پلوٹارک ایک یونانی مصنف ہے، وہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا ہم عصر تھا۔ اس (Bioi Paralleloi) نے یونانی زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا نام
ہے ، اس کا اصل نسخہ بھی اپنی زبان میں اب تک موجود ہے، اسکا سب سے پہلا ( Parallel Lives )ترجمہ انگریزی زبان میں ۱۵۷۹ میں
کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں یونانی اور رومی ہیرؤوں کے واقعات بیان کیے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی وجہ سے یونانیوں کو ایک زمانہ میں تمام دنیا میں سب سے اونچا مقام ملا۔
ہے ، اس کا اصل نسخہ بھی اپنی زبان میں اب تک موجود ہے، اسکا سب سے پہلا ( Parallel Lives )ترجمہ انگریزی زبان میں ۱۵۷۹ میں
کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں یونانی اور رومی ہیرؤوں کے واقعات بیان کیے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی وجہ سے یونانیوں کو ایک زمانہ میں تمام دنیا میں سب سے اونچا مقام ملا۔
اسی کتاب میں ایک رومی جنرل کا واقعہ ہے کہ وہ ایک ملک میں فتوحات کرتے ہوئے اس قلعے تک پہنچا، یہ قلعہ بہت بڑا تھا اور اس میں ضرورت کا تمام سامان موجود تھا۔ چنانچہ وہ لوگ قلعہ کا پھاٹک بند کرکے بیٹھ گئے۔ رومی جنرل کی فوج قلعہ کے باہر گھیرا ڈالے ہوئے تھی لیکن باوجود کوششوں کے اب تک اس قلعے کو فتح نہیں کرپائی تھی۔
قلعے کے اندر ایک اسکول واقعے تھا جس میں بڑے بڑے سرداروں کے لڑکے پڑھتے تھے۔ اسکول کے استاد کے ذہن میں یہ لالچ آئی کہ اس نازک موقع پر اگر میں رومی فوج کی مدد کروں تو قلعہ فتح کرکے وہ مجھ سے بہت خوش ہونگے اور انعامات سے نوازینگے۔ چنانچہ اس نے خاموشی کے ساتھ ایک روز بچوں کو ساتھ لیا اور ان کو پھراتے ہوئے قلعہ کے پوشیدہ راستے پر لے گیا اور اس راستے سے گزر کر بچوں سمیت باہر آگیا اور رومی جنرل سے ملا۔ اس نے کہا کہ یہ بڑے بڑے سرداروں کے بچے ہیں ان کو آپ بندھک بنا کر رکھ لیں اور قلعہ والوں پر دباؤ ڈال کر اپنی شرائط منوا لیں۔
رومی جنرل یہ سب سن کر خوش ہونے کے بجائے نہایت برہم ہوا اور اس استاد کو ڈانٹے ہوئے کہا کہ طریقہ یہ نہیں ہے کہ ہم کمینہ پن کے ساتھ قلعہ کو فتح کریں، ہم جو کچھ کریں گے بہادری کے ساتھ کرینگے، تم فوراً ان بچوں کو واپس لے جاؤ اور ہمیں قلعے کا خفیہ راستہ بھی نہ بتاؤ۔ استاد بچوں کو لیکر قلعے میں واپس آگیا اور اہل قلعہ کو پوری کہانی سنائی، یہ بات سن کر اہل قلعہ بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ ہمیں ایسے شریف لوگوں سے جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے خود اپنی طرف سے قلعہ کے دروازے کھول دیے۔
اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ نادان انسان تشدد ، ہتھیار اور ظاہری اسباب کو چاہے کتنی ہی اہمیت دیدے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شرافت اور بلند اخلاق ہی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔
No comments:
Post a Comment