وہ اولیا جن کا مقصد صرف دین تھا، ان کو ہم مانتے ہیں، میں ان کی محنت دیکھتا ہوں تو میں خود کو ان کی خاک برابر بھی قرار نہیں دے پاتا۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ بابا فرید جس دین کی تبلیغ کرتے رہے میں انھی کا نام لے لے کر اس دین دھجیاں بکھیرتا رہوں۔ میں صرف اس جنتی دروازے کو مانتا ہوں جس کا وعدہ خود میرے پروردگار نے آپ سے ،مجھ سے اور سارے عالَم سے کیا ہے۔
پاکپتن
کے جنتی دروازے سے گزر کر جنت مل سکتی ہے؟
جب
میں سوچتا ہوں کہ جنت بہشتی دروازے سے مل سکتی ہے تو مجھے انبیاء
کرام علیہم السلام کی سلسلہ بے معنی محسوس ہوتا ہے کہ ہر خطے میں ایک ایک دروازہ
بنا لیا جاتا جہاں جنت کے سرٹیفکیٹ ملتے، جنتی دروازے کو ماننے کے بعد اخلاق و
ایمان کی کوئی قدر میرے نزدیک اہمیت کی حامل نہیں رہتی، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ،
اخلاقیات، معاشرت دین کا ایک ایک جز مجھے بوجھ لگتا ہے، غرض کہ میرے مدلل تصورات
اور ایمان کا محل جسے میں قرآن و سنت سے تعمیر کرنے میں جتا ہوا ہوں، وہ سارا محل
زمین بوس ہونے لگتا ہے۔ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا دین اضافی
اور غیر ضروری پابندی لگتی ہے۔
سیدنا
نوح علیہ السلام کا بیٹا آپ کی گود میں پل کر بھی جنت میں نہ جاسکا، حضور ﷺ امتی
امتی کہتے رخصت ہوئے، مگر جنت اتنی آسان ہے کہ تین سو روپے رشوت میں تین بار جنت
کی کی سند۔۔۔۔ واللہ کسی کی روح بیت اللہ میں بھی پرواز کرجائے اور وہ ایمان نہ
لائے تو جنتی نہیں ہوسکتا۔ خدارا اپنے دین کو کھیل تماشا مت بنائیں ! اگر یہ واقعی بہشتی دروازہ
ہے تو اسے ہر وقت کھلا رہنا چاہیے۔۔۔ بہشت کا واحد راستہ ایمان و اخلاق ہے جس کی
سند قرآن نے دی ہے،، مسلمان تو ہر وقت بہشت کے لیے کوشاں رہتا ہے،
بہشتی دروازہ
کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ خدا کی ذات اقدس، دین اسلام اور پیارے نبی محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدترین مذاق ہے۔