Saturday, 21 April 2012

ض کی ادائیگی۔ کیسے؟ داد یا ظاد؟

ہمارے ہاں ایک عمومی رویہ ہے کہ اگر ہم سے کوئی شخص کا گروہ کسی معاملے میں اختلاف کربیٹھے ہماری عقلوں پر ایسے قفل لگ جاتے ہیں کہ ہم پھر اس کی ہر ایک بات سے اختلاف کرنے لگ جاتے ہیں اور ہر صورت میں اسے گمراہ قرار دینے پر بضد رہتے ہیں، خواہ وہ حق پر ہو یا باطل۔ ایک واضح مثال ہمارے سامنے عربی لفظ ضاد کی قرأت کے متعلق ہے جسے ہم نے آج ایک بہت بڑا نزع اور فساد کا سبب بنا رکھا ہے ۔ ہم نہ جانے کیوں اس بارے میں لڑتے رہتے ہیں ، کوئی کہتا ہے اسے ظ کے مشابہ پڑھو اور کوئی کہتا ہے دال کی پڑھو ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے دیوبندی ، اہل حدیث ہو یا بریلوی مکتب فکر کے لوگ، کسی میں کوئی اختلاف امت میں نہیں ہے ۔ سبھی مکاتب فکر متفق ہیں کہ یہ لفظ ’’ض‘‘ زبان کی کروٹ جب اوپر داڑھوں سے دائیں یا بائیں طرف لگانے سے ادا ہوتا ہے، اس مخرج میں کسی قسم کا کہیں اختلاف نہیں ہے۔لاعلمی کی بناء پر بعض لوگوں نے اسے نزع بنا دیا ہے ۔ میں ان لوگوں سے انتہائی عاجزی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو اس موضوع کو بنا سمجھے جھگڑے کا سبب بنالیتے ہیں کہ براہِ کرم اس معاملے میں جھگڑنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ حقیقت کیا ہے، اور ہمارے اکابر علماء نے اس بارے میں کیا فرمایاہے۔
اہل سنت والجماعت کے بریلوی مکتب فکر کے امام حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’ظاد اور دواد دونوں محض غلط ہیں، اور اس کا مخرج بھی نہ زبان کو دانتوں سے لگا کر ہے نہ زبان کی نوک کو داڑھ سے لگا کہ، بلکہ اس کا مخرج زبان کی ایک طرف کی کروٹ اسی طرف بالائی داڑھوں سے مل کر درازی کے ساتھ ادا ہونا اور زبان کو اوپر کو اٹھا کر تالو سے ملنا اور ادا میں سختی وقوف ہونا ہے۔ اس کا مخرج سیکھنا مثل تمام حرفوں کے ضروری ہے جو شخص مخرج سیکھ لے اور اپنی قدرت تک اس کا استعمال کرے اور ظ یا ذ کا قصد نہ کرے بلکہ اسی حرف کا جو اللہ عزوجل کی طرف سے اترا ہے پھر جو کچھ نکلے بوجہ آسانی صوت پر نماز کا فتویٰ دیا جائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ‘‘ (فتاویٰ رضویہ۔ جلد ۳، صفحہ ۱۰۰)
’’یہ حرف دشوار ترین حرف ہے اور اس کی ادا خصوصاً عجم پر کہ ان کی زبان کا حرف نہیں سخت مشکل (ہے)۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کا مخرج صحیح سے ادا کرنا سیکھیں اور کوشش کریں کہ ٹھیک ادا ہو اپنی طرف سے نہ ظاد کا قصد کریں نہ دواد کا کہ دونوں محض غلط ہیں اور جب اسے حسب وسع و طاقت جہد کیا اور حرف صحیح ادا کرنے کا قصد یا پھر کچھ نکلے اس پر مواخذہ نہیں ، لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا خصوصاً ظا سے اس حرف کا جدا کرنا تو سخت مشکل ہے پھر ایسی جگہ ان سخت حکموں کی گنجایش نہیں تکفیر دینا امر عظیم ہے لا یخرج الانسان من الاسلام الا حجور ما ادخلہ فیہ اور جمہور متاخرین کے نزدیک فساد نماز کا بھی حکم نہیں ہے۔ (فتاویٰ رضویہ۔ جلد ۳، صفحہ ۱۰۱)
بالکل یہی بات اہل سنت والجماعت کے دوسرے مکتب فکر علماء دیوبندکے ایک جیّد عالم دین حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں:
جب مخرج معلوم ہوگیا تو ضاد کے ادا کرنے یہی طریقہ ہے کہ اس کے مخرج سے نکالا جاوے۔ اس نکالنے سے بوجہ عدم مہارت خواہ کچھ ہی نکلے عفو ہے اور اگر قصداً دال یا ظا پڑھے وہ جائز نہیں ، جیسا کہ بعض نے دال پڑھنے کی عادت کرلی ہے اور بعض فقہاء کے کلام میں دیکھ کر کہ ضاد مشابہ ظا ہے ظا پڑھنا شروع کردیا حالانکہ مشابہت کی حقیقت صرف مشارکت فی بعض الصفات ہے اور مشارکت فی بعض الصفات سے اتحاد لازم نہیں آتا۔ (امداد الفتاویٰ۔ جلد ۱، صفحہ ۱۷۶)
دونوں فتاویٰ کو پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا خلاصہ کلام ایک ہی ہے ۔ض کی ادائیگی نہ ظا ہے نہ داد ہے بلکہ یہ دونوں کے قریب ایک علاحدہ حرف ہے جس کی ادائیگی اہل عجم کے لیے ایک مشکل کام ہے، اور اس بارے میں علمائے کرام کا صحیح مذہب یہ ہی ہے کہ یہ عذر ہے چنانچہ معاف ہے‘ البتہ کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اس لفظ کی صحیح ادائیگی کے دو طریقے ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر زبان کی کروٹ داڑھ کے ساتھ لگے تو سختی کے ساتھ لگا کر ادا کیا جائے تو یہ دال کے مشابہ ادا ہوگا یہ بھی صحیح اور جائز ہے اس لیے کہ اس کی ادائیگی درست مخرج سے کی جارہی ہے ، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زبان کی کروٹ کو داڑھوں کے ساتھ لگا کر نرمی سے ادا کیا جائے تو یہ ظا کے مشابہ ادا ہوتا ہے اور یہ بھی بلاشک و شبہ صحیح ہے۔ مختصراً اس لفظ کی ادائیگی کے لیے اہم امر مخرج ہے اگر مخرج درست ہے تو پھر ظا یا دال کے مشابہ پڑھنے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا دونوں ہی صحیح ہیں لیکن اسے اپنے مخرج سے ادا نہ کیا جائے تو پھر چاہے اسے دال کی طرح پڑھ لیں یا ظا کے، دونوں مکتب فکر کے نزدیک غیر صحیح ہوگا۔ چنانچہ اس بارے میں اب جھگڑنے سے بہتر ہے کہ ہم اس کے درست مخرج کے ساتھ صحیح ادائیگی کے لیے کسی ماہر قاری (مثلاً امام کعبہ شیخ عبد الرحمن السدیس، شیخ سعد الغامدی) کی تلاوت سنیں اور مشق کرتے رہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
حافظ محمد شارق 




حافظ محمد شارق

2 comments:

  1. kioon kay is mazmoon main sirf makhsoos makatib ka ziker kiya gya hey is liye is baaray main, main raaey nahi dey sakta kioon kay mazkoora makatib k ulema zyada behter bata saktey hen.

    ReplyDelete
  2. 2 makatib e fikr ko mukhaatib is liye kya gaya hai k is muaamlay mein jhagra inhi maktab e fikr k log apas mein kartay hain.

    ReplyDelete