Friday 14 August 2015

اہم منطقی مغالطے

منطق ایک قدیم فن ہے جس کا مقصد انسان کو اُن قوانین سے آگاہ کرنا ہے جن کی مدد سے وہ غور  و فکر میں غلطی سے محفوظ رہے۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم ان قوانین سے آگاہ نہ ہونے  یا آگاہ ہونے کے باوجود غلطی شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ ایسا غلط استدلال ہوتا ہے جو بظاہر صحیح نظر آرہا ہو۔اسی غلط استدلال کو مغالطہ کہتے ہیں۔
مغالطے کا شکار ہماراذہن خود بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہےکہ  کوئی اور شخص ہمیں اس میں  مبتلاء کر رہا ہو۔ چونکہ کسی بھی استدلال (Argument) کو پیش کرنے کا اصل مقصد کسی نتیجے (یا مقدمے) کو صحیح ثابت کرنا  ہی ہوتا ہے اس لیے  مغالطے کی وجہ سے ہم غلط نتیجے پر پہنچتے ہیں۔اس کی عام  مثال ہمارے سامنے میڈیا، سیاست اور مذہب کا میدان ہے جس میں عوام  کو مختلف قسم کے مغالطوں میں مبتلاء کردیا جاتا ہے ۔ایک مقرر اپنی تقریر میں مخالف کے رد اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے لوگوں کے سامنے ایسے غلط استدلال پیش کرتا جس کا احساس  عوام کو بالکل نہیں ہوتا، بلکہ ان کا احساس یہ ہوتا ہے انھوں نے دلائل و نطائر کے طومار باندھ کر مخالف کو چیت کردیا ہے۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ایک مشہور واقعہ ملاحظہ کیجیے۔
سر سید احمد کے بیٹے محمود احمد جو ہندوستان کے مشہور وکیل تھے،ان کے بارے میں ایک واقعہ کتابوں میں ملتا ہے کہ وہ یادداشت کے معاملے میں تھوڑے بھلکڑ واقع ہوئے تھے،،ایک مقدمے میں پیش ہوئے اور یاد نہ رھا کہ وہ استغاثہ کے وکیل ہیں یا دفاع کے ،، انہوں نے چھوٹتے ہی وکیل صفائی کی حیثیت سے دلائل دینے شروع کر دیئے اور ملزم کی صفائی میں دلائل کے اس طرح ڈھیر لگا دیے کہ استغاثہ سمیت جنہوں نے انہیں اپنے لئے فیس دی تھی خود جج بھی پریشان ہو گیا،، استغاثہ والوں نے انہیں ایک چِٹ پکڑائی کہ حضور آپ استغاثہ کے وکیل ہیں،، وکیلِ صفائی نہیں !!! سید محمود احمد نے بہت اطمینان سے چِٹ پر لگاہ دوڑائی اور بات میں ذرا بھی وقفہ دیے  بغیر اسی جوش و خروش سے فرمایا۔می لارڈ ،، یہ وہ سارے دلائل تھے جو وکیلِ صفائی زیادہ سے زیادہ اس کیس کے حق مین دے سکتا تھا،، مگر جنابِ عالی ان دلائل میں کوئی جان نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ  اس کے بعد جو سید محمود نے استغاثہ کے حق میں دلائل دیے تو اپنے ہی دیے ہوئے دلائل کے اس طرح پرخچے اڑا کر رکھ دیے کہ جج سمیت وکلاء بھی عش عش کر اٹھے اور سید صاحب مقدمہ جیت گئے۔
اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ  ایک ہی بات قوت بیان سے صحیح اور غلط ثابت کرنا اہل زبان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ہماری لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے لوگ بالخصوص علم و دانش کے بعض نام نہاد علم بردار ہمیں کئی مغالطوں کا شکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ہم ایک غلط نظریے کو درست سمجھ لیتے ہیں بلکہ مخالفین کے لایعنی اعتراضات کو مضبوط اعتراض سمجھ کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ان مغالطوں سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم صحیح فکر کے اصولوں سے واقف ہوں ، مگر اس مصروف زندگی میں یہ ہر ایک کے بس میں نہیں ہے کہ وہ قدیم جدید منطق کا مطالعہ کرے  اور ایک فن کے طور پر ہر ایک مقدمے کو جانچ کر اس کا تجزیہ کرسکے۔ چنانچہ اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہم مغالطوں (Fallacies)سے متعلق یہ مختصر  سا کورس ڈیزائن کیا ہے جس میں انتہائی آسان اسلوب میں یہ  بتایا گیا ہے کہ غلط استدلال کیا ہوتا اور ہم انھیں کیسے پہچان سکتے ہیں۔اس ضمن  میں ہم نے قدیم و جدید منطق میں بتائے گئے مغالطوں میں سے بعض اہم مغالطوں کا انتخاب کیا ہے ۔ زبان و بیان سے متعلق مغالطے مثلاً شعر و شاعری، ابہام وغیرہ چونکہ فکری نوعیت کے مغالطے نہیں ہیں اس لیے ہم نے انھیں نظر انداز کردیا ہے اور صرف انھی مغالطوں کا انتخاب کیا ہے جس کا تعلق خاص طور پر علمی معاملات اور نظریات سے ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم نے مغالطے کی جو اقسام بیان کی ہیں ان کے نام اور ان کی اقسام بھی آپ کو یاد ہوں، بلکہ ضروری یہ ہے کہ آپ یہ پہچان سکیں کہ اس استدلال کیا غلطی پیش کی گئی ہے۔اس لیے اصطلاحات یاد کرنے کے بجائے مغالطوں کو پہچاننے پر زیادہ توجہ دیجیے۔
کتاب کی تیاری میں دو کتب Irving M.Copi اور Carl Cohen  کی کتاب Introduction to Logic کے گیارہویں ایڈیشن اور Bo.Bennettکی مشہور کتاب Logical Fallacious سے خاص طور پر مدد لی گئی ہے  جس کے لیے ہم ان کے مصنفین کے شکر گزار ہیں۔ امید ہے کہ قارئین اس مختصر سے کورس سے استفادہ کرنے کے بعد غلط استدلال کو باسانی پہچان کر کسی بھی شخص کی طرف سے فکری کج روی کے دھوکے سے محفوظ رہیں گے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین
حافظ محمد شارق

26/05/2015

ہندومت کا تفصیلی مطالعہ