پرانے وقت
کی بات ہے، مصوری سیکھنے کے مقصد سے ایک نوجوان، استاد کے پاس پہنچا۔ وہ استاد اپنے
فن میں بہت ماہر اور مشہور تھا۔ نوجوان کی شدید خواہش دیکھ کر، استاد
نے اسے شاگرد کے طور پر اپنا لیا اور اس دور کی روایت کی طرح اسے اپنے گھر ٹھہرا دیا۔ وقت
گذرتا گیا اور یہ شاگرد مصوری میں بہت ماہر ہو گیا۔ اب وہ شاگرد سوچنے لگا کہ میں فن
میں ماہر ہو گیا ہوں، استاد کو اب مجھے رخصت ہونے کا حکم دے دینا چاہئے۔ لیکن استاد
اسے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ ہر بار استاد کہتے ابھی بھی تمہاری تعلیم میں
میں کچھ چیزیں باقی ہیں کچھ وقت رُک جاؤ ۔ شاگرد ہر وقت اسی فکر میں میں رہنے لگا کہ اب یہاں میری
زندگی بیکار ہی بسر ہو رہی ہے۔ میں کب اپنے فن کا استعمال کرکے دنیا سے اپنا فن
منواؤں گا؟ اس طرح تو میری زندگی کے سنہرے دن یونہی گزر جائیں گے۔
بالاخر ایک
دن وہ بغیر استاد کو بتائے، بناء حکم ہی اسے چھوڑ کر چلا گیا اور اور قریب ہی ایک
شہر میں جا کر رہنے لگا۔ یہاں اس نے لوگوں کی تصویر بنا کر خوب شہرت حاصل کی ۔ وہ جو
بھی تصویر بناتا لوگ دیکھ کر خوش ہو جاتے۔ وہ ہر تصویر ہوبہو نقل بنانے کے قابل
تھا۔ اس کی شہرت دن دونی رات چوگنی بڑھنے لگی اور اسے ہر تصویر پر اچھا معاوضہ
ملتا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس کی مہارت اور فن کے چرچے شہر میں پھیل گئے۔
اس ریاست
کے بادشاہ کو بھی اس کی مہارت کے متعلق خبر پہنچی تو بادشاہ نے اسے دربار میں مدعو
کیا اور ساتھ ہی اپنی تصاویر بنانے کی
درخواست کی اور بہترین تصاویر بنانے پر مال
و دولت دینے کی یقین دہانی بھی کرائی لیکن
تصویر غلط بنانے پر سزائے موت کی دھمکی بھی دی۔ بادشاہ کے حکم سے 15 دن کا وقت لے
کر وہ نوجوان آرٹسٹ گھر لوٹا۔ گھر آتے ہی وہ بادشاہ کے تصویر بنانے کے لئے خاکے
بنانے میں مشغول ہو گیا۔ مگر اچانک اسے ایک خیال آیا اور وہ رُک گیا۔مسئلہ
دراصل یہ تھا کہ بادشاہ ایک آنکھ سے كانا تھا۔ اس نے سوچا، اگر میں
بادشاہ کی ہوبہو تصویر بناتا ہوں، اور اس كانا ظاہر کرتا ہوں تو یقینا بادشاہ کو
یہ اپنا توہین لگے گی اور وہ تو بادشاہ ہے، انعامات کی جگہ وہ مجھے قتل ہی کروادے
گا۔ اور اگر دونوں آنکھیں ظاہر کرتا ہوں تب بھی غلط تصاویر بنانے کے جرم میں وہ
مجھے موت کی سزا ہی دے گا۔ اگر وہ تصویر نہ بنائے تو تو بادشاہ اپنی نافرمانی کی
وجہ ہوکر سر قلم ہی کر دے گا۔ کسی بھی حالت میں موت یقینی تھی۔ وہ سوچ سوچ کر انتہائی
پریشان ہو گیا، بچنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
آخر کار
اسے استاد کی یاد آئی اس نے سوچا اب تو استاد ہی کوئی راستہ نکالیں گے۔ وہ تیزی سے استاد کے پاس پہنچا اور استاد سے اپنے
چلے جانے کے لئے معذرت طلب کرتے ہوئے اپنا مسئلہ بتایا۔ استاد نے اسے یہ حل بتایا
کہ تم بادشاہ کو گھڑسوار جنگجو کے طور پر پیش کرو، انہیں گھوڑے پر تیر کمان ہاتھ
میں لیے نشانہ بناتے ہوئے دكھاؤ کہ ایک آنکھ نشانہ لگاتے ہوئے بند ہے۔
توجہ رہے بادشاہ کی جو آنکھ نہیں ہے اسی آنکھ کو بند دکھانا ہے۔ نوجوان مطمئن ہوا۔
شاگرد، استاد
کے مشورے کے مطابق ہی تصاویر بنا کر بادشاہ کے حضور پہنچا۔ بادشاہ تصویر دیکھ کر
بہت ہی خوش اور حیرت زدہ ہوا اور اسے بے شمار دولت سے نوازا۔