خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل مکالمہ ملاحظہ کیجئے جس میں خدا کے وجود کو کس بالغانہ انداز میں ثابت کیا گیا ہے ۔
’’آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھیں کہ خون سرخ کیوں ہوتا ہے؟ تو وہ جواب دیگا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خون میں نہایت چھوٹے چھوٹے سرخ اجزاء ہوتے ہیں (ایک انچ کے سات ہزارویں حصے کے برابر) یہی سرخ ذرات خون کو سرخ کرنے کا سبب ہیں۔
’’درست، مگر یہ ذرات سرخ کیوں ہوتے ہیں؟ ‘‘
ان ذرات میں ایک خاص مادہ ہوتا ہے جس کا نام ہیموگلوبن (Haemoglobin) ہے‘ یہ مادہ جب پھیپھڑے میں آکسیجن جذب کرتا ہے تو گہرا سرخ ہوجاتا ہے ۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔ مگر ہیموگلوبن کے حامل سرخ ذرات کہاں سے آئے ؟‘‘
’’وہ آپ کی تلی میں بن کر تیار ہوتے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب! جو کچھ آپ نے فرمایا وہ بہت عجیب ہے۔ مگر مجھے بتائیے کہ ایسا کیوں ہے کہ خون‘ سرخ ذرات‘ تلی اور دوسری ہزاروں چیزیں اس طرح ایک کل کے اندر باہم مربوط ہیں‘ اور اس قدر صحت کے ساتھ اپنا اپنا عمل کررہی ہیں؟‘‘
’’یہ قدرت کا قانون ہے۔‘‘
’’وہ کیا چیز ہے جس کو آپ قدرت کہتے ہیں؟‘‘
’’اس سے مراد (Blind interplay of physical and chemical forces) طبیعی اور کیمیائی طاقتوں کا اندھا عمل ہے ۔ ‘‘
’’مگر کیا وجہ ہے کہ یہ اندھی طاقتیں ہمیشہ ایسی سمت میں عمل کرتی ہیں‘ جو انہیں ایک متعین انجام کی طرف لے جائے۔ کیسے وہ اپنی سرگرمیوں کو اس طرح منظم کرتی ہیں کہ ایک چڑیا اڑنے کے قابل ہوسکے ، ایک مچھلی تیر سکے، ایک انسان اپنی مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ وجود میں آئے۔‘‘
’’میرے دوست مجھ سے یہ نہ پوچھو، سائنس داں صرف یہ بتاسکتا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے ‘ وہ کیا ہے‘ اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے ۔‘‘
یہ مکالمہ اس بات کو بالکل واضح کردیتا ہے ہماری عقل بھی خدا کو ماننے پہ کیوں مجبور ہے۔ کیونکہ دراصل اسی ’’کیوں ‘‘ کی خلاء کر پُر کرنے کے لیے ہمیں چار و ناچار خدا کے وجود اور مذہب کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے ۔بگ بینگ نظریے کے مطابق کائنات ایک انفجار کے بعد وجود میں آئی اورپھر ایک طویل المیاد عمل کے بعد زمین میں مظاہر فطرت کا وجود ہوا۔مادہ پرست قوم اس پورے عمل کو اتفاق مانتی ہے ۔ سورج زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل فاصلے پر ہے اگر یہ فاصلہ کم یا زیادہ مثلاً نصف ہی ہوجائے ساری زمین تباہ ہوجائیگی اور سب کچھ جل کر راکھ ہوجائیگا لیکن ہم جانتے ہیں کہ سورج زمین کی حیات کے لیے ناگزیر فاصلے پر ہی واقع ہے ۔ زمین ۲۳ درجے کا زاویہ بناتے ہوئے خلاء میں جھکی ہوئی ہے اور یہ جھکاؤ ہمیں موسم دیتا ہے ، اگر زمین اس طرح نہ جھکی ہوئی ہوتی تو ایسے اثرات واقع ہوتے جس کی وجہ سے زمین پر زندگی کا وجود ناممکن ہوجاتا ۔ اس عظیم انفجار کے بعد آخر کیوں سورج اسی فاصلے گیا جو ہمارے لیے ناگزیر تھا۔آخر کیوں زمین اسی درجے پہ جھکی کہ ہمارے لیے مطلوبہ موسم رہ سکیں۔؟ ان سب کو اتفاق ماننا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک فرش پہ موتیوں سے پاکستان لکھا ہوا ہو املے اور آپ یہ مان لیں کہ کسی نہ موتیوں کی لڑی ہوا میں اچھال کے پھینکی اور اتفاق سے یہ لفظ بن گیا۔ یا یہ کچھ ایسا ہی ہے کہ آپ سیاہی کی بوتل زور سے کسی کاغذ کے ڈھیرپر پھینکے اور آپ کے سامنے دیوانِ غالب یا شاعری کی ایک ضخیم کتاب آجائے۔ کیا ایک صاحب عقل ان سب کو ’’اتفاق‘‘ مان سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ تو پھر یہ کائنات کا مربوط نظام کس طرح اتفاقاً وجود میں آسکتا ہے ؟ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ یہ ثبوت ہے اس ہستی کا جس نے یہ سارا نظام نظم و ضبط کے ساتھ قائم کیااور پھر ہمیں اس پر غور کرنے کی دعوت دی۔ انسان درحقیقت اتنا عاجز اور حقیر ہے کہ وہ اپنے عقل کے گھوڑوں کی رسائی بھلے چاند اور اجرام فلکی کے دیگر سیاروں تک کرلے لیکن سائنس کے ہر ایک شعبے میں اسے ایک نکتہ وہی آتا ہے جہاں اسے بھی ایمان بالغیب کو ایک معقول حقیقت ماننا ہی پڑتا ہے اور سارے کارخانہ کائنات کے پس پردہ ایک عظیم الشان ہستی کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
( ماخوذ از: ’’مذہب اور جدید چیلنج ‘‘)
حافظ محمد شارق
subhan Allah
ReplyDeletebohat khoob, achey dalaeil hen.
ReplyDelete