آج سے تقریباً ساڑے چودہ سو سال قبل جب سارا عالم بالخصوص عرب لامذہبیت، جہالت اور بے رہنمائی کے خطرناک دلدل میں دھنسا جارہا تھا ‘ جو طرزِ حیات گزشتہ نبیوں کے ذریعے ملا تھا، اور انہیں جو شریعت عطا کی گئیں تھیں ‘ لوگ اسے نفسانی خواہشات کے عوض تبدیل کرچکے تھے۔معاشرتی حالت یہ تھی کہ معمولی سی باتوں پر جنگ کرنا، جھوٹ، فریب، دغابازی، چوری ، ڈاکہ زنی، شراب نوشی، عورتوں ‘ بوڑھوں اور کمزوروں پر مظالم ڈھانا اور نومولود بچیوں کو زندہ دفن کردیا انکے عام مشاغل تھے۔ غرضکہ کہ تمام برائیاں انکا شیوہ بن چکی تھیں۔ جاہلیت، اخلاقی جرائم اور عقائد میں بگاڑکی وجہ سے نہ جانے کیا کیا برائیاں ساری دنیا میں رائج تھیں۔ اس وقت دنیا کی قیادت کسی ایک قوم کے ہاتھ نہیں تھی، ایک طرف پرشکوہ سلطنت روم تھی اور دوسری طرف فارس کی مجوسی ریاست ۔ البتہ ان سب میں بنی اسرائیل خاصے اختیار میں تھے ۔ گویا اس وقت دنیا کی امام بظاہر یہی قوم تھی، تاہم یہ قوم کسی بھی طرح اس منصب کے اہل نہیں تھی۔ دنیا کی دیگر اقوام کی طرح بنی اسرائیل بھی بے رہنمائی اور معاشرتی انحطاط کی شدید شکست و ریخت سے دوچار تھے۔
ایسے شکستہ حالات میں اﷲ تعالیٰ نے دنیا پر اپنا رحم و کرم فرمایا اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرماکرانہیں ایک معجزہ نما کتاب قرآن مجید عطا کی جس سے ابتدائی طور پر جزیرۂ عرب اور پھرتمام انسانیت میں کفر و جہالت کے اندھیرے ختم ہونے لگے۔ حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی الہامی تعلیمات کے ذریعے اہل عرب میں جو انقلاب برپا کیا تھا اس کے نتیجے میں ایک نہیں، بلکہ کئی ایسے باکمال کردار تخلیق ہوئے جنکی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔اہل عرب اسلام کی روشنی سے منور ہوئے اور پھر اس شمع کو لیکر سارے جہاں پر چھا گئے اور اس روشنی کو دنیا کے ہر گوشے میں پھیلا دیا۔ حقیقی عشقِ رسول، خدا اور اسکے نبی کی اطاعت، احساس ذمہ داری، تقویٰ اور دین کے لیے محبت و جاں نثاری کا جذبہ ‘یہ وہ خصوصیات تھیں جو اس امت کا شیوہ رہی۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے ترقی کی راہیں کھلتی رہیں اور ہر مسلمان ترقی کا مظہر ہوگیا۔ مسلمانان عالم ترقی کی اُس حد تک پہنچ گئے جسکی بلندی تاریخ بھی مکمل بیان کرنے سے قاصر ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھ علم کی وہ شمع تھی جس سے راہ پاتے ہوئے انہوں نے ساری دنیا کو منور کیااور صدیوں تک دنیا پر حکومت کرتے رہے ۔ کسی قوم کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ وہ مسلمانوں سے ٹکڑائے۔ علم کے میدان میں ، جنگ کے میدان میں، مہارت و ہنر کے میدان میں، غرضکہ زندگی کے ہر شعبے میں کارنامے انجام دیے۔ یہ لوگ دین و دنیا کو بے مثال طریقے سے متوازی طور پر چلا رہے تھے ۔ وہ بیک وقت مسجد کے امام ، خطیب اور جنگ کے سپاہی بھی تھے اورعالم دین، سائنسدان، مجتہد، قاضی اور خلیفہ بھی ۔
بلاشبہ یہ خصوصیات صرف ایک قوم یا ریاست نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کی قیادت کے لیے معیاری تھیں۔ چنانچہ انہی اوصاف کی وجہ سے مسلمان ایک طویل عرصہ تک دنیا کی قیادت کرتے رہے ۔ انہوں نے اپنے انفرادی و اجتماعی‘ تمدنی و تہذیبی اور تمام سماجی معاملات کے منصفانہ اصول قوانین الٰہیہ کی روشنی میں مرتب کیے ۔ ان بندوں نے انسانی بنجر زمین کوسرسبز و شاداب کرنے لیے اپنی خون و پسینے کے دریا بہا دیے،اور مجموعی طور پر انسانی علم و عمل اور نظریہ و افکار کی اصلاح کی۔انہوں نے قانون الٰہی کے مطابق زندگی بسرکرکے کائنات کی تمام قوتوں مسخر کیا اور انکے ماحصل کو وحئ الٰہی کی روشنی میں عدل و اعتدال کے ساتھ ایسے نظام کی صورت میں قائم کیا جس میں تمام نوعِ انسانی کی کامیابی تھی، اپنے بازؤں میں ہدایت کا علم لیکر ساری دنیا میں لہرایا اور اخلاص کے زیور سے مزین ہو کر وہ کارنامے انجام دیے جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ ۔۔۔ جوں جوں دنیا میں ترقی ہوتی گئی اور دنیا مسلمانوں کے قدموں میں آگئی تو کافروں کے ساتھ مسلمان بھی اسکی بے اصل رنگینیوں میں ہی گم ہوتے گئے۔ اپنی تہذیب و ثقافت بھولتے گئے اور حکم الٰہی پر نفسانی خواہشات کو غالب کرنے کی کوشش کی جانے لگی‘ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کو ماننے والے مسلمان تو بہت رہ گئے لیکن مومن نہیں۔وہ قوم جسکی عظمت و بلندی کی کوئی پیمائش نہ تھی، آہستہ آہستہ پستی کی جانب بڑھنے لگی۔ ساری دنیا کو تہذیب سکھانے والی قوم خود غیر مہذب ہو کر رہ گئی۔بد اعمالی، ناعقلی، جہالت، ہر برائی ان میں سمٹنے لگی۔ نہ اخلاق اچھے نہ عادات اچھی۔ نہ اتحاد نہ قوت ، ہر جانب اسلامی اتحاد و سلطنت کا زوال ہونے لگا اور رسوائی ہی رسوائی مسلمانوں کے نصیب بن گئی۔
ان سب منفی رحجانات کے باعث بالاآخر دیگر قوموں کی طرح مسلمانوں پر بھی زوال آگیا۔اوراب حالت یہ ہوگئی ہے کہ مسلمان ہر جگہ رسوا ہیں اور قیادت کرنے والی امت محکوم و مغلوب ہر کر رہ گئی ہے ۔ اﷲ عزوجل کا وعدہ ہے کہ اگر ہم ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں تو اﷲ ہمیں عزت و وقار اور زمین کی خلافت عطا فرمائینگے۔ لیکن مسلمان تو اب بھی ایمان رکھتے ہیں‘ کافی تعداد میں نماز، روزہ ، حج و زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود حال یہ ہے کہ نہ خلافت حاصل ہے نہ دین کومستحکم کرنے کی کوئی صورت۔ نہ عزت و وقار حاصل ہے نہ کامرانی! نہ دین کو تمکن نصیب ہے نہ دشمنوں کو مغلوب کرنے کو کوئی ذریعہ ۔ہر جانب پستی ہی پستی ہے ۔ خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا تو باجود اپنے ایمان پر قائم رہنے کے ہم مسلسل پستی کی جانب کیوں چلے جارہے ہیں؟ ہمیں خلافت و وقار کیوں حاصل نہیں؟ دراصل واقعہ یہ ہے کہ ہم دین و ایمان کے جس پہلو کو اپنے ساتھ چپکائے ہوئے ہیں اسکی اہمیت قانونی ہے حقیقی نہیں۔ کسی حجرے کے کونے میں آگ کا شعلہ موجود ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہاں حرارت ہوگی۔ اگر حرارت نہیں ہے تو پھرحقیقت یہ ہے کہ اُس گوشے میں کچھ اور شے تو موجود ہو سکتی ہے لیکن آگ نہیں۔اسی طرح ہمارے دلوں میں آج ایمان ہے تو پھروہ جذبۂ جہاد، وہ اعلیٰ اخلاق، وہ خوفِ آخرت بھی ہونی چاہیے جو کبھی مسلمانوں کی پہچان تھی۔اگر ہمارے دلوں میں ایمان ہے پھر کیوں اسی دلوں میں اغیار کی محبت بھی رچی ہوئی ہے؟ ہم کیوں اسلامی نظام عدل کے بجائے ابلیسی نظام کے دلدادہ ہیں؟کیوں ہمارے بینک میں سود ی اکاؤنٹ کھلے ہوئے ہیں؟ کیوں ہم سود کھاتے ہوئے‘ جھوت بولتے ہوے‘ ظلم کرتے ہوئے‘ فریب کرتے ہوئے اﷲ سے نہیں ڈرتے؟ اگر واقعی ایمان ہے تو پھر کہاں ہے جذبۂ اطاعت؟ کہاں ہے وہ عشق حقیقی جس نے بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لاکھوں ستم کے باوجود کلمۂ حق سے پھرنے نہیں دیا؟ کہاں ہے وہ حق گوئی‘ عجز و انکساری‘ عدل و انصاف کا جنون کہ جس نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر بن عبد العزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تاریخ اقوام کا مثالی حکمراں بنایا ؟ کہاں ہے وہ غیرت و حمیت جس نے قاسم کو ہندوستان فتح کرنے پر آمادہ کیا؟ یقیناًآج ہمارا ایمان سڑکوں پر، وال چاکنگ میں‘ جلسے جلوسوں میں اور نماز جمعہ میں تو نظر آجائیگا لیکن نظر نہیں آتا تو صرف ہمارے آنگن میں‘ ہماری محفلوں میں‘ ہماری ثقافت میں ‘ ہمارے اخلاق اور روزمرہ کے معاملات میں۔۔۔ کیا اسی ایمان کے عوض کامیابی کا وعدہ ہے ؟ بالکل نہیں۔ ذرا تاریخ کے اوراق کھول کر دیکھیں کہ ہمارے اسلاف کیسے تھے ۔ہم نے یہ جاننے کی قطعی زحمت نہ کی کہ خلفائے راشدین ‘ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘ اور ہمارے اکابرین امت نے دین کو کس جامع انداز میں سمجھا اور اسلام کو مسجد و منبر سے آگے لیجاکر اپنی پوری زندگی پر حاوی کردیا۔ انہوں نے اپنی تہذیب کو فخریہ انداز میں اپنایا‘ اور سارے عالم میں اسکا ڈنکا بجایا۔ اپنے کردار کو پیغمبر خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے اس طرح مزین کیا کہ دوسروں کے لیے نمونہ بن گئے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں حسب عہد خلافت بھی ملی ‘ عزت و کامرانی بھی نصیب ہوئی۔آج ہمارے سامنے انفرادی و اجتماعی سطح پر ہر طرح کے مسائل کا انبار لگا ہوا ہے ۔ان مسائل کا تعلق یقیناًہمارے ایمان و اعمال سے ہے ‘ لیکن ہم ان سب کے مادی اسباب تلاش کر رہے ہیں اور صرف شکایت اور احتجاج کا مجسمہ بنے ہوئے ہیں۔ ہم دنیا کے رنگ و رونق میں اس قدر مگن ہیں ہمیں اپنے دین کا صحیح فہم ہی حاصل نہیں ہے۔ دین کو مکمل طرزِ حیات سمجھنے کی ضرورت تھی اور ہم نے صرف طرزِ عبادت سمجھ کر نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ ہی اپنے ذمے لے لیے اور باقی دین کے معاملات بوجہ مصروفیت علماء کرام کے سپرد کردیے‘ اور خود کی زندگی میں اپنے دین کو بہت ہی محدود کردیا ہے ۔
اگر کوئی شخص خانقاہ میں ساری رات عبادت کرے اور صبح اپنی غریبی پر روئے‘ دن بھر روزہ رکھے لیکن لوگوں سے بداخلاقی کرتا پھرے،ہر سال ذالحج میں باقاعدگی سے حج ادا کرے اور سال بھر سود اور رشوت کھاتا پھرے ‘ ہر ماہ زکوٰۃ ادا کرتا رہے لیکن پڑوسیوں یا دیگر حقوق العباد میں کوتاہی کرے‘ تسبیح کے دانے تسلسل سے چلتے رہیں مگر زبان پر غیبت بھی جاری ہو تو یہ سب کسی بھی لحاظ سے ایمان کی موجودگی کی علامت نہیں۔ اس روش کے ذریعے خلافت ، عزت اور کامرانی نہیں مل سکتی‘ البتہ جہنم مل سکتی ہے! کیونکہ یہ تو وہ دین ہی نہیں ہے جسکی دعوت اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔دین میں تو صبر بھی اخلاق بھی ہے، کسب حلال بھی ہے اور حقوق العباد بھی۔ انکے بناء دین کا تصور ادھورا ہی نہیں بلکہ ناقص ہوجاتا ہے۔ دین کو صوم و صلوٰۃ ، حج و زکوٰۃ تک محدود کرنے کا نظریہ بالکل باطل ہے ۔ بلاشبہ یہ ضروریات دین ہیں‘ اور انکا اجر بہت ہی زیادہ ہے لیکن عبادت صرف خدا کے حضور پانچ وقت جھکنے‘ مال خرچ کرنے‘ اور دن کے مخصوص حصے میں بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو ساری زندگی اسکی رضا و خوشنودی کے لیے وقف کردینے کا نام ہے۔ ہم اﷲ کے ملازم نہیں ہیں کہ مخصوص اوقات میں ہی اسکی فرمانبرداری کریں بلکہ ہم تو اسکے عبد (غلام) ہیں ۔ ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی کا ہے اور وہی ہمارا خالق اور ہماری جانوں کو مالک ہے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے چند لمحے کی عبادت کرکے خود کو آزاد سمجھ لیا ہے ۔ آج ہماری خستہ حالی کی وجہ ترکِ مذہب نہیں ترکِ دین ہے۔ وہ دین جو انسانی حیات سے وابستہ ہر معاملات میں رہنمائی کرتا ہے۔ ہماری زندگی کا محور یہی دین ہے جسکی بنیاد اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم ہے۔
اگر صرف روزہ نماز ہی دین ہوتا تو مسلمانوں کی اخلاقی تعلیم کیونکر ہوئی؟ اسے حرام خوری، جھوٹ، غیبت اور بداخلاقی سے کیوں روکا گیا؟ اسے کسب حلال اور حق گوئی کی تلقین کیوں کی گئی؟ آخر کیوں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کی حق تلفی کرنے والے کے ایمان کی نفی کردی؟ اس لیے کہ یہ سب بھی دین اسلام کے ہی جزیات ہیں۔ہم پر دین کے سب زاویے سے ‘چاہے وہ روحانی ہو یا مادّی و جسمانی، سیاسی ہو یا معاشی ، عالمی معاملات ہوں یا عائلی پہلو ‘ ہر ایک سے استفادہ کرنا لازم ہے ۔ اور پھر ہماری موجودہ حالت کا تو یہ شدت سے تقاضا ہے کہ ہم خلفاء راشدینؓ اور اکابرین امت کی زندگیوں کا مطالعہ کریں‘ اور ان کی طرح دین کو مکمل طور پر اخلاق، حق گوئی، کسب حلال، احساس جوابدہی، حقوق العباد، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے ساتھ اپنی زندگی میں شامل کرلیں۔ کیونکہ دین و عبادت کے جامع تصور کی عدم موجودگی کے باعث ہم چاہتے ہوئے بھی تنزل کی اس تاریک گھاٹی سے نہیں نکل سکتے۔ جب تک ہماری ملت کے ایک ایک فرد میں یہ فکر پیدا نہیں ہوگی ‘ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنا ناممکن ہے ۔ یاد رہے کہ بہترین قوم بہترین افراد سے ہی بنتی ہے ، لہٰذا اگر ہم واقعی پستی سے نکلنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہم میں سے ہر ایک پر یہ لازم ہے کہ دین کو صحیح معنوں میں سمجھے اور طبعی عبادات کے علاوہ اخلاقی قدروں پر بھی توجہ دے تاکہ ایسا ماحول میسر آسکے جس میں ہر فرد کو سکون حاصل ہو اور قوم کا ایک ایک فرد باکردار اور مثالی شخصیت بن کر اپنے دین و ملت اور معاشرے کی خدمت کرسکے اور اسے اپنا سابقہ مقامِ اعلیٰ پر دوبارہ پہنچاسکے۔
ایسے شکستہ حالات میں اﷲ تعالیٰ نے دنیا پر اپنا رحم و کرم فرمایا اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرماکرانہیں ایک معجزہ نما کتاب قرآن مجید عطا کی جس سے ابتدائی طور پر جزیرۂ عرب اور پھرتمام انسانیت میں کفر و جہالت کے اندھیرے ختم ہونے لگے۔ حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی الہامی تعلیمات کے ذریعے اہل عرب میں جو انقلاب برپا کیا تھا اس کے نتیجے میں ایک نہیں، بلکہ کئی ایسے باکمال کردار تخلیق ہوئے جنکی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔اہل عرب اسلام کی روشنی سے منور ہوئے اور پھر اس شمع کو لیکر سارے جہاں پر چھا گئے اور اس روشنی کو دنیا کے ہر گوشے میں پھیلا دیا۔ حقیقی عشقِ رسول، خدا اور اسکے نبی کی اطاعت، احساس ذمہ داری، تقویٰ اور دین کے لیے محبت و جاں نثاری کا جذبہ ‘یہ وہ خصوصیات تھیں جو اس امت کا شیوہ رہی۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے ترقی کی راہیں کھلتی رہیں اور ہر مسلمان ترقی کا مظہر ہوگیا۔ مسلمانان عالم ترقی کی اُس حد تک پہنچ گئے جسکی بلندی تاریخ بھی مکمل بیان کرنے سے قاصر ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھ علم کی وہ شمع تھی جس سے راہ پاتے ہوئے انہوں نے ساری دنیا کو منور کیااور صدیوں تک دنیا پر حکومت کرتے رہے ۔ کسی قوم کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ وہ مسلمانوں سے ٹکڑائے۔ علم کے میدان میں ، جنگ کے میدان میں، مہارت و ہنر کے میدان میں، غرضکہ زندگی کے ہر شعبے میں کارنامے انجام دیے۔ یہ لوگ دین و دنیا کو بے مثال طریقے سے متوازی طور پر چلا رہے تھے ۔ وہ بیک وقت مسجد کے امام ، خطیب اور جنگ کے سپاہی بھی تھے اورعالم دین، سائنسدان، مجتہد، قاضی اور خلیفہ بھی ۔
بلاشبہ یہ خصوصیات صرف ایک قوم یا ریاست نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کی قیادت کے لیے معیاری تھیں۔ چنانچہ انہی اوصاف کی وجہ سے مسلمان ایک طویل عرصہ تک دنیا کی قیادت کرتے رہے ۔ انہوں نے اپنے انفرادی و اجتماعی‘ تمدنی و تہذیبی اور تمام سماجی معاملات کے منصفانہ اصول قوانین الٰہیہ کی روشنی میں مرتب کیے ۔ ان بندوں نے انسانی بنجر زمین کوسرسبز و شاداب کرنے لیے اپنی خون و پسینے کے دریا بہا دیے،اور مجموعی طور پر انسانی علم و عمل اور نظریہ و افکار کی اصلاح کی۔انہوں نے قانون الٰہی کے مطابق زندگی بسرکرکے کائنات کی تمام قوتوں مسخر کیا اور انکے ماحصل کو وحئ الٰہی کی روشنی میں عدل و اعتدال کے ساتھ ایسے نظام کی صورت میں قائم کیا جس میں تمام نوعِ انسانی کی کامیابی تھی، اپنے بازؤں میں ہدایت کا علم لیکر ساری دنیا میں لہرایا اور اخلاص کے زیور سے مزین ہو کر وہ کارنامے انجام دیے جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ ۔۔۔ جوں جوں دنیا میں ترقی ہوتی گئی اور دنیا مسلمانوں کے قدموں میں آگئی تو کافروں کے ساتھ مسلمان بھی اسکی بے اصل رنگینیوں میں ہی گم ہوتے گئے۔ اپنی تہذیب و ثقافت بھولتے گئے اور حکم الٰہی پر نفسانی خواہشات کو غالب کرنے کی کوشش کی جانے لگی‘ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کو ماننے والے مسلمان تو بہت رہ گئے لیکن مومن نہیں۔وہ قوم جسکی عظمت و بلندی کی کوئی پیمائش نہ تھی، آہستہ آہستہ پستی کی جانب بڑھنے لگی۔ ساری دنیا کو تہذیب سکھانے والی قوم خود غیر مہذب ہو کر رہ گئی۔بد اعمالی، ناعقلی، جہالت، ہر برائی ان میں سمٹنے لگی۔ نہ اخلاق اچھے نہ عادات اچھی۔ نہ اتحاد نہ قوت ، ہر جانب اسلامی اتحاد و سلطنت کا زوال ہونے لگا اور رسوائی ہی رسوائی مسلمانوں کے نصیب بن گئی۔
ان سب منفی رحجانات کے باعث بالاآخر دیگر قوموں کی طرح مسلمانوں پر بھی زوال آگیا۔اوراب حالت یہ ہوگئی ہے کہ مسلمان ہر جگہ رسوا ہیں اور قیادت کرنے والی امت محکوم و مغلوب ہر کر رہ گئی ہے ۔ اﷲ عزوجل کا وعدہ ہے کہ اگر ہم ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں تو اﷲ ہمیں عزت و وقار اور زمین کی خلافت عطا فرمائینگے۔ لیکن مسلمان تو اب بھی ایمان رکھتے ہیں‘ کافی تعداد میں نماز، روزہ ، حج و زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود حال یہ ہے کہ نہ خلافت حاصل ہے نہ دین کومستحکم کرنے کی کوئی صورت۔ نہ عزت و وقار حاصل ہے نہ کامرانی! نہ دین کو تمکن نصیب ہے نہ دشمنوں کو مغلوب کرنے کو کوئی ذریعہ ۔ہر جانب پستی ہی پستی ہے ۔ خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا تو باجود اپنے ایمان پر قائم رہنے کے ہم مسلسل پستی کی جانب کیوں چلے جارہے ہیں؟ ہمیں خلافت و وقار کیوں حاصل نہیں؟ دراصل واقعہ یہ ہے کہ ہم دین و ایمان کے جس پہلو کو اپنے ساتھ چپکائے ہوئے ہیں اسکی اہمیت قانونی ہے حقیقی نہیں۔ کسی حجرے کے کونے میں آگ کا شعلہ موجود ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہاں حرارت ہوگی۔ اگر حرارت نہیں ہے تو پھرحقیقت یہ ہے کہ اُس گوشے میں کچھ اور شے تو موجود ہو سکتی ہے لیکن آگ نہیں۔اسی طرح ہمارے دلوں میں آج ایمان ہے تو پھروہ جذبۂ جہاد، وہ اعلیٰ اخلاق، وہ خوفِ آخرت بھی ہونی چاہیے جو کبھی مسلمانوں کی پہچان تھی۔اگر ہمارے دلوں میں ایمان ہے پھر کیوں اسی دلوں میں اغیار کی محبت بھی رچی ہوئی ہے؟ ہم کیوں اسلامی نظام عدل کے بجائے ابلیسی نظام کے دلدادہ ہیں؟کیوں ہمارے بینک میں سود ی اکاؤنٹ کھلے ہوئے ہیں؟ کیوں ہم سود کھاتے ہوئے‘ جھوت بولتے ہوے‘ ظلم کرتے ہوئے‘ فریب کرتے ہوئے اﷲ سے نہیں ڈرتے؟ اگر واقعی ایمان ہے تو پھر کہاں ہے جذبۂ اطاعت؟ کہاں ہے وہ عشق حقیقی جس نے بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لاکھوں ستم کے باوجود کلمۂ حق سے پھرنے نہیں دیا؟ کہاں ہے وہ حق گوئی‘ عجز و انکساری‘ عدل و انصاف کا جنون کہ جس نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر بن عبد العزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تاریخ اقوام کا مثالی حکمراں بنایا ؟ کہاں ہے وہ غیرت و حمیت جس نے قاسم کو ہندوستان فتح کرنے پر آمادہ کیا؟ یقیناًآج ہمارا ایمان سڑکوں پر، وال چاکنگ میں‘ جلسے جلوسوں میں اور نماز جمعہ میں تو نظر آجائیگا لیکن نظر نہیں آتا تو صرف ہمارے آنگن میں‘ ہماری محفلوں میں‘ ہماری ثقافت میں ‘ ہمارے اخلاق اور روزمرہ کے معاملات میں۔۔۔ کیا اسی ایمان کے عوض کامیابی کا وعدہ ہے ؟ بالکل نہیں۔ ذرا تاریخ کے اوراق کھول کر دیکھیں کہ ہمارے اسلاف کیسے تھے ۔ہم نے یہ جاننے کی قطعی زحمت نہ کی کہ خلفائے راشدین ‘ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘ اور ہمارے اکابرین امت نے دین کو کس جامع انداز میں سمجھا اور اسلام کو مسجد و منبر سے آگے لیجاکر اپنی پوری زندگی پر حاوی کردیا۔ انہوں نے اپنی تہذیب کو فخریہ انداز میں اپنایا‘ اور سارے عالم میں اسکا ڈنکا بجایا۔ اپنے کردار کو پیغمبر خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے اس طرح مزین کیا کہ دوسروں کے لیے نمونہ بن گئے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں حسب عہد خلافت بھی ملی ‘ عزت و کامرانی بھی نصیب ہوئی۔آج ہمارے سامنے انفرادی و اجتماعی سطح پر ہر طرح کے مسائل کا انبار لگا ہوا ہے ۔ان مسائل کا تعلق یقیناًہمارے ایمان و اعمال سے ہے ‘ لیکن ہم ان سب کے مادی اسباب تلاش کر رہے ہیں اور صرف شکایت اور احتجاج کا مجسمہ بنے ہوئے ہیں۔ ہم دنیا کے رنگ و رونق میں اس قدر مگن ہیں ہمیں اپنے دین کا صحیح فہم ہی حاصل نہیں ہے۔ دین کو مکمل طرزِ حیات سمجھنے کی ضرورت تھی اور ہم نے صرف طرزِ عبادت سمجھ کر نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ ہی اپنے ذمے لے لیے اور باقی دین کے معاملات بوجہ مصروفیت علماء کرام کے سپرد کردیے‘ اور خود کی زندگی میں اپنے دین کو بہت ہی محدود کردیا ہے ۔
اگر کوئی شخص خانقاہ میں ساری رات عبادت کرے اور صبح اپنی غریبی پر روئے‘ دن بھر روزہ رکھے لیکن لوگوں سے بداخلاقی کرتا پھرے،ہر سال ذالحج میں باقاعدگی سے حج ادا کرے اور سال بھر سود اور رشوت کھاتا پھرے ‘ ہر ماہ زکوٰۃ ادا کرتا رہے لیکن پڑوسیوں یا دیگر حقوق العباد میں کوتاہی کرے‘ تسبیح کے دانے تسلسل سے چلتے رہیں مگر زبان پر غیبت بھی جاری ہو تو یہ سب کسی بھی لحاظ سے ایمان کی موجودگی کی علامت نہیں۔ اس روش کے ذریعے خلافت ، عزت اور کامرانی نہیں مل سکتی‘ البتہ جہنم مل سکتی ہے! کیونکہ یہ تو وہ دین ہی نہیں ہے جسکی دعوت اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔دین میں تو صبر بھی اخلاق بھی ہے، کسب حلال بھی ہے اور حقوق العباد بھی۔ انکے بناء دین کا تصور ادھورا ہی نہیں بلکہ ناقص ہوجاتا ہے۔ دین کو صوم و صلوٰۃ ، حج و زکوٰۃ تک محدود کرنے کا نظریہ بالکل باطل ہے ۔ بلاشبہ یہ ضروریات دین ہیں‘ اور انکا اجر بہت ہی زیادہ ہے لیکن عبادت صرف خدا کے حضور پانچ وقت جھکنے‘ مال خرچ کرنے‘ اور دن کے مخصوص حصے میں بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو ساری زندگی اسکی رضا و خوشنودی کے لیے وقف کردینے کا نام ہے۔ ہم اﷲ کے ملازم نہیں ہیں کہ مخصوص اوقات میں ہی اسکی فرمانبرداری کریں بلکہ ہم تو اسکے عبد (غلام) ہیں ۔ ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی کا ہے اور وہی ہمارا خالق اور ہماری جانوں کو مالک ہے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے چند لمحے کی عبادت کرکے خود کو آزاد سمجھ لیا ہے ۔ آج ہماری خستہ حالی کی وجہ ترکِ مذہب نہیں ترکِ دین ہے۔ وہ دین جو انسانی حیات سے وابستہ ہر معاملات میں رہنمائی کرتا ہے۔ ہماری زندگی کا محور یہی دین ہے جسکی بنیاد اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم ہے۔
اگر صرف روزہ نماز ہی دین ہوتا تو مسلمانوں کی اخلاقی تعلیم کیونکر ہوئی؟ اسے حرام خوری، جھوٹ، غیبت اور بداخلاقی سے کیوں روکا گیا؟ اسے کسب حلال اور حق گوئی کی تلقین کیوں کی گئی؟ آخر کیوں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کی حق تلفی کرنے والے کے ایمان کی نفی کردی؟ اس لیے کہ یہ سب بھی دین اسلام کے ہی جزیات ہیں۔ہم پر دین کے سب زاویے سے ‘چاہے وہ روحانی ہو یا مادّی و جسمانی، سیاسی ہو یا معاشی ، عالمی معاملات ہوں یا عائلی پہلو ‘ ہر ایک سے استفادہ کرنا لازم ہے ۔ اور پھر ہماری موجودہ حالت کا تو یہ شدت سے تقاضا ہے کہ ہم خلفاء راشدینؓ اور اکابرین امت کی زندگیوں کا مطالعہ کریں‘ اور ان کی طرح دین کو مکمل طور پر اخلاق، حق گوئی، کسب حلال، احساس جوابدہی، حقوق العباد، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے ساتھ اپنی زندگی میں شامل کرلیں۔ کیونکہ دین و عبادت کے جامع تصور کی عدم موجودگی کے باعث ہم چاہتے ہوئے بھی تنزل کی اس تاریک گھاٹی سے نہیں نکل سکتے۔ جب تک ہماری ملت کے ایک ایک فرد میں یہ فکر پیدا نہیں ہوگی ‘ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنا ناممکن ہے ۔ یاد رہے کہ بہترین قوم بہترین افراد سے ہی بنتی ہے ، لہٰذا اگر ہم واقعی پستی سے نکلنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہم میں سے ہر ایک پر یہ لازم ہے کہ دین کو صحیح معنوں میں سمجھے اور طبعی عبادات کے علاوہ اخلاقی قدروں پر بھی توجہ دے تاکہ ایسا ماحول میسر آسکے جس میں ہر فرد کو سکون حاصل ہو اور قوم کا ایک ایک فرد باکردار اور مثالی شخصیت بن کر اپنے دین و ملت اور معاشرے کی خدمت کرسکے اور اسے اپنا سابقہ مقامِ اعلیٰ پر دوبارہ پہنچاسکے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی صحیح فہم عطا فرمائے اور ہماری حالت زار پر رحم کرتے ہوئے ہمیں ہدایت دے۔
حافظ محمد شارق
bohat khoob, ba maqsad or mudallil bayan hey. perh ker dili khushi hoi Allah Shariq bhai ki toufeqaat main izafa fermaey.
ReplyDeleteJazakallah Bhai..
ReplyDelete