حافظ محمد شارق
حضرت آدم علیہ السلام نے
کاشت کاری کی، حضرت موسی علیہ السلام کئی سالوں تک حضرت شعیب علیہ السلام کے
چرواہے رہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام لوہے کا کام کیا کرتے تھے ۔ ہمارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم تجارت کرتے تھے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ
کرلیجیے ، آپ دیکھیں گے کہ جس طرح اللہ کے یہ بندے اپنی آخرت کے لیے محنت کرتے ہیں اسی طرح حلال کمائی کے لیے بھی محنت
کیا کرتے تھے۔ یاد رکھیں کہ معاملہ دنیا کا ہو یا آخرت کا، آپ محنت کے بغیر کسی
صورت کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔اگر آپ بحیثیت مسلمان اپنے دعوے کے علاوہ اخروی
زندگی کے متعلق واقعی سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ قیامت میں ہونے والے کٹھن
سوالوں کا جواب دے سکیں تو پھر اس بات کا ضرور خیال کریں کہ آپ کہاں سے اور کیسے
کما رہے ہیں؟ محنت سے کما کر اپنا اور اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالنا ایک آپ کے لیے دینی فرائض اور عبادت میں شامل ہے۔نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:
اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہے
اور وہ صرف پاکیزہ مال ہی کوقبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کو اسی بات
کاحکم دیا ہے جس کا اس نے رسولوں کوحکم دیا ہے، چنانچہ اس نے فرمایا، "اے
پیغمبروں! پاکیزہ روزی کھاؤ اور نیک عمل کرو ۔"اور مومنین کو خطاب کرتے ہوئے
اس نے کہا " اے اہل ایمان! جو پاک اور حلال چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں وہ
کھاؤ۔پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کا ذکر کیا جو لمبی مسافت
طے کرکے مقدس مقام پرآتا ہے ، عبار سے اٹا ہوا ہے، گرد آلوف ہےاور اپنے دونوں ہاتھ
آسمانکیطرف پھیلا کر کہتا ہے" اے میرے رب! (اور دعائیں مانگتا ہے)"
حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے ، اس کا لباس حرام ہے اور
حرام پر پہ وپ پلا ہے ، ایسے شخص کی دعا
کیوں کر قبول ہوسکتی ہے؟(ترمذی، کتاب التفسیر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: کوئی بندی حرام مال کمائے پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں صدقہ کرے تو یہ صدقہ اس کی طرف سے قبول
نہیں کیا جائے گا اور اگر اپنی ذات اور گھر والوں پر خرچ کرے گا تو برکت سے خالی
ہوگا، اگر وہ اس کو چھوڑ کر مرا تو وہ اس کے جہنم کے سفر میں زادِ راہ بنے گا ۔ اللہ
تعالیٰ برائی کو برائی کے ذریعے سے نہں مٹاتا بلکہ برے عمل کو اچھے عمل سے مٹاتا
ہے،خبیث ناپاک چیز کو خبیث ناپاک چیز نہیں مٹاتی۔ (مسند احمد)
ان احادیث سے جہاں یہ
معلوم ہوا کہ کمائی اگر حرام اور ناجائز طریقے سے ہو تو پھر دعا قبول ہونے کا کوئی
توقع نہیں کرنی چاہیے۔ حدیث کے دوسرےحصے پرغور کریں۔ اللہ تعالیٰ صرف وہی صدقات و
عبادات قبول کرتے ہیں جو حلال کمائی سے ہو۔حرام مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بے
سود ہے۔اس بات کا فیصلہ خود کیجیے کہ کیا حرام مال سے کھائی ہوئی غذا جو آپ کے بدن
کا جز بن جاتی ہے، یا اس سے آپ قوت و توانائی حاصل کرتے ہیں، حرام مال سے حاصل شدہ
اسی بدن اور اس کی قوت و توانائی سے کی گئی عبادت کیا اللہ کو قبول ہوگی؟ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''ہروہ گوشت جو حرام سے
نشوونما پاتا،اس کے لائق تو آگ ہی ہے۔(حوالہ درکار۔بحوالہ آداب زندگی)
قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ
جو لوگ اپنے شکم حرام مال سے بھرتےہیں، وہ دراصل اپنے شکم میں جہنم کی آگ بھر رہے
ہوتے ہیں جو آخرت میں انتہائی وحشت ناک انداز میں ان کے سامنے ہوگی۔
بیشک جو لوگ یتیموں کے
مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی
ہوئی آگ میں جا گریں گے۔ (سورۃ النساء۔ آیت 10)
آپ الحمدللہ چوری ، ڈاکہ زنی ، ظاہری فراڈ وغیرہ جیسے جرائم میں ملوث
نہیں ہیں، لیکن کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی کمائی سو فیصد حلال ہے؟ ہم ملازمت میں
ایمان داری کا مظاہرہ نہیں کرتے ، ہم ملازمت میں وقت کی پابندی نہیں کرتے، ہم اپنے
فرائض منصب صحیح طور پر ادا نہیں کرتے، ہم اپنے منصب کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ہم
دن بھر دھوپ میں پسینہ بہانے کے باوجود لوگوں کو جھوٹ اور فریب دے دے کر اپنی دکان
کا مال بیچتے ہیں۔پھر بھی ہم میں سے کتنے ہی دین دار افراد ایسے ہیں جو اسی زعم
باطل میں مبتلاء رہتے ہیں کہ ہماری کمائی
حلال ہے،ہم مطمئن ہیں کہ ہمارے شکم میں جو غذا جارہی ہے وہ حلال ہے، حالانکہ سراسر
حرام ہے۔
اگر آپ اللہ کے حکم
اور سیرت النبی کے مطابق کسب حلال کا
ارادہ رکھتے ہیں ، اگر آپ کو روز محشر اللہ کے سامنے احساس جواب دہی کا خوف ہے تو
پھر ضروری ہے کہ آپ اس بات کی پرواہ بھی کریں کہ کسی بھی طرح آپ کا حلال ذریعۂ
معاش آپ کے لیے "حرام" کا ذریعہ نہ بن جائے۔ مندرجہ ذیل نکات پر غور
کریں اور اپنا احتساب کریں۔
· سرکاری محکمے بالخصوص
سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ مرض عام ہے
کہ ملازمین گھر بیٹھے رہتے ہیں اور صرف تنخواہ والے دن پیسے وصول کرنے آجاتےہیں۔
ایسی کمائی سراسرحرام ہے۔
· ملازمت کے لیے جو اوقات
کار مقررہیں، ان اوقات میں بلا اجازت کوئی اور کام کرنا ، حتیٰ کہ تلاوت قرآن بھی
جائز نہیں۔
· ملازمت میں جس روز (علاوہ
تعطیلات) خود سے چھٹی کی جائے اس دن کی
تنخواہ لینا صحیح نہیں، الّا یہ کہ چھٹی کی درخواست ، اجازت یا معافی قبول کرلی
گئی ہو۔
· اگر بحیثیت ملازم آپ
سےکوئی ناجائز کام،ظلم اور نا انصافی کروایا جارہا ہے تو اس میں مجبوراً شریک ہونا
بھی آپ کے لیے جائز نہیں، ورنہ اس گناہ میں آپ بھی برابر کے شریک ہوں گے۔
· اپنے منصب کا استعمال
ذاتی مفاد کے لیے کرنا صحیح نہیں۔
· اللہ تعالیٰ نے معاش کے
لیے دن کا وقت اور آرام کے لیے رات بنائی ہے، لہٰذا اپنا کاروبار صبح سویرے
کھولیے۔