Wednesday 30 May 2012

: فارسی زبان سیکھیں

Hafiz Muhammad Shariq: فارسی زبان سیکھیں: فارسی زبان  سیکھیں حافظ محمد شارق فارسی ایک قدیم ہند یورپی زبان ہے جوایران ، افغا...

Hinduism and Islam ہندو دھرم اور اسلام کا تقابلی م...

Hafiz Muhammad Shariq: Hinduism and Islam ہندو دھرم اور اسلام کا تقابلی م...: Hinduism and Islam Comparative Study of Hinduism & Islam By: Hafiz Muhammad Shariq Topic: Comparative Religion Edit...

: بامقصد زندگی

Hafiz Muhammad Shariq: بامقصد زندگی: بامقصد زندگی ہم میں سبھی لوگوں نے کسی نہ کسی جانور کو ضرور دیکھا ہوگا‘ اورانکی زندگی کیا ہے؟ اس بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔...

: بامقصد زندگی

Hafiz Muhammad Shariq: بامقصد زندگی: بامقصد زندگی ہم میں سبھی لوگوں نے کسی نہ کسی جانور کو ضرور دیکھا ہوگا‘ اورانکی زندگی کیا ہے؟ اس بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔...

Comparative Religion Course Karachi

Hafiz Muhammad Shariq: Comparative Religion Course Karachi: Venue: Shahnawaz Garden, Garden West Karachi Fee: 1000 (for our NGO, Concession for eligible (Mustahiq)Studenst) Classes Every Sunday ...

Hafiz Muhammad Shariq: فارسی زبان سیکھیں

Hafiz Muhammad Shariq: فارسی زبان سیکھیں: فارسی زبان  سیکھیں حافظ محمد شارق فارسی ایک قدیم ہند یورپی زبان ہے جوایران ، افغا...

فارسی سیکھیں: چوتھا سبق

فارسی سیکھیں: چوتھا سبق
حافظ محمد شارق
 <<<پچھلا سبق >>>                                       اگلا سبق



Add caption

Friday 11 May 2012

ایک سوال...........؟


ایک سوال...........؟ 
محمد مدثر بن منورخان

اپنے ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے کافی دنوں سے غور کر رہا تھا کہ کیا وجہ ہے جو آج ہم اس مقا م پر کھڑے ہیں جہاں ہر منظر میں کرپشن ،دغا بازی ، جھوٹے وعدے ، جعلی نعرے ، اورفریب دکھائی دیتا ہے۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے میں اُن اشخاص کو داد دیتا ہوں جنہوں نے اس ملک کی خاطر قربانیاں دی اور مسلمانوں کے لیے یہ مقدس سرزمین حاصل کی۔ ہمیں یہ ملک عطا کیا میں کبھی لوگوں سے قائد اعظم محمد علی جناح اور علا مہ اقبال کے بارے میں لوگوں سے بات کرتا ہوں تو بہت سے لوگ انہیں ایسے کلمات سے یادکرتے ہیں کہ اگر اُن کے چاہنے والوں میں سے کسی کی سماعتوں تک وہ کلمات پہنچ جائیں تو وہ یقیناًوہ ان کی روحوں سے فریاد کرنے لگے گا کہ تم نے کن لوگوں یہ پاکستان دے دیا؟ ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا، کچھ دنوں قبل میں ایک عزیز سے بات کررہا تھاتو دورانِ گفتگو قائد اعظم اور علا مہ اقبال کا بھی ذکر آیا؛ اُنہوں نے ان شخصیات کے بارے میں جو کچھ تجزیہ کیا، اسے میرا ضبط تحریر میں لانے کی سکت نہیں رکھتا، صرف عزیز ہونے کی وجہ سے میں نے یہ بات درگزر کرلی ۔اس طرح کے مشاہدات ہم میں سے ہر ایک کے سامنے ہیں، کچھ سن کر خاموش ہوجاتے ہیں اور کچھ تو اُنکے ساتھ مل کر کسرپوری کر دیتے ہیں، اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پر بہتان تک لگا تے ہیں۔جب بھی میں ان کے بارے میں یہ سب سنتا ہوں تو دل چیخ چیخ کریہ کہتا ہے کہ! بے ضمیر احسان فراموش لوگوں! جس ملک میں تم رہ رہے ہو، جس مٹی کا تم کھا رہے ہو، جس دھرتی سے جنم لیا ہے اور جس دھرتی میں ابدی نیند سونا تم اسی سے غداری کر رہے ہو؟ 
جتنے بھی لوگ ہیں جو ان پر کیچڑ اچھالتے ہیں ان سے ایک سوال ہے؟جو تم ملک عزیز میں تم عزت کے ساتھ رہتے ہو یہ عزت کس کی وجہ سے ہوئی ؟تم آسانی سے اپنی مسا جد میں نماز پڑتے ہو کس کی وجہ سے؟اگر تمہیں واقعی لگتا ہے وہ غلط تھے تو کیوں رہتے ہو اس ملک میں ، کیوں کھاتے ہو اس ملک کا؟ چلے جاؤہمارے اور ان کے ملک سے نہ ہمارے کو تمہاری ضرورت ہے نہ اس ملک کو تمہاری۔اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ ملک اب نہیں چل سکتا تو بنا لا ؤ ایک ایسا ملک جو اس ملک کی طرح ہو، اور قسم خدا کی تم نہیں لا پاؤگے ایسا ملک میرے قائد کا ملک ہے، ایسا ملک جس کے وجود میں میرے قائد کا پسینہ شامل ہے، ایسا ملک جس کی مٹی میں لکھ جانوں کے خون کا خمیر شامل ہے، جو میرے اقبال کا ملک ہے، جوہمارا ملک ہے۔ یہ ملک ﷲکی طرف سے امانت ہے جس طرح حضرت صالح کواﷲ نے اونٹنی دی۔اس ملک کے قائد بھی پاک ہیں اور ملک بھی پاک ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے کیونکہ اس ملک کے نام کا مطلب ہی مدینہ منورہ ہے۔

Tuesday 8 May 2012

فارسی زبان سیکھیں


فارسی زبان سیکھیں



حافظ محمد شارق



فارسی ایک قدیم ہند یورپی زبان ہے جوایران ، افغانستان اور تاجسکتان میں بولی جاتی ہے ،اسکی اہمیت کی خاص وجہ یہ ہے کہ عربی کے بعد مسلمانوں نے جس زبان کو اپنایا ہے،وہ فارسی ہی ہے، علوم اسلامیہ کا اہم ذخیرہ فارسی زبان میں موجود ہے جس میں کئی اہم تفاسیر، شروح حدیث اور فقہ کی کتابیں شامل ہیں۔ مسلمانوں کی ہندوستان آمد کے بعد ان کی زبان بھی فارسی ہی تھی ، ادبی میدان ہو یا علم و تحقیق کا ،دیگر زبانوں کی طرح اس کا بھی ایک وسیع اور قابل رشک ادبی سرمایہ ہے اور کئی علوم کا ذخیرہ ہے جس کے مطالعے کے لیے اس زبان کا سیکھنا ضروری ہے۔ لیکن وقت اور وسائل کی کمی کے باعث ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اس زبان کو سیکھ سکے۔ 


اسی ضرورت کے پیش نظر میں نے خدا کا نام لے کر فارسی زبان کے اس کورس کا آغاز کیا ہے ، اس کورس کا بنیادی مقصد اردو بولنے اور سمجھنے واے ان لوگوں کو فارسی زبان سے آشنا کرنا اور انہیں تعلیمی خدمت فراہم کرنا ہے جنہیں یہ زبان سیکھنے کا شوق ہے لیکن ان کے پاس سیکھنے کے وسائل نہیں ہیں،یا وقت کی کمی کا سامنا ہے ۔اردو بولنے والوں کے لیے دیگر زبانوں کی نسبت فارسی سیکھنا انتہائی آسان ہے کیونکہ اردو میں اکثر و بیشتر فارسی کے الفاظ مستعمل ہیں اور پھر فارسی اور اردو میں جملے کی ترکیب بھی بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ جو آپ کے لیے کافی مددگار ہوگی، میری کوشش رہے گی کہ آسان فہم اور جدید انداز میں آپ کو فارسی سکھاؤں ،ان شاء اللہ یہ ایک ایسا آن لائن کورس ثابت ہوگا جس کے ذریعے آپ دنیا بھر میں کہیں بھی رہ کر آسان طریقے سے فارسی سیکھ سکتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ اگر آپ نے دیانت داری کے ساتھ کوشش کی اور محض ۲۰ منٹ سے آدھا گھنٹہ توجہ کے ساتھ ان تحریروں کا مطالعہ کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ فارسی لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

طریقہ کار:

 اس بلاگ پر ہر چند دنوں بعد ایک سبق پوسٹ کیا جائے گا ، چونکہ ہم ایک نئی زبان سیکھ رہے ہیں اس لیے اس کا مطالعہ آپ کو روزانہ کی بنیاد پر کرنا ہوگا تاکہ سبق کے تمام پہلو اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔اور جو سوالات ذہن میں اٹھیں انہیں مجھے بلا تردد ارسال کردیں۔ اس بلاگ کو Follow ضرور کریں تاکہ نئے اسباق کے اپڈیٹس ؤپ کو ملتے رہیں۔ اپنے عزیز و احباب میں یہ کورس بذریعہ فیس بک شیئر کرنا مت بھولیے۔ 
ہر کورس کی کوئی نہ کوئی فیس ہوتی ہے ، اس کورس کی فیس میں مجھے آپ کی دعائیں چاہیے ، خدا کی بارگاہ میں آپ جب بھی ہاتھ اٹھائیں اس بندے کو ضرور یاد رکھیے گا۔ اس کے علاوہ مجھے اس کورس کے بدلے آپ سے ایک اور قیمتی چیز چاہیے ، اور وہ ہے آپ کی رائے ۔ آپ کی رائے میرے لیے بیش قیمتی ہے ، اس لیے سبق پڑھنے کے بعد اپنی رائے (Comments) ضرور دیں تاکہ اس کورس کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکے ۔ آپ اپنے تمام سوالات hafizmshariq@gmail.com پر ارسال کر سکتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ اہل وطن میری اس کوشش کو قبول فرمائیں گے اور اس کے مطالعے سے ایک قلیل مدت میں فارسی زبان سیکھ لیں گے۔ اللہ ہم سب کو کامیاب کرے۔ (آمین)

حافظ محمد شارق


(اس بلاگ پر شیئر کیا جانے والا تمام تر مواد کے جملہ حقوق بحق انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سائنس محفوظ ہیں، لہٰذا کسی تحریر کو بلا اجازت کہیں نقل نہ کریں ، خلاف ورزی کی صورت میں تین لاکھ روپے جرمانہ اور دو سال قید یا دونوں سزائیں ممکن ہے۔)


Monday 7 May 2012

وحی اور اُس کی حقیقت



وحی اور اُس کی حقیقت

تلخیص علوم القرآن
مفتی محمد تقی عثمانی 


قرآن کریم چونکہ سرور کائنات حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے اس لیے سب سے پہلے وحی کے بارے میں چند ضروری باتیں سمجھ لینی چاہئیں ،
وحی کی ضُرورت :۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے ، اور اس کے ذمہ کچھ فرائض عائد کر کے پوری کائنات کو اس کی خدمت میں لگا دیا ہے ، لہٰذا دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے دو کام ناگزیر ہیں ، ایک یہ کہ وہ اس کائنات سے اور اس میں پیدا کی ہوئی اشیاء سے ٹھیک ٹھیک کام لے ، اور دوسرے یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوۓ اللہ تعالیٰ کے احکام کو مد نظر  رکھے ، اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اللہ تبارک و  تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو۔
ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو ’’علم‘‘ کی ضرورت ہی اس لیے کہ جب تک اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کونسی چیز کے کیا خواص ہیں ؟ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ؟ اس وقت تک وہ دُنیا کی کوئی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا، نیز جب تک اسے یہ معلوم نہ لو کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے ؟ وہ کون سے کاموں کو پسند اور کن کو ناپسند فرماتا ہے ؟ اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ،
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پید اکی ہیں جن کے ذریعہ اسے مذکورہ باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے ، ایک انسان کے حواس، یعنی آنکھ ، کان ، مُنہ اور ہاتھ پاؤں ، دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان ک بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہو جاتی ہیں ، بہت سی عقل کے ذریعہ اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتیں اُن کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے ،
علم کے ان تینوں ذرائع میں ترتیب کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک کی ایک خاص حد اور مخصوص دائرہ کار ہے ، جس کے آگے وہ کام نہیں دیتا ، چنانچہ جو چیزیں انسان کو اپنے حواس سے معلوم ہو جاتی ہیں اُن کا اعلم نِری عقل سے نہیں ہو سکتا، مثلاً ایک دیوار کو آنکھ سے دیکھ کر آپ کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہ، لیکن اگر آپ اپنی آنکھوں کو بند کر کے صرف عقل کی مدد سے اس دیوار کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو یہ نا ممکن ہے ، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ صرف حواس سے معلوم نہیں ہو سکتیں ، مثلاً آپ صرف آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے  چُھو کر یہ پتہ نہیں لگا سکتے کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے ، بلیہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے ،
غرض جہاں تک حواسِ خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی ، اور جہاں حواس خمسہ جواب دیدیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع  ہوتا ہے ، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے ، یہ بھی ایک حد پر جا کر رُک جاتی ہے ، اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعہ ، مثلاً اسی دیعار کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کسی طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہو گا، یہ نہ حواس کے ذریعہ ممکن ہے نہ عقل کے ذریعہ ، اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لیے جو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے ، اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرما کر اسے اپنا پیغمبر قرار دیدیتا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتا ہے ، اسی کلام کو ’’وحی‘‘ کہا جاتا ہے ۔
اس سے واضح ہو گیا کہ وحی انسان کے لیے وہ اعلیٰ ترین ذریعہ علم ہے جو اسے اس کی زندگی سے متعلق اُن سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے جو عقل اور حواس کے ذریعہ حل نہیں ہو سکتے ، لیکن ان کا علم حاصل کرنا اس کے لیے ضروری ہے ، اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی الٰہی ایک نا گزیر ضرورت ہے ، اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اُس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی، اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی ی ہر بات کا ادراک عقل سے ہو ہی جاۓ، بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں بلکہ حواس کا کام ہے ، اسی طرح بہت سے دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کے بجاۓ وحی کا منصب ہے ، اور ان کے ادراک کے لیے نِری عقل پر بھروسہ کرنا درست نہیں ،
جو شخص (معاذ اللہ) خدا کے وجود ہی کا قائل نہ ہو اس سے تو وحی کے مسئلہ پر بات کرنا بالکل بے سود ہے ، لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اس کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے وحی کی عقلی ضرورت، اس کے امکان اور حقیقی وجود کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ، اگر آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ کائنات ایک قادر مطلق نے پیدا کی ہے ، وہی اس کے مربوط اور مستحکم نظام کو اپنی حکمت بالغہ سے چلا رہا ہے ، اور اسی نے انسان کو کسی خاص مقصد کے تحت یہاں بھیجا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اُسے بالکل اندھیرے میں چھوڑ دیا ہو، اور اُسے یہ تک نہ بنایا ہو کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے ؟ یہاں اس کے ذمہ کیا فرائض ہیں ؟ اس کی منزل مقصود کیا ہے ؟ اور وہ کس طرح اپنے مقصد زندگی کو حاصل کر سکتا ہے ؟ کیا کوئی شخص جس کے ہوش و حواس سلامت ہوں ایسا کر سکتا ہے کہ اپنے کسی نوکر کو ایک خاص مقصد کے تحت کسی سفر پر بھیجدے ، اور اُسے نہ چلتے وقت سفر کا مقصد بتاۓ ، اور نہ بعد میں کسی پیغام کے ذریعہ اس پر یہ واضح کرے کہ اسے کس کام کے لیے بھیجا گیا ہے ؟ اور سفر کے دوران اس کی ڈیوٹی کیا ہو گی ؟ جب ایک معمولی عقل کا انسان بھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا تو آخر اس خداوندِ قدوس کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے جس کی حکمت بالغہ سے کائنات کا یہ سارا نظام چل رہا ہے ؟ یہ آخر کیسے ممکن ہے کہ جس ذات نے چاند ، سورج ،آسمان ، زمین ، ستاروں اور سیاروں کا ایسا محیر العقول نظام پیدا کی ہو وہ اپنے بندوں تک پیغام رسانی کا کوئی ایسا انتظام بھی نہ کر سکے جس کے ذریعہ انسانوں کو ان کے مقصدِ زندگی سے متعلق ہدایات دی جا سکیں ؟ اگر اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے  تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا، بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی باقاعدہ نظام ضرور بنایا ہے ، بس رہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام .وحی و رسالت ہے
انتخاب: حافظ محمد شارق

Saturday 5 May 2012

میرا قائد ۔ ۔ ۔ ۔ محمد علی جناح



تحریر:۔ محمداحمد ترازی
”جس روز قائد اعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا ، میں اُس روز کراچی میں تھا، افتتاحی تقریب کے بعد اُن کی واپسی سے کچھ پہلے میں وائی، ایم، اے بلڈنگ کے پیچھے جاکر ایوان صدر کے بڑے گیٹ
کے سامنے کھڑا ہوگیا، اُس جگہ بھیڑ نہیں تھی، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ میرے قریب ایک شخص بھی نہیں تھا، تھوڑی دیر کے بعد دور سے قائد اعظم کی کھلی گاڑی آتی دکھائی دی،آہستہ آہستہ یہ گاڑی عین میرے سامنے آگئی، میں نے اپنے قائد کو جی بھر کے دیکھا، سفید شیروانی اور اپنی مخصوص ٹوپی پہنے وہ بالکل سیدھے بیٹھے تھے، اُن کے ساتھ اُن کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔
گاڑی ابھی صدر دروازے کی طرف مڑنے ہی والی تھی کہ قائد اعظم نے آہستہ سے اپنی گردن بائیں طرف گھمائی اور اُن کی نظریں سیدھی میرے چہرے پر پڑیں، بے ساختگی میں میرا داہنا ہاتھ ماتھے کی طرف اٹھا….اور ….پھر ….اور ….پھر….وہ وہیں جم کر رہ گیا….یااللہ ….! میرے ہاتھ کے ساتھ ہی میرے قائد کا ہاتھ بھی ماتھے کی طرف اٹھا، میرے قائد نے میرے سلام کا جواب دیا….میرے قائد نے ایک واحد ہاتھ کا سلام قبول کیا….میرے قائد نے ایک گمنام شخص کا سلام قبول کیا….میرا قائد اسلامی روایات کا پابند ہے ….میرا قائد مکمل مسلمان ہے۔ “
قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے سید اشفاق نقوی کے یہ جذبات مسلمانان برصغیر کی دلی کیفیت کے آئینہ دار ہیں، ریئس احمد جعفری لکھتے ہیں کہ ”قائد اعظم کے ساتھ سب سے بڑی بے انصافی یہ ہوتی چلی آرہی ہے کہ اُن پر لکھنے والوں میں سے کسی نے بھی آپ کو مومنانہ صفات، مذہبی جذبات، دینی تاثرات، اسلامی رجحانات کے آئینہ میں پیش نہیں کیا، جیسے دین و مذہب سے آپ کا کوئی واسطہ ہی نہ ہو، حالانکہ آپ کا ہر ارشاد، ہر بیان، ہر تقریر اسلام کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھی، گو آپ منافقین کی طرح اسلام، اسلام کی رٹ نہیں لگاتے تھے، بلکہ اٹھتے بیٹھتے اسلام ہی کو اپنے مخصوص رنگ اور عصری تقاضوں کے مطابق پیش کرتے تھے، اگر آپ کی ہر تقریراور ارشاد کا دیانت دارانہ جائزہ لیا جائے تو وہ اسلام کی کسوٹی پر پورا اترے گا۔“
آج قائد اعظم محمد جناح کے یوم پیدائش کے موقع پر ہم ان کی زندگی کے وہ چند واقعات آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں جو قائدکی زندگی کے دینی، مذہبی اور اسلامی پہلو وں کو بھر پور طریقے سے اجاگر کرتے ہیں، اگرچہ قائد اعظم بظاہر معنوی اعتبار سے مذہبی رہنما نہیں تھے لیکن یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن کی منزل سے روشناس کرنے والے قائد کا خدا، رسول اور اپنے دین و مذہب پر کتنا کامل یقین تھا اور وہ کتنے پختہ اصولوں کے مالک تھے، شاید اسی وجہ سے جناب مجید نظامی نے کہا کہ ”اُن کی شخصیت کا خمیر سنہرے اصولوں کی روشن مٹی سے اٹھا تھا اور ان کی پوری زندگی ایک زندہ کرامت تھی۔“
خواجہ اشرف احمد بیان کرتے ہیں کہ ”3مارچ1941ءکو لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے آسٹریلیا مسجد میں نماز عصر ادا کرنا تھی،جب قائد تشریف لائے تو مرزا عبدالحمید تقریر کررہے تھے، مسجد کچھا کچ بھری ہوئی تھی، قائد موٹرکار سے برآمد ہوئے تو انہوں نے اچکن، چوڑی دار پاجامہ اور بٹلر شوز پہن رکھے تھے، اُن کی آمد پر لوگوں میں ہلچل پیدا ہوئی، لیکن وہ فوراً سنبھل گئے کہ قائد اعظم نظم و ضبط کے انسان تھے، وہ مسجد کے بغلی دروازے میں داخل ہوئے، اگلی صف تک راستہ بن گیا، لیکن قائد نے یہ کہتے ہوئے اگلی صف میں جانے سے انکار کردیا ”میں آخر میں آیا ہوں اسلئے یہیں بیٹھوں گا“ سیاست میں آگے جانے والا خانہ خدا میں سب سے پیچھے بیٹھا، نماز سے فارغ ہونے کے پر قائد نے جو کام فوراً کیا وہ یہ کہ اپنے جوتے اٹھالیے، ہرکسی کی خواہش تھی کہ وہ قائد کے جوتے اٹھانے کی سعادت حاصل کرے، لیکن ہرکسی کی حسرت ہی رہی، لوگ بعد میں اُن کے ہاتھ سے جوتے چھیننے کی کوشش ہی کرتے رہے، لیکن قائد کی گرفت آہنی تھی، وہ ہجوم میں اپنی ریشمی جرابوں سمیت کوئی تیس قدم بغیر جوتوں کے چلے اور اصرار اور کوشش کے باوجود کسی شخص کو اپنا جوتا نہیں پکڑایا۔
مولانا حسرت موہانی بیان کرتے ہیںکہ”ایک روز میں جناح صاحب کی کوٹھی پر صبح ہی صبح نہایت ضروری کام سے پہنچا اور ملازم کو اطلاع کرنے کو کہا، ملازم نے کہا اس وقت ہم کو اندر جانے کی اجازت نہیںہے،آپ تشریف رکھیں، تھوڑی دیر میں جناح صاحب خود تشریف لے آئیں گے، چونکہ مجھے ضروری کام تھا، اس لیے مجھے ملازم پر غصہ آیا اور میں خود کمرے میں چلاگیا، ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں پھر تیسرے کمرے میں پہنچا تو برابر والے کمرے سے مجھے کسی کے بلک بلک کررونے اور کچھ کہنے کی آواز آئی، یہ جناح صاحب کی آواز تھی، میں گھبراگیا اور آہستہ سے پردہ اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قائد اعظم سجدے میں پڑے ہیں اور بہت ہی بیقراری کے ساتھ دعا مانگ رہے ہیں، میں دبے پاوں وہیں سے واپس آگیااور اب تو بھائی جب جاتا ہوں اور ملازم کہتا ہے کہ صاحب اندر ہیں تو یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سجدے میں پڑے دعا کررہے ہیں، میرے تصور میں ہر وقت وہی تصویر اور وہی آواز رہتی ہے ۔“
جناب مختار زمن کہتے ہیںکہ ”میرے والد آگرہ میںجج تھے، انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ قائد اعظم کسی کیس کے سلسلے میں آگرہ تشریف لائے، اس موقع پر مسلم لیگ نے جلسہ کرنا چاہا، لیکن قائداعظم نے اس میں شرکت سے انکار کردیا اور کہا، میں اپنے موکل کی طرف سے پیش ہونے آیا ہوں، جس کی وہ فیس ادا کرچکا ہے، میں خیانت کیسے کروں،آپ جلسہ کرنا چاہتے ہیں تو بعد میں بلا لیں، میں اپنے خرچ پر آوںگا۔“ نواب صدیق علی خان کہتے ہیں کہ ”جارج ششم شاہ انگلستان کے زمانے میں ہندوستان کیلئے مزید اصلاحات کے سلسلے میں قائد اعظم لندن تشریف لے گئے، مذاکرات جاری تھے کہ قصر بکنگھم سے ظہرانے کی دعوت موصول ہوئی، اُس زمانے میں قصر بکنگھم کی دعوت ایک اعزاز ہی نہیں بلکہ یادگار موقع ہوتا تھا لیکن قائداعظم نے یہ کہہ کر اس دعوت میں شرکت کرنے سے معذرت کرلی کہ ”آجکل رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے اور اس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔“
تحریک پاکستان کے آخری مرحلے میں قائداعظم نے مسلم عوام سے چاندی کی گولیوںکی اپیل کی، اس پر عام مسلمان مردوں ہی نے نہیں عورتوں نے بھی لبیک کہا اور اپنا زیور تک لیگ فنڈ میں دینا شروع کردیا، لیکن قائد اعظم نے اس چندے کو قبول نہیں کیا، ایک روز بیگم شائستہ اکرام اللہ نے قائد اعظم سے پوچھا، سر یہ مسلمان خانہ دار عورتیں اتنے شوق سے اپنے ہاتھوں کے کنگن اور بالیاں اتار اتار کر مسلم لیگ کودیتی ہیں اور آپ انہیں قبول نہیں کرتے، واپس کردیتے ہیں، عجیب سا لگتا ہے، کیا یہ ایک قابل قدر جذبے کی توہین نہیں ہے، قائد اعظم نے کہا نہیں یہ بات نہیں، کوئی اورلیڈر ہوتو شاید اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھے، لیکن میں سیاست میں جذباتیت کو پسند نہیں کرتا، ان خواتین کو چاہیے کہ وہ زیورات کا عطیہ کرنے سے پہلے اپنے اپنے شوہروں سے پوچھیں، اُن سے اجازت لیں اور پھر دیں۔“
دہلی مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کا جلسہ امپیریل ہوٹل میں ہورہا تھا، خاکساروں نے گڑبڑ کی، سارا ہنگامہ قائد اعظم کے خلاف تھا، لیکن سارے ہنگامے میں جو شخص سب سے پرسکون رہا، وہ خود قائداعظم تھے، جب میٹنگ انتشار کا شکار ہوکر ختم ہوگئی تو وہ بڑے اطمینان سے تنہا باہر جانے لگے، یہ دیکھ کر پیرآف مانکی شریف نے آپ سے کہا ،آپ اس طرح باہر نہ جایئے،کہیںآپ کو کچھ نہ ہوجائے، ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں، قائد اعظم نے کہا نہیں، اس کی ضرورت نہیںاور آسمان کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا ،کیا وہ (خدا)وہاں نہیں؟۔ اسی طرح 1946ءمیں جب قائد اعظم شملہ تشریف لے گئے تو بعض لیگی کارکنوں نے محسوس کیا کہ قائداعظم کیلئے خصوصی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے، ایک کارکن نے آپ سے کہا جناب ہمیں معلوم ہے کہ دشمن آپ کی جان کے درپے ہیں، اس لیے اجازت دیجئے کہ ضروری حفاظتی اقدامات کئے جائیں، جس پر قائداعظم نے فرمایا مجھے اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے، خدا ہی سب سے بڑا محافظ اور چارہ ساز ہے، آپ فکر مند نہ ہوں۔
اپریل 1945ءمیں قائد اعظم خان آف قلات کی دعوت پر بلوچستان تشریف لے گئے اس موقع پر خان آف قلات نے ان سے بچوں کے ایک ا سکول کے معائنہ کی درخواست کی، قائد اعظم ننے منے بچوں سے مل کر بہت خوش ہوئے اور اُن سے گھل مل گئے، قائداعظم نے ایک بچے سے خان آف قلات کی جانب اشارہ کرکے پوچھا یہ کون ہیں، بچے نے جواب دیا یہ ہمارے بادشاہ ہیں، قائد اعظم نے بچے سے پوچھا، میں کون ہوں، بچہ بولا، آپ ہمارے بادشاہ کے مہمان ہیں، قائد نے پھر بچے سے پوچھا، تم کون ہو، بچہ بولا، میں بلوچ ہوں، قائد اعظم نے خان آف قلات سے کہا ، اب آپ ان کو پہلا سبق یہ پڑھایئے کہ میں مسلمان ہوں اور بچوں سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا ،بچو….! تم پہلے مسلمان ہو، پھر بلوچ یا کچھ اور ہو۔
پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے ایک موقع پر جب قائداعظم کوئٹہ میں قیام پزیر تھے، ان کی کچھ ایسی تصویریں دکھائیں جو انہوں نے کھنچی تھیں، قائد اعظم نے اُن سے اپنی مزید تصویریں کھیچنے کی فرمائش کی، یحییٰ بختیار نے عذر پیش کیا، لیکن قائداعظم نے اُن کا عذر مسترد کردیا، دوسرے دن جناب یحییٰ بختیار اپنا کیمرہ اور فلیش لے کر قائداعظم کی رہائش گاہ پہنچے، اُس وقت قائداعظم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر مشتمل ایک کتاب جس کا ٹائیٹل”الحدیث“ تھا مطالعہ فرمارہے تھے، یحییٰ بختیار چاہتے تھے کہ کہ وہ قائداعظم کی تصویر ایسے زاویہ سے لیں کہ کتاب کا ٹائیٹل بھی فوکس میں آسکے، لیکن قائداعظم نے تصویر کھنچوانے سے پہلے کتاب علیحدہ رکھدی اور یحییٰ بختیار سے فرمایا ”میں ایک مقدس کتاب کو اس قسم کی پبلسٹی کا موضوع بنانا پسند نہیں کرتا۔“
قائداعظم کے معالج ٹی بی اسپیشلسٹ ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں کہ ”ایک بار دوا کے اثرات دیکھنے کیلئے ہم ان کے پاس بیٹھے تھے، میں نے دیکھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں، لیکن ہم نے اُن کو بات چیت سے منع کررکھا تھا، اس لیے الفاظ لبوں پر آکر رک جاتے تھے، اسی ذہنی کشمکش سے نجات دلانے کیلئے ہم نے خود انہیں بولنے کی دعوت دی، تو وہ بولے، ”تم جانتے ہو،جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے، یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیںکرسکتا تھا، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا، اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں، تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے، پاکستان میں سب کچھ ہے، اس کی پہاڑیوں، ریگستانوں اور میدانوں میں نباتات بھی ہیں اور معدنیات بھی، انہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے، قومیں نیک نیتی، دیانت داری، اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اور اخلاقی برائیوں، منافقت، زر پرستی اور خود پسندی سے تباہ ہوجاتی ہیں۔“
نوٹ:۔اس مضمون کی تیاری میں جناب متین خالد کی کتاب ”اسلام کا سفیر “سے مدد لی گئی ہے
انتخاب: حافظ محمد شارق

Wednesday 2 May 2012

میثاق مدینہ The Constitution of Islamic State of Madina




متن
میثاق مدینہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
میثاق مدینہ
The Constitution of
Islamic State of Madina

آرٹیکل نمبر 1

عربی

هذا کتاب من محمد النبی (رسول اﷲ) صلی الله علیه وآله وسلم.
انگلش
This is a constitutional document given by Muhammad (SAW), the Prophet, (Messenger of God).
اردو
یہ اللہ کے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دستوری تحریر (دستاویز ) ہے۔

آرٹیکل نمبر 2

عربی
بين المؤمنين والمسلمين من قريش و (أهل) يثرب و من تبعهم فلحق بهم وجاهد معهم.
انگلش
(This shall be a pact) between the Muslims of Quraysh, the people of Yathrib (the Citizens of Madina) and those who shall follow them and become attached to them (politically) and fight along with them. (All these communities shall be the constitutional subjects of the State.)
اردو
یہ معاہدہ مسلمانان قریش اور اہل یثرب اور ان لوگوں کے مابين ہے جو ان کے تابع ہوں اور ان کے ساته شامل ہوجائیں اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیں۔ (یہ سب گروہ ریاست مدینہ کے آئینی طبقات متصور ہوں گے)۔

آرٹیکل نمبر 3

عربی
أنهم أمة واحدة من دون الناس.
انگلش
The aforementioned communities shall formulate a Constitutional Unity as distinct from (other) people.
اردو
تمام (دنیا کے دیگر ) لوگوں کے بالمقابل ان کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت (قومیت) ہوگی۔

آرٹیکل نمبر 4

مہاجرین قریش کے لئے سابقہ قبائلی قانونِ دیّات کی توثیق و نفاذ
Validation and Enforcement of the Former Tribal Laws of Blood Money for the Emigrant Quraysh.
عربی
المهاجرون من قريش علي ربعتهم يتعاقلون بينهم معاقلهم الأولي، وهم يفدون عانيهم بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
The emigrants from Quraysh shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
قریش میں سے ہجرت کر کے آنے والے اپنے محلے پر ( ذمہ دار ) ہوں گے اور اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائیں گے، مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر 5

بنو عوف کے لئے ان کے قبائلی قانونِ دیّات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Auf
عربی
و بنو عوف علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولي وکل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Auf shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنی عوف اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر6

بنو حارث کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Harith
عربی
و بنو حارث (بن الخزرج) علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولي وکل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Harith shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of thier prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو حارث بن خزرج اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر7

بنو ساعدہ کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Saida
عربی
و بنو ساعده علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولی وکل طائفة تفدی عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Saida shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو ساعدہ اپنے محلے پر (ذمہ دار ) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر8

بنو جشم کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Jusham
عربی
و بنو جشم علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولي و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Jusham shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو جشم اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر9

بنو نجار کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Najjar
عربی
و بنو النجار علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولی و کل طائفة تفدی عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Najjar shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو نجار اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا، مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصا ف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر10

بنو عمرو کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Amr
عربی
و بنو عمرو بن عوف علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولی وکل طائفة تفدی عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Amr shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو عمرو بن عوف اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا،  مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر11

بنو نبیت کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Nabeet
عربی
و بنو النبيت علي ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولي و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Nabeet shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنونبیت اپنے محلے پر (ذمہ دار ) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا، مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر12

بنو اوس کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Aws
عربی
و بنو الأوس علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولی و کل طائفة تفدی عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Aws shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو الاوس اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا، مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر 13

تمام طبقات کے لئے بلا امتیاز پابندی قانون و عدل کا حکم
Indiscriminate Rule of Law and Justice for all the Communities.
عربی
و کل طائفة تفدی عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
انگلش
And every group shall secure the release of its captives ensuring that an indiscriminate rule of law and justice is applied among the believers.
اردو
ہر گروہ اپنے قیدیوں کا زرِ فدیہ ادا کر کے انہیں رہائی دلائے گا اور اس ضمن میں مسلمانوں کے درمیان قانون و انصاف کے بلا امتیاز اطلاق کو یقینی بنائے گا۔

آرٹیکل نمبر14

تنفیذ قانون میں تخفیف کی ممانعت
Prohibition of Relaxation in Execution of Law
عربی
و ان المؤمنين لا يترکون مفرحا بينهم أن يعطوه بالمعروف فی فداء او عقل.
انگلش
The believers shall not leave a debtor among them, but shall help him in paying his ransom, according to what shall be considered fair.
اردو
اور ایمان والے کسی قرض کے بوجہ سے دبے ہوئے کو مدد کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے، جن کے ذمہ زرِ فدیہ یا دیت ہے۔

آرٹیکل نمبر15

کسی کی ناحق حمایت کی ممانعت
Prohibition of Unjust Favouritism
عربی
و أن لا يحالف مؤمن مولی مؤمن دونه.
انگلش
A believer shall not form an alliance with the associate of (another) believer without the (latter's) consent.
اردو
اور یہ کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کے مولا (معاہداتی بھائی) سے اس کی مرضی کے بغیر معاہدہ نہیں کرے گا۔

آرٹیکل نمبر16

ظلم، گناہ اور فساد کے خلاف اجتماعی مزاحمت
Collective Resistance against Unjustice, Tyranny and Mischief
عربی
و أن المؤمنين المتقين أيديهم علي کل من بغي منهم أو ابتغي دسيعة ظلم أو إثما أو عدوانا أو فسادا بين المؤمنين و أن أيديهم عليه جميعا ولو کان ولد أحدهم.
انگلش
There shall be collective resistance by the believers against any individual who rises in rebellion, attempts to acquire anything by force, violates any pledge or attempts to spread mischief amongst the believers. Such collective resistance against the perpetrator shall occur even if he is the son of anyone of them.
اردو
اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ان میں سے ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو سرکشی کرے یا استحصال بالجبر کرنا چاہے یا گناہ یا تعدی کا ارتکاب کرے، یا پر امن شہریوں (مومنوں) میں فساد پھیلانا چاہے اور ایسے شخص کے خلاف سب مل کر اٹھیں گے،  خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

آرٹیکل نمبر17

مسلمان کو مسلمان کے قتل کی ممانعت
Prohibition of Killing of a Muslim by a Muslim
عربی
ولا يقتل مؤمن مومنا فی کافر، ولا ينصر کافرا علی مؤمن.
انگلش
A believer shall not kill (another) believer (in retaliation) for an unbeliever, nor help an unbeliever against a believer.
اردو
اور کوئی ایمان والا کسی ایمان والے کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کرے گا، اور نہ کسی کافر کی کسی ایمان والے کے خلاف مدد کرے گا۔

آرٹیکل نمبر18

مسلمانوں کی جانی حفاظت کے مساوی حق کی ضمانت
Guarantee of Equal Right of Life Protection for all the Muslims
عربی
و أن ذمة اﷲ واحدة يجير عليهم أدناهم.
انگلش
The security of God (granted under this constitution) is one. This protection can be granted even by the humblest of the believers (that would be equally binding for all).
اردو
اور اللہ کا ذمہ ایک ہی ہے۔ ان (مسلمانوں) کا ادنیٰ ترین فرد بھی کسی کو پناہ دے کر سب پر پابندی عائد کرسکے گا۔

آرٹیکل نمبر19

دیگر آئینی طبقات کے مقابل امت مسلمہ کا الگ تشخص
Distinctive Identity of the Muslims Against other Constitutional Communities
عربی
و أن المؤمنين بعضهم موالی بعض دون الناس.
انگلش
The believers shall be the associates of one another against all other people (of the world).
اردو
اور ایمان والے بقیہ لوگوں کے مقابلباہم بھائی بھائی ہیں۔

آرٹیکل نمبر20

غیر مسلم اقلیتوں (یہود) کی جانی حفاظت کا حق بھی (مسلمانوں کے) برابر ہے
Non-Muslim Minorities (Jews) have the same Right of Life Protection (like Muslims)
عربی
و أنه من تبعنا من يهود فإن له النصر والأ سوة غير مظلومين ولا متناصر عليهم.
انگلش
A Jew, who obeys us (the state) shall enjoy the same right of life protection (as the believers do), so long as they (the believers) are not wronged by him ( the Jew), and he does not help (others) against them.
اردو
اور یہودیوں میں سے جو ہماری (ریاست مدینہ کی)اتباع کرے گا اسے مدد اور مساوات حاصل ہوگی، جب تک وہ اہل ایمان پر ظلم کا مرتکب نہ ہو یا ان کے خلاف (کسی مخالف کی) مدد نہ کرے۔

آرٹیکل نمبر21

تمام مسلمانوں کیلئے عدل اور برابری پر مبنی یکساں امن و امان کی ضمانت
Guarantee of Peace and Security for all the Muslims based on Equality and Justice
عربی
و ان سلم المومنين واحدة لا يسالم مومن دون مومن في قتال في سبيل اﷲ الا علي سواء و عدل بينهم.
انگلش
And verily the peace granted by the believers shall be one. If there is any war in the way of Allah, no believer shall make any treaty of peace (with the enemy) apart from other believers, unless that is based on equality and fairness among all.
اردو
اور ایمان والوں کی صلح (معاہدہ امن) ایک ہی ہوگی۔ اللہ کی راہ میں لڑائی کے دوران کوئی ایمان والا کسی دوسرے ایمان والے کو چھوڑ کر (دشمن سے ) صلح نہیں کرے گا۔ جب تک کہ (یہ صلح) ان سب کیلئے برابر اور یکساں نہ ہو۔

آرٹیکل نمبر22

جنگی معاونین کی امداد کا قانون
Law of Relief for War Allies
عربی
و أن کل غازية غزت معنا يعقب بعضها بعضا.
انگلش
Every war ally of ours shall receive relief turns (at riding) at all military duties.
اردو
اور ان تمام گروہوں کو جو ہمارے ہمراہ (دشمن کے خلاف) جنگ کریں باہم نوبت بہ نوبت رخصت دلائی جائے گی۔

آرٹیکل نمبر23

مسلمانوں کے لئے ایک دوسرے کی خاطر جنگی انتقام لینے کا قانون
Law of Vengeance for the Muslims in case of Bloodshed in the way of Allah
عربی
و أن المؤمنين يبيئ بعضهم عن بعض بما نال دماء هم في سبيل اﷲ.
انگلش
The believers shall execute vengeance for one another for the bloodshed in the way of Allah.
اردو
اور ایمان والے راہ خدا میں اپنی ہونے والی خونریزی کا ایک دوسرے کے لئے (دشمن سے) انتقام لیں گے۔

آرٹیکل نمبر24

اسلام ہی بہترین نظام حیات ہے
Islam is the Best Code of life
عربی
و أن المؤمنين المتقين علی أحسن هدي و أقومه.
انگلش
All the God-fearing believers are under the best and most correct guidance of Islam.
اردو
اور بلا شبہ ایمان اور تقوی والے سب سے اچھے اور سیدھے راستے پر ہیں۔

آرٹیکل نمبر25

دشمن کوجان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کی ممانعت

Prohibition of Providing Security of Life and Property to the Enemy

و أنه لا يجير مشرک مالاً لقريش و لا نفساً و لا يحول دونه علی مؤمن.

No idolater (or any non-believer among the clans of Madina) shall give protection for property and life to (any of the) Quraysh (because of their being hostile to the state of Madina) nor shall intervene on his behalf against any believer.

اور ( مدینہ کی غیر مسلم رعیت میں سے) کوئی مشرک قریش کی جان و مال کو کوئی پناہ دے گا اور نہ ان کی خاطر کسی مومن کے آڑے آئے گا۔

آرٹیکل نمبر26

مسلمانوں کے قتل کیلئے قانون قصاص کا اجرا

Execution of the Law of Retaliation for a Muslim Murder

و أنه من اعتبط مؤمناً قتلا عن بينة فإنه قود به، إلا أن يرضی ولی المقتول (بالعقل)، و أنّ المؤمنين عليه کافّة و لا يحل لهم إلاقيام عليه.

When anyone intentionally kills a believer, the evidence being clear he shall be killed in retaliation, unless the heirs of the victim are satisfied with the bloodmoney. All the believers shall solidly stand against the murderer and nothing will be lawful for them except opposing him.

اور جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کرے اور ثبوت پیش ہو تو اس سے قصاص لیا جائے گا، بجز اس کے کہ مقتول کا ولی خوں بہا پر راضی ہوجائے۔ اور تمام ایمان والے اس (قصاص) کی تعمیل کیلئے اٹھیں گے اور اس کے سوا انہیں کوئی اور چیز جائز نہ ہوگی۔

آرٹیکل نمبر27

معاہدہ کی خلاف ورزی میں فتنہ پروری اور فساد انگیزی کرنے والے کیلئے کوئی حفاظت اور رعایت نہیں

No Protection or Concession for the Doer of Mischief and Subversion against the Constitution

و أنه لا هحل لمؤمن أقرّا بما فه هذه الصحهفة، وآمن باﷲ والهوم الآخر أن هنصر محدثا أو هؤوهه، و أن من نصره، أو آواه، فإن علهه لعنة اﷲ و غضبه هوم القهامة، ولا هؤخذ منه صرف ولا عدل.

A believer who believes in God and in the Hereafter and agrees to the contents of this document shall not provide any protection or concession to those who engage in mischief and subversion against this Constitution. Those who do so shall face the curse and wrath of God on the Day of Resurrection. Furthermore, nothing shall be accepted from them as a compensation or restitution (in the life hereafter).

اور کسی ایسے ایمان والے کیلئے جو اس دستور العمل (صحیفہ) کے مندرجات (کی تعمیل) کا اقرار کرچکا ہو اور خدا اور یوم آخرت پر ایمان لا چکا ہو، یہ بات جائز نہ ہوگی کہ کسی قاتل کو مدد یا پناہ دے اور جو اسے مدد یا پناہ دے گا تو قیامت کے دن اس پر خدا کی لعنت اور غضب نازل ہو گا اور اس سے کوئی رقم یا معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔

آرٹیکل نمبر28

جملہ نزاعات میں آخری اور حتمی حکم اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ 
وسلم کا ہوگا۔

The Final and Absolute Authority in the Disputes vests in Almighty Allah and Hadrat Muhammad (SAW)

و أنکم مما اختلفتم فيه من شئ، فإن مرده إلی اﷲ و إلی محمد.

When anyone among you differs about anything, the dispute shall be referred to Almighty Allah and to the Prophet Muhammad (SAW) (as all final and absolute authority is vested in them).


اور جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف ہو تو اسے اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا۔ (کیونکہ آخری اور حتمی حکم اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے)۔

آرٹیکل نمبر29

یہود کی جنگی اخراجات میں متناسب ذمہ داری

Proportionate Liability of Non-Muslim Citizens (the Jews) in Bearing the War Expenses

و أن اليهود ينفقون مع المؤمنين ما د اموا محاربين.

The Jews (non-Muslim minorities) will be subjected to a proportionate liability of the war expenses along with the believers so long as they (the Jews) continue to fight in conjunction with them.

اور یہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ (جنگی) اخراجات برداشت کرتے رہیں گے جب تک وہ مل کر جنگ کرتے ر ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری۔ میثاق مدینہ