Wednesday, 25 December 2013

غصہ حرام کیوں ہے؟


غصہ حرام کیوں ہے؟

کیا آپ مجھے یہ سمجھا سکتے ہیں کہ غصہ کیا ہوتا ہے اور یہ اسلام میں حرام کیوں ہے؟ کیونکہ صحیح بات پر ڈٹے رہنا بھی غصہ ہوتا ہے۔ پلیز میری رہنمائی کریں۔
(سائل نامعلوم)
جواب:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ، کیسے مزاج ہیں؟ آپ کا سوال واقعی بہت اچھا ہے اور اسے سمجھنا آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔چونکہ میں کچھ دنوں سے بخار میں مبتلاء ہوں اس لیے فی الحال تفصیل سے جواب دینے سے قاصر ہوں، البتہ اس وقت یہاں کچھ بنیادی باتیں بتادینا مناسب سمجھوں گا۔

غصّہ آنا انسانى طبيعت كا فطری حصّہ ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہمارے سامنے ہماری خواہش اور توقعات کے کچھ خلاف ہوجائے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات بیماری کی بھی وجہ سے مزاج یوں ہوجاتا ہے کہ انسان کو ہر وقت یا ذرا ذرا  سی بات پر غصہ آنے لگے۔ غصہ حرام ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس دوران ہمارے دماغ میں کیمیکلز کی ایسی تبدیلیاں ہوتی جن سے اعصاب ہمارے كنٹرول سے نكل جاتے ہيں ، ہم غصے میں دوسروں پر بہت سی زیادتیاں کر جاتے ہیں، نیز جدید تحقیقات کے مطابق بھی بہت زیادہ غصے سے ہمارے نظام اعصاب اور دل پر بھی نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 

البتہ چونکہ یہ ایک فطری جذبہ ہے،اس لیے  ایسا نہیں ہے کہ غصّہ ہر جگہ اور ہر حال ميں برا، ناپسنديدہ اور نقصان دہ ہے بلكہ اگر اس جذبے کا استعمال مثبت طور پر کیا جائے تو کافی مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔ مثلاً مجھے اکثر غصہ ہمارے ہاں معاشرتی رویے اور اخلاقی اقدار کی پامالی کو دیکھ کر آتا ہے۔ اس وقت میں یہ کرتا ہوں کہ کاغذ قلم اٹھا کر اس مسئلے کا حل سوچ کر اس پر لکھنا شروع کردیتا ہوں اس طرح غصے کی سمت(Direction) تبدیل ہوجاتی ہے اور جذبات کے ساتھ کوئی اچھا پیغام بھی پہنچ جاتا ہے۔البتہ بہت زیادہ غصہ آنا (چاہے وہ صحیح معاملات پر ہی کیوں نہ ہو) صحیح نہیں ہے۔انسان کو معتدل مزاج رہنا چاہیے۔غصہ قابو رکھنے کے بارے میںحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

پہلوان وہ نہیں جو مقابل کو گرادے۔ بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کو وقت خود کو قابو میں رکھے۔
(بخاری۔ آداب کا بیان)

 اگر بہت زیادہ غصہ آتا ہے ضروری ہے کہ ہم کسی ڈاکٹر اور ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔ اس علاج کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ ہم پاگل ہیں؛ بلکہ جس طرح نزلہ ، بخار اور زکام کا علاج کیا جاتا ہے اس کا علاج بھی کرنا چاہیے۔امید ہے اس قدر جواب اطمینان بخش ہوگا۔ اگر کوئی پہلو رہ گیا ہو تو آپ بلا تکلف دوبارہ پوچھ سکتے ہیں۔

Tuesday, 5 November 2013

کیا آپ کی روزی حلال ہے؟



حافظ محمد شارق

حضرت آدم علیہ السلام نے کاشت کاری کی، حضرت موسی علیہ السلام کئی سالوں تک حضرت شعیب علیہ السلام کے چرواہے رہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام لوہے کا کام کیا کرتے تھے ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجارت کرتے تھے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرلیجیے ، آپ دیکھیں گے کہ جس طرح اللہ کے یہ بندے اپنی آخرت کے لیے محنت  کرتے ہیں اسی طرح حلال کمائی کے لیے بھی محنت کیا کرتے تھے۔ یاد رکھیں کہ معاملہ دنیا کا ہو یا آخرت کا، آپ محنت کے بغیر کسی صورت کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔اگر آپ بحیثیت مسلمان اپنے دعوے کے علاوہ اخروی زندگی کے متعلق واقعی سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ قیامت میں ہونے والے کٹھن سوالوں کا جواب دے سکیں تو پھر اس بات کا ضرور خیال کریں کہ آپ کہاں سے اور کیسے کما رہے ہیں؟ محنت سے کما کر اپنا اور اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالنا ایک آپ  کے لیے دینی فرائض اور عبادت میں شامل ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا  ارشاد پاک ہے:
اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہے اور وہ صرف پاکیزہ مال ہی کوقبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کو اسی بات کاحکم دیا ہے جس کا اس نے رسولوں کوحکم دیا ہے، چنانچہ اس نے فرمایا، "اے پیغمبروں! پاکیزہ روزی کھاؤ اور نیک عمل کرو ۔"اور مومنین کو خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا " اے اہل ایمان! جو پاک اور حلال چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں وہ کھاؤ۔پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کا ذکر کیا جو لمبی مسافت طے کرکے مقدس مقام پرآتا ہے ، عبار سے اٹا ہوا ہے، گرد آلوف ہےاور اپنے دونوں ہاتھ آسمانکیطرف پھیلا کر کہتا ہے" اے میرے رب! (اور دعائیں مانگتا ہے)" حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے ، اس کا لباس حرام ہے اور حرام  پر پہ وپ پلا ہے ، ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے؟(ترمذی، کتاب التفسیر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندی حرام مال کمائے پھر اس میں سے اللہ کی راہ  میں صدقہ کرے تو یہ صدقہ اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا اور اگر اپنی ذات اور گھر والوں پر خرچ کرے گا تو برکت سے خالی ہوگا، اگر وہ اس کو چھوڑ کر مرا تو وہ اس کے جہنم کے سفر میں زادِ راہ بنے گا ۔ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی کے ذریعے سے نہں مٹاتا بلکہ برے عمل کو اچھے عمل سے مٹاتا ہے،خبیث ناپاک چیز کو خبیث ناپاک چیز نہیں مٹاتی۔ (مسند احمد)
ان احادیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ کمائی اگر حرام اور ناجائز طریقے سے ہو تو پھر دعا قبول ہونے کا کوئی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ حدیث کے دوسرےحصے پرغور کریں۔ اللہ تعالیٰ صرف وہی صدقات و عبادات قبول کرتے ہیں جو حلال کمائی سے ہو۔حرام مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بے سود ہے۔اس بات کا فیصلہ خود کیجیے کہ کیا حرام مال سے کھائی ہوئی غذا جو آپ کے بدن کا جز بن جاتی ہے، یا اس سے آپ قوت و توانائی حاصل کرتے ہیں، حرام مال سے حاصل شدہ اسی بدن اور اس کی قوت و توانائی سے کی گئی عبادت کیا اللہ کو قبول ہوگی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''ہروہ گوشت جو حرام سے نشوونما پاتا،اس کے لائق تو آگ ہی ہے۔(حوالہ درکار۔بحوالہ آداب زندگی)
قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جو لوگ اپنے شکم حرام مال سے بھرتےہیں، وہ دراصل اپنے شکم میں جہنم کی آگ بھر رہے ہوتے ہیں جو آخرت میں انتہائی وحشت ناک انداز میں ان کے سامنے ہوگی۔
بیشک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے۔ (سورۃ النساء۔ آیت 10)
آپ الحمدللہ چوری ، ڈاکہ زنی ، ظاہری فراڈ وغیرہ جیسے جرائم میں ملوث نہیں ہیں، لیکن کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی کمائی سو فیصد حلال ہے؟ ہم ملازمت میں ایمان داری کا مظاہرہ نہیں کرتے ، ہم ملازمت میں وقت کی پابندی نہیں کرتے، ہم اپنے فرائض منصب صحیح طور پر ادا نہیں کرتے، ہم اپنے منصب کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ہم دن بھر دھوپ میں پسینہ بہانے کے باوجود لوگوں کو جھوٹ اور فریب دے دے کر اپنی دکان کا مال بیچتے ہیں۔پھر بھی ہم میں سے کتنے ہی دین دار افراد ایسے ہیں جو اسی زعم باطل میں مبتلاء رہتے  ہیں کہ ہماری کمائی حلال ہے،ہم مطمئن ہیں کہ ہمارے شکم میں جو غذا جارہی ہے وہ حلال ہے، حالانکہ سراسر حرام ہے۔
اگر آپ اللہ کے حکم اور  سیرت النبی کے مطابق کسب حلال کا ارادہ رکھتے ہیں ، اگر آپ کو روز محشر اللہ کے سامنے احساس جواب دہی کا خوف ہے تو پھر ضروری ہے کہ آپ اس بات کی پرواہ بھی کریں کہ کسی بھی طرح آپ کا حلال ذریعۂ معاش آپ کے لیے "حرام" کا ذریعہ نہ بن جائے۔ مندرجہ ذیل نکات پر غور کریں اور اپنا احتساب کریں۔
·      سرکاری محکمے بالخصوص سرکاری تعلیمی اداروں   میں یہ مرض عام ہے کہ ملازمین گھر بیٹھے رہتے ہیں اور صرف تنخواہ والے دن پیسے وصول کرنے آجاتےہیں۔ ایسی کمائی سراسرحرام ہے۔
·      ملازمت کے لیے جو اوقات کار مقررہیں، ان اوقات میں بلا اجازت کوئی اور کام کرنا ، حتیٰ کہ تلاوت قرآن بھی جائز نہیں۔
·      ملازمت میں جس روز (علاوہ تعطیلات) خود سے چھٹی  کی جائے اس دن کی تنخواہ لینا صحیح نہیں، الّا یہ کہ چھٹی کی درخواست ، اجازت یا معافی قبول کرلی گئی ہو۔
·      اگر بحیثیت ملازم آپ سےکوئی ناجائز کام،ظلم اور نا انصافی کروایا جارہا ہے تو اس میں مجبوراً شریک ہونا بھی آپ کے لیے جائز نہیں، ورنہ اس گناہ میں آپ بھی برابر کے شریک ہوں گے۔
·      اپنے منصب کا استعمال ذاتی مفاد کے لیے کرنا صحیح نہیں۔
·       اللہ تعالیٰ نے معاش کے لیے دن کا وقت اور آرام کے لیے رات بنائی ہے، لہٰذا اپنا کاروبار صبح سویرے کھولیے۔

Friday, 25 October 2013

تلاشِ حق



حافظ محمد شارق

 اسلام زندگی گزارنے کے اس طریقے اور طرزِ فکر کا نام ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام لائے۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور اس کی تشریح و توضیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ میں کردی ہے۔ اب یہ دین ہر صورت میں مکمل ہے اور قرآن مجید کی رو سے ہماری فلاح و نجات کا ضامن بھی صرف یہی دین ہے۔الحمدللہ ہم میں سے کوئی اس بات کا انکار نہیں کرتا اور نہ ہی کسی صورت انکار  کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے لیے صرف اسلام ہی راہِ  نجات ہے۔ ہم دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہی ہمارے لیے کامیابی ہے۔ ہم دین سے منحرف ہر شخص کے متعلق اپنے دل میں اس بات کی تمنا رکھتے ہیں کہ وہ دین کا صحیح طرح سمجھے ،علم حاصل کرے اور اسی راستے کو اپنائے جس کی دعوت پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔   لیکن کبھی ہم نے خود اپنے ضمیر سے بھی یہ سوال پوچھنے کی زحمت کی ہے کہ ہم  واقعی دین کی اُس صحیح صورت پر عمل پیرا ہیں جس کی دعوت قرآن دیتا ہے؟ دین کی جو فکر ہمیں اپنے والدین سے توارث (Heredity) سے ملی ہے ، اور بلا تحقیق ہم جس راستے پر برس ہا برس  سے چل رہے ہیں، کیا قرآن کا راستہ وہی ہے؟ یا ہم "نتبع ما ألفينا عليه آباءنا" (ہم تو اسی کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا) کا مصداق خود کو حق سمجھ رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اسی گروہ سےتعلق رکھتی ہے جس پر قرآن نے درج بالا تبصرہ کیا ہے ۔ہم میں سے اکثر افراد ایسے ہی ہوں گے جواپنے خاندان میں رائج دین کی صورت پر محض اس لیے عمل پیرا  ہیں کہ انھوں نے اپنے ماحول سے یہی کچھ حاصل کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم میں سےکوئی واقعی اللہ سے اتنا مخلص بھی ہے کہ وہ اُس راستے پر تنقیدی نظر ڈالنے کی ہمت رکھتا ہو جو ہمیں آباء و اجداد سے ملا ہے؟ یہ معاملہ دراصل تلاشِ حق کا ہے۔اُن عقائد کی تلاش کا جس پر دین اسلام کی عظیم الشان عمارت قائم ہے، یہ تلاش اس امر کی ہے کہ اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بندے کے درمیان کس قسم کا خوبصورت رشتہ ہے۔ یہ تلاش دراصل اس بات کو دریافت کرلینےکا نام ہے کہ قرآن کوبندے کی کیسی شخصیت مطلوب ہے۔لیکن اس تلاش میں  ابلیس نے ایسی دیواریں اور رکاوٹیں بھی کھڑی کردیں ہیں جنھیں عبور کرنا ضروری ہے۔
 اللہ سے مخلصانہ محبت کرنے والے کے لیے تلاشِ حق میں بنیادی طور پر صرف دو ہی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ فکری جمود اور جہالت۔
فکری جمود کیا ہے؟قرآن مجید میں (سورۃالتوبہ آیت 31) میں اللہ تعالیٰ نے  نصاریٰ کےمتعلق یہ فرمایا ہے کہ انھوں نے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا، یعنی ان کے علماء انھیں جو کچھ کہتے ، وہ اسے مان لیتے تھے چاہے وہ اللہ کے نازل کردہ واضح احکامات  کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ان کا اصرار صرف اس بات پر تھا کہ وہ اپنے علماء کی اندھی تقلید نہیں چھوڑیں گے وہ ہمیں جس بات پر لگائیں ہم لگ جائیں گے اور جس بات سے روکیں ہم رک جائیں گے۔لیکن حقیقت میں یہی وہ رویہ یعنی جمود تھا جو قبولِ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ذرا غور کیجیے کہ اگر قرآن اس جمود کی مخالفت نہ کرتا  تو کیا ہمارے آباء و  اجداد ، یا ہم خود باطل مذہبی رہنماؤں کی پیروی میں رہتے ہوئے دینِ حق تک پہنچ سکتے تھے؟قرآن مجید نے  انسانی فکر سےاسی  جاہلانہ جمود کو ختم کرنے کے لیے غور و فکر کی دعوت  دی اور لوگوں کے ذہنوں کو وسیع کیا۔ اس آیت کو دیکھیے کہ قرآن مجید کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا صرف بڑوں اور مذہبی پیشواؤں کے لیے  نہیں بلکہ ہر مومن پر لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں
وَلَقَدْ یسرنا القرآن للذکر فھل من مُدَّکِرْ
اور ہم بے شک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا۔ پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟
 اللہ کے اس احسان کا شکر ادا کریں  کہ اس نے علماء اور آباء و اجداد کی اندھی پیروی کے بجائے خود قرآن کی دعوت کو سمجھنے کی تلقین کی ہے تاکہ ہم اس وسعت نظری تک پہنچ جائیں جو ہمیں حق کی راستہ دکھائےگی۔ آپ قرآن مجید کی ساری دعوت دیکھ لیجیے، ہرایک آیت بندے کے قلب و ذہن کو اس بات پر جھنجھوڑتی ہے کہ وہ اعمال و عقائد کے متعلق فکر کرے اور غفلت کی زندگی نہ گزارے۔واضح رہے کہ یہاں یہ بیان کرنا ہرگز مقصود نہیں ہے کہ ہم علماء کرام پر بھروسہ نہ کریں بلکہ بات صرف یہ ہے ہم وہ لوگ جو "علماء" کے لبادے میں ہمیں توہمات سکھاتے ہیں، ہمیں دین کی حقیقی صورت سے دور رکھتے ہیں ہم ان سے اپنے آپ کو آزاد کرکے علمائے حق کو تسلیم کریں۔ اُس توحیدِ خالص کی طرف آئیں جو ہر قسم کے شرک اور توہمات سے پاک ہے۔
قبول حق میں دوسری بڑی رکاوٹ جہالت ہوتی ہے۔ قرآن  جس دور میں نازل کیا گیا اس سے صدیوں پہلے سے اب تک دنیا کی بہت سی قوموں میں دین کا علم ایک مخصوص طبقے تک محدود رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے حق و باطل کی پہچان کرنا ناممکن تھا۔آج بھی علم دین صرف علماء کی میراث سمجھی جاتی ہے، اگر وہ علماء کو ہمیں ہمارے ماحول میں میسر ہوئے ہیں، وہ علماء اگرخدانخواستہ "علماء سو" میں سےہوئے توکیا ہم بھی ان کے گمراہی کےگڑھے میں ان کے ساتھ صرف اس بناءپر چلے جائیں گے کہ ہم نے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی انھی علم دین کا عَلم بردار دیکھا ہے؟ اسی حقیقت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے علم کے دروزے بھی ہر ایک کے لیے کھول دیے، اس نے جس طرح قرآن کو سمجھنے کی دعوت ہر ایک کے لیے عام کی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ سے علم کی فرضیت  بھی ہر ایک کے لیے رکھ دی تاکہ صحیح علم کی بنیاد پر بندہ دین کے معاملے میں صحیح فیصلہ کرسکے ۔
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ (ابن ماجہ و بیہقی)
علم حاصل کرنے کی کوشش اور طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔
اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ دین کا صحیح فہم حاصل ہونے کے لیے علم ایک بنیادی ضرورت ہے۔یہ علم صرف نماز ، زکوٰۃ، حج ، روزہ اورظاہری عبادات کے متعلق نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔اسلام کے بنیادی عقائد،  اوامر و نہی، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ اور ناپسندیدہ باتوں کا علم ہونا ہر ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے اور اس علم کا منبع قرآن ہے ۔
قرآن جوعلم پیش کرتا ہے وہ کیا ہے؟ دراصل جہالت کے زوال اور ہمارے ذہن میں موجود جمود کو توڑنے کا نام ہے۔یہ وہ مقدس مشعل  ہے جس کی روشنی میں انسان بد اعتقادی، تعصب اور تشکیک کی تنگ و تاریک گھاٹیوں سے نکل کر عقائد کی درستگی ، نفس کی پاکیزگی، روشن خیالی  اور  فہم و ادراک کے استحکام کی طرف جاتا ہے۔ قرآن مجید کو سمجھنے کا حکم کم بیش بیس مرتبہ آیا ہے ۔ بات بالکل سادہ سی (لیکن اہم) ہے کہ اپنی شخصیت کی تعمیر  کے لیے قرآن مجید انتہائی آسان اور بہترین کتاب (Guide)ہے۔یاد رکھیے کہ اس زندگی کے بعد ابدی زندگی میں نجات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آپ میں حق و صداقت کی تلاش کی آرزو کتنی تھی ؟ آپ کو جو کچھ علم تھا، آپ کی شخصیت و کردار پر اس کا کتنا عکس رہا؟ الغرض یہ کہ آپ اپنے پروردگار سے کتنے مخلص ہیں۔

Thursday, 17 October 2013

سوک سینس ۔۔۔ ہمارے معاشرتی حقوق و فرائض

پی ڈی ایف فارمیٹ میں تحریر ڈاؤن لوڈ کیجیے۔
حافظ محمد شارق


سوک سینس ۔۔۔ ہمارے معاشرتی  حقوق و فرائض
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، اس معاشرے کے کچھ حقوق ہیں جو ہم پر لازم ہوتے ہیں۔ یہی حقوق ہمارے فرائض ہیں۔ اسی طرح دوسرے شہریوں پر جو فرائض ہیں، وہ ہمارے حقوق ہیں۔ جدید معاشروں میں اپنے حقوق لینے پر تو بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور اس کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں لیکن دوسروں کے حقوق دینے یعنی اپنے فرائض انجام دینے پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ اسلام میں یہ ترتیب الٹ ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے فرائض پہلے انجام دے، پھر اپنے حقوق کا مطالبہ کرے۔ اگر ہم دوسرے شہریوں کے حقوق پر توجہ دیں گے تو ہمیں اپنے حقوق خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔  ہم پر دوسرے شہریوں کے یہ حقوق عائد ہوتے ہیں:
·      ضرورت مندوں کا خیال
·      وسائل کا مناسب استعمال
·      دوسروں کی جان کی حفاظت
·      دوسروں کو تنگ کرنے سے  متعلق حقوق
·      آزادانہ نقل و حرکت کا حق
·      مذہبی آزادی
·      اظہار رائے کی آزادی
·      تعلیم کا حق
·      خاندان سے متعلق حقوق
·      سیاسی حقوق
·      تنقید اور احتجاج کا حق
·      ذریعہ معاش کا حق
اب ہم ایک ایک کر کے ان کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ کچھ حقوق کی تفصیلات اس تحریر میں ہوں گی اور بقیہ کی اس تحریر کے اگلے حصوں میں۔

ضرورت مندوں کا خیال

ہمارے ہاں ایک عمومی طور یہ خیال پایا جاتا ہے کہ نیک اور بہترین انسان بلکہ اللہ کا ولی صرف وہی ہوتا ہے جو عبادات میں مشغول رہتا ہو اور مذہب  کی تبلیغ کرتا ہو۔ یقینایہ اعمال اچھے ہیں ان کی ایک خاص اہمیت دین میں ہے لیکن سارا کا سارا دین یا نیکی اسی کو سمجھ لینا ایک سنگین غلطی ہے۔اسلام ہماری زندگی کو صرف نماز، روزہ ، حج ،زکوٰة  اور دعوت و تبلیغ پر ہی محدود نہیں سمجھتا بلکہ یہ ہمیں اُس راستے پر گامزن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کا مکمل راستہ یہی ہے کہ انہوں نے صرف نماز و روزہ کی تلقین نہیں کی بلکہ حقوق انسانی کے متعلق سب سے بڑھ کر کام کیا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تلقین کی۔
اسلام میں نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے اس میں سوشل سروس ایک لازمی حصہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ.
نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والے [حقیقی ضرورت مندوں]، اور غلاموں کی آزادی پر میں خرچ کرے۔  یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت  اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی  ہیں۔(البقرۃ2:177)
قرآن نے نہ صرف سوشل سروس کی تلقین کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ایمان باللہ اور آخرت کے تصور سے اس میں اخلاص بھی پیدا کردیا کہ جو بھی کام ہو صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو نہ کہ دنیاوی دکھلاوے کے لیے۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسلام میں نیکی کے جامع تصور کو بالکل کھول کر بیان کردیتی ہے کہ تمام مخلوق کی بلا امتیاز بقدر طاقت و استطاعت خدمت کرنا اور انہیں نفع پہنچانا اس کا بڑا مقصد اور اسلامی اخلاق ایک اہم ترین منشا ہے۔اس آیت میں صرف عبادات کو نیکی سمجھ لینے کے خیال کی واضح طور پر تردید بھی کی گئی ہے اور صرف سماجی خدمات کو نیکی سمجھنے کی بھی۔ قرآن  مجید کے بعد اگر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں بھی اسے دین کا ایک لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر واجب ہے کہ وہ اس پر کوئی ظلم و زیادتی نہ کرے اور اسے بے یار و مددگار نہ چھوڑے، نہ اسے حقیر جانے اور نہ اس کے ساتھ حقارت کا برتاؤ کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔ آدمی کو بُرا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے ، مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے قابل احترام ہے، اس کا خون  بھی، اس کا بھی اور  اس کی عزت و آبرو بھی۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دے کران کے باہم کچھ معاشرتی حقوق مقرر کیے ہیں۔ سب سے پہلا حق ظلم وزیادتی نہ کرنا ہے، اس بارے میں ہم تفصیل سے سابقہ اوراق میں پڑھ آئے ہیں کہ یہ  ظلم و زیادتی جسمانی، مالی ، زبانی ، نفسیاتی یا کسی بھی قسم کی ہوسکتی ہے۔دوسرا حق جو بیان کیا گیا ہے وہی ہمارا موضوعِ سخن ہے۔ یعنی جب کسی مسلمان کو مدد کی ضرورت ہو تو دوسرے مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اسے بے یار و مددگار نہ چھوڑے اور اسے غربت یا کسی اور کمزوری کی بناء پر حقیر نہ سمجھے۔ اس عمل کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عظیم نیکی قرار دیا ہے۔
جو شخص جتنی دیر اپنے بھائی کے کام بنانے اور حاجت پوری کرنے میں لگا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کے کام بناتے رہیں گے اور اس کی حاجت پوری کرتے رہیں گے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب المظالم والغضب)
اگر کسی نے کسی مسلمان کی مصیبت کو دور کردیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت اور پریشانی دور فرمائیں گے۔ (صحیح بخاری۔  کتاب المظالم والغضب)
اس طرح متعدد احادیث ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھ اور مصیبت میں مبتلاء انسانیت کے لیے بھلائی کے کام کرنے کی تلقین کی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ان احادیث کا تعلق تمام انسانوں سے ہے، صرف مسلمانوں سے نہیں۔ یہاں پر لفظ ’’مسلم‘‘ اس لیے آیا ہے کہ سننے والوں کے دل میں جذبہ پیدا کیا جائے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مدد صرف مسلمانوں کی کی جائے اور غیر مسلموں کی نہ کی جائے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہ ’’اپنے پڑوسی کے حقوق ادا کیجیے۔‘‘ اس جملے  میں لفظ ’’پڑوسی‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ مخاطب کے دل میں جذبہ پیدا کیا جائے کہ وہ حقوق ادا کرے۔  اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ جو پڑوسی نہ ہو، اس  کے حقوق ادا نہ کیجیے۔ اسلام نے سوشل ورک کا حکم تمام انسانیت کے لیے دیا ہے۔ چنانچہ ہمیں احادیث میں ملتا ہے کہ  جن دنوں اہل مکہ، اسلام کے خلاف شدید مزاحمت کر رہے تھے، انہی دنوں مکہ میں قحط پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں خوراک کے کئی اونٹ بھیجے ۔
اسلامی تاریخ اور سیرت النبی کا ہر ایک باب بھی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح شب و روز سماج کی خدمت کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت سے قبل بھی سماجی کام میں مشغول ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ اس کی شہادت اس طرح ملتی ہے کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے کہا کہ ’’آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ‘کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں،مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘  (بخاری۔ کتاب بدء الوحی)
آج کوئی سماجی ادارہ خواتین کے لیے کام کرتا ہے، کوئی بچوں کے لیے کام کرتا ہے، کوئی تعلیم کے لیے کوئی صحت کے لیے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی خدمات کسی ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط تھی۔ بادی النظر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے کہ  پیغمبر اسلام حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سب سے عظیم سماجی کارکن تھے۔ تاریخ انسانی کے اس سب سے بڑھ کر سماجی کام کیا ہوگا کہ عرب میں زندہ بچیوں کو دفنادیا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظالمانہ رسم کے خلاف جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔  خواتین حقوق سے محروم تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہر قسم کے حقوق دلائے۔غلام طبقہ پِس رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے  آزادی کی بہت سی راہیں (حکم خداوندی کے تحت) نکالیں اور انہیں وہ مقام عطا کیا کہ جس کے نتیجے میں ایک سیاہ غلام بھی قیادت کا اہل قرار پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی میں سماجی خدمات کی اور بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ایسے کام شروع کریں جس سے معاشرے کی بھلائی ہو۔ یہ کام غرباء و مساکین کی مدد کرنا  اور  عوام میں کسی مسئلے پر شعور بیدار کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ کسی کی مالی مدد کرنے کے متعلق مندرجہ ذیل اہم باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔
        پیشہ ور بھکاریوں کو پیسے دے کر ان کی حوصلہ افزائی ہرگز نہ کریں یہ آپ کے لیے ہی گناہ ہوگا۔ایسے لوگ دراصل خدا کا نام لےکر آپ کا استحصال کرتےہیں اور ضرورت مندوں کا حق مار جاتے ہیں۔
        ایسے افراد کو دیں جو ضرورت مند ہوں لیکن عزت نفس اور خود داری کی وجہ سے ہاتھ نہ پھیلاتے ہوں۔
        زکوۃ و خیرات دیتے ہوئے اپنے ضرورت مند رشتہ داروں کو مت بھولیے، آپ کی زکوۃ و خیرات کے سب سے پہلے مستحق وہی ہیں۔
        مالی مدد میں غیر مستقل امداد کے بجائے ان کے لیے روزگار کا انتظام کیجیے۔ مچھلی کھلانے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھائیے۔
اگلی تحریر میں ہم اسی موضوع کو جاری رکھیں گے اور انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات کے حقوق پر بات کریں گے۔
(حافظ محمد شارق،truewayofislam.blogspot.com)
سوک سینس کے موضوع پر یہ دوسری تحریر تھی۔ اس سلسلے کی مزید تحریروں کے مطالعے کے لیے وزٹ کیجیے:
غور فرمائیے!
·      ہم پر دیگر شہریوں کے کون کون سے حقوق عائد ہوتے ہیں؟
·      کیا آپ دوسروں کی مدد کرتے ہیں؟
·      کہیں آپ اپنا پیسہ پیشہ ور بھکاریوں پر ضائع تو نہیں کرتے؟

سوک سینس

پی ڈی ایف فارمیٹ میں تحریر ڈاؤن لوڈ کیجیے۔
حافظ محمد شارق

سوک سینس
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ .
بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے۔ (الرعد 13:11)
کسی بھی قوم  کی ترقی اور اس کی بقا کا دار و مدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ اس کے افراد اپنے معاشرتی فرائض کی ادائیگی کس حد تک کرتے ہیں،  کیونکہ وہ اعمال اور ذمہ داریاں صرف انہی کی ذات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ایک وسیع دائرہ ہوتا ہے جس پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کسی قوم میں تعلیم و ہنراور ظاہری عبادات کا اہتمام بدرجۂ اتم موجود ہو، لیکن ان کی شخصیت و کردار پست ہو تو وہ تعلیم و ہنر اور عبادت ہماری فلاح کا ضامن نہیں ہوسکتی۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اگر ہمارا کردار اچھا نہ ہو  اور بحیثیت شہری ہمیں اجتماعی زندگی میں رہنے کے بنیادی اصول ہی معلوم نہ ہوں تو ہم اس تعلیم کے باوجود بد تہذیب اور غیر متمدن کہلائیں گے۔ جس قوم  کے لوگوں میں جس قدر معاشرتی آداب موجود ہوتے ہیں وہ قوم اسی قدر مہذب اور ترقی یافتہ خیال کی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے کی حالت بھی یہی ہے کہ تاریخ باسانی ہم پر غیر متمدن ہونے کا فتویٰ صادر کرسکتی ہے۔ ہمارے ہاں نصابی تعلیم کو تو اہمیت دی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے بڑے بڑے اسکولز ، مدارس اور یونیورسٹیز قائم کردی جاتی ہیں لیکن ان میں ہمارے نوجوانوں  کے لیے تعمیر شخصیت و کردار کا خاص اہتمام نہیں ہوتا، اور جب یہ نوجوان طلباء معاشرے کا حصہ بنتے ہیں تو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کا رویہ سراسر خلاف تہذیب ہوتا ہے۔ حالت اب یہ ہے کہ ہمارے شہریوں میں اس بات احساس ناپید ہوچکا ہے کہ انہیں معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے اور ان کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟ نہ صرف عام تعلیمی اداروں کا یہ معاملہ ہے بلکہ ان اداروں جہاں دین کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان خواہ دین دار ہوں یا دنیا دار، وہ اپنے ہی بھائیوں کے حقوق پامال کرتے ہیں۔
ہمارا دین بحیثیت مسلمان شہری ہم سے کیا تقاضے کرتا ہے۔ سوک سنس دراصل اسی علم کا نام ہے جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک اچھے اور ذمہ دار شہری کو معاشرے سے کیا برتاؤ کرنا چاہیے اور اسے انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی میں کس طرح رہنا چاہے۔ اس کتاب کا مقصد یہی ہےکہ ہم مسلمانوں میں سوک سنس کی اہمیت اجاگر ہو اور ہماری یہ تربیت ہوجائے کہ ہمیں بحیثیت ایک مسلم شہری کس طرح رہنا چاہیے۔  
اس اسائن منٹ  ہم میں جدید علم شہریت (Civic Education)کو سامنےرکھتے ہوئے شہریوں کےحقوق اور ان کے فرائض کا ذکر کیاہے، نیز یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ہمارا دین اس بارے میں ہم سےکیا تقاضا کرتا ہے۔اس مقصد کے لیے ہم نے جو اپروچ اختیار کی ہے وہ دراصل (تفصیلات سے قطع نظر)علم نفسیات کا ایک مقبول نظریہ  Humanisticیعنی انسان شناسی پر  مبنی ہے۔  یعنی جب تک انسان کی بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں، تب تک وہ کسی اور کام کے لیے مرغوب (Motivate)نہیں ہوسکتا۔ اسی اصول کےپیش نظر ہم سب سے پہلے ان حقوق کا ذکر کریں گے  جو جدید علم شہریت اور اسلام میں بیان کیےگئے ہیں، اس کے بعد ان حقوق کے عوض فرد پر لاگو ہونے والی ذمہ داری کا ذکر کریں گے۔
 یہاں ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا ماخذ قرآن و سنت ہے۔ اہل مغرب کے ہاں شہریت سے متعلق جو تصورات پیدا ہوئے ہیں، ان میں بہت کچھ قرآن و سنت اور عقل و دانش کی حدود سے تجاوزپر مبنی ہے۔  اس وجہ سے مغربی تصور شہریت کی جو چیزیں ہمیں قرآن و سنت کے مطابق نظر آئی ہیں، انہیں ہم نے لے لیا ہے اور جو اس کے خلاف معلوم ہوئی ہیں، انہیں چھوڑ دیا ہے۔

اسلام اور معاشرتی فرائض

انسان کو طبعی طور پر اس کے خالق نے مہذّب اور شہری بنایا ہے اور اجتماعی صورت میں رہنا اس کی فطری ضرورتوں میں سے ایک ہے۔لیکن اجتماعی زندگی میں ہر ایک فرد کو  ایک بہتر زندگی کے لیے کچھ بنیادی مراعات  اور دوسرے افراد سے کچھ خاص اصولوں پر مبنی رویہ درکار ہوتا ہے جسے "حقوق " کہا جاتا ہے۔یہ حقوق فرد کے جان و مال ، اہل و عیال ، سیاست، معیشت اور معاشرتی معاملات سے متعلق ہوتے  ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے کہ ماضی میں مسلمان سیاست و مدنیت (Civics)کو دین کا حصہ سمجھتے تھے اور وہ ذمہ داریاں جسے موجودہ دور میں "شہری ذمہ داریاں" (Responsibilities of a Citizen) کہا جاتا ہے انہیں مسلمان اپنے دینی فرائض میں شمار کرتے ہوئے ادا کرتے تھے۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہ مذہبی احکامات دیے بلکہ ایسے معاملات کو بھی دین کا حصہ قرار دیتے ہوئے ان کی تربیت کی  جو انسان کے کردار سے متعلق ہیں۔ اسی بدولت مسلمان ماضی میں ترقی کی اس معراج کو پہنچ گئے کہ صدیوں تک دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ علم ،جنگ ، مہارت و ہنر ، دعوت و تبلیغ ،غرض کہ زندگی کے ہر شعبے میں وہ کارنامے انجام دیے جس کی نظیر کوئی پیش نہ کرسکا۔
لیکن جب مسلمانوں پر سماجی وفکری زوال آیا اوران میں ذمہ داری اور خدا کے حضور جوابدہی کا احساس بے جان ہوگیا تو انھوں نے بھی دیگر مذاہب کی طرح دین اسلام کو چند مذہبی رسوم کی ادائیگی تک محدود کرلیا اور دین کواپنی شہری و  تمدنی زندگی سے بے دخل کردیا۔ آج ہم مسجدوں تک جانے اور نماز پنج وقتہ نماز ادا کرلینے کے بعد یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دین کی ذمہ داری پوری ہوگئی اور اب ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں آزاد اور خود مختار ہیں۔ہمارے نزدیک اس بات سے ہماری دینداری میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم معاشرے میں کس طرح رہتے ہیں۔  حالانکہ اسلام صرف مسجدوں میں نہیں بلکہ مسجد سے باہر آنے کے بعد معاشرتی زندگی میں بھی لاگو کرنے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں جو فقہ کی کتابیں ہیں ان کا 80 فیصد حصہ معاملات اور  صرف 20 فیصد عبادات سے متعلق ہےجس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے  کہ اسلام میں معاملات کی اہمیت کیا ہے۔اسلام نے انسانوں کو جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کے متعلق احکام دیے ، خدائے واحد کی پرستش کا طریقہ بتلایا، وہیں ہمیں اس بات سے بھی جاہل نہیں رکھا کہ ہمیں بحیثیت ایک شہری معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے۔ بلکہ اس اعتبار سے اسلام نےان معاملات کو  حقوق اللہ سے بھی آگے قرار دیا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ  اپناحق معاف کردیں گے لیکن اس نفسی نفسی کے عالم میں کوئی کسی کواپنا حق  معاف نہیں کرے گا۔اسی اہمیت کے پیش نظر شریعتِ اسلامی میں  معاشرے میں لوگوں کے درمیان محبت و الفت قائم رکھنے کے لیے کچھ معاشرتی قوانین اور اخلاقی اصول مقرر کیےگئے ہیں ؛ جس کی پابندی ہر مسلمان شہری پر واجب ہے۔ پڑوس کے ساتھ ، محلے والوں اور شہر والوں کے ساتھ ہمار اسلوک کیا ہونا چاہیے ، ان سب کے بارے میں اسلام نے ہمیں صریح احکامات دیے ہیں۔آج امّت مسلمہ کی زبوں حالی کے پیش نظر یہ بات بلا تردد کہی جاسکتی ہے اخلاقی قدروں کو خدا پرستی کے تحت  رواج دینا اور اس ضمن میں لوگوں کی صحیح تربیت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔پیش نظر کتاب اسی سمت میں ایک کوشش کی ہے ہم اپنے کھوئے ہوئے تصور دین کو دوبارہ دل و جان سے اپنا لیں، ہمارے اعمال و اخلاق ہمارے دین کی ترجمانی کریں  اور ہم سارے عالم میں ایک مہذب قوم کی حیثیت سے پہچانے جائیں۔

مسلم شہری کے فرائض

عام طور پر شہری ان افراد کو کہا جاتا ہے جو کسی ریاست کے شہر میں رہتے ہیں ، لیکن علم مدنیات (Civics) کی اصطلاح میں اس سے مراد ریاست کے وہ باشندے ہیں جنھیں سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق حاصل ہوں۔ نیز ان حقوق کے عوض ان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہوں۔
شریعت اسلامی ایک مسلمان شہری سے مندرجہ ذیل ذمہ داریوں کا تقاضہ کرتی ہے۔
۱۔ حقوق العباد/معاشرتی حقوق:  ایک مسلمان شہری کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ اُن حقوق کا خاص خیال رکھے جو ہمارے دین نے اللہ کی مخلوق کے لیے مقرر کیے ہیں۔  اس ضمن میں یہ اصول اہم ترین ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
۲۔ قوانین کا احترام اور متعلقہ حکام سے تعاون: شہریوں کو ریاست کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ انہیں  کبھی تشدد پر نہیں اترنا چاہیے اور قوانین اور  قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی سے بچنا چاہیے۔
۳۔ ایمانداری اور فرائض کی ادائیگی: ایک مسلم شہری کو اپنے فرائض پوری ذمہ داری ،توجہ اور ایمانداری سے ادا کرنے چاہیے اور کبھی بھی کسی فراڈ یا دھوکے میں ملوث نہیں ہونا چایئے۔  انہیں تمام ٹیکس پورے اور بر وقت ادا کرنے چاہیے۔
۴۔ فلاح و بہبود اور ترقی کے فروغ کا ذریعہ: شہریوں کو ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے جو دینی و ریاستی یکجہتی، وقار اور ترقی کو فروغ دیتی ہوں۔

قوانین کی پابندی اور متعلقہ حکام سے تعاون

جب کوئی شخص کسی ریاست کا شہری بنتا ہے تو وہ خود بخود اس ریاست کے  دوسرے شہریوں کے ساتھ ایک معاہدے میں بندھ جاتا ہے جسے ’’معاہدہ عمرانی (Social Contract)‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ہر شہری کے ذمے کچھ حقوق اور کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ ہر معاہدے کی پوری طرح پابندی ہمارے دین کا تقاضا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق مومن کی یہ شان ہے کہ وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا، وہ جو بھی عہد کرتا ہے تو پھر اس کا پاس بھی رکھتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ جو بھی عہد کرے اسے ہر حال میں پورا کرے۔ایفائے عہد کا حکم قرآن مجید میں کئی مقامات پرمختلف انداز میں ملتا ہے۔
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا.     
عہد کی پابندی کیجیے کیونکہ عہد کے بارے میں آپ لوگوں سےباز پرس ہوگی۔ (بنی اسرائیل 17:34)
الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ   
اے ایمان والو! اپنے معاہدات  کو پورا کیجیے۔ (المائدہ 5:1)
الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ.
جو اللہ کے معاہدہ کو مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جسے ملانے کا اللہ نے حکم دیا اور زمین میں فساد کرتے ہیں، تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (البقرۃ 2:27)
اسلام میں شدت کے ساتھ عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے اور عہد کی پاسداری نہ کرنے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق "منافق" ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
منافق کی تین علامتیں ہیں:  جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (بخاری، مسلم)
ایفائے عہد کے حکم میں وہ تمام چھوٹے بڑے معاہدے آجاتے ہیں جو مذہبی احکامات سے متعلق ہوں یا معاشرتی معاملات  سے۔ یہ حکم انسان کے تمام چھوٹے بڑے ، تحریری و غیر تحریری معاہدوں پر محیط ہے۔ حلف اور لائسنس تحریری معاہدوں میں شامل ہے۔یہ معاہدے خواہ علانیہ (Expressed) کیے ہوں یا  معاشرے میں طے شدہ حیثیت (Implied) رکھتے ہوں، ان سب کی پابندی ضروری ہے۔  ملکی آئین کی حیثیت معاہدے ہی کی ہے جس پر حرف بحرف عمل کرنا دین کا حکم ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ریاست کے قوانین موجودہ دور کی طرح بطور آئین کی شکل میں موجود تھے ، اس کے علاوہ جو معائدے کیے جاتے تھے ان کی پاسداری لازم ہوتی تھی۔نیز امیر یا حاکم  جو حکم دیتا مسلمانوں کے لیے اس کی پیروی شریعت کی رُو سے ضروری تھی۔لہٰذا ایک مسلمان کے لیے یہ اس کے ایمان کا تقاضا ہے کہ ان تمام معاہدوں کا پاس رکھے جو اس نے معاشرے میں کسی بھی حیثیت سے کیے ہوں۔  ٹریفک کے قوانین، پارکنگ، امن و امان سے متعلق قوانین ، ناجائز تجاوزات  اور دیگر کسی بھی قسم کی خلاف ورزی اس میں شامل ہے۔
(حافظ محمد شارق،truewayofislam.blogspot.com)
سوک سینس کے موضوع پر یہ پہلی تحریر تھی۔ اس سلسلے کی مزید تحریروں کے مطالعے کے لیے وزٹ کیجیے:
غور فرمائیے!
·      سوک سینس کسے کہتے ہیں؟
·      عمرانی معاہدہ یا سوشل کنٹریکٹ سے کیا مراد ہے؟
·      عمرانی معاہدے کی پابندی کیوں ضروری ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیجیے۔

Saturday, 5 October 2013

اسلامک اسٹڈیز پروگرام



اسلامک اسٹڈیز پروگرام
اسلامک اسٹڈیز پروگرام اسلامی علوم  کی تعلیم کا ایک جدید آن لائن نظام ہےجس کا مقصد فرقہ واریت اور تشدد سے پاک ایسے اہل علم تیار کرنے میں مدد دینا ہے، جو دین کی دعوت کو اگلی نسلوں تک پہنچا سکیں۔  اس کی خصوصیات یہ ہیں:
·         عوام الناس، داعی  اور علما ء کے لئے  اسلامی تعلیم کا جامع نصاب
·       ہر طالب علم پر استاد کی انفرادی توجہ
·       ہر سوال کا انفرادی سطح پر جواب
·       تزکیہ نفس اور تعمیر شخصیت پر خصوصی توجہ
·        درس نظامی کے طلبا کے لیے نصاب کی تفہیم میں اضافی مدد
·       جدید تعلیم یافتہ افرادکی    کی  ذہنی سطح  کے مطابق خصوصی کورسز
·        ہر قسم کی فرقہ بندی سے ماورا مطالعے کا نظام
·       امت مسلمہ کو یکجا کرنے کی ایک کاوش
·       بلامعاوضہ تعلیم و تدریس
اگر آپ بھی ہمارے پروگرام سے دلچسپی رکھتے  ہیں اور گھر بیٹھے دین کا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں  تو آج ہیاپنی پسند کے درج ذیل  کورسز میں داخلہ لیجیے:
·       عربی زبان
·       علوم القرآن
·       علوم الحدیث
·       مسلم مکاتب فکر کا تقابلی مطالعہ
·       تعمیر شخصیت  اور تزکیہ نفس
·       علم الفقہ
·       اسلامی تاریخ
·       مذاہب عالم
·       دعوۃ اسٹڈیز
تفصیل اور رجسٹریشن کے لیے وزٹ کیجیے: www.islamic-studies.info
کسی بھی قسم کی مزید وضاحت کے لئے اس ای میل پر رجوع کریں: mubashirnazir100@gmail.com