Thursday 17 October 2013

سوک سینس ۔۔۔ ہمارے معاشرتی حقوق و فرائض

پی ڈی ایف فارمیٹ میں تحریر ڈاؤن لوڈ کیجیے۔
حافظ محمد شارق


سوک سینس ۔۔۔ ہمارے معاشرتی  حقوق و فرائض
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، اس معاشرے کے کچھ حقوق ہیں جو ہم پر لازم ہوتے ہیں۔ یہی حقوق ہمارے فرائض ہیں۔ اسی طرح دوسرے شہریوں پر جو فرائض ہیں، وہ ہمارے حقوق ہیں۔ جدید معاشروں میں اپنے حقوق لینے پر تو بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور اس کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں لیکن دوسروں کے حقوق دینے یعنی اپنے فرائض انجام دینے پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ اسلام میں یہ ترتیب الٹ ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے فرائض پہلے انجام دے، پھر اپنے حقوق کا مطالبہ کرے۔ اگر ہم دوسرے شہریوں کے حقوق پر توجہ دیں گے تو ہمیں اپنے حقوق خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔  ہم پر دوسرے شہریوں کے یہ حقوق عائد ہوتے ہیں:
·      ضرورت مندوں کا خیال
·      وسائل کا مناسب استعمال
·      دوسروں کی جان کی حفاظت
·      دوسروں کو تنگ کرنے سے  متعلق حقوق
·      آزادانہ نقل و حرکت کا حق
·      مذہبی آزادی
·      اظہار رائے کی آزادی
·      تعلیم کا حق
·      خاندان سے متعلق حقوق
·      سیاسی حقوق
·      تنقید اور احتجاج کا حق
·      ذریعہ معاش کا حق
اب ہم ایک ایک کر کے ان کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ کچھ حقوق کی تفصیلات اس تحریر میں ہوں گی اور بقیہ کی اس تحریر کے اگلے حصوں میں۔

ضرورت مندوں کا خیال

ہمارے ہاں ایک عمومی طور یہ خیال پایا جاتا ہے کہ نیک اور بہترین انسان بلکہ اللہ کا ولی صرف وہی ہوتا ہے جو عبادات میں مشغول رہتا ہو اور مذہب  کی تبلیغ کرتا ہو۔ یقینایہ اعمال اچھے ہیں ان کی ایک خاص اہمیت دین میں ہے لیکن سارا کا سارا دین یا نیکی اسی کو سمجھ لینا ایک سنگین غلطی ہے۔اسلام ہماری زندگی کو صرف نماز، روزہ ، حج ،زکوٰة  اور دعوت و تبلیغ پر ہی محدود نہیں سمجھتا بلکہ یہ ہمیں اُس راستے پر گامزن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کا مکمل راستہ یہی ہے کہ انہوں نے صرف نماز و روزہ کی تلقین نہیں کی بلکہ حقوق انسانی کے متعلق سب سے بڑھ کر کام کیا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تلقین کی۔
اسلام میں نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے اس میں سوشل سروس ایک لازمی حصہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ.
نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والے [حقیقی ضرورت مندوں]، اور غلاموں کی آزادی پر میں خرچ کرے۔  یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت  اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی  ہیں۔(البقرۃ2:177)
قرآن نے نہ صرف سوشل سروس کی تلقین کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ایمان باللہ اور آخرت کے تصور سے اس میں اخلاص بھی پیدا کردیا کہ جو بھی کام ہو صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو نہ کہ دنیاوی دکھلاوے کے لیے۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسلام میں نیکی کے جامع تصور کو بالکل کھول کر بیان کردیتی ہے کہ تمام مخلوق کی بلا امتیاز بقدر طاقت و استطاعت خدمت کرنا اور انہیں نفع پہنچانا اس کا بڑا مقصد اور اسلامی اخلاق ایک اہم ترین منشا ہے۔اس آیت میں صرف عبادات کو نیکی سمجھ لینے کے خیال کی واضح طور پر تردید بھی کی گئی ہے اور صرف سماجی خدمات کو نیکی سمجھنے کی بھی۔ قرآن  مجید کے بعد اگر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں بھی اسے دین کا ایک لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر واجب ہے کہ وہ اس پر کوئی ظلم و زیادتی نہ کرے اور اسے بے یار و مددگار نہ چھوڑے، نہ اسے حقیر جانے اور نہ اس کے ساتھ حقارت کا برتاؤ کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔ آدمی کو بُرا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے ، مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے قابل احترام ہے، اس کا خون  بھی، اس کا بھی اور  اس کی عزت و آبرو بھی۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دے کران کے باہم کچھ معاشرتی حقوق مقرر کیے ہیں۔ سب سے پہلا حق ظلم وزیادتی نہ کرنا ہے، اس بارے میں ہم تفصیل سے سابقہ اوراق میں پڑھ آئے ہیں کہ یہ  ظلم و زیادتی جسمانی، مالی ، زبانی ، نفسیاتی یا کسی بھی قسم کی ہوسکتی ہے۔دوسرا حق جو بیان کیا گیا ہے وہی ہمارا موضوعِ سخن ہے۔ یعنی جب کسی مسلمان کو مدد کی ضرورت ہو تو دوسرے مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اسے بے یار و مددگار نہ چھوڑے اور اسے غربت یا کسی اور کمزوری کی بناء پر حقیر نہ سمجھے۔ اس عمل کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عظیم نیکی قرار دیا ہے۔
جو شخص جتنی دیر اپنے بھائی کے کام بنانے اور حاجت پوری کرنے میں لگا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کے کام بناتے رہیں گے اور اس کی حاجت پوری کرتے رہیں گے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب المظالم والغضب)
اگر کسی نے کسی مسلمان کی مصیبت کو دور کردیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت اور پریشانی دور فرمائیں گے۔ (صحیح بخاری۔  کتاب المظالم والغضب)
اس طرح متعدد احادیث ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھ اور مصیبت میں مبتلاء انسانیت کے لیے بھلائی کے کام کرنے کی تلقین کی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ان احادیث کا تعلق تمام انسانوں سے ہے، صرف مسلمانوں سے نہیں۔ یہاں پر لفظ ’’مسلم‘‘ اس لیے آیا ہے کہ سننے والوں کے دل میں جذبہ پیدا کیا جائے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مدد صرف مسلمانوں کی کی جائے اور غیر مسلموں کی نہ کی جائے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہ ’’اپنے پڑوسی کے حقوق ادا کیجیے۔‘‘ اس جملے  میں لفظ ’’پڑوسی‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ مخاطب کے دل میں جذبہ پیدا کیا جائے کہ وہ حقوق ادا کرے۔  اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ جو پڑوسی نہ ہو، اس  کے حقوق ادا نہ کیجیے۔ اسلام نے سوشل ورک کا حکم تمام انسانیت کے لیے دیا ہے۔ چنانچہ ہمیں احادیث میں ملتا ہے کہ  جن دنوں اہل مکہ، اسلام کے خلاف شدید مزاحمت کر رہے تھے، انہی دنوں مکہ میں قحط پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں خوراک کے کئی اونٹ بھیجے ۔
اسلامی تاریخ اور سیرت النبی کا ہر ایک باب بھی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح شب و روز سماج کی خدمت کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت سے قبل بھی سماجی کام میں مشغول ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ اس کی شہادت اس طرح ملتی ہے کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے کہا کہ ’’آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ‘کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں،مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘  (بخاری۔ کتاب بدء الوحی)
آج کوئی سماجی ادارہ خواتین کے لیے کام کرتا ہے، کوئی بچوں کے لیے کام کرتا ہے، کوئی تعلیم کے لیے کوئی صحت کے لیے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی خدمات کسی ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط تھی۔ بادی النظر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے کہ  پیغمبر اسلام حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سب سے عظیم سماجی کارکن تھے۔ تاریخ انسانی کے اس سب سے بڑھ کر سماجی کام کیا ہوگا کہ عرب میں زندہ بچیوں کو دفنادیا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظالمانہ رسم کے خلاف جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔  خواتین حقوق سے محروم تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہر قسم کے حقوق دلائے۔غلام طبقہ پِس رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے  آزادی کی بہت سی راہیں (حکم خداوندی کے تحت) نکالیں اور انہیں وہ مقام عطا کیا کہ جس کے نتیجے میں ایک سیاہ غلام بھی قیادت کا اہل قرار پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی میں سماجی خدمات کی اور بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ایسے کام شروع کریں جس سے معاشرے کی بھلائی ہو۔ یہ کام غرباء و مساکین کی مدد کرنا  اور  عوام میں کسی مسئلے پر شعور بیدار کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ کسی کی مالی مدد کرنے کے متعلق مندرجہ ذیل اہم باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔
        پیشہ ور بھکاریوں کو پیسے دے کر ان کی حوصلہ افزائی ہرگز نہ کریں یہ آپ کے لیے ہی گناہ ہوگا۔ایسے لوگ دراصل خدا کا نام لےکر آپ کا استحصال کرتےہیں اور ضرورت مندوں کا حق مار جاتے ہیں۔
        ایسے افراد کو دیں جو ضرورت مند ہوں لیکن عزت نفس اور خود داری کی وجہ سے ہاتھ نہ پھیلاتے ہوں۔
        زکوۃ و خیرات دیتے ہوئے اپنے ضرورت مند رشتہ داروں کو مت بھولیے، آپ کی زکوۃ و خیرات کے سب سے پہلے مستحق وہی ہیں۔
        مالی مدد میں غیر مستقل امداد کے بجائے ان کے لیے روزگار کا انتظام کیجیے۔ مچھلی کھلانے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھائیے۔
اگلی تحریر میں ہم اسی موضوع کو جاری رکھیں گے اور انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات کے حقوق پر بات کریں گے۔
(حافظ محمد شارق،truewayofislam.blogspot.com)
سوک سینس کے موضوع پر یہ دوسری تحریر تھی۔ اس سلسلے کی مزید تحریروں کے مطالعے کے لیے وزٹ کیجیے:
غور فرمائیے!
·      ہم پر دیگر شہریوں کے کون کون سے حقوق عائد ہوتے ہیں؟
·      کیا آپ دوسروں کی مدد کرتے ہیں؟
·      کہیں آپ اپنا پیسہ پیشہ ور بھکاریوں پر ضائع تو نہیں کرتے؟

No comments:

Post a Comment