راستے کے حقوق ۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے اسلامی معاشرے میں لوگوں کے درمیان محبت و الفت قائم رکھنے کے لیے کچھ معاشرتی تعلیمات دی ہیں ؛ جن پر عمل پیرا ہوکر ہم آپس میں محبت و اتفاق سے رہ سکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک تعلیم یہ ہے مسلمان کسی بھی انسان کو اذیت و تکلیف نہ پہنچائے اور نہ ہی اس کا سبب بنے۔ بکثرت قرآنی آیات اور احادیث نبوی موجود ہیں جو کسی بھی انسان بالخصوص مسلمان کو اذیت و تکلیف پہنچانا سے سختی سے منع کرتی ہیں ۔اگر آپ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ حسی و معنوی ، قول و فعلی کسی بھی شکل اور کسی بھی رنگ میں کسی کو بھی نقصان پہنچانے پر سخت وعید و تنبیہ آئی ہے۔
ہمارے ہاںیہ ایک عجیب طرزِ عمل بن گیا ہے کہ لوگ سڑکوں پر ٹینٹ (خیمے) لگا کر شادی، مہندی، مایو وغیرہ کرتے ہیں۔ربیع الاوّل آتے ہیں ہر گلی سڑک پہ خیمے نظر آتے ہیں جہاں محفل سجی ہوئی ہوتی ہیں اور بعض مذہبی جماعتیں خود یہ محفل میلاد، قراء ت اور دیگر مذہبی محافل منعقد کرواتی ہیں جس کا اہتمام سڑکوں پر ہوتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان محفلوں صرف عوام ہی نہیں بلکہ بعض ’’ علماء‘‘ بھی شریک ہوتے ہیں اور گھنٹوں مذہب اسلام پر تقریر کرکے جاتے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس طرح سڑکوں پر محفل منعقد کرنے کے بارے میں اسلام کا کیا نقطۂ نظرہے۔
اسلام نے انسانوں کو جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کے متعلق احکام دیے وہیں ہمیں اس بات سے بھی جاہل نہیں رکھا کہ ہمیں بحیثیت ایک مسلمان شہری معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے ۔ اسلام نے انسان کی اپنی ذات کے حقوق بھی بتلائے تو پھر گھر کے حقوق بھی بتائے۔ ان سب کے بعد اسلام گھر سے باہر کے معاملات میں کے متعلق حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کرتا بلکہ راستے کے حقوق کے تحفظ کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
’’ راستوں میں بیٹھنے سے باز رہو ، اگر تم بیٹھنے سے باز نہیں رہ سکتے تو راستے کا حق ادا کرو ۔ صحابہ نے عرض کیا ؛اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! راستے کا حق کیا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
نگاہیں جھکا کر رکھنا ، دوسروں کو اذیت نہ پہنچانا ، لوگوں کے سلام کا جواب دینا ، نیکی کا حکم کرنا ، اور برائی سے روکنا ۔ ‘‘
اس حدیث کو پڑھنے کے بعد آپ خود سوچیں کہ اس بارے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمارہے ہیں اور ہم لوگ جو عشقِ رسول کا دعویٰ کرتے ہیں ہیں، کیا کررہے ہیں؟کس قدر شرم کا مقام ہے کہ ہم اسی دین کے نام پر سڑکیں بلاک کرکے دین کی تبلیغ کرتے ہیں جو اس حرکت سے ہمیں منع کرتا ہے؟ کیا یہ ہمارے لیے شرم کا مقام نہیں کہ جس نبی نے ہمیں لوگوں کو اذیت پہنچانے سے منع کیا، ہم اسی نبی کی میلاد پر اسی کی نافرمانی کرتے ہوئے سڑکیں بلاک کردیتے ہیں، لاؤڈ سپیکر میں نصف شب تک نعتیں بجاتے رہتے ہیں۔
یاد رکھیں ! اسلام دین رحمت ہے، اس کی تبلیغ و اشاعت کسی کے لیے زحمت بناکر نہ کیجیے یہ عمل کسی بھی صورت میں آپ کے لیے باعث خیر نہیں ہوگا، اس تقریب میں چاہے تلاوت قرآن ہی کیوں نہ ہو رہی ہو اس میں آپ کی شرکت آپ کے لیے روزِ آخرنجات کا سبب نہیں ہوگی، بلکہ اس عمل سے محلے والوں کو ، راہ چلنے والوں کو جو تکلیف پہنچ رہی ہوگی وہ آپ کے لیے آخرت میں وبال بن جائے گا۔ ایسی محافل میں اہتمام کرنے والے اوراس میں شرکت کرنے والے دونوں پر ہی یہ وبال ہوگا۔
جس شخص پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لعنت ثابت ہوجائے پھر کیا اس کے لیے محشر میں کوئی شفاعت کی امید ہوسکتی ہے؟کچھ لوگ ۱۲ ربیع الاول کے دن جلوس نکالتے ہیں ؛ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان جلوس کی سرپرستی کرنے والوں میں بعض ’’علماء‘‘ بھی شامل ہوتے ہیں ۔ ان جلوس کی وجہ سے اولا تو راستے بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو نقل و حرکت میں تکلیف پہنچتی ہے ، ایک مرکزی شاہراہ بند ہونے سے سارے شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ نیز لاؤڈ سپیکر کی آواز اور دیگر آلات وغیرہ سے بھی بزرگ اور بیماروں کو سخت اذیت ہوتی ہے اور ان کے آرام میں زبردست خلل پڑتا ہے حالانکہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا بہت گناہ کا کام ہے ۔ علمائے کرام نے کبھی اس قسم کے تقاریب کی تائید نہیں کی، بلکہ وہ خود اس سے منع کیا کرتے تھے۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
ارے خدا کے بندوں! اذان بے وقت نہیں ہوتی، مقررہ وقت پر ہوتی ہے، نصف شب کو کبھی کوئی اذان نہیں ہوتی، سڑکوں پر سیاسی جلوس نکالے جاتے ہیں تو وہ بھی غلط ہے لیکن آپ کی مذہبی محفل سے دین کو نقصان پہنچتا ہے۔ کیا ہمارا دین اس طرح سے ہے کہ سڑکیں بلاک کرکے لوگوں کو اذیت دے کر آپ نبی صلی اللہ علیہ کا ذکر کرو؟
ہم لاکھوں روپیخرچ کرکے جناب اویس رضا قادری اور ان جیسے دیگر نعت خواں کو نعت پڑھنے کے لیے مدعو کرتے ہیں ، حیرت تو یہ ہے کہ ہم ان محفلوں میں بارہا انہی علماء کا نام لیتے نہیں تھکتے جوہمیں یہ کہتے ہیں کہ:
ترمذی شریف میں سہل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اﷲعلیہ وسلم کے ساتھ غزوہ کیا ، راستہ میں پڑاؤ ہوا تو لوگوں میں خیمے قریب قریب لگا لیے اور راستہ تنگ کردیا۔ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو بھیج کر لوگوں کے درمیان اعلان کرایا کہ جو شخص راستہ میں تنگی پیدا کریگا یا راستہ کو کاٹے گا تو اس کا جہاد جہاد نہیں۔
اس واقعے کو بار بار پڑھیں، میرے خیال میں اس سے زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ، اس حدیث سے کس قدر واضح ہے کہ وہ معاملات جنہیں ہم بہت معمولی سمجھتے ہیں کتنے سنگین ہوتے ہیں۔ جہاد کی فضیلت قرآن و حدیث میں بہت زیادہ وارد ہوئی ہے لیکن حقوق العباد کی بظاہر معمولی سی کوتاہی بھی اس عظیم عبادت کو غیر مقبول بناسکتی ہے۔
یہ روایت خاص ان مذہبی لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے جو سڑکوں پر رکاوٹیں ڈال کر محفل نعت و ذکر سجاتے ہیں اور اس گمان میں ہوتے ہیں انہیں بہت سا ثواب مل رہا ہوگا لیکن حقوق العباد میں لاپرواہی کرتے ہوئے لوگوں کو تکلیف دینا ، راستہ بند کرنا انکا سارا عمل برباد کردیتا ہے اور انکے لیے وہ عمل ثواب نہیں وبال بن سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب دین کی صحیح فہم عطا فرمائے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلائے۔
واخردعوانا ان الحمد اللہ رب العٰلمین
ہمارے ہاںیہ ایک عجیب طرزِ عمل بن گیا ہے کہ لوگ سڑکوں پر ٹینٹ (خیمے) لگا کر شادی، مہندی، مایو وغیرہ کرتے ہیں۔ربیع الاوّل آتے ہیں ہر گلی سڑک پہ خیمے نظر آتے ہیں جہاں محفل سجی ہوئی ہوتی ہیں اور بعض مذہبی جماعتیں خود یہ محفل میلاد، قراء ت اور دیگر مذہبی محافل منعقد کرواتی ہیں جس کا اہتمام سڑکوں پر ہوتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان محفلوں صرف عوام ہی نہیں بلکہ بعض ’’ علماء‘‘ بھی شریک ہوتے ہیں اور گھنٹوں مذہب اسلام پر تقریر کرکے جاتے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس طرح سڑکوں پر محفل منعقد کرنے کے بارے میں اسلام کا کیا نقطۂ نظرہے۔
اسلام نے انسانوں کو جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کے متعلق احکام دیے وہیں ہمیں اس بات سے بھی جاہل نہیں رکھا کہ ہمیں بحیثیت ایک مسلمان شہری معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے ۔ اسلام نے انسان کی اپنی ذات کے حقوق بھی بتلائے تو پھر گھر کے حقوق بھی بتائے۔ ان سب کے بعد اسلام گھر سے باہر کے معاملات میں کے متعلق حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کرتا بلکہ راستے کے حقوق کے تحفظ کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
’’ راستوں میں بیٹھنے سے باز رہو ، اگر تم بیٹھنے سے باز نہیں رہ سکتے تو راستے کا حق ادا کرو ۔ صحابہ نے عرض کیا ؛اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! راستے کا حق کیا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
نگاہیں جھکا کر رکھنا ، دوسروں کو اذیت نہ پہنچانا ، لوگوں کے سلام کا جواب دینا ، نیکی کا حکم کرنا ، اور برائی سے روکنا ۔ ‘‘
اس حدیث کو پڑھنے کے بعد آپ خود سوچیں کہ اس بارے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمارہے ہیں اور ہم لوگ جو عشقِ رسول کا دعویٰ کرتے ہیں ہیں، کیا کررہے ہیں؟کس قدر شرم کا مقام ہے کہ ہم اسی دین کے نام پر سڑکیں بلاک کرکے دین کی تبلیغ کرتے ہیں جو اس حرکت سے ہمیں منع کرتا ہے؟ کیا یہ ہمارے لیے شرم کا مقام نہیں کہ جس نبی نے ہمیں لوگوں کو اذیت پہنچانے سے منع کیا، ہم اسی نبی کی میلاد پر اسی کی نافرمانی کرتے ہوئے سڑکیں بلاک کردیتے ہیں، لاؤڈ سپیکر میں نصف شب تک نعتیں بجاتے رہتے ہیں۔
یاد رکھیں ! اسلام دین رحمت ہے، اس کی تبلیغ و اشاعت کسی کے لیے زحمت بناکر نہ کیجیے یہ عمل کسی بھی صورت میں آپ کے لیے باعث خیر نہیں ہوگا، اس تقریب میں چاہے تلاوت قرآن ہی کیوں نہ ہو رہی ہو اس میں آپ کی شرکت آپ کے لیے روزِ آخرنجات کا سبب نہیں ہوگی، بلکہ اس عمل سے محلے والوں کو ، راہ چلنے والوں کو جو تکلیف پہنچ رہی ہوگی وہ آپ کے لیے آخرت میں وبال بن جائے گا۔ ایسی محافل میں اہتمام کرنے والے اوراس میں شرکت کرنے والے دونوں پر ہی یہ وبال ہوگا۔
جس شخص پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لعنت ثابت ہوجائے پھر کیا اس کے لیے محشر میں کوئی شفاعت کی امید ہوسکتی ہے؟کچھ لوگ ۱۲ ربیع الاول کے دن جلوس نکالتے ہیں ؛ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان جلوس کی سرپرستی کرنے والوں میں بعض ’’علماء‘‘ بھی شامل ہوتے ہیں ۔ ان جلوس کی وجہ سے اولا تو راستے بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو نقل و حرکت میں تکلیف پہنچتی ہے ، ایک مرکزی شاہراہ بند ہونے سے سارے شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ نیز لاؤڈ سپیکر کی آواز اور دیگر آلات وغیرہ سے بھی بزرگ اور بیماروں کو سخت اذیت ہوتی ہے اور ان کے آرام میں زبردست خلل پڑتا ہے حالانکہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا بہت گناہ کا کام ہے ۔ علمائے کرام نے کبھی اس قسم کے تقاریب کی تائید نہیں کی، بلکہ وہ خود اس سے منع کیا کرتے تھے۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
’’محفلِ میلاد اور ہر قسم کا ذکر مبارک نہایت خلوص سے ہو کوئی حال بناوٹ پر نہ ہو، اور نہ کسی کی نیند خراب ہو اور نہ ہی کسی کی نماز میں خلل واقع ہو۔‘‘
(احکام شریعت: صفحہ ۱۷۴)
اپنے علمائے کرام کے نامکا دم بھرنے والے ہم مسلمان اپنے دل سے تو پوچھیں کہ ہم اس محفل کے وقت ہم کتنے لوگوں کی نیند خراب کررہے ہوتے ہیں ؟ کتنے بوڑھے ہیں جو بے چارے گولیاں کھاکر سوتے ہیں اور آپ کے لاؤڈ سپیکر کی ایک آواز سے ان کی آنکھ کھل جاتی ہے؟ ہماری وجہ سے کتنے طلباء کی پڑھائی میں خلل واقع ہورہا ہوتا ہے؟ کتنے لوگ عبادت میں مصروف ہوتے ہیں جو آپ کی وجہ سے عبادت نہیں کرپاتے۔ خدا کی قسم اسلام تو وہ دین ہے جو غیر مسلموں کے مذہبی حقوق کی بھی حفاظت کرتا ہے، انہیں اپنے مذہبی فرائض انجام دینے کی آزادی دیتا ہے اور ہم اسی دین کے ماننے والے مسلمانوں کی نماز میں خلل واقع کریں اور پھر اس حرکت پر جنت کی امید رکھیں؟
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اذان بھی تو لاؤڈ سپیکر پر ہوا کرتی ہے تو کیا ہم وہ بھی نہ دیں؟ سڑکوں پر روز سیاسی جلوس بھی تو نکالے جاتے ہیں تو کیا ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سال میں ایک دن بھی جلوس نہیں نکال سکتے؟ ارے خدا کے بندوں! اذان بے وقت نہیں ہوتی، مقررہ وقت پر ہوتی ہے، نصف شب کو کبھی کوئی اذان نہیں ہوتی، سڑکوں پر سیاسی جلوس نکالے جاتے ہیں تو وہ بھی غلط ہے لیکن آپ کی مذہبی محفل سے دین کو نقصان پہنچتا ہے۔ کیا ہمارا دین اس طرح سے ہے کہ سڑکیں بلاک کرکے لوگوں کو اذیت دے کر آپ نبی صلی اللہ علیہ کا ذکر کرو؟
ہم لاکھوں روپیخرچ کرکے جناب اویس رضا قادری اور ان جیسے دیگر نعت خواں کو نعت پڑھنے کے لیے مدعو کرتے ہیں ، حیرت تو یہ ہے کہ ہم ان محفلوں میں بارہا انہی علماء کا نام لیتے نہیں تھکتے جوہمیں یہ کہتے ہیں کہ:
’’اجرت پر میلادکرانا جائز نہیں یہ بھی اس محفل کے آداب کے خلاف ہے۔‘‘
(احکام شریعت: صفحہ ۱۴۴)
کیا ہمارا یہ عمل منافقانہ نہیں ہے کہ ہم ایک طرف خود ان علماء کا نام لیوا اور عاشق کہلوائیں اور دوسری طرف انہی کی تعلیمات سے انکار کردیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ محافل خود محلے کے لوگ کرتے تو پھر اس سے ان کی وضامندی ثابت ہوگئی ۔ لیکن ذرا عقل سے کام لے کر سوچیں کیا واقعی سب لوگ آپ کی ان حرکتوں پر راضی ہوتے ہیں؟ کیا آپ کے محلے میں ایسا ایک بھی فرد نہیں جو اس سے پریشان ہو؟ کوئی بالغ فرد تو چھوڑ دیں اگر کوئی نومولود بچہ بھی سو رہا ہو تو اسے تکلیف نہیں ہوگی؟بالفرض تمام محلے والے بھی راضی ہیں تو آمد و رفت کے لیے استعمال ہونے والے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرکے محفل کرنے سے ایسا نہیں ہوتا کہ راہ گزرنے والوں کو آپ کی وجہ سے اپنا راستہ تبدیل کرنا پڑجاتا ہے؟ انہیں جو تکلیف ہوتی ہے اس کی ذمہ داری یقیناًآپ پر ہی ہوگی۔ اپنے دل و دماغ کو ہر قسم کے تعصب سے پاک کرکے یہ حدیث پڑھیں اور خود فیصلہ کرلیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے مسلمانوں کو ان کے راستے میں ایذاء پہنچائی اس پر مسلمانوں کی لعنت ثابت ہوگئی۔ (طبرانی)
ذرا پھر سوچیں کہ کیا ہمارا یہ عمل منافقانہ نہیں کہ ہم عشق رسول کی محفل سجائیں، سیرت رسول کے جلسے کریں ، لیکن اسی محفل اور جلسے میں اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دھجیاں بکھیر دیں۔ مجھے نعت اور سیرت کی ان محفلوں کے انعقاد سے قطعی کوئی اختلاف نہیں ہے ، بلاشبہ ایسی محفلیں سجانا ایمان کی دلیل ہے ،لیکن کیا ان کا اہتمام سیمینار ہال میں نہیں کیا جاسکتا؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو تکلیف دے کر ہی یہ کام کریں؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان سلامت رہیں
(بخاری: کتاب الایمان)
اب آپ خود اپنا یہ عمل محاسبہکیجئے کہ آپ اپنے ہاتھوں سے کس اذیت میں لوگوں کو مبتلا کررہے ہیں؟اپنے زبان سے لاؤڈ سپیکر پر نعت و قراء ت پڑھ پڑھ کر لوگوں کو کیا تکلیف پہنچا رہے ہیں؟خدارا ذرا سوچیے! اسلام ایک باوقار دین ہے ؛ اسلام کیسے کسی کو تکلیف دینے کی تعلیم دے سکتا ہے؟ اس کی یہ ہرگز تعلیم نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو تکلیف پہنچاکر اسلام کے گیت گائیں۔ لوگوں کو تکلیف پہنچا کر قراء ت کرنا بھی آپ کے لیے ثواب نہیں وبال ہوگا۔ترمذی شریف میں سہل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اﷲعلیہ وسلم کے ساتھ غزوہ کیا ، راستہ میں پڑاؤ ہوا تو لوگوں میں خیمے قریب قریب لگا لیے اور راستہ تنگ کردیا۔ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو بھیج کر لوگوں کے درمیان اعلان کرایا کہ جو شخص راستہ میں تنگی پیدا کریگا یا راستہ کو کاٹے گا تو اس کا جہاد جہاد نہیں۔
اس واقعے کو بار بار پڑھیں، میرے خیال میں اس سے زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ، اس حدیث سے کس قدر واضح ہے کہ وہ معاملات جنہیں ہم بہت معمولی سمجھتے ہیں کتنے سنگین ہوتے ہیں۔ جہاد کی فضیلت قرآن و حدیث میں بہت زیادہ وارد ہوئی ہے لیکن حقوق العباد کی بظاہر معمولی سی کوتاہی بھی اس عظیم عبادت کو غیر مقبول بناسکتی ہے۔
یہ روایت خاص ان مذہبی لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے جو سڑکوں پر رکاوٹیں ڈال کر محفل نعت و ذکر سجاتے ہیں اور اس گمان میں ہوتے ہیں انہیں بہت سا ثواب مل رہا ہوگا لیکن حقوق العباد میں لاپرواہی کرتے ہوئے لوگوں کو تکلیف دینا ، راستہ بند کرنا انکا سارا عمل برباد کردیتا ہے اور انکے لیے وہ عمل ثواب نہیں وبال بن سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب دین کی صحیح فہم عطا فرمائے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلائے۔
واخردعوانا ان الحمد اللہ رب العٰلمین