Monday 2 September 2013

اسلام کیا ہے؟


حافظ محمد شارق

برائے مطالعہ


یونٹ 1

اس یونٹ میں ہم نے لفظ اسلام کے متعلق پڑھا۔ اس ضمن میں ہماری نظر سے کچھ آیات اور ایک حدیث نبوی بھی نظر گزری۔سب سے پہلے ہم اس حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ حدیث کئی اعتبار سے انتہائی اہم ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک الفاظ میں ” مسلمان وہ ہے “کہہ کر یہ واضح کردیاکہ اسلام کو بطور دین دل و جان سے قبول کرلینے کے بعد اس کا فطری نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ آدمی کا قول وفعل دوسروں کے لیے ضرر رساں نہ رہے۔گویا مسلمان کہتے ہی اس کو ہیں جس میں یہ اعلیٰ صفات پائی جائیں، اگر کوئی شخص ایمان و اسلام کا مخلص دعوے دار ہے اور اس میں یہ صفات نہیں پائی جاتی تو اس کے زبانی دعوے کے برعکس حقیقت یہ ہوگی کہ وہ ابھی تک اسلامی تعلیمات پر صحیح طرح عمل پیرا نہیں ہے۔اس حدیث سے ہم مندرجہ ذیل اصول و مبادیات اخذ کرسکتے ہیں۔

اصولِ اخلاقیات

اول

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب یہ الفاظ احادیث کی دیگر کتابوں میں بھی ہمیں ملتے ہیں؛ زبان خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، انسان کے لیے یہی وہ اولین ذریعہ ہے جس کے وسیلے وہ اپنے جذبات کا مکمل طور پر اظہار کرتا ہے، لیکن دو دھاری تلوار کی مانند یہ نعمت جس قدر اہم ہے اسی قدراس کی نگہداشت انتہائی ضروری ہے۔حدیث میں پہلی بات جو بیان کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ ایک صحیح مسلمان وہی ہوسکتا ہے جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔اس ضمن میں اور ان جیسے دیگر سبھی گناہ شامل ہیں جن کا تعلق انسان کے قول سے ہوتا ہے، گناہ میں شامل ہوں گی۔

·         جھوٹ بولنا
·         بُرے نام و القاب رکھنا۔
·         تلخ کلامی
·         تہمت اور جھوٹے الزام لگانا۔
·         گالی دینا ۔
·         چغل خوری۔
·         مذاق اڑانا۔
·         غصہ کرنا۔
·         غیبت ۔
·         بلا وجہ تنقید۔

 اسٹڈی

مندرجہ ذیل آیات اور ان کی تفسیر کا مطالعہ کریں اور غور و فکر کریں کہ قرآن مجید آپ کی شخصیت کی تعمیر آپ کے قول کے حوالے سے کیا احکامات دیتا ہے۔
·         سورة الحجرات ۔ آیت 12
·         سورة بنی اسرائیل۔ آیت63
·         سورة ق۔ آیت 81

فعل

اس حدیث کا دوسرا حصہ انسان سے سرزد ہونے والے اعمال سے متعلق ہے۔ ایک مسلمان سے یہ ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس کے ہاتھ سے کسی دوسرے کو کوئی تکلیف پہنچے۔ موجودہ دور میں اہل مغرب کے ہاں سوک سینس کے نام پر جو کچھ سکھایا جاتا ہے، وہ اس حدیث کے تحت آ جاتا ہے۔ہمارے ہاں  ہاتھ سے تکلیف پہنچانے کوبعض ظاہری صورتوں سے متعلق ہی سمجھا جاتا ہے  مثلاً کسی کو مارنا، چوری کرنا ، راستے میں کچڑا پھینکا وغیرہ۔ کئی دیگر حرکات کو ایذا شمار نہیں کیا جاتا، جبکہ حقیقت یہ ہے ہاتھ سے تکلیف پہنچانے سے مراد اور بھی بہت سے  افعال ہیں کیوں کہ انسان اپنے بیشتر افعام ہاتھوں سے ہی انجام دیتا ہے۔ اس ضمن میں پڑوسیوں کو تکلیف نہ دینا، اونچی آواز سے حمد و نعت یا گانے نہ لگانا، گاڑی کی پارکنگ میں خیال رکھنا کہ کسی کو تکلیف نہ ہو، اور ایسے بے شمار پہلو ہیں جو اس حدیث کے تحت آ جاتے ہیں۔

اصول عبادات و رسوم

یونٹ 1 میں آنے والی مذکورہ آیات اور حدیث دونوں ہی سے عبادت اور مذہبی رسوم سے متعلق بنیادی طور پر دو اصول اخذ کیے جاسکتے ہیں ۔ پہلا اصول ہمیں حدیث اور دوسرا اصول ہمیں آیت سے معلوم ہوتا ہے۔

پہلا اصول
حدیث سے یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں کسی بھی ایسے عمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس سے دوسروں کو تکلیف ہو چاہے وہ معمولی سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔کسی کو تکلیف دے کر اگر آپ کوئی نیک عمل انجام دے رہے ہیں تو وہ آپ کے ہرگز ثواب کا باعث نہیں ہوگا۔ چنانچہ اس حدیث کی رو سے کسی کا راستہ روک کر، سڑک بلاک کرکے نجی یا مذہبی و سیاسی محفل و مجالس کا انعقاد جائز نہیں ہوگا۔

یہاں اس حوالے سے دو واقعات بیان کرنا مناسب ہوگا جو ہمارے مذہبی و سیاسی  لوگوں کے لیے خاص طور پر ایک نصیحت ہے جو سڑکوں پر رکاوٹیں ڈال کر محفل نعت و ذکر سجاتے ہیں یا سیاسی جلسہ کرتے ہیں اور اس گمان میں ہوتے ہیں انہیں بہت سا ثواب مل رہا ہوگا اور اس سے قوم کو فائدہ ہورہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ حقوق العباد میں لاپرواہی کرتے ہوئے لوگوں کو تکلیف دینا ، راستہ بند کرنا ان کا سارا عمل برباد کردیتا ہے اور ان کے لیے وہ عمل ثواب نہیں وبال بن سکتا ہے۔
·         صحابہ کی ایک جماعت نے رسول اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ کیا ، راستہ میں پڑاؤ ہوا تو لوگوں نے  خیمے قریب قریب لگا لیے اور راستہ تنگ کردیا۔ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو بھیج کر لوگوں کے درمیان اعلان کرایا کہ جو شخص راستہ میں تنگی پیدا کرے گا یا راستہ کو کاٹے گا تو اس کا جہاد (صحیح) جہاد نہیں۔(ابوداؤد)
 جہاد کی فضیلت قرآن و حدیث میں بہت زیادہ وارد ہوئی ہے لیکن حقوق العباد کی بظاہر معمولی سی کوتاہی بھی اس عظیم عبادت کو غیر مقبول بناسکتی ہے۔

·         سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک صاحب مسجد نبوی میں آکر وعظ کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ(مکان) مسجد نبوی سے بالکل متصل تھا۔( اگرچہ اس زمانے میں لاؤڈ سپیکر نہیں تھا، مگر )وہ صاحب بلند آواز میں وعظ کیا کرتے تھے۔ ان کی آواز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے اندر پہنچتی۔آپ اپنی عبادات، تلاوت، ذکر و اذکار یا دوسرے کاموں میں مشغول ہوتیں اور ان صاحب کی آواز سے آپ کو تکلیف پہنچتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ ایک صاحب اس طرح سے میرے حجرے کے قریب آکر وعظ کرتے ہیں، مجھے اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ وعظ کسی اور جگہ جاکر کریں، یا آہستہ آواز کریں۔ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے ان صاحب کو بلایا اور سمجھا کہ آپ کی آواز سے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوتی ہے ، آپ اپنا وعظ اس جگہ پر بند کریں ۔ چنانچہ وہ صاحب رُک گئے مگر وہ صاحب وعظ کے شوقین تھے۔ چند روز بعد دوبارہ وعظ شروع کردیا ۔ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی تو آپ نے انہیں دوبارہ بلایا اور فرمایا کہ یہ لکڑی کی چھڑی تمہارے اوپر توڑ دوں گا۔ (یعنی اتنی سزا دوں گا کہ تمہارے اوپر یہ لکڑی ٹوٹ جائے گی۔)
ان دونوں واقعات کو غور پڑھیں ۔ ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ گھر اور مساجد میں کوئی محفل کرتے ہوئے لاؤڈ سپیکر کی آواز اس قدر رکھتے ہیں کہ سارا محلہ سنے۔ اگر کوئی شخص جاکر منع کرے تو اس پر طعن و تشنیع کی جاتی ہے کہ یہ صاحب سچے مسلمان نہیں ہیں ، ان کو واعظ، تلاوت یا نعت وغیرہ سے تکلیف ہوتی ہے۔حالانکہ اس”نیک “ عمل کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو پامال کیا جارہا ہوتا ہے ، دوسروں کو تکلیف پہنچائی جارہی ہوتی ہے، ان کی نیند، ان کی پڑھائی، تلاوت و عبادات میں خلل کیا جارہا ہے ، مسلمان کو اذیت دی جارہی ہے لیکن پھر بھی خدا سے ثواب و رحمت کی امید رکھی جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ طرزِ عمل اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔

دوسرا اصول
سورۃ المائدہ کی آیت کے تحت ہمیں عبادت کے متعلق جو دوسرا اصول معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام بالکل مکمل اور جامع دین ہے۔ اس میں کسی قسم کے اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جو کچھ عبادات اور احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور قرآن مجید میں بیان کردیے گئے ہیں وہ ہمارے لیے کافی ہیں۔۔ لہٰذا اپنے رب کے تقرب ، اس کی خوشنودی اور حصولِ ثواب کے لیے دین کے مجوزہ طریقوں سے منحرف ہو کر کوئی نیا طریقہ نکالنا جس کی حقیقت کتاب و سنت کسی میں بھی نہ ہو وہ جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص دین میں کوئی نئی چیز شامل کرتا ہے تو وہ دراصل دین اسلام ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کی توہین کر رہا ہوتا ہے کیونکہ بندہ دین میں کوئی چیز ایجاد کرتا ہے، یا اس پر عمل کرتا ہے تو درحقیقت وہ باطنی طور پر اپنے عمل اور زبان حال سے یہ ثابت کر رہا ہوتا ہے کہ وہ رسول خدا ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی تقسیر کر رہا ہے ، انہوں نے یہ نیکی یا اعلیٰ عمل نہ کیا ۔ وہ ان باتوں کو نہ سمجھ سکے جنہیں وہ ادا کر رہا ہے اور وہ اس بدعت کا اضافہ کرکے دین اسلام کو مزید بہتر کر رہا ہے ۔ بلکہ یہ ایک صورت میں دین اسلام کو ہمارا چیلنج ہوتا ہے کہ ہم وہ عمل کر رہے ہیں جو اس میں ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ہے ۔

No comments:

Post a Comment