Monday, 10 November 2014

بہشتی دروازہ



وہ اولیا جن کا مقصد صرف دین تھا، ان کو ہم مانتے ہیں، میں ان کی محنت دیکھتا ہوں تو میں خود کو ان کی خاک برابر بھی قرار نہیں دے پاتا۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ بابا فرید جس دین کی تبلیغ کرتے رہے میں انھی کا نام لے لے کر اس دین دھجیاں بکھیرتا رہوں۔ میں صرف اس جنتی دروازے کو مانتا ہوں جس کا وعدہ خود میرے پروردگار نے آپ سے ،مجھ سے اور سارے عالَم سے کیا ہے۔ 

پاکپتن کے جنتی دروازے سے گزر کر جنت مل سکتی ہے؟ 

جب میں سوچتا ہوں کہ جنت بہشتی دروازے سے مل سکتی ہے تو مجھے انبیاء کرام علیہم السلام کی سلسلہ بے معنی محسوس ہوتا ہے کہ ہر خطے میں ایک ایک دروازہ بنا لیا جاتا جہاں جنت کے سرٹیفکیٹ ملتے، جنتی دروازے کو ماننے کے بعد اخلاق و ایمان کی کوئی قدر میرے نزدیک اہمیت کی حامل نہیں رہتی، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اخلاقیات، معاشرت دین کا ایک ایک جز مجھے بوجھ لگتا ہے، غرض کہ میرے مدلل تصورات اور ایمان کا محل جسے میں قرآن و سنت سے تعمیر کرنے میں جتا ہوا ہوں، وہ سارا محل زمین بوس ہونے لگتا ہے۔ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا دین اضافی اور غیر ضروری پابندی لگتی ہے۔
سیدنا نوح علیہ السلام کا بیٹا آپ کی گود میں پل کر بھی جنت میں نہ جاسکا، حضور ﷺ امتی امتی کہتے رخصت ہوئے، مگر جنت اتنی آسان ہے کہ تین سو روپے رشوت میں تین بار جنت کی کی سند۔۔۔۔ واللہ کسی کی روح بیت اللہ میں بھی پرواز کرجائے اور وہ ایمان نہ لائے تو جنتی نہیں ہوسکتا۔ خدارا اپنے دین کو کھیل تماشا مت بنائیں ! اگر یہ واقعی بہشتی دروازہ ہے تو اسے ہر وقت کھلا رہنا چاہیے۔۔۔ بہشت کا واحد راستہ ایمان و اخلاق ہے جس کی سند قرآن نے دی ہے،، مسلمان تو ہر وقت بہشت کے لیے کوشاں رہتا ہے،

بہشتی دروازہ کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ خدا کی ذات اقدس، دین اسلام اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدترین مذاق ہے۔

وانڑیاں جب کھُٹتا ہے تو پرانے کھاتے کھولتا ہے۔

ڈائری کا ایک صفحہ: حافظ محمد شارق)
ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے ؛ وانڑیاں جب کھُٹتا ہے تو پرانے کھاتے کھولتا ہے۔ یعنی بنیے پر پیسے کی موت آتی ہے وہ پرانے کھاتے کھولتا ہے، کہیں کسی کو ادھار دے رکھا ہو، کسی نے قرض لیا ہو، کہیں امانت رکھائی ہو، غرض کہ پرانے مردے بھی اکھاڑ کر جہاں کہیں سے وصولی ممکن ہو وہ پائی پائی وصول کرتا ہے۔
یہ کہاوت سنتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ روزِ محشر بھی ہم سب کی حالت کچھ اسی بنیے کی طرح ہوگی، ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہوں گے اور سب سے وصولی میں چکر میں ہوں گے، آپ  نےکسی کی غیبت کی ہو، کسی کی دل آزاری کی، کسی کے گھر کے گیٹ پر بائیک پارک کردی، کسی کو ملاوٹ کرکے کچھ بیچا، کسی کو  قطار میں دھکا دیا ہو، کسی کی  آپ کے حق کی زمین ہڑپ کردی ، کسی کو آپ کو گالی دی ہو، ہر ایک آپ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھاتے کھول کھول پر نیکیاں وصول کرے گا۔ سب پائی پائی کا حساب لیں گے اور ایک ماشے کی نیکی بھی معاف نہیں کریں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ہر ظلم کے مقابلے نیکیوں اور گناہوں کا تبادلہ ہوگا۔
اس صورت حال کو سوچ کر ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہم نے اعمال کے بینک بلنس میں اتنی نیکیاں بھی جمع کر رکھی ہیں کہ ہم اس وصولی کے بعد ہماری نجات ہوسکے؟؟؟ کیا ہم نے حقوق العباد کا اس قدر خیال بھی رکھا ہے کہ روزِ محشر ہم پر اس ظلم کے عوض اس کے گناہ نہ لاد دیے جائیں؟
اگر ہم نجات کے متمنی ہیں تو پھر ہمیں اپنی زندگیوں میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی بہت زیادہ خیال رکھنا ہو گا۔


دین اور جبر



اگر ہمارا رب چاہتا تو زمین پر ساری نوعِ انسانی مومن ہوتی، مگر اللہ جبر پسند نہیں کرتے، ہمیں بھی جبر نہیں کرنا۔ دین اسلام اتنا کمزور نہیں جو جبری نفاذ کا محتاج ہو، یہ دین مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہے، یہ دین اعلیٰ استدلال پر قائم ہے۔ جس شمشیر سے لوگوں نے اس کے آگے سر جھکائے ہیں وہ شمشیر صرف اخلاق ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ دین خیر خواہی کا نام ہے، دین کے سب سے بڑے مبلغ انبیاء ہوتے ہیں مگر ان کا کام بھی انذار و تبشیر ہے۔

ابلیس کی دشمنی





ایک دشمن وہ ہوتا ہے جو چھپ کر وار کرے یا آستین کا سانپ ہو، ایک دشمن کھلا دشمن ہوتا،منہ پر کہتا ہے کہ تمہاری ایسی کی تیسی! تمھیں برباد کرکے ہی میں نے دم لینا ہے، نفس امارہ آستین کا سانپ ہے اور ابلیس کھلا دشمن۔ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ۔۔ اس کم بخت نے ہمیں بہکانے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے، کتنا ہی بھاگ لو، یہ ہر راستے ہر موڑ پر ہمیں بہکائے گا، آگے پیچھے دائیں کے بائیں ہر طرف سے اپنی اپنی چال بازی میں ہمیں لے گا، لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ ۔ اتنی کھلی دشمنی کا اعلان ہے پھر ہم کس خاطر اس سے ٹانکا جوڑ کے رکھیں؟؟ چلو ہم بھی اس سے دشمنی کرلیتے ہیں !!

تعصب


انسان کسی قوم سے تعلق رکھتا ہے تو بسا اوقات وہ اس کے بارے میں ایک خاص قسم کے تعصب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ بس اس کا فرقہ یا قوم ہی سیدھے راستے پر ہے اور باقی سب غلط راستے پر ۔یہ تعصب کی بدترین جذبہ ہے جو اسے کسی دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے پر راضی نہیں ہونے دیتا ۔بعض اوقات ہماری تربیت کرنے والے بھی یہ بات ہمارے ذہن میں ڈال دیتے ہیں کہ بس ہم ہی کامیاب ہیں اور باقی سب اللہ کے غضب کے حق دار ہیں۔ ہمارے نزدیک کسی خاص فرقے میں پیدا ہوجانا ہی حق کی سب سے بڑی دلیل بن جاتی ہے جو قرآن مجید کی رُو سے بدترین گمراہی ہے۔

(عدیلہ کوکب)

آدابِ اختلاف


تنقید کرنا آپ کا حق ہے، بے شک کیجیے مگر کسی کی ذاتیات پر اترنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ۔ اپنے ذاتی اندازوں اور مفروضوں کی بنیاد کسی کے ایمان کا فیصلہ کرنا آپ کا کام نہیں ورنہ روزِ محشر یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کسی کا نقطۂ نظر جانے بغیر آپ نے کیسے اس کے ایمانی کیفیت کا فیصلہ سنا دیا۔

کیا آپ مسلمان ہیں؟

اس بات کی فکر کیجیے کہ آپ کے قول و فعل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اگر آپ کی وجہ سے کسی کو کوئی نقصان پہنچا ہے یا کسی کا دِل دُکھا ہے، تو یہ آپ کے لیے پریشان کن صورت حال ہونی چاہیے، آپ کی نیند اُڑ جانی چاہیے جب تک کہ وہ شخص آپ کو معاف نہ کرے۔
 اگر آپ میں یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو اپنے اس دعوے پر غور کریں کہ آپ مسلمان اور صاحب ایمان ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔" (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان(

علماء کا احترام کیجیے!!

علماء کا احترام کیجیے!!
=============
دلیل کی بنیاد پر کسی عالم دین کی غلطیوں پر تنقید کرنا یقیناً میرا حق ہے مگر ان کی تضحیک کرنے کا حق مجھے میرے پروردگار نے نہیں دیا۔ میں روشن خیالی کے اس نئے مفہوم سے بیزار ہوں جو علمائے دین کی تضحیک کو جائز قرار دے۔

میں نے علم ، دین کے انھی خادموں کی مجلس میں پڑھا ہے، میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں نے علم ان کی جوتیاں اٹھا کر سیکھا ہے، اگر آج دین اسلام پر میرا ایمان مستحکم ہے تو یہ انھی علما کی محنت کا ثمر ہے۔ دین کو سمجھانے کے لیے انھوں نے جو کچھ لکھا ہے ؛ میں اس سے ذرا بھی دامن تو بچاؤں تو میں خود کو برہنہ حسوس کرتا ہوں۔یہ درست ہے کہ میں ان کی سو کوتاہیاں گنواتا ہوں، کئی اختلافات رکھتا ہوں، ان سے ہزار ضد کرتا ہوں، مگر بھائی ! ضد تو بچے ہی کرتے ہیں، میں ان سے کبھی بڑا نہیں ہوسکتا۔۔۔
حافظ محمد شارقؔ

محبت کیا ہے؟


محبت کو سمجھنے کے لیے قرآن پاک سمجھنا پڑتا اور اس پر عمل کرنا پڑتا تب آتا ہے لفظ محبت سمجھ میں ۔ پھر پتا چلتا کہ محبت کیا تھی اور ہم کہاں پہ غلط ہیں ہم محبت کو کیا سمجھتے ہیں اور محبت اصل میں ہے کیا؟۔ محبت وہ ہے جو اللہ ہم سے کرتا ہے۔ کہ ہم گناہ کرتے جاتے اور وہ ہمارے گناہ چھپاتا جاتا اسے ہم سے اتنی محبت ہے کہ ہمارے گناہ دوسروں کے سامنے نہیں کرتا کہ کہیں ہم رسوا نہ ہوں اور ہمیں تکلیف نہ ہوئی
محبت یہ ہے جو اللہ ہم سے کرتا ہے کہ اگر ہم ذرا سا اس کی طرف جھکیں تو وہ اپنی مخلوق کے دل میں ہماری عزت ڈال دیتا ہے۔محبت یہ ہے کہ وہ ہر ہر قدم پر ہمارا خیال رکھتا تب بھی جب ہم اسے بھول جاتے اس کو یاد نہیں کرتے وہ تب بھی ہمیں چاہتا ہے جب ہم بے وفا دوست بن جاتے ہیں وہ ہمیں تب بھی محبت کے حصار میں رکھتا ہے جب ہم اسکی بجائے کسی اور سے بے پناہ محبت کا دعوا کر تے۔

وہ ہمیں ہر دکھ کے بعد خوشی دیتا اور خوشی کہ بعد دکھ دیتا کہ اگر ہم دکھ میں مایوسی کا شکار ہو کر کفر کر چکے تو خوشی میں اسے یاد کر لیں اور اگر ہم خوشی میں اسے بھول گئے تو دکھ میں اسکی محبت کا احساس کر کے اسے پکار لیں۔

محبت تو یہ ہی ہے کہ وہ پوری زندگی ہم سے کرتا ہی جاتا ، ہم اسے یاد نہیں کرتے ،پوری زندگی اسکی بات نہیں مانتے نہ شکر کرتے ہیں مگر وہ ہمیں عطا کرتا جاتا ہے۔ہم خوشیوں میں سکھ میں بھول جاتے مگر وہ اپنی محبت اس طرح نباتا کہ جب بھی ہم کبھی مصیبت میں ہوں تو بھی وہ ہمیں دھتکارتا نہیں وہ بس ایک پکار پر ہماری مصیبتوں کو ختم کرنے کے وصیلے بنا دیتا۔

مگر ہم انسان ایسے ہیں کہ اگر بات اللہ سے محبت کی ہو کہ کیا ہم اللہ سے محبت کرتے تو لاکھوں عذر بناتے ہیں کہ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا۔ اللہ تعالیٰ جتنی محبت ہم تو نہیں کر سکتے نہ ہم تو اس محبت کا قرض نہیں اتار سکتے کہ اسکی محبت کے آگے ہماری محبت کچھ بھی نہیں۔ اور کوشش ہی نہیں کرتے اس کی محبت کا جواب دینے کی۔

ایک حد تک یہ سہی ہے ہم اللہ سے اتنی محبت نہیں کر سکتے جتنی اللہ جی ہم سے کرتے مگر ہم اتنی محبت تو کر سکتے جتنی ہمارے بس میں ہے۔ ہم اس محبت کا قرض نہیں اتار سکتے مگر ہم اتنی زیادہ محبت ملنے پر محبت کرنے والے کا شکر تو ادا کر سکتے ہیں نہ۔ ذرا سوچیئے کیا واقع ہم اس قابل نہیں کہ محبت کو سمجھ کر اسکا شکر ادا کر سکیں اور اپنی استظاعت کے مطابق اس محبت کا قرض اتار سکیں۔ کیا ہم ایسی محبت کر سکتے ہیں یا ہمارے نصیب میں عذر ہی ہیں بس؟

عدیلہ کوکب