تحریر: پروفیسر محمد عقیل
کچھ عرصے قبل ایک افسانہ پڑھا کہ ایک صاحب کو راستے میں ایک بزرگ ملتے ہیں ۔ وہ صاحب بزرگ کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے اور ان کی مدد کرتے ہیں۔نتیجے کے طور پر بزرگ خوش ہوکر انہیں دعا دیتے اور کہتے ہیں
” میاں! تمہیں اجازت ہے کہ جو چاہو اپنے لئے مانگو لیکن تمہارے پاس صرف ایک خواہش کرنے کا آپشن ہے “۔ کافی سوچ بچار اور بیوی سے مشورے کے بعد وہ صاحب ایک خواہش کرتے ہیں کہ وہ جسمانی طور پر جیسے ہیں ہمیشہ ویسے ہی رہیں اور ان کے جوان بدن میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ اس خواہش کا مقصد یہ تھا کہ وہ ہمیشہ جوان رہیں۔ دعا مانگنے کے بعد وہ صاحب سوجاتے ہیں ۔ دوسرے دن صبح کو جب ان صاحب کی بیوی اٹھتی ہے تو دیکھتی ہے کہ اس کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے۔ آخر میں افسانہ نگار یہ تبصرہ کرتا ہے کہ چونکہ موصوف نے ہمیشہ اپنے بدن کو غیر متغیر رکھنے کی خواہش کی تھی اس لئے خدا نے اسکی دعا سن لی اور اس کا بدن ہمیشہ کے لئے غیر متغیر ہوگیا۔
اس افسانے کو پڑھ کر ایک ایسے خدا کا تصور پیدا ہوتا ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ وہ صرف ظاہری الفاظ کو سن کر فیصلے کرتا اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔خدا کی ذات کا یہ تصور صرف اس افسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہماری روزمرہ کی گفتگو میں سرایت کرگیا ہے۔ ہم روزانہ اس قسم کہ باتیں سنتے ہیں کہ کوئی ایسی ویسی بات منہ سے نہ نکالو کہیں قبول نہ ہوجائے، یا ناکامی پیش آنے پر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ خدا کی یہی مرضی تھی۔ خدا کی بے حکمتی کی باتیں ہمارے مذہبی حلقوں میں بھی مشہور ہیں۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ خدا چاہے تو کسی صالح مومن کو جہنم اور ابوجہل و ابولہب کو جنت میں داخل کرسکتا ہے، یا پھر یہ کہ خدا نے تقدیر مقرر کردی اور لوگوں کو مجبور محض بنادیا ہے اس کے باوجود وہ لوگوں جنت اور جہنم میں ڈالے گا وغیرہ۔
” میاں! تمہیں اجازت ہے کہ جو چاہو اپنے لئے مانگو لیکن تمہارے پاس صرف ایک خواہش کرنے کا آپشن ہے “۔ کافی سوچ بچار اور بیوی سے مشورے کے بعد وہ صاحب ایک خواہش کرتے ہیں کہ وہ جسمانی طور پر جیسے ہیں ہمیشہ ویسے ہی رہیں اور ان کے جوان بدن میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ اس خواہش کا مقصد یہ تھا کہ وہ ہمیشہ جوان رہیں۔ دعا مانگنے کے بعد وہ صاحب سوجاتے ہیں ۔ دوسرے دن صبح کو جب ان صاحب کی بیوی اٹھتی ہے تو دیکھتی ہے کہ اس کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے۔ آخر میں افسانہ نگار یہ تبصرہ کرتا ہے کہ چونکہ موصوف نے ہمیشہ اپنے بدن کو غیر متغیر رکھنے کی خواہش کی تھی اس لئے خدا نے اسکی دعا سن لی اور اس کا بدن ہمیشہ کے لئے غیر متغیر ہوگیا۔
اس افسانے کو پڑھ کر ایک ایسے خدا کا تصور پیدا ہوتا ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ وہ صرف ظاہری الفاظ کو سن کر فیصلے کرتا اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔خدا کی ذات کا یہ تصور صرف اس افسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہماری روزمرہ کی گفتگو میں سرایت کرگیا ہے۔ ہم روزانہ اس قسم کہ باتیں سنتے ہیں کہ کوئی ایسی ویسی بات منہ سے نہ نکالو کہیں قبول نہ ہوجائے، یا ناکامی پیش آنے پر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ خدا کی یہی مرضی تھی۔ خدا کی بے حکمتی کی باتیں ہمارے مذہبی حلقوں میں بھی مشہور ہیں۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ خدا چاہے تو کسی صالح مومن کو جہنم اور ابوجہل و ابولہب کو جنت میں داخل کرسکتا ہے، یا پھر یہ کہ خدا نے تقدیر مقرر کردی اور لوگوں کو مجبور محض بنادیا ہے اس کے باوجود وہ لوگوں جنت اور جہنم میں ڈالے گا وغیرہ۔
اس کے برعکس ہمارا یقین ہے کہ اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے۔ چنانچہ یہ کس طرح ممکن ہے وہ حکمت سے عاری ہو۔ اللہ کی ایک صفت ہے الحكيم۔ اس کا مطلب صاحب حکمت، عالم، دانا، دانشور، باشعور ہستی کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے حکیم ہونے کا مفہوم یہی ہے کہ وہ لامتناہی طور پر دانا، سمجھدار اور دانش رکھنے والاہے ۔ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی کار کو بےعقل اور اناڑی ڈرائیور چلائے تو جلد یا بدیر کار کسی جگہ سے ٹکرا کر تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر یہ کائینات کسی غیر حکیم اور بے شعور ہستی کے ہاتھ میں ہوتی تو اب تک کئی مرتبہ تباہ ہوچکی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت، انتہائی درجے کی غایت اور مصلحت پر مبنی ہوتا ہے لیکن ان کاموں کی مصلحتوں کو کامل طور پر احاطہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔حکمت کا معاملہ یہ ہے کہ ایک دانا شخص کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے کم از کم اتنی ہی دانائی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی دانائی اور دانش تک کوئی نہیں پہنچ سکتا چنانچہ اس کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھ لینا ممکن نہیں۔ چنانچہ زلزلوں سے بستیوں کا اجڑ جانا، انسان کی معذوری، کیڑے مکوڑوں کی تخلیق، اور دیگر سمجھ میں نہ آنے والے کاموں کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ اس حکمت کے ایک پہلو کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضرت موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں سمجھایا ہے۔اسی لئے اس دنیا کی بہت سے امور سمجھ سے باہر ہیں ۔ چنانچہ اللہ کے بارے میں یہ تصور کرنا ایک جرم ہے کہ اس کے فیصلے الل ٹپ ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو معاملہ سمجھ میں آجائے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور سمجھ سے باہر ہو اس پر اللہ کی حکمت پر اجمالی ایمان اور اطمینان رکھنا ہی ایمان کا تقاضا ہے ۔
پروفیسر عقیل صاحب بہترین مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔