السلام و علیکم ! اسلام میں سالگرہ منانے کا کیا تصور ہے؟ بعض اسے بدعت کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں جائز ہے۔کیا سالگرہ منانا حرام ہے؟
محمد سلمان حنیف، کوئٹہ پاکستان
جواب:
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ!
جواب:
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ سالگرہ کو ہم بدعت نہیں کہہ سکتے کیونکہ کوئی چیز بدعت اس وقت بنتی ہے جب اسے دین میں داخل کیا جائے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سالگرہ منانا کوئی دینی عمل ہے، خواہ وہ اسے فرض سمجھے یا مستحب، تو پھر یہ اس کے لیے بدعت ہو گی۔لیکن لوگ اسے دینی نہیں بلکہ دنیاوی عمل سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں سالگرہ اور اس قسم کی دیگر دنیاوی رسومات کے متعلق بدعت یا حرام ہونے کا فیصلہ کرنے سے قبل یہ معلوم کرلینا چاہیے کہ جس چیز کے متعلق ہم معلوم کرنا چاہ رہے ہیں اس کی تاریخ اور موجودہ صورت کیا ہے۔ سالگرہ منانے کا رواج کب سے اور کیوں کر ہوا ہے، اور اس کی موجودہ صورت کیا ہے، ان سب چیزوں کو دیکھ لیا جائے تو بات واضح ہوجائے گی۔
سالگرہ منانے کا رواج تاریخ میں ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور سے قبل ملتا ہے۔ روم و یونان کی قدیم تہذیب میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ارواح اپنی سالگرہ کے دن زمین پر آتی ہیں،لہٰذا اس دن ان کی پرستش کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا، تاہم اُس وقت تحائف وغیرہ کا سلسلہ نہیں تھا۔ مصر کی تہذیب میں بھی دیوتاؤں کی پرستش خاص ان کے یوم پیدائش پر کی جاتی تھی، امریکی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق قدیم دیوتا پرست تہذیبوں میں دیوتاؤں کی سالگرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اس دن خاص ان کی پوجا کی جاتی تھی۔البتہ سالگرہ کی وہ صورت جو آج رائج ہے، یعنی کیک کاٹنا ، تحائف دینا اور چھوٹی سی تقریب کرنا ، اس کا تعلق خاص یونانی تہذیب سے ہے۔یونانی تہذیب کے لوگ چاند کی دیوی ارتمس کو پوجتے تھے اور اس کی سالگرہ کے دن ٹیبل پر کیک رکھ کر موم بتیاں روشن کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ سالگرہ عیسائیوں کے ہاں رائج ہوئی، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اپنی سالگرہ مناتے ہیں۔سالگرہ کی مبارک باد دینے کا رواج بھی عیسائیوں کے ہاں سے شروع ہوا۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہندو اور مسلمانوں میں سالگرہ کا رواج عام ہوا۔
تاریخ جاننے کے بعد اب ہم علمائے کرام کے موقف کی طرف جاتے ہیں۔ اس بارے میں جدید علماء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ بعض کے نزدیک یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک ناجائز۔ دونوں گروہوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔
جو علماء اسے ناجائز کہتے ہیں ان کے نزدیک سالگرہ اس زاویہ نگاہ سے ناجائز ہے جس طرح بسنت، ہولی، مہندی مایو، اور شادی کی ہندوانہ رسوم غلط ہیں، کیونکہ عام طور پر جب مسلمان اپنی شادیوں میں یہ رسومات کرتے ہیں تو ان کا مقصد بھی خوشی ہوتا ہے لیکن یہ اپنی اصل کی وجہ سے ناجائز ہے کیونکہ یہ حقیقت میں مشرکین کا تہوار ہے جو ہمارے ہاں رائج ہوا۔ اس کے علاوہ ان علماء کے نزدیک سالگرہ چونکہ سال گزرنے پر منائی جاتی ہے لہٰذا زندگی کا ایک سال کم ہونے پر مبارک باد دینا یا خوشی منانا غیر منطقی ہے۔
جو علماء اسے جائز سمجھتے ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ سالگرہ منانا کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی بھی عام دنیاوی کام جیسے کھانا پینا، تفریح کرنا، کھیل کود وغیرہ کی ہے۔ اگر اس میں کوئی ناجائز کام ہو گا تو اسے ناجائز کہا جائے گا اور اگر نہیں ہو گا تو مباح اور جائز ہے۔ سالگرہ کی تاریخ اگرچہ قدیم مشرکانہ تہذیب سے ملتی ہوں لیکن ہمارے مسلمان بھائی کسی مشرکانہ یا عیسائی پس منظر میں سالگرہ نہیں مناتے بلکہ وہ اس دن کو بطور خوشی مناتے ہیں، ان کے پیش نظر صرف تفریح کرنا ہوتا ہے۔
میرا ذاتی رویہ اس بارے میں یہ رہا ہے کہ میں اپنی سالگرہ مناتا نہیں ہوں لیکن اس دن خاص اس بات پر ضرور غور کرتا ہوں کہ مقصد حیات اور منزل کی طرف کتنا اور کس طرح کا سفر طے کیا ہے ، کمی کوتاہی وغیرہ دیکھتا ہوں اور آیندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرتا ہوں۔کبھی کبھار اس دن روزہ اور صدقہ بھی کرلیا کرتا ہوں، میرے خیال میں جو لوگ سالگرہ مناتے ہیں ان کے یہ بات مناسب ہوگی کہ اگر وہ لوگ دن سے خود احتسابی کے تصور کو منسلک کردیں تو فائدہ ہوگا ۔
سالگرہ منانے کا رواج تاریخ میں ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور سے قبل ملتا ہے۔ روم و یونان کی قدیم تہذیب میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ارواح اپنی سالگرہ کے دن زمین پر آتی ہیں،لہٰذا اس دن ان کی پرستش کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا، تاہم اُس وقت تحائف وغیرہ کا سلسلہ نہیں تھا۔ مصر کی تہذیب میں بھی دیوتاؤں کی پرستش خاص ان کے یوم پیدائش پر کی جاتی تھی، امریکی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق قدیم دیوتا پرست تہذیبوں میں دیوتاؤں کی سالگرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اس دن خاص ان کی پوجا کی جاتی تھی۔البتہ سالگرہ کی وہ صورت جو آج رائج ہے، یعنی کیک کاٹنا ، تحائف دینا اور چھوٹی سی تقریب کرنا ، اس کا تعلق خاص یونانی تہذیب سے ہے۔یونانی تہذیب کے لوگ چاند کی دیوی ارتمس کو پوجتے تھے اور اس کی سالگرہ کے دن ٹیبل پر کیک رکھ کر موم بتیاں روشن کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ سالگرہ عیسائیوں کے ہاں رائج ہوئی، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اپنی سالگرہ مناتے ہیں۔سالگرہ کی مبارک باد دینے کا رواج بھی عیسائیوں کے ہاں سے شروع ہوا۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہندو اور مسلمانوں میں سالگرہ کا رواج عام ہوا۔
تاریخ جاننے کے بعد اب ہم علمائے کرام کے موقف کی طرف جاتے ہیں۔ اس بارے میں جدید علماء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ بعض کے نزدیک یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک ناجائز۔ دونوں گروہوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔
جو علماء اسے ناجائز کہتے ہیں ان کے نزدیک سالگرہ اس زاویہ نگاہ سے ناجائز ہے جس طرح بسنت، ہولی، مہندی مایو، اور شادی کی ہندوانہ رسوم غلط ہیں، کیونکہ عام طور پر جب مسلمان اپنی شادیوں میں یہ رسومات کرتے ہیں تو ان کا مقصد بھی خوشی ہوتا ہے لیکن یہ اپنی اصل کی وجہ سے ناجائز ہے کیونکہ یہ حقیقت میں مشرکین کا تہوار ہے جو ہمارے ہاں رائج ہوا۔ اس کے علاوہ ان علماء کے نزدیک سالگرہ چونکہ سال گزرنے پر منائی جاتی ہے لہٰذا زندگی کا ایک سال کم ہونے پر مبارک باد دینا یا خوشی منانا غیر منطقی ہے۔
جو علماء اسے جائز سمجھتے ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ سالگرہ منانا کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی بھی عام دنیاوی کام جیسے کھانا پینا، تفریح کرنا، کھیل کود وغیرہ کی ہے۔ اگر اس میں کوئی ناجائز کام ہو گا تو اسے ناجائز کہا جائے گا اور اگر نہیں ہو گا تو مباح اور جائز ہے۔ سالگرہ کی تاریخ اگرچہ قدیم مشرکانہ تہذیب سے ملتی ہوں لیکن ہمارے مسلمان بھائی کسی مشرکانہ یا عیسائی پس منظر میں سالگرہ نہیں مناتے بلکہ وہ اس دن کو بطور خوشی مناتے ہیں، ان کے پیش نظر صرف تفریح کرنا ہوتا ہے۔
میرا ذاتی رویہ اس بارے میں یہ رہا ہے کہ میں اپنی سالگرہ مناتا نہیں ہوں لیکن اس دن خاص اس بات پر ضرور غور کرتا ہوں کہ مقصد حیات اور منزل کی طرف کتنا اور کس طرح کا سفر طے کیا ہے ، کمی کوتاہی وغیرہ دیکھتا ہوں اور آیندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرتا ہوں۔کبھی کبھار اس دن روزہ اور صدقہ بھی کرلیا کرتا ہوں، میرے خیال میں جو لوگ سالگرہ مناتے ہیں ان کے یہ بات مناسب ہوگی کہ اگر وہ لوگ دن سے خود احتسابی کے تصور کو منسلک کردیں تو فائدہ ہوگا ۔
آپ دونوں جانب کے دلائل کا مطالعہ کرکے اپنی رائے قائم کرسکتے ہیں۔
دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
والسلام
حافظ محمد شارقؔ
والسلام
حافظ محمد شارقؔ
دین کا مخاطب کون ہے؟ انسان۔
ReplyDelete۔سالگرہ کس کی منائی جاتی ہے ؟ انسان کی ۔
کیا دین میں انسان کی خوشی غمی کے اظہار کے طریقے ہیں؟ جی ہاں ہیں۔
کیا دین یہ کہتا ہے کہ یہ انسان کی پوری زندگی، پیدائش تا موت احاطہ کرتا ہے؟ جی ہاں۔
کیا انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ حیات ہے جو دینی تعلیمات سے علیحدہ ہو ؟ جی نہیں۔
سائل نےمذہبی شخصیت سے سوال کیا ہے کیوں؟کیونکہ یہ معاملہ مزہب کی حدود میں آتا ہے۔
کیا انسان کی پیدائش کے متعلق بھی دین احکامات یا طریقے بیان کرتا ہے؟ جی ہاں کرتا ہے۔ مثلاً اذان دینا،، میٹھی شے نرم کرکے چٹانا، عقیقہ کرنا، نام رکھنا،وغیرہ۔
کیا انسان کامل حضرت محمد ﷺ جو انسانوں کے لئے اسوہ کامل ہیں انھوں نے خوشی منائی؟ جی نہیں ۔
کیا سالگرہ منانا مسلم تاریخ و ثقافت کا حصہ رہا ہے ؟ جی نہیں، بلکہ بت پرستانہ تہذیب کی باقیات ہیں۔
کیا خدا کی ’’سالگرہ‘‘ کا کوئی مسلمان تصور بھی کرسکتا ہے؟ جی نہیں۔تو کیا پھر یہ ایک انتہائی مہمل و غیر حقیقت پسندانہ رسم نہیں؟ جی ہاں۔
کیا مسلمان جسکی زندگی کا ایک سال مزید کم ہو گیا (یہ منفی نہیں حقیقت پسندانہ ،کامیاب افراد کی سوچ ہے۔مثلاً جناب حافظ شارق )یہ لمحہ فکریہ ہے یا لمحہ مسرت؟ لمحہ فکریہ ہے۔
کیا یہ وقتی خوشی درحقیقت خود فریبی ہے؟ جی ہاں۔
کیا یہ وقت و مال کا اسراف ہے؟ جی ہاں۔
کیا دین کی قناعت پسندی اور فکر آخرت کا طرز عمل اس غیر اسلامی رسم(جناب حافظ شارق کی وضاحت ملاحظہ ہو) کی اجازت دیتا ہے؟ جی نہیں۔
کیا خاندان و معاشرے پر اسکے تعمیری اثرات مرتب ہوتے ہیں یا تخریبی؟ تخریبی زیادہ۔
کیا ایک سال مزید زندہ رہ جانے کی خوشی، مغرب کا موت سے خوف کا اظہار ہے؟ جی ہاں۔اور کیا مسلم بھی موت سے اسی طرح خائف ہے جیسا غیر مسلم؟ جی نہیں۔
اور ۔۔۔
اے اہل عقل غور کرو۔
میرے خیال میں سالگرہ منانے کو دین کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ اگر سالگرہ کو اس لئے حرام قرار دیا جاتا ہے کہ یہ غیر مسلموں کا عمل ہے تو پھر شادی بیاہ کی رسومات، کرکٹ کھیلنا، پینٹ ٹائی استعمال کرنا انٹرنیٹ استعمال کرنا، ویڈیوز اور تصویریں بنوانا سب کچھ حرام قرار پاتا ہے۔ اس لئے میری نظر میں یہ ایک مباح عمل ہے جس کا نہ ثواب ملتا ہے اور نہ عذاب۔ اللہ سب کو سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق دے۔
ReplyDeleteمیرے خیال سے نیت اہم ہے
ReplyDeleteاگر گھر والوں کو خوش کرنا یا احباب کو دعوت دینے کا بہانہ ہو تو پھر جائز کہہ سکتے ہیں
لیکن لازمی، کسی ثواب یا کسی سے تعلق کی نسبت سے جائز نہیں
MashAllah very detail answer. JazAkAllah
ReplyDelete