حافظ محمد شارق
اسلام زندگی گزارنے کے اس طریقے اور طرزِ فکر
کا نام ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام لائے۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں
اور اس کی تشریح و توضیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ میں کردی ہے۔
اب یہ دین ہر صورت میں مکمل ہے اور قرآن مجید کی رو سے ہماری فلاح و نجات کا ضامن
بھی صرف یہی دین ہے۔الحمدللہ ہم میں سے کوئی اس بات کا انکار نہیں کرتا اور نہ ہی
کسی صورت انکار کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے
لیے صرف اسلام ہی راہِ نجات ہے۔ ہم دعویٰ
بھی کرتے ہیں کہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہی ہمارے لیے کامیابی
ہے۔ ہم دین سے منحرف ہر شخص کے متعلق اپنے دل میں اس بات کی تمنا رکھتے ہیں کہ وہ
دین کا صحیح طرح سمجھے ،علم حاصل کرے اور اسی راستے کو اپنائے جس کی دعوت پیغمبر
اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔ لیکن
کبھی ہم نے خود اپنے ضمیر سے بھی یہ سوال پوچھنے کی زحمت کی ہے کہ ہم واقعی دین کی اُس صحیح صورت پر عمل پیرا ہیں جس
کی دعوت قرآن دیتا ہے؟ دین کی جو فکر ہمیں اپنے والدین سے توارث (Heredity) سے ملی ہے ، اور بلا
تحقیق ہم جس راستے پر برس ہا برس سے چل
رہے ہیں، کیا قرآن کا راستہ وہی ہے؟ یا ہم "نتبع ما ألفينا عليه آباءنا"
(ہم تو اسی کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا) کا مصداق خود کو
حق سمجھ رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اسی
گروہ سےتعلق رکھتی ہے جس پر قرآن نے درج بالا تبصرہ کیا ہے ۔ہم میں سے اکثر افراد
ایسے ہی ہوں گے جواپنے خاندان میں رائج دین کی صورت پر محض اس لیے عمل پیرا ہیں کہ انھوں نے اپنے ماحول سے یہی کچھ حاصل کیا
ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم میں سےکوئی واقعی اللہ سے اتنا مخلص بھی ہے کہ وہ اُس
راستے پر تنقیدی نظر ڈالنے کی ہمت رکھتا ہو جو ہمیں آباء و اجداد سے ملا ہے؟ یہ
معاملہ دراصل تلاشِ حق کا ہے۔اُن عقائد کی تلاش کا جس پر دین اسلام کی عظیم الشان
عمارت قائم ہے، یہ تلاش اس امر کی ہے کہ اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور
بندے کے درمیان کس قسم کا خوبصورت رشتہ ہے۔ یہ تلاش دراصل اس بات کو دریافت کرلینےکا
نام ہے کہ قرآن کوبندے کی کیسی شخصیت مطلوب ہے۔لیکن اس تلاش میں ابلیس نے ایسی دیواریں اور رکاوٹیں بھی کھڑی
کردیں ہیں جنھیں عبور کرنا ضروری ہے۔
اللہ
سے مخلصانہ محبت کرنے والے کے لیے تلاشِ حق میں بنیادی طور پر صرف دو ہی رکاوٹ
ہوسکتی ہے۔ فکری جمود اور جہالت۔
فکری جمود کیا ہے؟قرآن مجید میں (سورۃالتوبہ
آیت 31) میں اللہ تعالیٰ نے
نصاریٰ کےمتعلق یہ فرمایا ہے کہ انھوں نے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا
تھا، یعنی ان کے علماء انھیں جو کچھ کہتے ، وہ اسے مان لیتے تھے چاہے وہ اللہ کے نازل
کردہ واضح احکامات کے خلاف ہی کیوں نہ
ہو۔ان کا اصرار صرف اس بات پر تھا کہ وہ اپنے علماء کی اندھی تقلید نہیں چھوڑیں گے
وہ ہمیں جس بات پر لگائیں ہم لگ جائیں گے اور جس بات سے روکیں ہم رک جائیں گے۔لیکن
حقیقت میں یہی وہ رویہ یعنی جمود تھا جو قبولِ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ذرا غور
کیجیے کہ اگر قرآن اس جمود کی مخالفت نہ کرتا
تو کیا ہمارے آباء و اجداد ، یا ہم
خود باطل مذہبی رہنماؤں کی پیروی میں رہتے ہوئے دینِ حق تک پہنچ سکتے تھے؟قرآن
مجید نے انسانی فکر سےاسی جاہلانہ جمود کو ختم کرنے کے لیے غور و فکر کی
دعوت دی اور لوگوں کے ذہنوں کو وسیع کیا۔
اس آیت کو دیکھیے کہ قرآن مجید کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا صرف بڑوں اور مذہبی
پیشواؤں کے لیے نہیں بلکہ ہر مومن پر لازم
ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ یسرنا القرآن
للذکر فھل من مُدَّکِرْ
اور ہم بے شک ہم نے
قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا۔ پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟
اللہ
کے اس احسان کا شکر ادا کریں کہ اس نے
علماء اور آباء و اجداد کی اندھی پیروی کے بجائے خود قرآن کی دعوت کو سمجھنے کی
تلقین کی ہے تاکہ ہم اس وسعت نظری تک پہنچ جائیں جو ہمیں حق کی راستہ دکھائےگی۔ آپ
قرآن مجید کی ساری دعوت دیکھ لیجیے، ہرایک آیت بندے کے قلب و ذہن کو اس بات پر
جھنجھوڑتی ہے کہ وہ اعمال و عقائد کے متعلق فکر کرے اور غفلت کی زندگی نہ گزارے۔واضح رہے کہ یہاں یہ بیان کرنا ہرگز مقصود نہیں ہے کہ ہم علماء کرام پر بھروسہ نہ کریں بلکہ بات صرف یہ ہے ہم وہ لوگ جو "علماء" کے لبادے میں ہمیں توہمات سکھاتے ہیں، ہمیں دین کی حقیقی صورت سے دور رکھتے ہیں ہم ان سے اپنے آپ کو آزاد کرکے علمائے حق کو تسلیم کریں۔ اُس توحیدِ خالص کی طرف آئیں جو ہر قسم کے شرک اور توہمات سے پاک ہے۔
قبول حق میں دوسری بڑی رکاوٹ جہالت ہوتی ہے۔
قرآن جس دور میں نازل کیا گیا اس سے صدیوں
پہلے سے اب تک دنیا کی بہت سی قوموں میں دین کا علم ایک مخصوص طبقے تک محدود رکھا
گیا ہے جس کی وجہ سے حق و باطل کی پہچان کرنا ناممکن تھا۔آج بھی علم دین صرف
علماء کی میراث سمجھی جاتی ہے، اگر وہ علماء کو ہمیں ہمارے ماحول میں میسر ہوئے ہیں، وہ علماء اگرخدانخواستہ "علماء سو"
میں سےہوئے توکیا ہم بھی ان کے گمراہی کےگڑھے میں ان کے ساتھ صرف اس بناءپر چلے جائیں گے کہ ہم نے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی انھی علم دین کا عَلم بردار دیکھا ہے؟ اسی
حقیقت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے علم کے دروزے بھی ہر ایک کے لیے کھول دیے، اس نے
جس طرح قرآن کو سمجھنے کی دعوت ہر ایک کے لیے عام کی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ
علیہ سے علم کی فرضیت بھی ہر ایک کے لیے
رکھ دی تاکہ صحیح علم کی بنیاد پر بندہ دین کے معاملے میں صحیح فیصلہ کرسکے ۔
طَلَبُ الْعِلْمِ
فَرِیْضَةٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ (ابن ماجہ و بیہقی)
علم حاصل کرنے کی
کوشش اور طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔
اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ دین کا صحیح
فہم حاصل ہونے کے لیے علم ایک بنیادی ضرورت ہے۔یہ علم صرف نماز ، زکوٰۃ، حج ، روزہ
اورظاہری عبادات کے متعلق نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔اسلام کے بنیادی عقائد، اوامر و نہی، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ اور ناپسندیدہ باتوں کا علم ہونا ہر ایک مسلمان کے لیے
ضروری ہے اور اس علم کا منبع قرآن ہے ۔
قرآن جوعلم پیش کرتا ہے وہ کیا ہے؟ دراصل جہالت
کے زوال اور ہمارے ذہن میں موجود جمود کو توڑنے کا نام ہے۔یہ وہ مقدس مشعل ہے جس کی روشنی میں انسان بد اعتقادی، تعصب اور
تشکیک کی تنگ و تاریک گھاٹیوں سے نکل کر عقائد کی درستگی ، نفس کی پاکیزگی، روشن
خیالی اور فہم و ادراک کے استحکام کی طرف جاتا ہے۔ قرآن
مجید کو سمجھنے کا حکم کم بیش بیس مرتبہ آیا ہے ۔ بات بالکل سادہ سی (لیکن اہم) ہے
کہ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے قرآن مجید
انتہائی آسان اور بہترین کتاب (Guide)ہے۔یاد رکھیے کہ اس زندگی کے بعد ابدی زندگی میں نجات کا
انحصار اس بات پر ہوگا کہ آپ میں حق و صداقت کی تلاش کی آرزو کتنی تھی ؟ آپ کو جو
کچھ علم تھا، آپ کی شخصیت و کردار پر اس کا کتنا عکس رہا؟ الغرض یہ کہ آپ اپنے
پروردگار سے کتنے مخلص ہیں۔