سوک سینس
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ .
بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے۔ (الرعد 13:11)
کسی بھی قوم کی ترقی اور اس کی بقا کا دار و مدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ اس کے افراد اپنے معاشرتی فرائض کی ادائیگی کس حد تک کرتے ہیں، کیونکہ وہ اعمال اور ذمہ داریاں صرف انہی کی ذات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ایک وسیع دائرہ ہوتا ہے جس پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کسی قوم میں تعلیم و ہنراور ظاہری عبادات کا اہتمام بدرجۂ اتم موجود ہو، لیکن ان کی شخصیت و کردار پست ہو تو وہ تعلیم و ہنر اور عبادت ہماری فلاح کا ضامن نہیں ہوسکتی۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اگر ہمارا کردار اچھا نہ ہو اور بحیثیت شہری ہمیں اجتماعی زندگی میں رہنے کے بنیادی اصول ہی معلوم نہ ہوں تو ہم اس تعلیم کے باوجود بد تہذیب اور غیر متمدن کہلائیں گے۔ جس قوم کے لوگوں میں جس قدر معاشرتی آداب موجود ہوتے ہیں وہ قوم اسی قدر مہذب اور ترقی یافتہ خیال کی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے کی حالت بھی یہی ہے کہ تاریخ باسانی ہم پر غیر متمدن ہونے کا فتویٰ صادر کرسکتی ہے۔ ہمارے ہاں نصابی تعلیم کو تو اہمیت دی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے بڑے بڑے اسکولز ، مدارس اور یونیورسٹیز قائم کردی جاتی ہیں لیکن ان میں ہمارے نوجوانوں کے لیے تعمیر شخصیت و کردار کا خاص اہتمام نہیں ہوتا، اور جب یہ نوجوان طلباء معاشرے کا حصہ بنتے ہیں تو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کا رویہ سراسر خلاف تہذیب ہوتا ہے۔ حالت اب یہ ہے کہ ہمارے شہریوں میں اس بات احساس ناپید ہوچکا ہے کہ انہیں معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے اور ان کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟ نہ صرف عام تعلیمی اداروں کا یہ معاملہ ہے بلکہ ان اداروں جہاں دین کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان خواہ دین دار ہوں یا دنیا دار، وہ اپنے ہی بھائیوں کے حقوق پامال کرتے ہیں۔
ہمارا دین بحیثیت مسلمان شہری ہم سے کیا تقاضے کرتا ہے۔ سوک سنس دراصل اسی علم کا نام ہے جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک اچھے اور ذمہ دار شہری کو معاشرے سے کیا برتاؤ کرنا چاہیے اور اسے انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی میں کس طرح رہنا چاہے۔ اس کتاب کا مقصد یہی ہےکہ ہم مسلمانوں میں سوک سنس کی اہمیت اجاگر ہو اور ہماری یہ تربیت ہوجائے کہ ہمیں بحیثیت ایک مسلم شہری کس طرح رہنا چاہیے۔
اس اسائن منٹ ہم میں جدید علم شہریت (Civic Education)کو سامنےرکھتے ہوئے شہریوں کےحقوق اور ان کے فرائض کا ذکر کیاہے، نیز یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ہمارا دین اس بارے میں ہم سےکیا تقاضا کرتا ہے۔اس مقصد کے لیے ہم نے جو اپروچ اختیار کی ہے وہ دراصل (تفصیلات سے قطع نظر)علم نفسیات کا ایک مقبول نظریہ Humanisticیعنی انسان شناسی پر مبنی ہے۔ یعنی جب تک انسان کی بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں، تب تک وہ کسی اور کام کے لیے مرغوب (Motivate)نہیں ہوسکتا۔ اسی اصول کےپیش نظر ہم سب سے پہلے ان حقوق کا ذکر کریں گے جو جدید علم شہریت اور اسلام میں بیان کیےگئے ہیں، اس کے بعد ان حقوق کے عوض فرد پر لاگو ہونے والی ذمہ داری کا ذکر کریں گے۔
یہاں ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا ماخذ قرآن و سنت ہے۔ اہل مغرب کے ہاں شہریت سے متعلق جو تصورات پیدا ہوئے ہیں، ان میں بہت کچھ قرآن و سنت اور عقل و دانش کی حدود سے تجاوزپر مبنی ہے۔ اس وجہ سے مغربی تصور شہریت کی جو چیزیں ہمیں قرآن و سنت کے مطابق نظر آئی ہیں، انہیں ہم نے لے لیا ہے اور جو اس کے خلاف معلوم ہوئی ہیں، انہیں چھوڑ دیا ہے۔
اسلام اور معاشرتی فرائض
انسان کو طبعی طور پر اس کے خالق نے مہذّب اور شہری بنایا ہے اور اجتماعی صورت میں رہنا اس کی فطری ضرورتوں میں سے ایک ہے۔لیکن اجتماعی زندگی میں ہر ایک فرد کو ایک بہتر زندگی کے لیے کچھ بنیادی مراعات اور دوسرے افراد سے کچھ خاص اصولوں پر مبنی رویہ درکار ہوتا ہے جسے "حقوق " کہا جاتا ہے۔یہ حقوق فرد کے جان و مال ، اہل و عیال ، سیاست، معیشت اور معاشرتی معاملات سے متعلق ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے کہ ماضی میں مسلمان سیاست و مدنیت (Civics)کو دین کا حصہ سمجھتے تھے اور وہ ذمہ داریاں جسے موجودہ دور میں "شہری ذمہ داریاں" (Responsibilities of a Citizen) کہا جاتا ہے انہیں مسلمان اپنے دینی فرائض میں شمار کرتے ہوئے ادا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہ مذہبی احکامات دیے بلکہ ایسے معاملات کو بھی دین کا حصہ قرار دیتے ہوئے ان کی تربیت کی جو انسان کے کردار سے متعلق ہیں۔ اسی بدولت مسلمان ماضی میں ترقی کی اس معراج کو پہنچ گئے کہ صدیوں تک دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ علم ،جنگ ، مہارت و ہنر ، دعوت و تبلیغ ،غرض کہ زندگی کے ہر شعبے میں وہ کارنامے انجام دیے جس کی نظیر کوئی پیش نہ کرسکا۔
لیکن جب مسلمانوں پر سماجی وفکری زوال آیا اوران میں ذمہ داری اور خدا کے حضور جوابدہی کا احساس بے جان ہوگیا تو انھوں نے بھی دیگر مذاہب کی طرح دین اسلام کو چند مذہبی رسوم کی ادائیگی تک محدود کرلیا اور دین کواپنی شہری و تمدنی زندگی سے بے دخل کردیا۔ آج ہم مسجدوں تک جانے اور نماز پنج وقتہ نماز ادا کرلینے کے بعد یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دین کی ذمہ داری پوری ہوگئی اور اب ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں آزاد اور خود مختار ہیں۔ہمارے نزدیک اس بات سے ہماری دینداری میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم معاشرے میں کس طرح رہتے ہیں۔ حالانکہ اسلام صرف مسجدوں میں نہیں بلکہ مسجد سے باہر آنے کے بعد معاشرتی زندگی میں بھی لاگو کرنے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں جو فقہ کی کتابیں ہیں ان کا 80 فیصد حصہ معاملات اور صرف 20 فیصد عبادات سے متعلق ہےجس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں معاملات کی اہمیت کیا ہے۔اسلام نے انسانوں کو جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کے متعلق احکام دیے ، خدائے واحد کی پرستش کا طریقہ بتلایا، وہیں ہمیں اس بات سے بھی جاہل نہیں رکھا کہ ہمیں بحیثیت ایک شہری معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے۔ بلکہ اس اعتبار سے اسلام نےان معاملات کو حقوق اللہ سے بھی آگے قرار دیا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپناحق معاف کردیں گے لیکن اس نفسی نفسی کے عالم میں کوئی کسی کواپنا حق معاف نہیں کرے گا۔اسی اہمیت کے پیش نظر شریعتِ اسلامی میں معاشرے میں لوگوں کے درمیان محبت و الفت قائم رکھنے کے لیے کچھ معاشرتی قوانین اور اخلاقی اصول مقرر کیےگئے ہیں ؛ جس کی پابندی ہر مسلمان شہری پر واجب ہے۔ پڑوس کے ساتھ ، محلے والوں اور شہر والوں کے ساتھ ہمار اسلوک کیا ہونا چاہیے ، ان سب کے بارے میں اسلام نے ہمیں صریح احکامات دیے ہیں۔آج امّت مسلمہ کی زبوں حالی کے پیش نظر یہ بات بلا تردد کہی جاسکتی ہے اخلاقی قدروں کو خدا پرستی کے تحت رواج دینا اور اس ضمن میں لوگوں کی صحیح تربیت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔پیش نظر کتاب اسی سمت میں ایک کوشش کی ہے ہم اپنے کھوئے ہوئے تصور دین کو دوبارہ دل و جان سے اپنا لیں، ہمارے اعمال و اخلاق ہمارے دین کی ترجمانی کریں اور ہم سارے عالم میں ایک مہذب قوم کی حیثیت سے پہچانے جائیں۔
مسلم شہری کے فرائض
عام طور پر شہری ان افراد کو کہا جاتا ہے جو کسی ریاست کے شہر میں رہتے ہیں ، لیکن علم مدنیات (Civics) کی اصطلاح میں اس سے مراد ریاست کے وہ باشندے ہیں جنھیں سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق حاصل ہوں۔ نیز ان حقوق کے عوض ان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہوں۔
شریعت اسلامی ایک مسلمان شہری سے مندرجہ ذیل ذمہ داریوں کا تقاضہ کرتی ہے۔
۱۔ حقوق العباد/معاشرتی حقوق: ایک مسلمان شہری کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ اُن حقوق کا خاص خیال رکھے جو ہمارے دین نے اللہ کی مخلوق کے لیے مقرر کیے ہیں۔ اس ضمن میں یہ اصول اہم ترین ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
۲۔ قوانین کا احترام اور متعلقہ حکام سے تعاون: شہریوں کو ریاست کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ انہیں کبھی تشدد پر نہیں اترنا چاہیے اور قوانین اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی سے بچنا چاہیے۔
۳۔ ایمانداری اور فرائض کی ادائیگی: ایک مسلم شہری کو اپنے فرائض پوری ذمہ داری ،توجہ اور ایمانداری سے ادا کرنے چاہیے اور کبھی بھی کسی فراڈ یا دھوکے میں ملوث نہیں ہونا چایئے۔ انہیں تمام ٹیکس پورے اور بر وقت ادا کرنے چاہیے۔
۴۔ فلاح و بہبود اور ترقی کے فروغ کا ذریعہ: شہریوں کو ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے جو دینی و ریاستی یکجہتی، وقار اور ترقی کو فروغ دیتی ہوں۔
قوانین کی پابندی اور متعلقہ حکام سے تعاون
جب کوئی شخص کسی ریاست کا شہری بنتا ہے تو وہ خود بخود اس ریاست کے دوسرے شہریوں کے ساتھ ایک معاہدے میں بندھ جاتا ہے جسے ’’معاہدہ عمرانی (Social Contract)‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ہر شہری کے ذمے کچھ حقوق اور کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ ہر معاہدے کی پوری طرح پابندی ہمارے دین کا تقاضا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق مومن کی یہ شان ہے کہ وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا، وہ جو بھی عہد کرتا ہے تو پھر اس کا پاس بھی رکھتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ جو بھی عہد کرے اسے ہر حال میں پورا کرے۔ایفائے عہد کا حکم قرآن مجید میں کئی مقامات پرمختلف انداز میں ملتا ہے۔
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا.
عہد کی پابندی کیجیے کیونکہ عہد کے بارے میں آپ لوگوں سےباز پرس ہوگی۔ (بنی اسرائیل 17:34)
الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ
اے ایمان والو! اپنے معاہدات کو پورا کیجیے۔ (المائدہ 5:1)
الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ.
جو اللہ کے معاہدہ کو مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جسے ملانے کا اللہ نے حکم دیا اور زمین میں فساد کرتے ہیں، تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (البقرۃ 2:27)
اسلام میں شدت کے ساتھ عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے اور عہد کی پاسداری نہ کرنے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق "منافق" ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (بخاری، مسلم)
ایفائے عہد کے حکم میں وہ تمام چھوٹے بڑے معاہدے آجاتے ہیں جو مذہبی احکامات سے متعلق ہوں یا معاشرتی معاملات سے۔ یہ حکم انسان کے تمام چھوٹے بڑے ، تحریری و غیر تحریری معاہدوں پر محیط ہے۔ حلف اور لائسنس تحریری معاہدوں میں شامل ہے۔یہ معاہدے خواہ علانیہ (Expressed) کیے ہوں یا معاشرے میں طے شدہ حیثیت (Implied) رکھتے ہوں، ان سب کی پابندی ضروری ہے۔ ملکی آئین کی حیثیت معاہدے ہی کی ہے جس پر حرف بحرف عمل کرنا دین کا حکم ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ریاست کے قوانین موجودہ دور کی طرح بطور آئین کی شکل میں موجود تھے ، اس کے علاوہ جو معائدے کیے جاتے تھے ان کی پاسداری لازم ہوتی تھی۔نیز امیر یا حاکم جو حکم دیتا مسلمانوں کے لیے اس کی پیروی شریعت کی رُو سے ضروری تھی۔لہٰذا ایک مسلمان کے لیے یہ اس کے ایمان کا تقاضا ہے کہ ان تمام معاہدوں کا پاس رکھے جو اس نے معاشرے میں کسی بھی حیثیت سے کیے ہوں۔ ٹریفک کے قوانین، پارکنگ، امن و امان سے متعلق قوانین ، ناجائز تجاوزات اور دیگر کسی بھی قسم کی خلاف ورزی اس میں شامل ہے۔
(حافظ محمد شارق،truewayofislam.blogspot.com)
سوک سینس کے موضوع پر یہ پہلی تحریر تھی۔ اس سلسلے کی مزید تحریروں کے مطالعے کے لیے وزٹ کیجیے:
غور فرمائیے!
· سوک سینس کسے کہتے ہیں؟
· عمرانی معاہدہ یا سوشل کنٹریکٹ سے کیا مراد ہے؟
· عمرانی معاہدے کی پابندی کیوں ضروری ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیجیے۔