Thursday, 18 October 2012

تقابل ادیان


تقابل ادیان کیوں؟؟؟
سوال
کیا ہم اپنے دین کو پوری طرح سمجھ چکے ہیں ، پوری طرح سے اس کی تعلیمات ، اس کے مسائل اور سب سے اہم قرآن و حدیث جان چکے ہیں؟ ہم ابھی تک ان کو ہی صحیح طرح نہیں سمجھے ، ان پر پورا عمل نہیں کیا تو یہ تقابل ادیان کی ضرورت کیوں کر پیش آئی؟ اپنا دین سمجھا نہیں دوسرے میں گھُس چلے ہیں ہم۔  ہم دوسرے کے مذہب کو اہمیت ہی کیوں دیں جب کہ اپنا اسلام ہمارے لیے کافی ہے؟ کیا صوفیاء بھی تقابل ادیان میں کام کرتے تھے؟
)محمد بلال عطاری۔ کراچی(

جواب: السلام و علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ! ہر انسان کے لیے دعوت و تبلیغ کا ایک علاحدہ میدان ہوتا ہے، یہ ضروری نہیں ہے ہر داعی مفتی ہو، یا ہر مفتی محدث ہو۔ بنیادی تعلیم کے بعد جس کا جو میدان ہوتا ہے وہ وہیں کام کرتا ہے۔ اسی طرح دعوت و تبلیغ کے لیے تقابل ادیان بھی ایک اہم ذریعہ ہے، اسلامی تاریخ میں تقابل ادیان کوئی نیا موضوع نہیں ہے،
تقابل ادیان کے میدان میں اگر کوئی اسلام کے بنیادی علوم سیکھے بغیر آئے گا بلا شبہ یہ غلط ہے۔ دین کے بنیادی علوم حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تقابل ادیان کے طالب علم کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک عام مسلمان کو بھی اسلام کے بنیادی علوم مثلاً مڈل سطح کی عربی قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جاسکے، فقہ جس سے ہماری عبادات اور حلال و حرام کا علم ہوجائے ، ایمانیات کے چھ بنیادی اصول پر بلا تاویل یقین ہو اور اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے ، اسلام کی روح کیا ہے، اسے سمجھنا ‘ یہ بنیادی علم ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی مسلمان علیحدہ میدان منتخب کرتا ہے تواس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ ایک مسلمان ان علوم کو حاصل کرلینے کے بعد ڈاکٹر بنے یا انجینیر، دعوت و تبلیغ کے لیے وہ ہر طرح سے کام کرسکتا ہے ۔پھر جو لوگ دین کی دعوت دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں ، اور علوم اسلامیہ میں اسپیشلائز کرتے ہیں ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دیگر مذاہب سے بھی اچھی طرح واقف ہوں تاکہ وہ ان مذاہب کے لوگوں کے سامنے اپنی دعوت پیش کر سکیں۔
سنن درامی کی ایک حدیث ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بار تورات کی تلاوت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا ‘ بعض حضرات اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تقابل ادیان پڑھنا غلط ہے۔ اول تو یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ محدثین کی نظر سے یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا ایک راوی جابر الجعفی متہم بالکذب ہے جس کے بعد اس روایت پر استدلال درست نہیں رہتا۔ البتہ اگر یہ حدیث کسی طور پر اپنے مفہوم کے اعتبار سے بھی صحیح ثابت ہوجائے تو بھی حدیث پر معمولی سا غور واضح کردیتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تورات کی تلاوت اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کے متعلق منع فرمایا کیونکہ خود اس حدیث کے آخری حصے میں یہ صراحت ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام دوبارہ آجائیں تو وہ بھی اپنی شریعت تورات کے بجائے قرآن پر عمل کریں گے۔ لہٰذا بات بالکل واضح ہے کہ اس ممانعت میں پیش نظر تورات کو بحیثیت کتاب ہدایت پڑھنا تھا ۔ تقابل ادیان کے بغیر غیر مسلمین کے سامنے یہ بات واضح کرنا ممکن نہیں ہے کہ ان کے دین اور ہمارے دین میں آخر فرق کہاں اور کیا واقع ہے، کیوں اسلام کو دیگر مذاہب پر فوقیت حاصل ہے اورکن امور پر ان کی کتب مقدسہ اور اسلام متفق ہیں۔
دعوت و تبلیغ کے لیے تو تقابل ادیان کے شعبے کو وجود قرآن مجید اور احادیث سے ملتا ہے۔ چند مثالیں دیکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ان سے توحید کے مشترکہ عقیدے پر بات کی جانے چاہیے۔اللہ فرماتے ہیں ”آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب ایسی بات کی طرف آؤ جو کہ ہم تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں اور نہ ہی اللہ تعالی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب بنائیں پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔ “(سورہ آل عمران آیت ۴۶)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اہل کتاب سے مشترکہ نکات پر اتحاد کیا جائے اور ان سے بات کی جائے۔ یہ مشترکہ نکات کیا ہیں؟ اس کی وضاحت خود اس آیت میں توحیدہے۔اس حکم کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اہل کتاب کے مشترکہ امور معلوم کیے بغیر کس طرح ان سے بات کی جائے؟ معلوم کرنے کے دوع ہی ذرائع ہوں گے یا تو ان مذاہب کے ماننے والوں کی موجودہ صورت دیکھی جائے یا ان کی کتب مقدسہ کا مطالعہ کیا جائے۔ اگر ہم اہل کتاب کی موجودہ حالت دیکھیں تو یہی معلوم ہوگا کہ موجودہ عیسائیت میں توحید کا کوئی واضح عقیدہ موجود ہی نہیں ہے۔ لہٰذا تثلیث کے شرکیہ عقیدے کے ہوتے ہوئے یہ مشترکہ امور عیسائیوں کو دیکھ کر ہرگز معلوم نہیں کیے سکتے۔ یہ عقائد بلاشبہ ان کی کتب مقدسہ کے خلاف ہیں۔ یہ مشترکہ امور یقیناً ان کے دین اور ان کی کتابوں کے مطالعے سے ہی معلوم ہوں گے تاکہ ان سے بات کی جاسکے۔
قرآن مجید کا یہ دعویٰ ہے کہ توریت و انجیل محرف کتابیں ہیں ، یہ ہمارا مجمل ایمان ہے لیکن اس کی تفصیل اور یہ دعویٰ اسی وقت ثابت ہوگا جب ہمیں ان کتابوں کی تاریخی حیثیت کا علم ہو۔

دعوت و تبلیغ کے لیے اس کی اہمیت کا انکار کسی بھی طرح نہیں کیا سکتا۔ چنانچہ ہم دور نبوت میں دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو خاص یہود کی زبان عبرانی سیکھنے کا حکم دیا تاکہ یہود کی دستاویزات پڑھ سکیں۔ بعد میں بہت سے صحابہ و تابعین نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور کعب الاحبار سے یہود کی روایات کا علم حاصل کیا۔حضرت شاہ ولی اللہ نے اصول تفسیر کی کتاب الفوز الکبیر میں قرآن مجید کے جو موضوعات گنوائے ہیں، تقابل ادیان بھی انھی میں سے ایک شاخ ہے۔امام غزالی، شیخ عبد القادر جیلانی غوث صمدانی نے بھی اپنی کتب میں فرقہ باطلہ کا رد کیا ہے، چنانچہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھوں نے اسلام کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اہمیت دی ہے۔ کیونکہ یہ کام ہمارے صوفیاء، علماء اور سب سے بڑھ کر خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ امام رازی، ابو منصور عبد القاہر، امام غزالی،ابوالہذیل، ابو اسحاق ابراہیم بن سیار نظام، ہشام بن الحکم، ابن حزم، علامہ محمد عبد الکریم شہرستانی، ابن تیمہ، یعقوب کندی، جاحظ وغیرہ کے نام آشنا ہر شخص جانتا ہے۔ جدید مثالوں میں آپ شاہ ولی اللہ، حضرت مجدد الف ثاثی، شیخ احمد دیدات، پیر کرم علی شاہ ازہری، مولانا ثنااللہ امرتسری، مولانا قاسم نانوتوی، اور دیگر علما ہیں اور آپ جانتے ہوں گے کہ ان میں کون کون صوفیاء ہیں۔
 ان سب کے پیش نظر بلا شبہ یہ کہنا صحیح ہے کہ اپنے دین کی بنیادی تعلیم حاصل ہوجانے کے بعد بلا تردد کسی بھی مذہب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ۔بشرطیکہ کہ کسی استاد کی رہنمائی میں ہو، تاکہ گمراہی کا اندیشہ نہ رہے۔
والسلام
حافظ محمد شارقؔ 


Tuesday, 16 October 2012

کیا سالگرہ منانا حرام ہے؟


السلام و علیکم ! اسلام میں سالگرہ منانے کا کیا تصور ہے؟ بعض اسے بدعت کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں جائز ہے۔کیا سالگرہ منانا حرام ہے؟
محمد سلمان حنیف، کوئٹہ پاکستان 
جواب:
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ! 
 سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ سالگرہ کو ہم بدعت نہیں کہہ سکتے کیونکہ کوئی چیز بدعت اس وقت بنتی ہے جب اسے دین میں داخل کیا جائے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سالگرہ منانا کوئی دینی عمل ہے، خواہ وہ اسے فرض سمجھے یا مستحب، تو پھر یہ اس کے لیے بدعت ہو گی۔لیکن لوگ اسے دینی نہیں بلکہ دنیاوی عمل سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں سالگرہ اور اس قسم کی دیگر دنیاوی رسومات کے متعلق بدعت یا حرام ہونے کا فیصلہ کرنے سے قبل یہ معلوم کرلینا چاہیے کہ جس چیز کے متعلق ہم معلوم کرنا چاہ رہے ہیں اس کی تاریخ اور موجودہ صورت کیا ہے۔ سالگرہ منانے کا رواج کب سے اور کیوں کر ہوا ہے، اور اس کی موجودہ صورت کیا ہے، ان سب چیزوں کو دیکھ لیا جائے تو بات واضح ہوجائے گی۔ 
سالگرہ منانے کا رواج تاریخ میں ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور سے قبل ملتا ہے۔ روم و یونان کی قدیم تہذیب میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ارواح اپنی سالگرہ کے دن زمین پر آتی ہیں،لہٰذا اس دن ان کی پرستش کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا، تاہم اُس وقت تحائف وغیرہ کا سلسلہ نہیں تھا۔ مصر کی تہذیب میں بھی دیوتاؤں کی پرستش خاص ان کے یوم پیدائش پر کی جاتی تھی، امریکی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق قدیم دیوتا پرست تہذیبوں میں دیوتاؤں کی سالگرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اس دن خاص ان کی پوجا کی جاتی تھی۔البتہ سالگرہ کی وہ صورت جو آج رائج ہے، یعنی کیک کاٹنا ، تحائف دینا اور چھوٹی سی تقریب کرنا ، اس کا تعلق خاص یونانی تہذیب سے ہے۔یونانی تہذیب کے لوگ چاند کی دیوی ارتمس کو پوجتے تھے اور اس کی سالگرہ کے دن ٹیبل پر کیک رکھ کر موم بتیاں روشن کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ سالگرہ عیسائیوں کے ہاں رائج ہوئی، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اپنی سالگرہ مناتے ہیں۔سالگرہ کی مبارک باد دینے کا رواج بھی عیسائیوں کے ہاں سے شروع ہوا۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہندو اور مسلمانوں میں سالگرہ کا رواج عام ہوا۔ 
تاریخ جاننے کے بعد اب ہم علمائے کرام کے موقف کی طرف جاتے ہیں۔ اس بارے میں جدید علماء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ بعض کے نزدیک یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک ناجائز۔ دونوں گروہوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔
 جو علماء اسے ناجائز کہتے ہیں ان کے نزدیک سالگرہ اس زاویہ نگاہ سے ناجائز ہے جس طرح بسنت، ہولی، مہندی مایو، اور شادی کی ہندوانہ رسوم غلط ہیں، کیونکہ عام طور پر جب مسلمان اپنی شادیوں میں یہ رسومات کرتے ہیں تو ان کا مقصد بھی خوشی ہوتا ہے لیکن یہ اپنی اصل کی وجہ سے ناجائز ہے کیونکہ یہ حقیقت میں مشرکین کا تہوار ہے جو ہمارے ہاں رائج ہوا۔ اس کے علاوہ ان علماء کے نزدیک سالگرہ چونکہ سال گزرنے پر منائی جاتی ہے لہٰذا زندگی کا ایک سال کم ہونے پر مبارک باد دینا یا خوشی منانا غیر منطقی ہے۔
 جو علماء اسے جائز سمجھتے ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ سالگرہ منانا کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی بھی عام دنیاوی کام جیسے کھانا پینا، تفریح کرنا، کھیل کود وغیرہ کی ہے۔ اگر اس میں کوئی ناجائز کام ہو گا تو اسے ناجائز کہا جائے گا اور اگر نہیں ہو گا تو مباح اور جائز ہے۔ سالگرہ کی تاریخ اگرچہ قدیم مشرکانہ تہذیب سے ملتی ہوں لیکن ہمارے مسلمان بھائی کسی مشرکانہ یا عیسائی پس منظر میں سالگرہ نہیں مناتے بلکہ وہ اس دن کو بطور خوشی مناتے ہیں، ان کے پیش نظر صرف تفریح کرنا ہوتا ہے۔
میرا ذاتی رویہ اس بارے میں یہ رہا ہے کہ میں اپنی سالگرہ مناتا نہیں ہوں لیکن اس دن خاص اس بات پر ضرور غور کرتا ہوں کہ مقصد حیات اور منزل کی طرف کتنا اور کس طرح کا سفر طے کیا ہے ، کمی کوتاہی وغیرہ دیکھتا ہوں اور آیندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرتا ہوں۔کبھی کبھار اس دن روزہ اور صدقہ بھی کرلیا کرتا ہوں، میرے خیال میں جو لوگ سالگرہ مناتے ہیں ان کے یہ بات مناسب ہوگی کہ اگر وہ لوگ دن سے خود احتسابی کے تصور کو منسلک کردیں تو فائدہ ہوگا ۔

آپ دونوں جانب کے دلائل کا مطالعہ کرکے اپنی رائے قائم کرسکتے ہیں۔

دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ 
والسلام
حافظ محمد شارقؔ

Monday, 1 October 2012

Is 9:29 ayah of Quran encourage Muslims to kill disbelievers?









Question (asked by Christian):


If Quran says in 2:256, "There is no compulsion in religion". Then why it is said in Surah Taubah 9:29 said, “Fight those who do not believe in God, nor in the latter day, nor do they prohibit what God and His Apostle have prohibited, nor follow the religion of truth, out of those who have been given the Book, until they pay the tax in acknowledgment of superiority and they are in a state of subjection.”

Answer: (By Hafiz Muhammad Shariq)

9:29 of Quran doesn't encourage Muslims to kill them who don’t believe in Islam, because if we read this ayah carefully it says:

“Fight those who believe not in God nor the Last Day, nor hold that forbidden which hath been forbidden by God and His Apostle, nor acknowledge the religion of Truth”..

But is it ended here? No, it continues and gives the actual reason for the fighting, it is:

“until they pay the Jizya with willing submission, and feel themselves subdued”

The reason is ONLY and ONLY if they refuse to pay the jizya – Willingly. there is no single verse in Quran which says to kill the disbelievers just because they are disbelievers. Muslims are not permitted to attack non-Muslims who signed peace pacts with them, even Quran enjoins Muslims to be respectful and justice with them.

Allah forbids you only about those who fought you on account of faith, and expelled you from your homes, and helped (others) in expelling you, that you have friendship with them. Those who develop friendship with them are the wrongdoers. (Surah 60: Ayah 8)
Once they pay the jizya tax they can continue to believe in their atheistic pagan beliefs and they are allowed to do their religious practices. they can live under the protection of the Islamic State. And we all know that jizya is applicable only in an Islamic state. Neither India, nor U.S and Britain are Islamic states.

Now people might say isn’t it unfair that they have to pay the jizya tax? Not really, the jizya tax is very cheap and affordable, it can be just about 0.4%, but it grants the non-Muslims many benefits, which even the Muslims don’t get! For instance, the non-Muslims who are paying jizya in an Islamic state are not obliged to take part in any battle or war, And you should know that According to Islamic law as quoted by Malik's Muwatta Book 17, Number 17.24.46:

"The sunna is that there is no jizya due from women or children of people of the Book, and that jizya is only taken from men who have reached puberty.”

So It is a perfectly fair that verse 9:29 doesn't encourage the Muslims to do terrorism.