Wednesday 7 August 2013

مسلمان اور روزہ

مسلمان اور روزہ

امّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ اُس پر اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک کے روزوں جیسی عظیم نعمت عطا کی ہے ۔ قرآن مجید میں رمضان کے متعلق ارشادِربانی ہے:

اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ پچھلوں پر فرض ہوئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ (سورۃ البقرۃ۔ آیت 157)

اس ماہِ مبارک کی اہمیت و عظمت کی وجہ قرآن مجید نے یہ بیان فرمائی ہے۔

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو (سورۃ  البقرۃ)

اول الذکر آیت میں اللہ نے ایمان والوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو، یعنی پرہیزگار بنو۔یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں روزے کے لیے "صوم" کا لفظ آیا ہےجس کے  معنی "رکنے " کے ہیں۔ "روزہ" فارسی  لفظ ہے ،چونکہ ہندوستان میں مسلم دور میں فارسی رائج تھی اس لیے یہی اصطلاح عام ہوئی ۔

بد قسمتی سے آج ہم روزے کی افادیت و روحانیت اور اس کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ ہمارے نزدیک ایک مخصوص وقت تک بھوکا پیاسا رہنے کا نام روزہ ہے ۔ اس ضمن میں چند اہم نکات کو اجاگر کرتے ہوئے اس نیت سے گفتگو کرتے ہیں کہ ہم صرف روزے کی اہمیت و افادیت کو نہ صرف سمجھیں بلکہ اس کے ساتھ ہی اس پر عمل کرکے تقویٰ کا حصول بھی اپنے لیے ممکن بنائیں۔روزے میں صرف کھانے پینے سے رک جانا ہی کافی نہیں بلکہ ہر اُس عمل اور امر سے رُک جانا بے حدضروری ہے کہ جس سے بچنے کی تاکید اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث مبارکہ کا تذکرہ کرنا یہاں ضروری ہے ۔

"اگر کوئی شخص جھوت بولنا اور دغابازی نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو بھی اس کے بھوکہ پیاسہ رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ (بخاری)

حدیث مبارکہ سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ صرف بھوکا پیاسا رہنا ہمارے روزے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ جھوٹ ، غیبت، چغلی، فحش گوئی ، بد زبانی اور تمام برائیوں سے رکنا ہی روزے کی اصل روح ہے اور اسی کے ذریعے ہم روزے کی اہمیت و افادیت نہ صرف پاسکتے ہیں کہ بلکہ مذکورہ آیت کے پیش نظر تقویٰ کے حصول کو بھی اپنے لیے آسان بناسکتے ہیں۔

عام مشاہدہ ہے کہ روزے کی حالت میں لوگوں کو  بہت جلدی غصہ آجاتا ہے اور ہر بات پر جھگڑنا شروع کردیتے ہیں، جبکہ اللہ کا دین اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا، بلکہ ایک روایت کے مطابق تو غصہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا اہم حصہ عفو و درگزر پر مبنی ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سیرت مبارکہ  کا مطالعہ کیجیے، ہرایک موقع پر آپ کو طاقت کے باوجود عفو و درگزر کارویہ نظر آئے گا۔وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے دشمنوں کو معاف کردیا کرتے تھے۔لیکن افسوس کہ ہم ایک مسلمان کی غلطی سے لگی ٹھوکر بھی معاف نہیں کرسکتے؟

حضرت جبرائیل علیہ السلام رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ ہلاک ہوجائے وہشخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور روزے بھی رکھے لیکن اپنی مغفرت نہ کروا سکا۔ اس جملے پر پیکرِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آمین کہا۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کے بعد ہمارے لیے بخشش کا بھی کوئی ذریعہ ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
ماہِ رمضان ایک مہمان کی طرح ہمارے درمیان آتا ہے، ہم اپنے گھر آنے والے مہمان کی نہ جانے کتنی عزت و تکریم کرتے ہیں، ہر طرح سے اس کا خیال رکھتے ہیں کہ رخصت ہوتے ہوئے وہ ہم سب خوش ہوتے جائے۔ذرا غور کیجیے کہ کیا ہم اللہ کے اس مہمان کے لیے بھی ایسے ہی اعمال و افعال بجا  لاتے ہیں جب یہ مقدس مہمان ہم سے رخصت ہو تو ہم سے راضی ہوکر رخصت ہو؟ اللہ کے اس پیارے مہمان کے لیے بھی اپنے دل میں یہی جذبۂ عقیدت و احترام بیدار کیجیے۔ یہ جذبہ زبانی دعووں سے نہیں بلکہ زبان عمل سے ہونا چاہیے۔

محمد بلال

bilal_king_4@hotmail.com

(بلاگر کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)  

No comments:

Post a Comment