حافظ محمدشارقؔ
آج صبح بی بی سی میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ
برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پورنو گرافی(Pornography)بلاک
کرنے کااردۂ خیر کیا ہے اور وہ اس حوالے سے ہونے والے معاشرتی نقصانات کے متعلق
کافی پریشان ہیں۔انھوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پورنوگرافی ہمارے بچوں کو برباد کررہی
ہے، ہر تیسرا بچہ اپنی عمر کے دسویں برس کو پہنچتے ہی ان ویب سائیٹ کو دیکھنے لگتا
ہے۔نیز انھوں نے زنا بالجبر یعنی ریپ کی منظر کشی کرنے والی فلم کو خصوصاً بند کرانے کا ارادہ ظاہر
کیا۔
ذاتی طور پر میرے لیے یہ خبر کوئی حیرت
ناک نہیں ہے، کیونکہ بحیثیت مسلمان میرا ایمان ہے جو بات ہمارے اللہ نے قرآن مجید
میں اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادی وہ بلا شک و شبہ حق ہے،
اگرچہ اس کا احساس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والوں کو بعد
میں ہو۔
جہاں تک مغرب میں پورنوگرافی کے فروغ کا تعلق
ہے تو اٹھارہویں صدی میں جب وہاں الحاد کا فروغ ہوا تو ساتھ ہی فحاشی کا سیلاب
برپا ہوا اور مذہب بیزاری کی وجہ سے اخلاقیات کا جنازہ اٹھا۔جنسی آزادی و اباحیت
میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔کچھ ہی عرصے میں باقاعدہ طور پر پورنو گرافی
پر مبنی فلم انڈسٹری قائم کردی گئی جس میں فحاشی کوعروج پر پہنچایا گیا۔ اور پھر
مغرب کے معاشی نظام بھی اس اخلاقی گراوٹ میں برابر کا شریکِ کار رہا ، بلکہ
میرے نزدیک فحاشی کو سپورٹ کرنے میں سب سے اہم کردار ہی اس نظام نے ادا کیا کیونکہ
اسی نظام کا اصرار تھا کہ منافع کے حصول کے لیے حلال و حرام کی کوئی تفریق نہیں
اور نہ ہی کوئی اخلاقی و مذہبی پابندی ہونی چاہیے ۔ ہر انسان کو تجارتی و صنعتی
سرگرمیوں کے لیے قطعی آزاد چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے
لیے جو طریقہ مناسب سمجھے اختیار کرلے، نتیجتاً زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے
زیادہ سے زیادہ برائی پیش کی گئی۔ بیسویں صدی میں انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی
بدولت پورنوگرافی کی وباء بہت زیادہ پھیلی ، جس کا مشاہدہ آج ہم مشرقی ممالک میں
بھی بخوبی کررہے ہیں۔لیکن اس کارجحان مغرب میں روحانیت کے فقدان کے سبب زیادہ پایا
جاتا ہے۔ وہاں پورنوگرافی(Pornography) انڈسٹری کو آزادیٔ رائے اور شخصی آزادی
کے اصولوں کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ان کے نزدیک فحاشی بھی ایک انڈسٹری ہےاور اس میں
کام کرنے والوں کی حیثیت عصمت فروش یا طوائف کی نہیں بلکہ یہ محض ایک فلمی
پیشے کی حیثیت رکھتا ہے۔
پورنوگرافی یعنی فحاشی کے بارے میں دین ِ اسلام
نے اپنا موقف چودہ سو سال قبل ہی واضح کردیا تھا۔ اسلام نے معاشرے کو زنا
اور جنسی انتشار سے بچانے کے لیے فحاشی کے فروغ پر پابندی لگائی ہے اور معاشرے کو
پاکیزہ اور مثبت اقدار پر قائم کرنے کی ہدایت دی۔قرآن مجید میں یہ تعلیمات بہت سے
مقامات پر ہیں۔مثلاً
شیطٰن یعدکم الفقر ویأمرکم بالفحشاء ۔ (البقرۃ268 :)
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا
حکم دیتا ہے۔
ولا تقربوا الزني انه كان فاحشة وساء سبيلا
(بنی اسرائیل: 32)
اور زنا كے قريب بھى نہ جانا كہ يہ فحاشی
ہے اور بہت برا راستہ ہے۔
فحش برے اور بے حیائی کے کام کو کہتے ہیں
بالخصوص یہ لفظ جنسی راہ روی کے لیے خاص استعمال ہوتا ہے۔ آیت میں واضح طور
پر بتایا گیا ہے کہ ہر وہ كام كہ جوانسان كو زنا كے قريب بھی لے جاتا ہے اس سے
بچنا لازم اور واجب ہے۔ قابل غور نکتہ ہے کہ الله تعالى نے ''لا تزنوا'' (ىعنی زنا
نہ كرو)نہیں فرمایا؛؛ بلکہ زنا کے قریب بھی جانے سےمنع فرمایا۔یعنی اس نكتہ كى طرف توجہ دلا ئی کہ ہر
وہ عمل جو زنا پر ختم ہوچونكہ وہ بدكارى كى طرف لے جانے والا عمل ہے وہ حرام
ہے۔یعنی زنا سے متلق خیالات اور اس کی جانب لے جانے والے اقدامات بھی اس زمرے میں
شامل ہیں ۔لہٰذا ان ذرائع کا استعمال بھی حرام ہے جو زنا سے قریب کرنے کا سبب بنتے
ہیں۔یہ بات یہ یقیناً کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پورنو گرافی زنا کا ایک سب سے اہم
سبب ہے۔
اول الذکر آیت اس حقیقت کو بالکل صاف انداز میں
بیان کرتی ہے کہ شیطان انسان کو فکرِ معاش کے بہانے سے بے حیائی کی تلقین کرتا ہے
اور اسے دولت کے خاطر ہر قسم کے برائی کے فروغ کی تلقین کرتا ہے۔جس دور میں مغرب
میں جب فحاشی عام ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ہر ایک کو جنسی آزادی اور کاروبار کا حق
ہونا چاہیے خواہ کوعریانیت کا ہی کیوں نہ ہو۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن
مجید میں فحاشی کو معاشرے میں بگاڑ کا سبب قرار دیا تھا اور اس حوالے سے معاشی
پہلو کو خاص ذکر کیا تھا ۔لیکن وادیانِ مغرب اس کے باوجود آیت کا مکمل
طور پر مصداق بنی اور نتیجہ وہی ہوا جو اللہ نے قرآن "ساء
سبیلا"کے الفاظ سے بتایا تھا، یعنی زناکے قریب جانا وہ راستہ ہے جو کہ
یقیناً فرد و معاشرےکو برے انجام تک لے جاتی ہے۔قرآن کی بیان کردہ اس حقیقت کو
سامنے رکھتے ہوئے یہ اعداد و شمار دیکھیں۔ایک سروے کے مطابق مغرب میں چھ سال کی عمر
میں بچے پورن سائٹ دیکھنے لگ جاتے ہیں، انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیے جانے والا30فیصد
مواد فحاشی پر مبنی ہوتا ہے،[1] تقریباً ہر چالیس منٹ میں ایک فحش فلم بنائی
جاتی ہے اور ہر وقت کم از کم 30ہزار افراد یہ مواد دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے
علاوہ "ریپ کرائسز " نامی ایک معبتر ادارے کے اعداد و شمار دیکھیں جس کے
مطابق ہر سال تقریباً پچاسی ہزار خواتین برطانیہ اور ویلز میں جنسی زیادتی نشانہ
بنتی ہیں، ہر سال تقریباً چار لاکھ خواتین پر جنسی زیادتی کی غرض سے حملہ کیا جاتا
ہےاورہرپانچویں عورت سولہ برس کی عمر تک کسی نہ کسی ذریعے جنسی تشدد سے گزر چکی
ہوتی ہے۔[2] کیا اس سے بھی بھیانک صورتحال کسی معاشرے میں
ہوسکتی ہے؟
یہ حالت صرف مغرب کی نہیں بلکہ کسی نہ کسی سطح
پر ہمارے مشرقی اقدار کے دعویدار معاشروں میں بھی یہ وباء اب عام ہوتی جارہی ہے۔
انٹرنیٹ اور کیبل کی بدولت فحاشی آج ہر گلی محلے تک پہنچ چکی ہے، اور اس پر مزید
یہ کہ ہم نے اپنے کمزور ایمان، غیراسلامی نظریات اور بعض حالات کی بنا پر شادی کی
بنیادی ضرورت کو نوجوانوں کے لیے ناقابلِ رسائی بنادیا ہے،جبکہ زنا آسان سے آسان
تر ہوتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوان
نسل آج اپنے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے دنیا کی نظر سے چھپ کر، انٹرنیٹ کی تاریک
گلیوں میں آوارہ پھرتے ہوئے اپنے قلب و نگاہ کو ناپاک کررہی ہے۔اگر ہم نے اسلامی
تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے شادی کو آسان نہ کیا تو پھر وہ خدا نہ کرے وہ دن دور نہیں
جب ہمارے ہاں بھی یہ اباحیت اسی قدر عام ہوگی ۔مغرب نے خدا فراموشی کے سبب جس چیز
کو جائز ٹھہرایا تھا آج ہم اپنے نوجوانوں کو
اخلاقی کجروی کیاسی راہ پہ ڈال دیا ہے ۔
اللہ کے قانون کے مطابق ابلیسیت کا نظام اپنا
فضلہ خارج کررہا ہے تووہی اہل مغرب جو فحاشی کوآزادی سمجھتے تھے ، اب
اسے ایک ناسور ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں اور وہ اخلاقی قدروں کے تحفظ کے لیے فکر
مند ہوگئے ہیں، یہ تو صرف ڈیوڈ کیمرون کا اعتراف ہے، ورنہ وہاں کی کئی غیر جانب
دار این جی اوزاس حقیقت کا اعتراف برسوں پہلے کرچکی ہیں، آج مغربی مفکرین سر جوڑ
کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنےاس معاشرتی مسئلے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ پورن
سائٹس کو بلاک کرنا اگرچہ ایک مستحسن اقدام ہے لیکن فحاشی کے دیگر کاروبار کرنے
والوں کو اس برائی کے پھیلانے سے آپ کہاں تک روکیں گے؟دولت کے حصول کا یہ
نشہ اس قدر وحشت ناک ہے کہ انسان نے معاشرے میں پائے جانے والی تمام اخلاقی
زنجیروں کو بھی نکال کے پھینک رہا ہے۔ملحدین مذہب کے مقابلے جو اخلاقیات کا تصور
پیش کرتے ہیں اس خبر سے اس کی قلعی کھل گئی ہے کہ بے مذہب انسان اخلاقی اقدار کا
کس قدر لحاظ رکھتا ہے۔ مذہب کی بیان کردہ اخلاقیات کے بغیر آخر وہ کون سا جذبۂ
محرکہ ہوگا جو انھیں بے حیائی کے فروغ سے روک سکے؟
میرے خیال میں جب تک فرد میں برائی کو برائی سمجھنے اور اسے
روکنے کا احساس پیدا نہ ہوگا، جب تک اس کے دل میں خدا کے حضور احساس جوابدہی نہ
ہوگا اس وقت تک انسداد فحاشی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ احساس جوابدہی اور کسی
محرک کے بغیر ساری انسانیت بھی اپنی مژگان کاوش اٹھا لے تب بھی ان سب کا نتیجہ وہی حسرت زدہ صدائیں اور احساسات ہوں
گے جس کا اظہار آج مسٹر کیمرون نے کیا ہے۔