علماء بیزاری
محمد بلالؔ
عصر
حاضر میں ملت اسلامیہ جن فتنوں میں مبتلا ہے ان میں سے ایک عظیم فتنہ علماء بیزاری
بھی ہے۔امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے علمائے کرام
کوانبیاءکا وارث قرار دیا ہے کیونکہ ان کے
فرائض منصبی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار اور تعلیمات کی تبلیغ اور امت مسلمہ کی رہنمائی
شامل ہے، جسے علماء کرام الحمد لله اپنے اپنے دائرہ میں بجا لا رہے ہیں۔
لیکن افسوس کہ آج ان ورثاء کے خلاف اور وہ علم
جس کی بنیاد پر وہ وارث ہیں، دشمنانِ اسلام اور مغرب زدہ طبقے کی ایک ایسی انوکھی
سازش رچائی ہوئی ہے جس کا موجودہ پُر فتن
دور میں رہنے والےسادہ لوح مسلمان بہت آسانی سے شکار ہوچکے ہیں۔امت کا عروج و زوال
اس بات پر موقوف ہے کہ ان کا تعلق دین سے کس قدر ہے، اور بدیہی طور پر عوام الناس
کا تعلق دین سےعلمائے کرام کی وساطت ہی ہوتا ہے۔
علمائے
کرام جو دین کی اصل روح بیان فرماتے ہیں، جنھیں سُن کر، جن کی صحبت میں رہ کر
مومنین اپنے ایمان میں ترقی کرجاتے ہیں لیکن یہ تعلق دشمنان اسلام کو ہضم نہیں
ہوتا، وہ چاہتے ہیں کہ امت میں علمائے حق
سے بیزاری کی عام فضاء پھیلادی جائے اور اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک نیا فتنہ
متعارف کروایا ہےوہ ہے میڈیا کے علماء۔
میڈیا کے یہ اسلامی سکالرز اس لیے پیش کیے گئے
ہیں کہ مسلمان اپنی دینی قیادت مستند و معتبر علمائے کرام کے بجائے ان اسلامی
اسکالرز کو تسلیم کرلیں۔ اسلامک سکالرز کے نام پر ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جن کے
الفاظ نہایت شریں اور زبان بے حد خوبصورت ہے، مگر اصل کچھ اور۔ یہ وہ حضرات ہیں کہ جنھوں نے اپنے چہرے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے
محروم کر رکھے ہیں۔ ان نام نہاد
اسلامی اسکالرز کو کہیں اشتہار میں
دیکھ کر میری روح پکارتی ہے کیا ان
"اسلامی سکالرز" کا دل نہیں لرز اٹھتا جب وہ اپنے پیارے نبی کی سنت کو
نالی میں بہادیتے ہیں۔ جن مہمان علمائے کرام / اسکالرز کو یہ میزبان اسکالرز اپنے
پروگرام میں بلاتے ہیں ان کی ڈارھیاں تو
سنت کے مطابق ہوتی ہیں تو یہ کون سا سکالرزکا طبقہ ہے جن کے لیے واجب پر عمل کرنا
ضروری نہیں؟
زباں
سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل
و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ
بھی نہیں
یہ
نام نہاد متعصب سکالرز اسلامی روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں ان کے مطالعہ کا ماخذ
حقیقی اسلامی فکر نہیں بلکہ مغرب کی وہ وادیاں ہیں جہاں دین اسلام کے خلاف مختلف شکوک و شہبات کی
تخم ریزی کی جاتی ہے۔ان کے مطالعے میں وہ وسعت
و گہرائی نہیں جو ایک عالم دین میں ہوتی ہے۔یہ لوگ چند کتابیں رٹ کر وہ دین پیش
کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے غیر مسلموں سے سیکھا ہے۔ایسے لوگوں کی حقیقت میں حبِ
جاہ کے مرض میں مبتلاء ہیں جنھوں نے صرف
شہرت طلبی اور پیسوں کے خاطردوسروں کو سھدارنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ایساعلم
یقیناً روزِ محشر رسوائی کا سبب ہوگا جس کی بنیاد حبِ رسول نہیں بلکہ حب جاہ ہو۔
علم
بے عشق است از طاغوتیاں
علم
با عشق است از لاہوتیاں
ایک
"اسلامی اسکالر" صاحب کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ خود کو اللہ کا ولی
قرار دیتے ہیں اور دورانِ گفتگو زبان کے ساتھ ان کے ہاتھ میں تسبیح بھی چلتی جاتی
ہے، اور ان اسکالر صاحب کی شانِ علمیت تو دیکھیں کہ وہ ایک کوئز شو میں بتاتے ہیں
کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم و بیش چھ ہزار برس قبل
آئے۔ میرے نزدیک ایسے شخص کو نہ ہی دین کا
علم ہے نہ ہی تاریخ کا۔ایسے "عالم" کے علم کے بارے میں اقبال نے خوب
تبصرہ کیا ہے۔
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہو جہاں میں دو کفِ جَو
جس علم کا حاصل ہو جہاں میں دو کفِ جَو
یہ
حالات دیکھ کرمجھے اپنے نبی پاک فدا ہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ
یاد آرہے ہیں جو غالباً انھی حالات کی پیشن گوئی میں فرمائے گئے۔
اﷲ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے
سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کو موت د ے کر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی
عالم باقی نہ رہے گا تو جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے
جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرں کو بھی
گمراہ کریں گے۔(بخاری۔ کتاب العلم)
علمائے کرام سے دوری کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی
ہے کہ لوگوں میں اب علمِ دین سیکھنے کا وہ جذبہ نہیں رہا جو کبھی ہمارے اسلاف میں
بے انتہاء موجودتھا۔ آج ہم ایک طرف اپنی اولاد کو دنیا کے بہترین علوم و فنون
سکھانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے ہیں پر اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ مستقبل ان
معمار وں کو، جو امت مسلمہ کے ترجمان ہوں گے، انھیں نمازو قرآن بھی آتا ہے یا
نہیں؟
مرض
کی نشاندہی کے بعد اب اس کے علاج کی طرف آتے ہیں کہ آخر کس طرح ہم اس ناپاک سازش
کو ناکام بناسکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں جوئے شیر کی سی محنت کی ضرورت نہیں بلکہ بس
چند ایک باتوں پر عمل کرلیا جائے تو یہ نوزائدہ فتنہ خود ہی جوان ہونے سے قبل دم توڑ دے گا۔
اس
ضمن میں سب سے پہلے ہمیں قرآن مجید کے اس حکم
کو اپنے ذہن و قلب میں جمالینا چاہیے کہ "اگر تم نہیں جانتے تو اہل
علم سےسوال۔" آیت مبارکہ میں اہل علم سے مراد وہی ورثائے انبیاء ہیں جنھوں نے
ہمارے دین کو زندہ رکھا ہے۔اگرچہ علمائے حق کی تعدادبمطابق حدیث کے دن بدن گھٹتی چلی جارہی ہے لیکن الحمد
اللہ اب بھی ہمارےارد گرد اچھے حق پرست علماء موجودہیں۔ ہمیں خود کے لیے ان کی
صحبت اختیار کرنا لازم کرنا ہوگا۔ ان کی دینی محفلوں میں شرکت صرف ایک رسمی طور پر
نہیں بلکہ سیکھنے اور عمل کے جذبے کے تحت کریں اور اُس پر عمل کرتے ہوئے اسے اپنے
اہل و عیال ، دوستوں اور رشتہ داروں تک بھی پہنچائیں۔ یہی ہمارے پیارے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "پہنچادو میری
طرف سے اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔" لہٰذا دعوت وتبلیغ کے لیے سب سے کم Qualification یہ ہے کہ ایک آیت بھی آگے پہنچادی جائے۔ لہٰذا ایک اچھی بات پتہ
چلے تو اسے خود تک محدود نہ رکھیں بلکہ
اپنے دوسرے مسلمان بھائی تک ضرور پہنچائیں۔ خود قرآن کو پڑھیے اور سمجھنے کی کوشش
کیجیے۔ جہاں کہیں کچھ اشکال پیدا ہو،اطمینان قلب کے لیے علماء سےرجوع کریں۔اور آخر میں ایک انتہائی اہم
بات۔ وہ یہ کہ خود کو اور اپنے گھر والوں کو میڈیا کے اس گندے تالاب سے بچاکر رکھیں
جہاں رنگین مزاج"سلالرز" "رنگین
اسلام" پیش کررہے ہیں اور غیر شعوری طور پر مسلمانوں کوعلمائے حق سے
دور کررہے ہیں۔
یاد
رکھیں ہمیں ان سب باتوں پر عمل کرنا ، اور لازمی کرنا ہے ورنہ قرآن کا یہ فیصلہ ہم
پر صادر ہوگا کہ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت بدلنے
کی کوشش نہ کریں۔اقبال کے ان اشعار سے اس تحریر کو ختم کروں گا اس امید سے کہ شاید
کہ اترجائے میری بات تیرے دل میں۔ ۔۔اقبال کہتےہیں:
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے
نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک و خیال خیالِ
بلند و ذوقِ لطیف
محمد
بلالؔ
bilal_king_4@hotmail.com
(بلاگر کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)
No comments:
Post a Comment