Sunday 1 April 2012

!!!! صحیح فیصلہ


!!!! صحیح فیصلہ


انگریزوں نے ساؤتھ افریقہ پر تقریباً تین سو پینتالیس سال حکومت کی ۔ سیاہ فام لوگ ساڑھے تین سو سال انگریز سے لڑتے رہے ۔ انگریزوں کے خلاف تحریک میں ایک شخص نیلسن منڈیلا بھی تھے جنہیں گوروں نے ۲۷ برس تک قید میں رکھا تھا اور ان ۲۷ برسوں میں قید تنہائی کے ۱۸ سال بھی شامل تھے۔ ۲۷ سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد جب انگریز حکومت سے دستبردار ہوئے تو نیلسن صدر بنے۔ لیکن انکے سامنے سب سے پہلا چیلنج انگریز بیورو کریسی تھی ‘ کیونکہ انگریزوں نے اس ساڑھے تین سو سالوں میں ایک ایسا دفتری نظام بنایا تھا جسے صرف یہی لوگ چلا سکتے تھے، یہ لوگ اس کے اہل بھی تھے اور سمجھدار بھی تھے، کیونکہ انکے مقابلے مقامی سیاہ فام لوگ غیر تعلیم یافتہ ، نااہل اور نفسیاتی لحاظ سے پسماندہ تھے ۔ ایسی صورتحال میں نیلسن کے سامنے دو آپشن تھے ‘ اول یہ کہ وہ گوروں کی جائداد پر قبضہ کرلیں، ان کا قتل عام کریں،اپنی قوم اور خود پر ہونے والی ساری زیادتیوں کا بدلہ لیں اور کچھ نہیں تو کم از کم انہیں ملک بدر کرکے انہیں ملازمتوں سے فارغ کریں اور نوکریاں مقامی لوگوں میں تقسیم کردیں ۔ دوسرا آپشن عام معافی تھا، یعنی سب کچھ ایسا ہی چلنے دیں جیسا چل رہا ہے ۔ انہوں نے حیرت انگیز طور پر دوسرا آپشن منتخب کیا۔ اپنے حفاظتی پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ کے تمام گورے اہلکاروں کو اپنی جاب جاری رکھنے کا حکم دیا۔ صدارتی اسٹاف میں بھی انہوں نے موجود گورے اسٹاف کو بحال رکھا۔ انکے اس فیصلے نے ساری دنیا کو حیران کردیا تھا کہ جو گورے ان سے نفرت کرتے تھے ، صدر اپنی حفاظت کی ذمہ داری انہیں گوروں کو دے رہے ہیں‘ اس فیصلے نے وقتی طور پر نیلسن کے لیے کچھ مخالفین بھی پیدا کردیے تھے ۔ لیکن تاریخ نے بتایا کہ انکا فیصلہ بالکل دانشمندانہ تھا۔
انگریزوں کو فارغ کرکے تمام اختیارات سیاہ فام لوگوں کو دے دیے جاتے تو اس سے وقتی طور پر وہ کالوں کی نگاہِ عقیدت میں جم جاتے اور انہیں ہر طرف سے بھرپور داد ضرور ملتی لیکن نیلسن ایک سمجھدار انسان تھے، وہ ساؤتھ افریقہ کو ایک کامیاب ملک بنانا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے نااہل سیاہ فام لوگوں کو نوکریوں پہ رکھ لیا تو اس سے انکا جذبۂ انتقام تو سیراب ہوجائیگا لیکن یوں حکومتی معاملات کو نااہل لوگوں کے سپرد کرنے سے ملک تباہ ہوجائیگا ۔ اس لیے انہوں نے جذبات میں آکر غلط فیصلہ نہیں کیا اور حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے صحیح فیصلہ کیا۔ انکے اس فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ گورے بھی ان سے محبت کرنے لگے اور دل و جان سے کالوں کی خدمت میں لگ گئے۔
آزادی سے قبل ساؤتھ افریقہ کی رگبی کی ٹیم ورلڈ چیمپئن تھی‘ اس ٹیم کے تمام کھلاڑی گورے تھے ‘ آزادی کے بعد یہ ٹیم ٹوٹ گئی اور کھلاڑی یورپ اور امریکہ کی طرف ہجرت کر گئے ۔ نیلسن نے تمام کھلاڑیوں سے رابطے قائم کیے اور دوبارہ متحد کرکے انہیں مختلف شہروں کے دورے پر بھیجا۔ یہ ٹیم شہر شہر جاکر وہاں کے گراؤنڈ میں رگبی کھیلتی ۔ شروع میں مقامی لوگ ان سے نفرت کرتے تھے پھر میچ دیکھنا شروع ہوگئے اور آخر کار خود بھی میدان میں کود پڑتے تھے۔ اس طرح گورے کھلاڑی اور کالے تماشائیوں کے درمیان نفرت کی دیواریں گرتی گئیں، یہاں تک کہ میچ کے سیزن تک یہ چودہ پندرہ کھلاڑی پورے ساؤتھ افریقہ کے ہیرو بن گئے اور پورا ملک انکے لیے نعرے لگانے لگا، اس حوصلہ افزائی نے گورے کھلاڑیوں کے جذبے کو مہمیز کیا اور انہوں نے جی جان لگا کر ہر قیمت پر جیتنے کا فیصلہ کرلیا‘ اور آخر کار ۱۹۹۵ء کا ورلڈ کپ جیت لیا۔ اسی طرح نیلسن نے دیگر شعبوں کو بھی ترقی کے سفر پر لگایا، کالے اور گوروں کی نفرت کو جڑ سے ختم کیا اور ۶۱ سالوں میں ساؤتھ افریقہ کو ایک ترقی پذیر ملک ثابت کردیا۔
نیلسن مینڈیلا پانچ سال ساؤتھ افریقہ کے صدر رہے اور پھر انہوں نے سیاست سے ریٹائرمنٹ لیکر خود کو فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف کرلیا ۔ آج اگر آپ نیلسن مینڈیلا کے بارے میں انکی قوم کی رائے معلوم کریں تو ہر طرف انکے متعلق جذبۂ احترام ملیگا۔ نیلسن آج ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں، انکے بیڈ روم میں اے سی یا ہیٹر بھی نہیں ہے، بیڈ بھی عام سا ہے، سرکاری گھر کے علاوہ انکے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے، بینک بیلنس زیرو ہے، لیکن اس غربت کے باوجود آپ دنیا کے کسی کونے میں نیلسن سے واقف شخص سے انکا ذکر کریں تو وہ انکا نام عزت و احترام کے ساتھ لینگے۔ نیلسن کے اس کارنامے میں ایک طرف ہمارے سیاستدانوں کے لیے سبق ہے تو دوسری طرف ہماری زندگی کے لیے بھی ۔
ہمارے اور دنیا کے بیشتر ممالک کے حکمرانوں نے عوام کے غیض و غضب سے بچنے کے لیے اپنے گھر کے سامنے توپیں گاڑھ رکھی ہیں، سیکورٹی فورسس کی صفیں لگا ررکھی ہیں،پھر بھی ایسے واقعات کا خدشہ رہتا ہے جو سلمان تاثیر کے ساتھ ہوا۔ اسکے برعکس نیلسن کے گھر کے سامنے ایک سیکورٹی گارڈ بھی نہیں ہے ، اور جب یہ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو لوگ رک رک کر انکے ہاتھ چومتے ہیں، اوتاروں کی طرح ا ن سے محبت اور احترام کرتے ہیں۔ آپ نیلسن کے سامنے ہمارے اور دنیا کے دیگر حکمرانوں کو رکھیں جو دنیا کی امیر ترین افراد کی فہرست میں ہیں، حسنی مبارک کے اثاثے ۷۰ بلین ڈالر تھے، ہمارے آصف علی زرداری کے اثاثے کم از کم ۱۰۴ ارب ہیں۔ کسی کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں ہے لیکن کیا یہ لوگ بنا سیکورٹی کے ایک لمحہ بھی رہ سکتے ہیں ؟ کیا لوگ انہیں نیلسن منڈیلا جیسی عزت دیتے ہیں؟ ہمارے سیاست دان اقتدار کو سونے چاندی کی کان بنالیتے ہیں، اور عزت بیچ کر دولت کماتے ہیں۔ اگر یہ زندگی میں ایک بار نیلسن کی طرح اصلی لیڈر بننے کا فیصلہ کرلیں اور خود کا عوام کا حاکم نہیں ملازم سمجھیں تو اس ملک کا بچہ بچہ دل سے ان کی بھی عزت کریگا۔
ہماری زندگی کے لیے سبق یہ ہے کہ ہم اکثر جذبات میں آکر صرف موجوہ حالت کو دیکھ کر فیصلہ کردیتے ہیں جسکے نتائج بعد میں بہت ہی بُرے ثابت ہوتے ہیں، اگر ہم بھی جذبات کو ایک طرف رکھ کے معاملے کو صحیح سمجھ کر فیصلہ کریں اور وقتی فتح کے بجائے پائدار اور دائمی فتح کے حصول کی کوشش کریں تو ہم کئی مسائل سے بچ سکیں گے جو ہم خود اپنے لیے پیدا کرتے ہیں۔

حافظ محمد شارق

No comments:

Post a Comment