سوال :
پینٹ شرٹ پہننا جائز ہے یا ناجائز ہے۔ بعض علماءکہتے ہیں کہ پینٹ شرٹ پہننا جائز
نہیں ہے اس سے غیر مسلموں کی مشابہت ہوتی ہے کیونکہ پینٹ شرٹ غیر مسلموں کا شعار
ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو بندہ کسی جماعت اور قوم کی شباہت اپنائے گا وہ
اسی میں سے ہے یعنی قیامت میں اسی قوم کے ساتھ اٹھے گا۔ کیا یہ ضروری ہیں کہ ہم
اپنے آئیڈیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر معاملات میں اتباع کریں؟ کیوں کہ
ایک مسلمان کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ایک ادا اور سنت صرف قابل
اتباع نہیں بلکہ مرمٹنے کے قابل ہے خواہ اس کا تعلق نشست و برخاست سے ہو یا عبادات
سے متعلق۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟تفصیلی جواب دیں۔ (جہان زیب بلوچ۔ کراچی)
جواب:
السلام وعلیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
کیسے مزاج ہیں؟
آپ نے لباس کے متعلق جو سوال پوچھا اس
کے متعلق میرے خیال میں شریعت اسلامی
نے بنیادی اصول و ضوابط بتا دیے
ہیں جو قرآن مجید میں سورة الاعراف میں بالکل وضاحت سے بیان ہیں۔
يَا
بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا
ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ
لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
اے
اولادِ آدم! ہم نے تمہارے لیے لباس بنایا
جو تمہارے ستر کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور
(جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ
نصحیت پکڑ یں۔( آیت 26)
اس آیت میں لباس کے متعلق جو بنیادی اصول بتائے
گئے ہیں وہ 1۔فریضۂ ستر پوشی،2۔ موجب زینت اور 3۔تقویٰ ہے۔ احادیث مبارکہ میں
مزید شرائط و اصول بیان کیے گئے ہیں لیکن وہ بھی دراصل انہی بنیادی اصولوں کی
توضیح ہے ۔مذکورہ اصولوں کی تفصیل احادیث کے ساتھ حسب ذیل ہے۔
فریضۂ ستر پوشی
لباس کے متعلق سب سے اہم امرستر پوشی
ہے۔ لہٰذا جو بھی لباس اختیار کیا جائے اس میں اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ
وہ اس فریضے کو بخوبی ادا کرے۔اس سلسلے میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
1. ایسا لباس جو جسم سے چپکا ہوا ہو اور بہت
زیادہ چست ہو ایسے لباس سے احتراظ کرنا چاہیے بالخصوص عورتوں کواس کا خاص خیال
رکھنا چاہیے کیوں کہ حدیث پاک میں ایسے لباس والی عورتوں کو لباس سے عاری اور
برہنہ کہا گیا ہے جن کے لیے دوزخ کی وعید ہے (مسلم شریف رقم ۲۱۲۸) ۔
2. لباس اتنا باریک نہ ہو کہ جس سے جسم کے
اعضاءنظر آتے ہوں ۔ مردوں کے لیے ناف سے گھٹنوں تک ستر چھپ جانے کے بعد دوسرے کپڑے
باریک ہوں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔
زینت
لباس وہی استعمال کرنا چاہیے جوباوقار ہو اور
اپنی جنس کے اعتبار سے خوبصورتی اور زینت کا موجب ہو۔ ایسا لباس اختیار کرنا ہرگز
درست نہیں جس میں بے ہودگی ، حماقت اور بد صورتی ظاہر ہو۔ ستر پوشی کے علاوہ ضروری
ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق لباس میں زینت و جمال کا خاص خیال رکھا جائے۔
تقویٰ
ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد ہی تزکیہ
نفس اور تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ لباس میں بھی اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ
لباس سے تقویٰ کا اظہار ہو۔لہٰذا:۔
1. ایسا لباس ہرگز استعمال نہ کیا جائے جس سے
تکبر اور غرور ٹپکتا ہو، یہی وجہ ہے کہ عرب میں ٹخنوں سے نیچے شلوار (یا پائجامہ)
رکھنا غرور و تکبر کی علامت تھی جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔
2. لباس اختیار کرنے میں اسراف سے اجتناب کرنا
چاہیے۔ غیر ضروری زینت اور لباس پر کثیر رقم خرچ کرنا فضول خرچی ہے۔ بخاری شریف
میں حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پہنو البتہ دو چیزیں تمھیں
گناہ میں مبتلا نہ کردیں۔ فضول خرچی اور تکبر
3. مرد عورتوں کا لباس اور عورتیں مردوں کا
لباس استعمال نہ کریں۔ یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔ حدیث مبارکہ (بخاری شریف رقم الحدیث ۵۵۴۷) میں اس بارے میں سختی سے
ممانعت آئی ہے اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی شباہت
اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی گئی ہے۔
4. ایسے لباس سے اجتناب کرنا چاہیے جو کسی قوم
کا مذہبی شعار ہو۔حدیث مبارکہ میں اس کی ممانعت ہے۔
ان اصولوں کی روشنی میں
دور حاضر کے مروجہ لباس پہننے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ماضی میں علمائے اسلام کا
تعلق عرب کے علاوہ ایران، عراق، مصر، شام اور اندلس سے تھا ، سبھی علماء اپنے اپنے
مقامی لباس پہنا کرتے تھے اس
بارے میں کوئی پابندی نہ تھی۔
اب میں آپ کے سوال کے دوسرے حصے کی
طرف آتا ہوں۔ ہمارے ہاں اس معاملے میں دو نظریات ہیں۔ روایت پسند علماءکا نقطۂ
نظر یہ رہا ہے کہ ہمیں ہر معاملے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی
کرنی چاہیے اور ویسا ہی لباس پہننا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ
کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہنا کرتے تھے۔ تاریخ اور احادیث میں بکثرت روایات
موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتہ ، پاجامہ اور تہبند
زیب تن کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں روایتی علماءبھی عام طور پر اسی قسم
کا لباس مثلاً شلوار قمیص ، وغیرہ پسند کرتے ہیں ، بلکہ میرا مشاہدہ ہے کہ بعض
علماءایسے بھی ہیں جو صرف اسی کو جائز سمجھتے ہیں۔ اس بارے میں ان کا یہی کہنا ہے
جو آپ نے لکھا کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ایک ادا
اور سنت صرف قابل اتباع نہیں بلکہ مرمٹنے کے قابل ہے خواہ اس کا تعلق نشست و
برخاست سے ہو یا عبادات سے متعلق۔ بے شک ان کا کہنا بھی درست ہے کہ پیارے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی ہر ایک سنت مرمٹنے کے قابل ہے۔
جبکہ دوسری طرف معتدل علماء کا طبقہ
ہے جن کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مخصوص لباس کی تاکید نہیں فرمائی ہو
یا کسی لباس کو بطور دینی حکم کے جاری فرمایا ہو۔ اخلاقی اصولوں (جن کی توضیح اوپر
کی گئی ہے) کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے سے تعلق رکھنے والا لباس ہمارے لیے
جائز ہوگا۔ آپ نے جو حدیث بیان کی وہ ابو داؤد شریف کی ہے لیکن علماء کی اس جماعت
کے مطابق اس حدیث کا تعلق عام لباس سے نہیں بلکہ لائف اسٹائل اور مذہبی شعار سے
متعلق ہے۔ یعنی لباس سے وابستہ وہ علامات جو کسی خاص مذہب یا فلسفے کی علامت کے طور
پر مقرر ہو۔ جیسے نارنگی رنگ میں ایک قسم کا لباس ہندوؤں اور بدھ بھکشوؤں کے ہاں
رائج ہے۔ اسی طرح گلے میں صلیب لٹکانا، سر پر چوٹی رکھنا یہ سبھی مذہبی شعائر ہیں
۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی لباس پہنا کرتے تھے جو اس دور میں اہل عرب پہنتے
تھے۔عرب کے تقریباً سبھی لباس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیب تن فرمائے ۔ ابن ماجہ
کی ایک روایت کے مطابق آپ نے جبہ اور فروج (ایک قسم کا کوٹ) بھی پہنا۔مسلم کی
روایت کے مطابق آپ نے ایرانی جبہ پہنا ۔ ان سبھی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام
میں کسی لباس کو بطور دینی حکم یا شعار کے جاری نہیں کیا گیا بلکہ اس سلسلے میں
اصول بتاکر ہماری رہنمائی فرمادی ہے۔
اتباع سنت کے حوالے سے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت دو قسموں پر مانی
گئی ہیں: (1)سنن ہدیٰ ۔(2) سنن الزوائد۔علامہ شامی نے ان کی تشریح یوں کی کہ ہے کہ
سنن ہدی سے مراد وہ سنت ہیں جودین کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس کا تارک گمراہ ہے۔ جب
کہ سنن الزوائد وہ سنت ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے آپ نے خاص حکم نہیں فرمایا ہو تاہم ان
کی عادت رہی ہو۔مثلاً لباس، قیام و قعود، رکوع و سجود کو طویل کرنا وغیرہ۔
سنن الزوائد میں وہ امور جن کا تعلق
تمدن و معاشرے سے ہوتا ہے ان معاملات پر عمل کرنا دین کا حکم نہیں ہے۔لباس کی مثال
ہم دے آئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عرب کا عام لباس ہی پہنا۔ اس کے
علاوہ دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
سواری کے وہی ذرائع اونٹ ، گھوڑا، خچر وغیرہ استعمال کیے جو اہل عرب کرتے تھے۔
جنگوں میں بھی وہی اسلحہ استعمال کیا جو اس دور میں تمام افواج کرتے تھے۔یہ سب
چیزیں تمدنی نوعیت کی ہیں، اس کا دین سے بنیادی اصول و ضوابط کے علاوہ کوئی تعلق
نہیں ہے۔لباس بھی اسی شام ہے۔سنن الزوائد میں وہ امور جن کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی طبعی پسند و ناپسند سے ہو مثلاً کسی کھانے کا زیادہ
پسند کرنا ، کسی کھیل میں دلچسپی رکھنا یہ دین کا حکم نہیں ہے اور اس میں ہم اپنے طور
کچھ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔مثلاً بعض علاقوں مں ایک چیز کھانا عجیب اور بعض
جگہوں پر مرغوب غذا ہوتی ہے۔ چنانچہ
صحیح مسلم : کتاب الصید والذبائح میں یہ ہمیں یہ واقعہ ملتا ہے کہ
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا
کے گھر ایک بھنی ہوئی گوہ لائی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تووہاں موجود کچھ
خواتین نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کو بتاؤ کہ آپ کیا کھانے لگے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔پوچھا گیا:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ
حرام ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نہیں۔ لیکن جہاں میری قوم رہتی ہےوہاں یہ نہیں ہوتی، اس وجہ سے مجھے اس سے کراہت
آتی ہے۔اس کے بعد دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کھانا شروع کردیا جبکہ رسول صلی
اللہ علیہ وسلم دیکھتے رہے۔
چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی طبعی پسند نا پسند
دین کا حکم نہیں رکھتی ورنہ صحابہ کرام ہرگز وہ نہ کھاتے یا آپ انہیں منع
فرماتے۔اسی طرح غزوہ خندق کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودنے کا مشورہ مانا، جو کہ ایران میں
مجوسیوں کا طریقہ تھا لیکن ان کا مذہبی شعار نہ تھا بلکہ جنگ کےمتعلق حکمت عملی
تھی۔کسی لباس کو سنت قرار دے کر اس سے ذرا ہٹ کر لباس اختیار کرنا جائز نہیں ہے تو
پھر دوسرے امور جیسے جدید سواریوں ،اسلحوں کے استعمال میں کیوں قباحت نہیں ؟ اس استدلال کی بنیاد بنایا جائے و پھر ہمیں
چاہیے کہ پھر ہم جنگ میں تیر کمان اور تلوار کا استعمال کریں، سواری کے لیے گھوڑے،
گدھے اور خچر کااستعمال کریں۔ لہٰذا واضح ہے کہ ان چیزوں کا تعلق تمدن سے ہے نہ کہ
دین سے،اور یہ سنتیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے بطور تمدن اختیار کیا ہو اسے اختیار کرنا ہم پر لازم نہیں ہے البتہ بطور
سنت اسے محبت میں اپنایا جاسکتا ہے۔ میں بھی اسی بات کا قائل ہوں کہ اوپر جو اصول
بیان کیے گئے ہیں انہیں ملحوظ رکھتے ہوئے لباس پہنا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
جہاں تک پینٹ شرٹ کا تعلق ہے تو اس کی
حیثیت ایک بین الاقوامی لباس کی ہے ، دنیا بھر میں تمام مسلم و غیر مسلم قومیں اسی
پہنتی ہیں، اگر پینٹ شرٹ مذکورہ اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے پہنا جائے تو کوئی
مسئلہ نہیں ہے۔مجھے نہیں معلوم ہمارے علماء میں یہ غلط فہمی کیوں پھیلی ہوئی ہے
کہ کوٹ پتلون کفار کا شعار ہے۔ تاریخ اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ یہ لباس
اسپین کے مسلمانوں کا تھا جس دور میں مسلمان ہر اعتبارسے غالب اور ترقی یافتہ
تھےلہٰذا مسلمانوں کا یہ لباس یورپ والوں نے اختیار کیا اور آج یہ ایک بین
الاقوامی لباس ہے۔ اگر آج ہم جدوجہد کرکے
دنیا پر غالب آجائیں تو ہمارا قومی لباس بین الاقوامی لباس بن سکتا ہے۔
اگر جواب میں کوئی شبہ رہ گیا ہو تو
بلاتکلف دوبارہ پوچھ لیں۔
والسلام
حافظ محمد شارق