قبول کرلی ہے، اور ابھی تک ایمان تو تمہارے قلوب میں داخل نہیں ہوا۔[4]

ان آیات مبارکہ کے علاوہ لفظ اسلام کا یہ مادہ قرآن و حدیث میں بہت سے مقامات پر استعمال ہوا ہے، تاہم ہر جگہ اس کے معنی و مفہوم خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری کے ہی ہیں۔ ان تمام لغوی معنوں اور تشریحات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم اسلام کی ایک جامع تعریف کرنا چاہیں تو یہ کی جاسکتی ہے کہ اسلام سے مراد وہ سلامتی ہے جو خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری کے ذریعے حاصل ہو۔

اسلام کے علاوہ مذاہب عالم میں اس وقت جو اہم نام ہمارے سامنے ہیں وہ یہودیت، عیسائیت، ہندومت اور بدھ مت ہیں۔ مورخین اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ یہ سبھی نام خود انسانوں کے وضع کردہ ہیں ۔ لفظ ہندو مت اور یہودیت جغرافیائی حیثیت رکھتے ہیں،بدھ مت اور عیسائیت اپنے رہبر گوتم بدھ اور عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہیں۔ لیکن جب ہم لفظ اسلام کی بات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام نہ ہی جغرافیائی پس منظر پیش کرتا ہے اور نہ کسی شخصیت سے منسوب ہے۔ یہ لفظ کسی انسان یا گروہ کے بجائے خود خدا تعالیٰ نے رکھا ہے، اور یہ نام ہمیں تمام اسلامی منابعات میں عام ملتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں انتہائی واضح انداز میں اس "دین" کا نام اسلام رکھا گیا ہے۔

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ[5]
بیشک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے

وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ[6]
اور  جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
آج کے دین میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام (بطور ) دین پسند کرلیا۔

------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 

(اس یونٹ کے اگلے حصے "برائے مطالعہ" ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

http://truewayofislam.blogspot.com/2013/09/1.html)




[1]صحیح بخاری۔ کتاب الایمان
[2] القرآن مجید ۔ سورة البقرة ۔ آیت 112
[3] القرآن مجید۔ سورة البقرة۔ آیت 131
[4] القرآن مجید۔ سورة الحجرات آیت 41
[5]القرآن مجید ۔ سورۃ ال عمران آیت 19
[6] القرآن مجید۔ سورۃ ال عمران آیت 185