ہمارا تعلیمی نظام
علمی مقاصد کے لیے ہمارے ہاں جو درسِ نظامی اور دنیاوی تعلیم کا نصاب پایا جاتا ہے ان دونوں کا طرز کچھ غلط ہے۔ کیونکہ ہم نے ان دونوں کو دو مختلف راستوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ ایک راستہ ہمیں دنیا پرستی میں مبتلاء کردیتا ہے تو دوسرا مذہب اور قدامت پرستی میں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے مولویوں اور دنیا پرستوں میں۔مذہبی تعلیم اور جدید تعلیم کو جدا کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے کیونکہ ہماری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا ہے ، ہمارے اسلاف کی مذہبی تعلیم میں سائنس اور سائنس میں مذہبی تعلیم موجود تھی ، دونوں مختلف مضمون نہ تھے بلکہ ان میں باہم ربط قائم تھا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے دین و دنیا کی تفریق کردی ہے، ہمارے نزدیک عالم وہی ہے جسے یہ معلوم ہو کہ فلاں مسئلہ کے متعلق فتح الباری میں کیا لکھا ہے‘ درمختار میں اس مسئلہ کے متعلق کیا بحث ہے ، مظاہر الحق میں یہ لکھا ہے۔ بلاشبہ یہ سب بھی علم دین میں شامل ہے اور اسکا معلوم ہونا بھی ضروری ہے لیکن ہمیں اس حقیقت سے اعراض نہیں کرنا چاہیے کہ انسانیت کا ارتقاء علم و دانش کی ہر راہ سے ہوتا ہے اور اسکے لیے قدیم سرمایہ علم اور جدید دونوں سے استفادہ کرنا لازم ہے ۔معاشرے کی ایک جماعت کو بنیادی عصری تعلیم کے ساتھ گہرائی کے ساتھ علم دین حاصل کرکے اس پہ مہارت حاصل کرنی چاہیے لیکن عام لوگوں کے لیے اسلامی تعلیم کو صرف بطور علیحدہ مضمون ہی نہیں بلکہ اسے دیگر مضامین کے ساتھ جوڑ کے بھی پڑھانا چاہیے تاکہ طلبہ صرف سوشیالوجی، سائیکولوجی میں اپنے مسائل کا حل نہ ڈھونڈیں بلکہ قرآن و سنت سے ہر قسم کی رہنمائی حاصل کریں، وہ سائنس پڑھتے ہوئے دینی تعلیم اور دین سے دور نہ ہوں بلکہ سائنس پڑھ کے انکے ایمان میں مزید اضافہ ہو ۔ ہماری نئی نسل کے لیے دین اور دنیا میں ربط ضروری ہے ۔اگر اس میں سے ایک رسی بھی چھوڑ دی تو ہمارا حال اس سے بھی بُرا ہونے لگے گا جتنا کہ آج ہورہا ہے ۔
No comments:
Post a Comment