السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سورہ بقرہ کی آیات تین تا پانچ کا خلاصہ حاضر ہے ۔ الحمد اللہ آپ سب بھائیو اور بہنو نے تقریبا تمام ہی پہلووں سے ان آیات مبارکہ کوسمجھ کر بیان کیا اور خوب بیان کیا۔ نیز اس پر اٹھنے والے سوالات کو بھی ہرہر پہلو سے
بیان کرنے کی کوشش کی۔ میں نے آپ سب کی بحثوں کو تین مرتبہ پڑھا۔ پہلی مرتبہ ای میلز میں ، دوسری مرتبہ اور تیسر مرتبہ خلاصہ سے قبل ۔ بہت ہی عمدہ طریقے سے آپ سب اپنے اپنے فہم کو بیان کیا ہے۔کچھ بھائیو اور بہنو کا تبصرہ تو بہت ہی پسند آیا لیکن میں نام نہیں لینا چاہتا ۔ چونکہ آپ سب نے تفصیل سے تمام پہلووں کو ڈسکس کرلیا ہے اس لئے میری کوشش ہوگی کہ اختصار کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کردوں۔
اصول تفسیر
گذشتہ سیشن میں ہم نے چار اصول پڑھے تھے۔ انہیں میں چاہتا ہوں کہ دہرادوں ۔ وہ تھے
۱۔سیاق و سباق کا لحاظ
۲۔خطاب کرنے والے کا تعین
۳۔ مخاطب کا تعین
۴۔ کامن سینس کا استعمال
ان کا اطلاق میں نے دیکھا کہ کچھ ساتھیوں نے کیا ہے اور اسی بنا پر ان کے بیان میں ایک زور پیدا ہوگیا ہے۔ جن ساتھیوں نے ان کا لحاظ نہیں کیا ان سے درخواست ہے کہ ان کا ضرور خیال کریں، ان سے بڑے مسئلے حل ہوجاتے ہیں ورنہ عموما انسان ٹامک ٹوئیاں مارتا رہ جاتا ہے لیکن حقیقت کو مشکل ہی سے بیان کرپاتا ہے۔
۵۔اب میں ایک اور اصول تفسیر بیان کردوں جو زیر بحث آیات میں استعمال ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر سب سے پہلے قرآن ہی سے کی جائے گی۔ مثال کے طور پر اگر ہم غیب کی بات کریں تو قرآن نے غیب کا لفظ کن کن مفاہیم میں استعمال کیا ہے ، یہ جاننا بڑا ضروری ہے۔ کچھ ساتھیوں نے اس اصول کا اطلاق کیا ہے۔
آیات کا پس منظر
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ Ǽۙ وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ Ćۭاُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ ۤ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ Ĉ
یہ وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ، نماز قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو اتارا گیا آپ پر اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں۔ وہی لوگ اپنے رب کے راستہ پر ہیں اور وہی نجات پانے والے ہیں۔
وضاحت
جیسا کہ پہلے ہم نے پڑھا تھا کہ یہ سورۃ اصلا یہود کو مخاطب کررہی ہے ۔اب اگر ہم ان اصولوں کا اطلاق کریں جو اوپر بیان ہوئے تو یہود کو یہ بتایا جارہا ہے کہ اس کتاب کے من جانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اور اگر تم ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی بنیادی شرط ہے کے برائی سے بچنے کی خواہش پیدا کرو۔
اگر ہم تفسیر کے اصول کو اپلائی کریں تو یہ علم ہوتا ہے کہ یہود کو بتایا جارہا ہے تم اگر فلاح یافتہ ہونا چاہتے ہو تو وہ صفات پید اکرو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں ہیں۔ اب صحابہ میں تو بے شمار صفات تھیں ۔ تو قرآن کا کما ل دیکھیں کہ چن چن کر وہ تمام صفات بیان کردیں جن کے نہ ہونے کی بنا پر یہود ایمان لانے سے قاصر تھے۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ تو ہمیں علم کے کہ یہود کا من حیث القوم اصل مسئلہ محسوسات کی دنیا ہی میں جینا اور مادیت پرستی کی بنا پر غیب کو ماننے سے عملا گریز کرنا تھا۔ ابتدا ہی میں انہوں نے موسی علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہمیں بھی کوئی بت بنادیں یا پھر کہا تھا کہ خدا کو ہم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ یہی مادیت و محسوسات پرستی مدینہ کے یہود میں بھی سرایت کرچکی تھی۔
دوسرے مرحلے میں بتایا کہ یہ و ہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ نماز خدا و بندہ کا تعلق اور زکوٰۃ بندے اور بندے کا تعلق ہے ۔ یہود ان دونوں میں بہت کمزور ہوچکے تھے۔ آگے وہی ذکر ہے کہ یہ لوگ متعصب نہیں بلکہ یہ اپنے اوپر نازل کردہ وحی اور اس سے قبل کی وحی کو مانتے ہیں اور متعصب نہیں۔ پھر آخر میں بتادیا کہ یہ لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور تمہاری طرح نہیں کہ آخرت کا ذکر تک تم نے اپنی کتب سے نکال دیا۔
اس پس منظر کو دیکھیں اور اس کے بعد جوابا ت دیکھتے ہیں۔ اب جوابات بہت متعین اور آسان ہوجائیں گے۔
۱۔ ایمان لانے سے کیا مراد ہے؟ کیا محض زبان کا اقرار یعنی کلمہ پڑھ لینا ایمان ہے؟ یا دل کی تصدیق بھی ضروری ہے؟یا اسے عمل سے ثابت کرنا بھی لازمی ہے؟
ایمان سے مراد یہاں ماننا ہی ہے۔ اور یہ ماننا اصلا دل سے ہے جبکہ زبان سے کہنا اس ماننے کے اظہار کا طریقہ ہے اور عمل اس ماننے کا ثبوت۔
۲۔ غیب سے کیا مراد ہے؟ اور اس میں کون کون سی باتیں شامل ہیں۔
غیب سے مراد محسوسات سے ماورا وہ دینی امور ہیں جو حواس خمسہ کی گرفت میں نہیں آتے۔اس پر ڈاکٹر اسد تا انگلش ترجمہ بہترین طور پر مدعا بیان کرتا ہے:
Those believe in what is beyond their perception.
یعنی انہیں دیکھا، سونگھا، چکھا، چھوا یا سنا نہیں جاسکتا۔ مثال کے طور جنت کو حواس خمسہ سے نہیں جانا جاسکتا۔ یہی معاملہ فرشتوں کا بھی ہے۔ لیکن یہ عقل سے ماورا ہے نہ عقل کے خلاف۔ ہاں محسوسات سے ماورا ہے۔
ایک بحث یہ چلی کہ غیب میں رہتے ہوئے ایمان لاتے ہیں یا غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ میں نے مولانا امین احسن اصلاحی کے مدعا کو سمجھنے اور دلائل ماننے کی بڑی کوشش کی لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہ آسکی۔مولانا ترجمہ تو یہ کرتے ہیں کہ غیب میں رہتے ہوئے ایمان لاتے ہیں لیکن اس کا مفہوم وہی اخذ کررہے ہیں جو غیب پر ایمان لانے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ یا تو یہ ہوتا کہ مولانا تفسیر کبیر میں بیان کردہ نقطہ نظر کے تحت یہ کہتے کہ غیب میں رہتے ہوئے یعنی چھپ کر اپنی تنہائیوں میں بھی ایمان لاتے ہیں تو یہ بات ان کے ترجمے کے مطابق ہوتی گوکہ یہ مفہوم بھی کوئی زوردار نہیں معلوم ہوتا۔
اب سوال یہ ہے غیب میں کون کون سے امور آتے ہیں۔ عمومی جواب یہی ہے کہ اس مراد اجمالا وہ تمام امور شامل ہیں جن میں ذات بار ی تعالیٰ، فرشتے، آخرت کے امور وغیرہ شامل ہین۔البتہ اگر ہم دوبارہ اوپر بیان کردہ پس منظر میں رجوع کریں تو صاف علم ہوتا ہے کہ یہود سے کہا جارہا ہے دیکھو صحابہ یہ غیب یعنی محسوسات سے ماوراباتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ تو یہود چونکہ خدا کو محسوسات کی دنیا میں دیکھنا چاہتے تھے اس لئے یہاں بالخصوص ذات باری تعالی ہی مراد ہے۔ اور جب ہم یہ مان لیں تو اگلی آیت سے اس کا تعلق خود بخود بن جاتا ہے کہ یہ ذات باری تعالیٰ کو محسوسات سے ماوار ہونے کے باوجود مان لیتے اور پھر نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں ۔
۳۔ اگر غیب کو مان لیا جائے گا تو کیا یہ عقل کے خلاف نہیں ہوگا؟
غیب کا مطلب محسوسات سے ماورا ہونا ہے تو یہ خلاف عقل نہیں۔ غیب کے امور ایک صادق ہستی یعنی پیغمبر کی گواہی سے ہم تک پہنچ رہے ہیں ۔ اگرآئین اسٹائن کی گواہی سے ہم بلیک ہول کے وجود کو بن دیکھے مان سکتے ہیں تو پیغمبر کی گواہی اس سے کہیں معتبر ہے۔ دوسرا یہ کہ غیب کے جو بھی امور ہیں وہ سب عقل خود سے دریافت تو نہیں کرسکتی لیکن جب اسے بات سمجھائی جاتی ہے تو عقل مان لیتی ہے اور فطرت قبول کرلیتی ہے۔ چنانچہ فطرت تصدیق کرتی کہ خدا ہے، عقل تقاضا کرتی کہ واقعی ایک دن ایسا ہو جب سب سے ان کے کئے کا حساب لیا جائے، عقل یہ مطالبہ کرتی کہ اچھوں کو جزا اور بروں کو سزا دی جائے۔ عقل مان لیتی کہ فرشتوں کا ہونا خدا اور پیغمبر کے درمیان وسیلے کے لئے لازم ہے وغیرہ۔
ایک مغالطہ یہ ہے کہ عقل سے ماورا کا لفظ بھی ہم استعمال کرتے ہیں ۔ دراصل یہ عقل سے ماورا نہیں ہوتا بلکہ محسوسات سے ماوارا ہوتا ہے ۔
۴۔ کیا ایمان کا تعلق عقل سے ہونا چاہئے؟ اگر ہاں تو غیب پر ایمان کی موجودگی میں کیا یہ عقل کے خلاف نہیں ہوگا؟ اور اگر نہیں تو پھر ہم کیوں عیسائیوں کے نظریہ تثلیث پر عقلی اعتراضات اٹھاتے اور کیوں ہندووں کی بت پرستی کو خلاف عقل قرار دیتے ہیں؟
جی ایمان عقل کے خلاف نہیں ہونا چاہئے اور اگر ہے تو پھر یا تو وہ نسلی ایمان ہے یا پھر نقلی ایمان۔ لیکن یہ عقل کامن سینس ہے۔ اسی بنا پر تثلیث خلاف عقل ہے۔
۵۔ تیسری آیت میں ہے کہ یہ غیب پر ایمان لاتے ہیں ، جبکہ چوتھی آیت میں ہے کہ یہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں تو کیا آخرت غیبی امر نہیں؟ یعنی یہاں کیوں آخرت کو الگ سے بیان کیا گیا؟
یہاں دوبارہ دیکھیں کہ یہود کو تعریض کی جارہی ہے کہ یہ لوگ تو آخرت پر پکا یقین رکھتے ہیں ۔ یعنی یہود کا اصل مسئلہ آخرت کو نہ ماننا یا آخرت کے تصور میں غلط فہمیاں تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ چند دن ہی آگ چھوئے گی یا یہ کہ ہم چہیتے ہیں وغیرہ۔ ان سے کہا گیا کہ اصل آخرت کو ماننے والے لوگ یہی ہیں۔ تمہارا دعوی باطل ہے۔ یعنی یہاں آخرت کا الگ سے ذکر اس کی یہود کے تناظر میں اہمیت کی بنا پر کیا جارہا ہے۔