Sunday, 1 April 2012

موجودہ تعلیم و تربیت کی شبیہ


موجودہ تعلیم و تربیت کی شبیہ

کچھ عرصہ قبل تہذیب الاخلاق میں نواب محسن الملک کا ایک مضمون ’’ موجودہ تعلیم و تربیت کی شبیہ‘‘ نظر سے گزرا۔ اس مضمون میں انہوں نے مغربی تعلیم اور ہماری مشرقی تعلیم کے متعلق تخیلانہ تجزیہ پیش کیا ہے کہ ایک روز انہوں نے تصور میں دو قسم کے باغ دیکھے ، یہ دو باغ دراصل مغربی اور مشرقی تعلیم کی شبیہ تھی۔ انکے سارے مضمون کا خلاصہ آخر میں اس طرح سے ہے ۔
’’ جو باغ ہرا بھرا میں نے مغرب میں دیکھا وہ علوم و فنون جدید کا باغ ہے۔جس کے پھل پھول ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ پر ہمارا دل بہلانے والا وہاں کوئی نہیں ہے ۔ اور جو باغِ خشک میں نے مشرق میں دیکھا ۔ وہ ہمارے ہی علوم قدیمہ کا باغ ہے ۔ جسکی ویرانی اور خزاں کی کیفیت ہمارے سامنے ہے ۔وہ پتھر جو سرچشمہ پر آگیا ہے ۔ جہالت ہے ۔ وہ ندی نالے گندے پانی کے رسم و رواج کی پابندی۔ نیکی نما تعصب۔ علم نما نادانی۔ جھوٹا زہد۔ جھوٹی شیخی۔ جاہلانہ تقلید۔ عامیانہ غلامی۔ ضرر انگیز حرارت۔ وحشیانہ تعلیم و تربیت ہے ۔جس کا نتیجہ مسخ انسانیت ہے ۔ جو کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جسکا علاج اب ہم سوائے دعا کے کچھ نہیں پاتے۔‘‘(ص ۱۷)
اس عبارت میں کچھ مبالغہ ضرور ہے کیونکہ مغربی تعلیم کو سراپا رحمت اور پھول بتانا صحیح نہیں ہے لیکن انہوں نے جو تجزیہ ہمارے باغ یعنی میدان علم پر کیا ہے وہ ۹۹222 درست ہے۔ ہمارا طرزِ تعلیم وحشیانہ اور فرسودہ ہوچکا ہے ، درسِ نظامی کا نصاب ہو یا عصری تعلیم کا۔ دونوں کی ہی حالت انتہائی خراب ہے ۔ ہمارا ہر نصاب ہمیں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ جاہلانہ تقلید اور رسم و رواج کی پابندی کو ہم نے اپنے رگوں میں اس طرح اتار لیا ہے کہ اس کے خلاف کچھ کہنا کفر کے مترادف ہوچکا ہے ، مختلف مسالک و مکاتب فکر پر تنقید نہیں بلکہ انہیں خوبصوررت القاب سے نوازنا ہمارے نزدیک ایک عظیم نیکی بن گئی ہے۔نام نہاد علماء اپنے لیے جس طرح اعزازات و خطابات کے لالچی بن گئے اسکا ذکر کچھ دن پہلے ایک مضمون میں کرچکا ہوں ، یہی جھوٹی شیخی ہے۔ اور جو اس باطل سے بغاوت کے لیے اٹھتے ہیں ان میں سے اکثر جذباتی سرگرمیوں میں لگ جاتے ہیں ، وہ سارے عالم یا سارے ملک میں ایک ہی دن میں انقلاب لانا چاہتے ہیں، اور جو صحیح راہ پر اس جدوجہد میں مصروف ہے انہیں گمراہ کہا جاتا ہے ۔ہندوؤں اور فرنگیوں سے آزادی حاصل کرلینے کے باوجود ہم فکری لحاظ سے انہی کے غلام ہیں ۔ اور ان سب کا نتیجہ کیا ہونا تھا وہ ہمارے سامنے ہی ہے۔ انسانیت کا جنازہ اٹھنے والا ہے اور اخلاقی ناپید ہوچکے ہیں۔( آخری کلمے سے اختلاف کرونگا ) ان سب کے علاج کے لیے ہمارے پاس دعا کے علاوہ دعوتی مشن ہے، جو پیغمبروں کا طریقہ ہے ، اور اسی امر بالمعروف نہی عن المنکر کے سہارے ہم قوم کے اس مرض کا علاج کرسکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment