Wednesday, 24 July 2013

پورنوگرافی: مغرب کا ناسور۔

حافظ محمدشارقؔ

آج صبح بی بی سی میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پورنو گرافی(Pornography)بلاک کرنے کااردۂ خیر کیا ہے اور وہ اس حوالے سے ہونے والے معاشرتی نقصانات کے متعلق کافی پریشان ہیں۔انھوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پورنوگرافی ہمارے بچوں کو برباد کررہی ہے، ہر تیسرا بچہ اپنی عمر کے دسویں برس کو پہنچتے ہی ان ویب سائیٹ کو دیکھنے لگتا ہے۔نیز انھوں نے زنا بالجبر یعنی ریپ کی منظر کشی کرنے والی فلم کو خصوصاً بند کرانے کا ارادہ ظاہر کیا۔

 ذاتی طور پر میرے لیے یہ خبر کوئی حیرت ناک نہیں ہے، کیونکہ بحیثیت مسلمان میرا ایمان ہے جو بات ہمارے اللہ نے قرآن مجید میں اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادی وہ بلا شک و شبہ حق ہے، اگرچہ اس کا احساس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والوں کو بعد میں ہو۔

جہاں تک مغرب میں پورنوگرافی کے فروغ کا تعلق ہے تو اٹھارہویں صدی میں جب وہاں الحاد کا فروغ ہوا تو ساتھ ہی فحاشی کا سیلاب برپا ہوا اور مذہب بیزاری کی وجہ سے اخلاقیات کا جنازہ اٹھا۔جنسی آزادی و اباحیت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔کچھ  ہی عرصے میں باقاعدہ طور پر پورنو گرافی پر مبنی فلم انڈسٹری قائم کردی گئی جس میں فحاشی کوعروج پر پہنچایا گیا۔ اور پھر مغرب کے معاشی نظام  بھی اس اخلاقی گراوٹ میں برابر کا شریکِ کار رہا ، بلکہ میرے نزدیک فحاشی کو سپورٹ کرنے میں سب سے اہم کردار ہی اس نظام نے ادا کیا کیونکہ اسی نظام کا اصرار تھا کہ منافع کے حصول کے لیے حلال و حرام کی کوئی تفریق نہیں اور نہ ہی کوئی اخلاقی و مذہبی پابندی ہونی چاہیے ۔ ہر انسان کو تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کے لیے قطعی آزاد چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے جو طریقہ مناسب سمجھے اختیار کرلے، نتیجتاً زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے زیادہ سے زیادہ برائی پیش کی گئی۔ بیسویں صدی میں انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بدولت پورنوگرافی کی وباء بہت زیادہ پھیلی ، جس کا مشاہدہ آج ہم مشرقی ممالک میں بھی بخوبی کررہے ہیں۔لیکن اس کارجحان مغرب میں روحانیت کے فقدان کے سبب زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہاں پورنوگرافی(Pornography) انڈسٹری کو آزادیٔ رائے اور شخصی آزادی کے اصولوں کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ان کے نزدیک فحاشی بھی ایک انڈسٹری ہےاور اس میں کام کرنے والوں کی  حیثیت عصمت فروش یا طوائف کی نہیں بلکہ یہ محض ایک فلمی پیشے کی حیثیت رکھتا ہے۔

پورنوگرافی یعنی فحاشی کے بارے میں دین ِ اسلام نے اپنا موقف چودہ سو سال قبل ہی واضح کردیا تھا۔ اسلام نے  معاشرے کو زنا اور جنسی انتشار سے بچانے کے لیے فحاشی کے فروغ پر پابندی لگائی ہے اور معاشرے کو پاکیزہ اور مثبت اقدار پر قائم کرنے کی ہدایت دی۔قرآن مجید میں یہ تعلیمات بہت سے مقامات پر ہیں۔مثلاً

شیطٰن یعدکم الفقر ویأمرکم بالفحشاء ۔ (البقرۃ268 :)
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔

ولا تقربوا الزني انه كان فاحشة وساء سبيلا (بنی اسرائیل: 32)
اور زنا كے قريب بھى نہ جانا كہ يہ فحاشی  ہے اور بہت برا راستہ ہے۔

فحش برے اور بے حیائی کے کام کو کہتے ہیں بالخصوص یہ لفظ جنسی راہ روی کے لیے خاص استعمال ہوتا ہے۔ آیت میں واضح  طور پر بتایا گیا ہے کہ ہر وہ كام كہ جوانسان كو زنا كے قريب بھی لے جاتا ہے اس سے بچنا لازم اور واجب ہے۔ قابل غور نکتہ ہے کہ الله تعالى نے ''لا تزنوا'' (ىعنی زنا نہ كرو)نہیں فرمایا؛؛ بلکہ  زنا کے قریب بھی جانے سےمنع فرمایا۔یعنی اس نكتہ كى طرف توجہ دلا ئی کہ ہر وہ عمل جو زنا پر ختم ہوچونكہ وہ بدكارى كى طرف لے جانے والا عمل ہے وہ حرام ہے۔یعنی زنا سے متلق خیالات اور اس کی جانب لے جانے والے اقدامات بھی اس زمرے میں شامل ہیں ۔لہٰذا ان ذرائع کا استعمال بھی حرام ہے جو زنا سے قریب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔یہ بات یہ یقیناً کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پورنو گرافی زنا کا ایک سب سے اہم سبب ہے۔

اول الذکر آیت اس حقیقت کو بالکل صاف انداز میں بیان کرتی ہے کہ شیطان انسان کو فکرِ معاش کے بہانے سے بے حیائی کی تلقین کرتا ہے اور اسے دولت کے خاطر ہر قسم کے برائی کے فروغ کی تلقین کرتا ہے۔جس دور میں مغرب میں جب فحاشی عام ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ہر ایک کو جنسی آزادی اور کاروبار کا حق ہونا چاہیے خواہ  کوعریانیت کا ہی کیوں نہ ہو۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فحاشی کو معاشرے میں بگاڑ کا سبب قرار دیا تھا اور اس حوالے سے معاشی پہلو کو خاص ذکر کیا  تھا ۔لیکن  وادیانِ مغرب اس کے باوجود آیت کا مکمل طور پر مصداق بنی اور نتیجہ  وہی ہوا جو اللہ نے قرآن "ساء سبیلا"کے الفاظ سے بتایا تھا، یعنی زناکے قریب جانا وہ راستہ ہے  جو کہ یقیناً فرد و معاشرےکو برے انجام تک لے جاتی ہے۔قرآن کی بیان کردہ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے  یہ اعداد و شمار دیکھیں۔ایک سروے کے مطابق مغرب میں چھ سال کی عمر میں بچے پورن سائٹ دیکھنے لگ جاتے ہیں، انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیے جانے والا30فیصد مواد فحاشی پر مبنی ہوتا ہے،[1] تقریباً ہر چالیس منٹ میں ایک فحش فلم بنائی جاتی ہے اور ہر وقت کم از کم  30ہزار افراد یہ مواد دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ "ریپ کرائسز " نامی ایک معبتر ادارے کے اعداد و شمار دیکھیں جس کے مطابق ہر سال تقریباً پچاسی ہزار خواتین برطانیہ اور ویلز میں جنسی زیادتی نشانہ بنتی ہیں، ہر سال تقریباً چار لاکھ خواتین پر جنسی زیادتی کی غرض سے حملہ کیا جاتا ہےاورہرپانچویں عورت سولہ برس کی عمر تک کسی نہ کسی ذریعے جنسی تشدد سے گزر چکی ہوتی ہے۔[2] کیا اس سے بھی بھیانک صورتحال کسی معاشرے میں ہوسکتی ہے؟
یہ حالت صرف مغرب کی نہیں بلکہ کسی نہ کسی سطح پر ہمارے مشرقی اقدار کے دعویدار معاشروں میں بھی یہ وباء اب عام ہوتی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ اور کیبل کی بدولت فحاشی آج ہر گلی محلے تک پہنچ چکی ہے، اور اس پر مزید یہ کہ ہم نے اپنے کمزور ایمان، غیراسلامی نظریات اور بعض حالات کی بنا پر شادی کی بنیادی ضرورت کو نوجوانوں کے لیے ناقابلِ رسائی بنادیا ہے،جبکہ زنا آسان سے آسان تر ہوتا جارہا ہے۔  جس کی وجہ سے نوجوان نسل آج اپنے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے دنیا کی نظر سے چھپ کر، انٹرنیٹ کی تاریک گلیوں میں آوارہ پھرتے ہوئے اپنے قلب و نگاہ کو ناپاک کررہی ہے۔اگر ہم نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے شادی کو آسان نہ کیا تو پھر وہ خدا نہ کرے وہ دن دور نہیں جب ہمارے ہاں بھی یہ اباحیت اسی قدر عام ہوگی ۔مغرب نے خدا فراموشی کے سبب جس چیز کو جائز ٹھہرایا تھا آج ہم اپنے نوجوانوں کو اخلاقی کجروی کیاسی راہ پہ ڈال دیا ہے ۔
اللہ کے قانون کے مطابق ابلیسیت کا نظام اپنا فضلہ خارج کررہا ہے   تووہی اہل مغرب جو فحاشی کوآزادی سمجھتے تھے ، اب اسے ایک ناسور ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں اور وہ اخلاقی قدروں کے تحفظ کے لیے فکر مند ہوگئے ہیں، یہ تو صرف ڈیوڈ کیمرون کا اعتراف ہے، ورنہ وہاں کی کئی غیر جانب دار این جی اوزاس حقیقت کا اعتراف برسوں پہلے کرچکی ہیں، آج مغربی مفکرین سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنےاس معاشرتی مسئلے  مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ پورن سائٹس کو بلاک کرنا اگرچہ ایک مستحسن اقدام ہے لیکن فحاشی کے دیگر کاروبار کرنے والوں کو اس برائی کے پھیلانے سے آپ  کہاں تک روکیں گے؟دولت کے حصول کا یہ نشہ اس قدر وحشت ناک ہے کہ انسان نے معاشرے میں پائے جانے والی تمام اخلاقی زنجیروں کو بھی نکال کے پھینک رہا ہے۔ملحدین مذہب کے مقابلے جو اخلاقیات کا تصور پیش کرتے ہیں اس خبر سے اس کی قلعی کھل گئی ہے کہ بے مذہب انسان اخلاقی اقدار کا کس قدر لحاظ رکھتا ہے۔ مذہب کی بیان کردہ اخلاقیات کے بغیر آخر وہ کون سا جذبۂ محرکہ ہوگا جو انھیں بے حیائی کے فروغ سے روک سکے؟
میرے خیال میں جب تک فرد میں برائی کو برائی سمجھنے اور اسے روکنے کا احساس پیدا نہ ہوگا، جب تک اس کے دل میں خدا کے حضور احساس جوابدہی نہ ہوگا اس وقت تک انسداد فحاشی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ احساس جوابدہی اور کسی محرک کے بغیر  ساری انسانیت بھی اپنی مژگان  کاوش اٹھا لے تب بھی  ان سب کا نتیجہ وہی حسرت زدہ صدائیں اور احساسات ہوں گے  جس کا اظہار آج  مسٹر کیمرون نے کیا ہے۔
حافظ محمدشارقؔ
hmshariq@gmail.com
hmshariq@islamic-studies.info

Sunday, 21 July 2013

علماء بیزاری ۔


علماء بیزاری
محمد بلالؔ

عصر حاضر میں ملت اسلامیہ جن فتنوں میں مبتلا ہے ان میں سے ایک عظیم فتنہ علماء بیزاری بھی ہے۔امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے علمائے کرام کوانبیاءکا وارث قرار دیا ہے کیونکہ ان کے  فرائض منصبی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و  کردار اور تعلیمات کی تبلیغ اور امت مسلمہ کی رہنمائی شامل ہے، جسے علماء کرام الحمد لله اپنے اپنے دائرہ میں بجا لا رہے ہیں۔
 لیکن افسوس کہ آج ان ورثاء کے خلاف اور وہ علم جس کی بنیاد پر وہ وارث ہیں، دشمنانِ اسلام اور مغرب زدہ طبقے کی ایک ایسی انوکھی سازش رچائی ہوئی ہے جس کا موجودہ  پُر فتن دور میں رہنے والےسادہ لوح مسلمان بہت آسانی سے شکار ہوچکے ہیں۔امت کا عروج و زوال اس بات پر موقوف ہے کہ ان کا تعلق دین سے کس قدر ہے، اور بدیہی طور پر عوام الناس کا تعلق دین سےعلمائے کرام کی وساطت ہی ہوتا ہے۔
علمائے کرام جو دین کی اصل روح بیان فرماتے ہیں، جنھیں سُن کر، جن کی صحبت میں رہ کر مومنین اپنے ایمان میں ترقی کرجاتے ہیں لیکن یہ تعلق دشمنان اسلام کو ہضم نہیں ہوتا، وہ چاہتے ہیں کہ امت میں  علمائے حق سے بیزاری کی عام فضاء پھیلادی جائے اور اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک نیا فتنہ متعارف کروایا ہےوہ ہے میڈیا کے علماء۔
 میڈیا کے یہ اسلامی سکالرز اس لیے پیش کیے گئے ہیں کہ مسلمان اپنی دینی قیادت مستند و معتبر علمائے کرام کے بجائے ان اسلامی اسکالرز کو تسلیم کرلیں۔ اسلامک سکالرز کے نام پر ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جن کے الفاظ نہایت شریں اور زبان بے حد خوبصورت ہے، مگر اصل کچھ اور۔ یہ  وہ حضرات ہیں کہ جنھوں  نے اپنے چہرے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم کر رکھے ہیں۔ ان نام نہاد  اسلامی  اسکالرز کو کہیں اشتہار میں دیکھ کر میری روح پکارتی ہے کیا  ان "اسلامی سکالرز" کا دل نہیں لرز اٹھتا جب وہ اپنے پیارے نبی کی سنت کو نالی میں بہادیتے ہیں۔ جن مہمان علمائے کرام / اسکالرز کو یہ میزبان اسکالرز اپنے پروگرام میں بلاتے  ہیں ان کی ڈارھیاں تو سنت کے مطابق ہوتی ہیں تو یہ کون سا سکالرزکا طبقہ ہے جن کے لیے واجب پر عمل کرنا ضروری نہیں؟
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ نام نہاد متعصب سکالرز اسلامی روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں ان کے مطالعہ کا ماخذ حقیقی اسلامی فکر نہیں بلکہ مغرب کی وہ وادیاں ہیں  جہاں دین اسلام کے خلاف مختلف شکوک و شہبات کی تخم ریزی کی جاتی ہے۔ان کے  مطالعے میں وہ وسعت و گہرائی نہیں جو ایک عالم دین میں ہوتی ہے۔یہ لوگ چند کتابیں رٹ کر وہ دین پیش کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے غیر مسلموں سے سیکھا ہے۔ایسے لوگوں کی حقیقت میں حبِ جاہ کے مرض میں مبتلاء ہیں جنھوں نے  صرف شہرت طلبی اور پیسوں کے خاطردوسروں کو سھدارنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ایساعلم یقیناً روزِ محشر رسوائی کا سبب ہوگا جس کی بنیاد حبِ رسول نہیں بلکہ حب جاہ ہو۔
علم بے عشق است از طاغوتیاں
علم با عشق است از لاہوتیاں
ایک "اسلامی اسکالر" صاحب کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ خود کو اللہ کا ولی قرار دیتے ہیں اور دورانِ گفتگو زبان کے ساتھ ان کے ہاتھ میں تسبیح بھی چلتی جاتی ہے، اور ان اسکالر صاحب کی شانِ علمیت تو دیکھیں کہ وہ ایک کوئز شو میں بتاتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم و بیش چھ ہزار برس قبل آئے۔ میرے نزدیک ایسے شخص کو  نہ ہی دین کا علم ہے نہ ہی تاریخ کا۔ایسے "عالم" کے علم کے بارے میں اقبال نے خوب تبصرہ کیا ہے۔
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہو جہاں میں دو کفِ جَو
یہ حالات دیکھ کرمجھے اپنے نبی پاک فدا ہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ یاد آرہے ہیں جو غالباً انھی حالات کی پیشن گوئی میں فرمائے گئے۔
 اﷲ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کو موت د ے کر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرں کو بھی گمراہ کریں گے۔(بخاری۔ کتاب العلم)
 علمائے کرام سے دوری کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں اب علمِ دین سیکھنے کا وہ جذبہ نہیں رہا جو کبھی ہمارے اسلاف میں بے انتہاء موجودتھا۔ آج ہم ایک طرف اپنی اولاد کو دنیا کے بہترین علوم و فنون سکھانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے ہیں پر اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ مستقبل ان معمار وں کو، جو امت مسلمہ کے ترجمان ہوں گے، انھیں نمازو قرآن بھی آتا ہے یا نہیں؟
مرض کی نشاندہی کے بعد اب اس کے علاج کی طرف آتے ہیں کہ آخر کس طرح ہم اس ناپاک سازش کو ناکام بناسکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں جوئے شیر کی سی محنت کی ضرورت نہیں بلکہ بس چند ایک باتوں پر عمل کرلیا جائے تو یہ نوزائدہ فتنہ خود ہی  جوان ہونے سے قبل دم توڑ دے گا۔
اس ضمن میں سب سے پہلے ہمیں قرآن مجید کے اس حکم  کو اپنے ذہن و قلب میں جمالینا چاہیے کہ "اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سےسوال۔" آیت مبارکہ میں اہل علم سے مراد وہی ورثائے انبیاء ہیں جنھوں نے ہمارے دین کو زندہ رکھا ہے۔اگرچہ علمائے حق کی تعدادبمطابق  حدیث کے دن بدن گھٹتی چلی جارہی ہے لیکن الحمد اللہ اب بھی ہمارےارد گرد اچھے حق پرست علماء موجودہیں۔ ہمیں خود کے لیے ان کی صحبت اختیار کرنا لازم کرنا ہوگا۔ ان کی دینی محفلوں میں شرکت صرف ایک رسمی طور پر نہیں بلکہ سیکھنے اور عمل کے جذبے کے تحت کریں اور اُس پر عمل کرتے ہوئے اسے اپنے اہل و عیال ، دوستوں اور رشتہ داروں تک بھی پہنچائیں۔ یہی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "پہنچادو میری طرف سے اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔" لہٰذا دعوت وتبلیغ کے لیے سب سے کم Qualification یہ ہے کہ ایک آیت بھی آگے پہنچادی جائے۔ لہٰذا ایک اچھی بات پتہ چلے  تو اسے خود تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی تک ضرور پہنچائیں۔ خود قرآن کو پڑھیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ جہاں کہیں کچھ اشکال پیدا ہو،اطمینان قلب کے لیے  علماء سےرجوع کریں۔اور آخر میں ایک انتہائی اہم بات۔ وہ یہ کہ خود کو اور اپنے گھر والوں کو میڈیا کے اس گندے تالاب سے بچاکر رکھیں جہاں رنگین مزاج"سلالرز" "رنگین  اسلام" پیش کررہے ہیں اور غیر شعوری طور پر مسلمانوں کوعلمائے حق سے دور کررہے ہیں۔
یاد رکھیں ہمیں ان سب باتوں پر عمل کرنا ، اور لازمی کرنا ہے ورنہ قرآن کا یہ فیصلہ ہم پر صادر ہوگا کہ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کریں۔اقبال کے ان اشعار سے اس تحریر کو ختم کروں گا اس امید سے کہ شاید کہ اترجائے میری بات تیرے دل میں۔ ۔۔اقبال کہتےہیں:
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک و خیال خیالِ بلند و ذوقِ لطیف  

محمد بلالؔ
bilal_king_4@hotmail.com


(بلاگر کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں) 

دینِ اکبری اور شریعت کی مخالفت

Wednesday, 17 July 2013

علوم القرآن پروگرام



السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے۔ اس مقدس مہینے میں ہم پر اللہ تعالی کا سب سے بڑا احسان یہ ہوا کہ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا۔ اس ماہ مقدس کا صحیح استعمال یہ ہے کہ ہم اس کے شب و روز کو اللہ تعالی کی کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے وقف کر دیں۔ اسلامک اسٹڈیز پروگرام کے تحت ’’علوم القرآن پروگرام‘‘ اسی مقصد کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ بعض بھائیوں کے مشورے سے اس رمضان میں ہم اس پروگرام کو ری ڈیزائن کر رہے ہیں اور اس میں مزید ماڈیولز کا اضافہ کر رہے ہیں۔ پروگرام کا مجموعی ڈیزائن اب اس طرح سے ہو گا۔

علوم القرآن پروگرام کا ڈیزائن

اس پروگرام کو ماڈیولز کی دو سیریز میں تقسیم کیا گیا ہے:

· ایک سیریز قرآن مجید سے متعلق علوم پر مبنی ہے۔ اس کے تین ماڈیولز ہیں۔

· دوسری سیریز قرآن مجید کے متن اور تفاسیر کے مطالعے پر مشتمل ہے۔ اس سیریز میں چھ ماڈیولز ہیں۔

پہلی سیریز کا مقصد یہ ہے کہ طلبا میں قرآن فہمی کا ذوق پیدا کیا جائے اور انہیں نہایت ہی دلچسپ انداز میں قرآن مجید کے مضامین سے آگاہ کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید سے متعلق جو علمی نوعیت کے مباحث ہیں، ان کا مطالعہ کر لیا جائے۔ اس سیریز کے ماڈیولز یہ ہیں:

· QS01: اس ماڈیول میں ہم قرآن مجید میں بیان کردہ قصص کا مطالعہ کریں گے۔ چونکہ عام لوگ قصے کہانیوں میں دلچسپی لیتے ہیں، اس لیے ان قصوں کے ذریعے قرآن مجید کے مطالعے کا شوق پیدا کرنا اس ماڈیول کا مقصد ہے۔ یہ ماڈیول ہماری ٹیم کے ایک رکن پروفیسر محمد عقیل صاحب نے تیار کیا ہے۔ اس میں قرآنی قصص کو ان عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے:

پہلا حصہ: انبیا کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے قصے

دوسرا حصہ: اقوام کے قصے

تیسرا حصہ: نیک ہستیوں کے قصے

چوتھا حصہ: برے کرداروں کے قصے

پانچواں حصہ: قرآن کے انکشافات

· QS02: اس ماڈیول میں ہم قرآن مجید کے مضامین کا اجمالی جائزہ لیں گے۔ اس ماڈیول میں قرآن مجید کی ترتیب و تنظیم، قرآن فہمی کے اصول، قرآن میں بیان کردہ عقائد، اخلاقیات اور شریعت زیر بحث آئیں گے۔

· QS03: یہ ماڈیول قرآن مجید کے ایک منتخب نصاب پر مشتمل ہے۔ اس ماڈیول کا مقصد طلبا کو قرآن مجید کے مضامین سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے اندر پورے قرآن کو پڑھنے کا ذوق پیدا کرنا ہے۔ اس ماڈیول میں ہم قرآن مجید کے کچھ مخصوص اقتباسات لے کر ان پر عملی کام کریں گے۔ اس لیول کے اختتام پر ہم قرآن مجید کے پیغام سے متعارف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا مطالعہ کرنے کے لئے درکار بنیادی معلومات بھی حاصل کر چکے ہوں گے۔ اسی ماڈیول پر ہم یہ کوشش کریں گے کہ اپنا تزکیہ نفس کرتے ہوئے اپنی شخصیت کو قرآن کے بیان کردہ آئیڈیل کے مطابق ڈھال سکیں۔

· QS04: یہ بہت ایڈوانسڈ سطح کا ماڈیول ہو گا جس میں نظم قرآن، قرآن کی تاریخ، اصول تفسیر، فن تفسیر کی تاریخ، علوم القرآن سے متعلق معرکۃ الآرا اختلافی مباحث اور قرآن پر کیے جانے والے اعتراضات کا مفصل مطالعہ شامل ہو گا۔

دوسری سیریز کا مقصد قرآن مجید کے مکمل متن اور تفاسیر کا مطالعہ کرنا ہے۔ اس میں یہ ماڈیولز ہیں:

· QT01: یہ ماڈیول سورۃ الفاتحہ سے لے کر سورۃ المائدہ کے متن اور تفاسیر کے مطالعے پر مشتمل ہے۔

· QT02: اس میں ہم سورۃ الانعام سے لے کر سورۃ التوبہ کے متن او رتفاسیر کا مطالعہ کریں گے۔

· QT03: اس ماڈیو ل میں ہم سورۃ یونس سے لے کرسورۃ النور کے متن اور تفاسیر کا مطالعہ کریں گے۔

· QT04: یہ ماڈیول سورۃ الفرقان سے لے کر سورۃ الحجرات کے متن اور تفاسیر کے مطالعے پر مشتمل ہے۔

· QT05: اس ماڈیول میں سورۃ ق سے لے کر سورۃ الناس کے متن اور تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے گا۔

ماڈیولز QS01, QS02, QS03 تمام قارئین کے لیے دستیاب کر دیے گئے ہیں اور یہ سب اس لنک پر موجود ہیں:

http://www.islamic-studies.info/?page_id=281

بقیہ ماڈیولز کے لیے رجسٹریشن درکار ہے جو آپ اس لنک سے کر سکتے ہیں:

http://www.islamic-studies.info/?page_id=1209

آپ سے گزارش ہے کہ ان لنکس سے ان ماڈیولز کو ڈاؤن لوڈ کر کے ان کا مطالعہ شروع کر دیجیے۔ جو بھائی اور بہنیں ایڈوانسڈ سطح پر مطالعہ کرنا چاہیں، وہ رجسٹریشن کروا لیں۔ جو سوالات آپ کے ذہن میں پیدا ہوں، وہ بلا تکلف روزانہ ہمیں بھیجیے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ آپ کو کم سے کم وقت میں ان کا جواب فراہم کر دیا جائے۔
اللہ تعالی ہم سب کو قرآن پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔