Monday, 30 April 2012

امت مسلمہ کا زوال اور ہمارا تصورِ دین





آج سے تقریباً ساڑے چودہ سو سال قبل جب سارا عالم بالخصوص عرب لامذہبیت، جہالت اور بے رہنمائی کے خطرناک دلدل میں دھنسا جارہا تھا ‘ جو طرزِ حیات گزشتہ نبیوں کے ذریعے ملا تھا، اور انہیں جو شریعت عطا کی گئیں تھیں ‘ لوگ اسے نفسانی خواہشات کے عوض تبدیل کرچکے تھے۔معاشرتی حالت یہ تھی کہ معمولی سی باتوں پر جنگ کرنا، جھوٹ، فریب، دغابازی، چوری ، ڈاکہ زنی، شراب نوشی، عورتوں ‘ بوڑھوں اور کمزوروں پر مظالم ڈھانا اور نومولود بچیوں کو زندہ دفن کردیا انکے عام مشاغل تھے۔ غرضکہ کہ تمام برائیاں انکا شیوہ بن چکی تھیں۔ جاہلیت، اخلاقی جرائم اور عقائد میں بگاڑکی وجہ سے نہ جانے کیا کیا برائیاں ساری دنیا میں رائج تھیں۔ اس وقت دنیا کی قیادت کسی ایک قوم کے ہاتھ نہیں تھی، ایک طرف پرشکوہ سلطنت روم تھی اور دوسری طرف فارس کی مجوسی ریاست ۔ البتہ ان سب میں بنی اسرائیل خاصے اختیار میں تھے ۔ گویا اس وقت دنیا کی امام بظاہر یہی قوم تھی، تاہم یہ قوم کسی بھی طرح اس منصب کے اہل نہیں تھی۔ دنیا کی دیگر اقوام کی طرح بنی اسرائیل بھی بے رہنمائی اور معاشرتی انحطاط کی شدید شکست و ریخت سے دوچار تھے۔
ایسے شکستہ حالات میں اﷲ تعالیٰ نے دنیا پر اپنا رحم و کرم فرمایا اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرماکرانہیں ایک معجزہ نما کتاب قرآن مجید عطا کی جس سے ابتدائی طور پر جزیرۂ عرب اور پھرتمام انسانیت میں کفر و جہالت کے اندھیرے ختم ہونے لگے۔ حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی الہامی تعلیمات کے ذریعے اہل عرب میں جو انقلاب برپا کیا تھا اس کے نتیجے میں ایک نہیں، بلکہ کئی ایسے باکمال کردار تخلیق ہوئے جنکی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔اہل عرب اسلام کی روشنی سے منور ہوئے اور پھر اس شمع کو لیکر سارے جہاں پر چھا گئے اور اس روشنی کو دنیا کے ہر گوشے میں پھیلا دیا۔ حقیقی عشقِ رسول، خدا اور اسکے نبی کی اطاعت، احساس ذمہ داری، تقویٰ اور دین کے لیے محبت و جاں نثاری کا جذبہ ‘یہ وہ خصوصیات تھیں جو اس امت کا شیوہ رہی۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے ترقی کی راہیں کھلتی رہیں اور ہر مسلمان ترقی کا مظہر ہوگیا۔ مسلمانان عالم ترقی کی اُس حد تک پہنچ گئے جسکی بلندی تاریخ بھی مکمل بیان کرنے سے قاصر ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھ علم کی وہ شمع تھی جس سے راہ پاتے ہوئے انہوں نے ساری دنیا کو منور کیااور صدیوں تک دنیا پر حکومت کرتے رہے ۔ کسی قوم کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ وہ مسلمانوں سے ٹکڑائے۔ علم کے میدان میں ، جنگ کے میدان میں، مہارت و ہنر کے میدان میں، غرضکہ زندگی کے ہر شعبے میں کارنامے انجام دیے۔ یہ لوگ دین و دنیا کو بے مثال طریقے سے متوازی طور پر چلا رہے تھے ۔ وہ بیک وقت مسجد کے امام ، خطیب اور جنگ کے سپاہی بھی تھے اورعالم دین، سائنسدان، مجتہد، قاضی اور خلیفہ بھی ۔ 
بلاشبہ یہ خصوصیات صرف ایک قوم یا ریاست نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کی قیادت کے لیے معیاری تھیں۔ چنانچہ انہی اوصاف کی وجہ سے مسلمان ایک طویل عرصہ تک دنیا کی قیادت کرتے رہے ۔ انہوں نے اپنے انفرادی و اجتماعی‘ تمدنی و تہذیبی اور تمام سماجی معاملات کے منصفانہ اصول قوانین الٰہیہ کی روشنی میں مرتب کیے ۔ ان بندوں نے انسانی بنجر زمین کوسرسبز و شاداب کرنے لیے اپنی خون و پسینے کے دریا بہا دیے،اور مجموعی طور پر انسانی علم و عمل اور نظریہ و افکار کی اصلاح کی۔انہوں نے قانون الٰہی کے مطابق زندگی بسرکرکے کائنات کی تمام قوتوں مسخر کیا اور انکے ماحصل کو وحئ الٰہی کی روشنی میں عدل و اعتدال کے ساتھ ایسے نظام کی صورت میں قائم کیا جس میں تمام نوعِ انسانی کی کامیابی تھی، اپنے بازؤں میں ہدایت کا علم لیکر ساری دنیا میں لہرایا اور اخلاص کے زیور سے مزین ہو کر وہ کارنامے انجام دیے جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ ۔۔۔ جوں جوں دنیا میں ترقی ہوتی گئی اور دنیا مسلمانوں کے قدموں میں آگئی تو کافروں کے ساتھ مسلمان بھی اسکی بے اصل رنگینیوں میں ہی گم ہوتے گئے۔ اپنی تہذیب و ثقافت بھولتے گئے اور حکم الٰہی پر نفسانی خواہشات کو غالب کرنے کی کوشش کی جانے لگی‘ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کو ماننے والے مسلمان تو بہت رہ گئے لیکن مومن نہیں۔وہ قوم جسکی عظمت و بلندی کی کوئی پیمائش نہ تھی، آہستہ آہستہ پستی کی جانب بڑھنے لگی۔ ساری دنیا کو تہذیب سکھانے والی قوم خود غیر مہذب ہو کر رہ گئی۔بد اعمالی، ناعقلی، جہالت، ہر برائی ان میں سمٹنے لگی۔ نہ اخلاق اچھے نہ عادات اچھی۔ نہ اتحاد نہ قوت ، ہر جانب اسلامی اتحاد و سلطنت کا زوال ہونے لگا اور رسوائی ہی رسوائی مسلمانوں کے نصیب بن گئی۔
ان سب منفی رحجانات کے باعث بالاآخر دیگر قوموں کی طرح مسلمانوں پر بھی زوال آگیا۔اوراب حالت یہ ہوگئی ہے کہ مسلمان ہر جگہ رسوا ہیں اور قیادت کرنے والی امت محکوم و مغلوب ہر کر رہ گئی ہے ۔ اﷲ عزوجل کا وعدہ ہے کہ اگر ہم ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں تو اﷲ ہمیں عزت و وقار اور زمین کی خلافت عطا فرمائینگے۔ لیکن مسلمان تو اب بھی ایمان رکھتے ہیں‘ کافی تعداد میں نماز، روزہ ، حج و زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود حال یہ ہے کہ نہ خلافت حاصل ہے نہ دین کومستحکم کرنے کی کوئی صورت۔ نہ عزت و وقار حاصل ہے نہ کامرانی! نہ دین کو تمکن نصیب ہے نہ دشمنوں کو مغلوب کرنے کو کوئی ذریعہ ۔ہر جانب پستی ہی پستی ہے ۔ خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا تو باجود اپنے ایمان پر قائم رہنے کے ہم مسلسل پستی کی جانب کیوں چلے جارہے ہیں؟ ہمیں خلافت و وقار کیوں حاصل نہیں؟ دراصل واقعہ یہ ہے کہ ہم دین و ایمان کے جس پہلو کو اپنے ساتھ چپکائے ہوئے ہیں اسکی اہمیت قانونی ہے حقیقی نہیں۔ کسی حجرے کے کونے میں آگ کا شعلہ موجود ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہاں حرارت ہوگی۔ اگر حرارت نہیں ہے تو پھرحقیقت یہ ہے کہ اُس گوشے میں کچھ اور شے تو موجود ہو سکتی ہے لیکن آگ نہیں۔اسی طرح ہمارے دلوں میں آج ایمان ہے تو پھروہ جذبۂ جہاد، وہ اعلیٰ اخلاق، وہ خوفِ آخرت بھی ہونی چاہیے جو کبھی مسلمانوں کی پہچان تھی۔اگر ہمارے دلوں میں ایمان ہے پھر کیوں اسی دلوں میں اغیار کی محبت بھی رچی ہوئی ہے؟ ہم کیوں اسلامی نظام عدل کے بجائے ابلیسی نظام کے دلدادہ ہیں؟کیوں ہمارے بینک میں سود ی اکاؤنٹ کھلے ہوئے ہیں؟ کیوں ہم سود کھاتے ہوئے‘ جھوت بولتے ہوے‘ ظلم کرتے ہوئے‘ فریب کرتے ہوئے اﷲ سے نہیں ڈرتے؟ اگر واقعی ایمان ہے تو پھر کہاں ہے جذبۂ اطاعت؟ کہاں ہے وہ عشق حقیقی جس نے بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لاکھوں ستم کے باوجود کلمۂ حق سے پھرنے نہیں دیا؟ کہاں ہے وہ حق گوئی‘ عجز و انکساری‘ عدل و انصاف کا جنون کہ جس نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر بن عبد العزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تاریخ اقوام کا مثالی حکمراں بنایا ؟ کہاں ہے وہ غیرت و حمیت جس نے قاسم کو ہندوستان فتح کرنے پر آمادہ کیا؟ یقیناًآج ہمارا ایمان سڑکوں پر، وال چاکنگ میں‘ جلسے جلوسوں میں اور نماز جمعہ میں تو نظر آجائیگا لیکن نظر نہیں آتا تو صرف ہمارے آنگن میں‘ ہماری محفلوں میں‘ ہماری ثقافت میں ‘ ہمارے اخلاق اور روزمرہ کے معاملات میں۔۔۔ کیا اسی ایمان کے عوض کامیابی کا وعدہ ہے ؟ بالکل نہیں۔ 
ذرا تاریخ کے اوراق کھول کر دیکھیں کہ ہمارے اسلاف کیسے تھے ۔ہم نے یہ جاننے کی قطعی زحمت نہ کی کہ خلفائے راشدین ‘ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘ اور ہمارے اکابرین امت نے دین کو کس جامع انداز میں سمجھا اور اسلام کو مسجد و منبر سے آگے لیجاکر اپنی پوری زندگی پر حاوی کردیا۔ انہوں نے اپنی تہذیب کو فخریہ انداز میں اپنایا‘ اور سارے عالم میں اسکا ڈنکا بجایا۔ اپنے کردار کو پیغمبر خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے اس طرح مزین کیا کہ دوسروں کے لیے نمونہ بن گئے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں حسب عہد خلافت بھی ملی ‘ عزت و کامرانی بھی نصیب ہوئی۔آج ہمارے سامنے انفرادی و اجتماعی سطح پر ہر طرح کے مسائل کا انبار لگا ہوا ہے ۔ان مسائل کا تعلق یقیناًہمارے ایمان و اعمال سے ہے ‘ لیکن ہم ان سب کے مادی اسباب تلاش کر رہے ہیں اور صرف شکایت اور احتجاج کا مجسمہ بنے ہوئے ہیں۔ ہم دنیا کے رنگ و رونق میں اس قدر مگن ہیں ہمیں اپنے دین کا صحیح فہم ہی حاصل نہیں ہے۔ دین کو مکمل طرزِ حیات سمجھنے کی ضرورت تھی اور ہم نے صرف طرزِ عبادت سمجھ کر نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ ہی اپنے ذمے لے لیے اور باقی دین کے معاملات بوجہ مصروفیت علماء کرام کے سپرد کردیے‘ اور خود کی زندگی میں اپنے دین کو بہت ہی محدود کردیا ہے ۔
اگر کوئی شخص خانقاہ میں ساری رات عبادت کرے اور صبح اپنی غریبی پر روئے‘ دن بھر روزہ رکھے لیکن لوگوں سے بداخلاقی کرتا پھرے،ہر سال ذالحج میں باقاعدگی سے حج ادا کرے اور سال بھر سود اور رشوت کھاتا پھرے ‘ ہر ماہ زکوٰۃ ادا کرتا رہے لیکن پڑوسیوں یا دیگر حقوق العباد میں کوتاہی کرے‘ تسبیح کے دانے تسلسل سے چلتے رہیں مگر زبان پر غیبت بھی جاری ہو تو یہ سب کسی بھی لحاظ سے ایمان کی موجودگی کی علامت نہیں۔ اس روش کے ذریعے خلافت ، عزت اور کامرانی نہیں مل سکتی‘ البتہ جہنم مل سکتی ہے! کیونکہ یہ تو وہ دین ہی نہیں ہے جسکی دعوت اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔دین میں تو صبر بھی اخلاق بھی ہے، کسب حلال بھی ہے اور حقوق العباد بھی۔ انکے بناء دین کا تصور ادھورا ہی نہیں بلکہ ناقص ہوجاتا ہے۔ دین کو صوم و صلوٰۃ ، حج و زکوٰۃ تک محدود کرنے کا نظریہ بالکل باطل ہے ۔ بلاشبہ یہ ضروریات دین ہیں‘ اور انکا اجر بہت ہی زیادہ ہے لیکن عبادت صرف خدا کے حضور پانچ وقت جھکنے‘ مال خرچ کرنے‘ اور دن کے مخصوص حصے میں بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو ساری زندگی اسکی رضا و خوشنودی کے لیے وقف کردینے کا نام ہے۔ ہم اﷲ کے ملازم نہیں ہیں کہ مخصوص اوقات میں ہی اسکی فرمانبرداری کریں بلکہ ہم تو اسکے عبد (غلام) ہیں ۔ ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی کا ہے اور وہی ہمارا خالق اور ہماری جانوں کو مالک ہے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے چند لمحے کی عبادت کرکے خود کو آزاد سمجھ لیا ہے ۔ آج ہماری خستہ حالی کی وجہ ترکِ مذہب نہیں ترکِ دین ہے۔ وہ دین جو انسانی حیات سے وابستہ ہر معاملات میں رہنمائی کرتا ہے۔ ہماری زندگی کا محور یہی دین ہے جسکی بنیاد اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم ہے۔
اگر صرف روزہ نماز ہی دین ہوتا تو مسلمانوں کی اخلاقی تعلیم کیونکر ہوئی؟ اسے حرام خوری، جھوٹ، غیبت اور بداخلاقی سے کیوں روکا گیا؟ اسے کسب حلال اور حق گوئی کی تلقین کیوں کی گئی؟ آخر کیوں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کی حق تلفی کرنے والے کے ایمان کی نفی کردی؟ اس لیے کہ یہ سب بھی دین اسلام کے ہی جزیات ہیں۔ہم پر دین کے سب زاویے سے ‘چاہے وہ روحانی ہو یا مادّی و جسمانی، سیاسی ہو یا معاشی ، عالمی معاملات ہوں یا عائلی پہلو ‘ ہر ایک سے استفادہ کرنا لازم ہے ۔ اور پھر ہماری موجودہ حالت کا تو یہ شدت سے تقاضا ہے کہ ہم خلفاء راشدینؓ اور اکابرین امت کی زندگیوں کا مطالعہ کریں‘ اور ان کی طرح دین کو مکمل طور پر اخلاق، حق گوئی، کسب حلال، احساس جوابدہی، حقوق العباد، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے ساتھ اپنی زندگی میں شامل کرلیں۔ کیونکہ دین و عبادت کے جامع تصور کی عدم موجودگی کے باعث ہم چاہتے ہوئے بھی تنزل کی اس تاریک گھاٹی سے نہیں نکل سکتے۔ جب تک ہماری ملت کے ایک ایک فرد میں یہ فکر پیدا نہیں ہوگی ‘ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنا ناممکن ہے ۔ یاد رہے کہ بہترین قوم بہترین افراد سے ہی بنتی ہے ، لہٰذا اگر ہم واقعی پستی سے نکلنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہم میں سے ہر ایک پر یہ لازم ہے کہ دین کو صحیح معنوں میں سمجھے اور طبعی عبادات کے علاوہ اخلاقی قدروں پر بھی توجہ دے تاکہ ایسا ماحول میسر آسکے جس میں ہر فرد کو سکون حاصل ہو اور قوم کا ایک ایک فرد باکردار اور مثالی شخصیت بن کر اپنے دین و ملت اور معاشرے کی خدمت کرسکے اور اسے اپنا سابقہ مقامِ اعلیٰ پر دوبارہ پہنچاسکے۔ 

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی صحیح فہم عطا فرمائے اور ہماری حالت زار پر رحم کرتے ہوئے ہمیں ہدایت دے۔



حافظ محمد شارق

Saturday, 28 April 2012

خدا کا وجود


خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل مکالمہ ملاحظہ کیجئے جس میں خدا کے وجود کو کس بالغانہ انداز میں ثابت کیا گیا ہے ۔ 

’’آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھیں کہ خون سرخ کیوں ہوتا ہے؟ تو وہ جواب دیگا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خون میں نہایت چھوٹے چھوٹے سرخ اجزاء ہوتے ہیں (ایک انچ کے سات ہزارویں حصے کے برابر) یہی سرخ ذرات خون کو سرخ کرنے کا سبب ہیں۔ 

’’درست، مگر یہ ذرات سرخ کیوں ہوتے ہیں؟ ‘‘

ان ذرات میں ایک خاص مادہ ہوتا ہے جس کا نام ہیموگلوبن (Haemoglobin) ہے‘ یہ مادہ جب پھیپھڑے میں آکسیجن جذب کرتا ہے تو گہرا سرخ ہوجاتا ہے ۔‘‘ 

’’ٹھیک ہے ۔ مگر ہیموگلوبن کے حامل سرخ ذرات کہاں سے آئے ؟‘‘

’’وہ آپ کی تلی میں بن کر تیار ہوتے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب! جو کچھ آپ نے فرمایا وہ بہت عجیب ہے۔ مگر مجھے بتائیے کہ ایسا کیوں ہے کہ خون‘ سرخ ذرات‘ تلی اور دوسری ہزاروں چیزیں اس طرح ایک کل کے اندر باہم مربوط ہیں‘ اور اس قدر صحت کے ساتھ اپنا اپنا عمل کررہی ہیں؟‘‘
’’یہ قدرت کا قانون ہے۔‘‘
’’وہ کیا چیز ہے جس کو آپ قدرت کہتے ہیں؟‘‘
’’اس سے مراد (Blind interplay of physical and chemical forces) طبیعی اور کیمیائی طاقتوں کا اندھا عمل ہے ۔ ‘‘
’’مگر کیا وجہ ہے کہ یہ اندھی طاقتیں ہمیشہ ایسی سمت میں عمل کرتی ہیں‘ جو انہیں ایک متعین انجام کی طرف لے جائے۔ کیسے وہ اپنی سرگرمیوں کو اس طرح منظم کرتی ہیں کہ ایک چڑیا اڑنے کے قابل ہوسکے ، ایک مچھلی تیر سکے، ایک انسان اپنی مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ وجود میں آئے۔‘‘
’’میرے دوست مجھ سے یہ نہ پوچھو، سائنس داں صرف یہ بتاسکتا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے ‘ وہ کیا ہے‘ اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے ۔‘‘
یہ مکالمہ اس بات کو بالکل واضح کردیتا ہے ہماری عقل بھی خدا کو ماننے پہ کیوں مجبور ہے۔ کیونکہ دراصل اسی ’’کیوں ‘‘ کی خلاء کر پُر کرنے کے لیے ہمیں چار و ناچار خدا کے وجود اور مذہب کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے ۔بگ بینگ نظریے کے مطابق کائنات ایک انفجار کے بعد وجود میں آئی اورپھر ایک طویل المیاد عمل کے بعد زمین میں مظاہر فطرت کا وجود ہوا۔مادہ پرست قوم اس پورے عمل کو اتفاق مانتی ہے ۔ سورج زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل فاصلے پر ہے اگر یہ فاصلہ کم یا زیادہ مثلاً نصف ہی ہوجائے ساری زمین تباہ ہوجائیگی اور سب کچھ جل کر راکھ ہوجائیگا لیکن ہم جانتے ہیں کہ سورج زمین کی حیات کے لیے ناگزیر فاصلے پر ہی واقع ہے ۔ زمین ۲۳ درجے کا زاویہ بناتے ہوئے خلاء میں جھکی ہوئی ہے اور یہ جھکاؤ ہمیں موسم دیتا ہے ، اگر زمین اس طرح نہ جھکی ہوئی ہوتی تو ایسے اثرات واقع ہوتے جس کی وجہ سے زمین پر زندگی کا وجود ناممکن ہوجاتا ۔ اس عظیم انفجار کے بعد آخر کیوں سورج اسی فاصلے گیا جو ہمارے لیے ناگزیر تھا۔آخر کیوں زمین اسی درجے پہ جھکی کہ ہمارے لیے مطلوبہ موسم رہ سکیں۔؟ ان سب کو اتفاق ماننا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک فرش پہ موتیوں سے پاکستان لکھا ہوا ہو املے اور آپ یہ مان لیں کہ کسی نہ موتیوں کی لڑی ہوا میں اچھال کے پھینکی اور اتفاق سے یہ لفظ بن گیا۔ یا یہ کچھ ایسا ہی ہے کہ آپ سیاہی کی بوتل زور سے کسی کاغذ کے ڈھیرپر پھینکے اور آپ کے سامنے دیوانِ غالب یا شاعری کی ایک ضخیم کتاب آجائے۔ کیا ایک صاحب عقل ان سب کو ’’اتفاق‘‘ مان سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ تو پھر یہ کائنات کا مربوط نظام کس طرح اتفاقاً وجود میں آسکتا ہے ؟ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ یہ ثبوت ہے اس ہستی کا جس نے یہ سارا نظام نظم و ضبط کے ساتھ قائم کیااور پھر ہمیں اس پر غور کرنے کی دعوت دی۔ انسان درحقیقت اتنا عاجز اور حقیر ہے کہ وہ اپنے عقل کے گھوڑوں کی رسائی بھلے چاند اور اجرام فلکی کے دیگر سیاروں تک کرلے لیکن سائنس کے ہر ایک شعبے میں اسے ایک نکتہ وہی آتا ہے جہاں اسے بھی ایمان بالغیب کو ایک معقول حقیقت ماننا ہی پڑتا ہے اور سارے کارخانہ کائنات کے پس پردہ ایک عظیم الشان ہستی کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
( ماخوذ از: ’’مذہب اور جدید چیلنج ‘‘)
حافظ محمد شارق

Saturday, 21 April 2012

ض کی ادائیگی۔ کیسے؟ داد یا ظاد؟

ہمارے ہاں ایک عمومی رویہ ہے کہ اگر ہم سے کوئی شخص کا گروہ کسی معاملے میں اختلاف کربیٹھے ہماری عقلوں پر ایسے قفل لگ جاتے ہیں کہ ہم پھر اس کی ہر ایک بات سے اختلاف کرنے لگ جاتے ہیں اور ہر صورت میں اسے گمراہ قرار دینے پر بضد رہتے ہیں، خواہ وہ حق پر ہو یا باطل۔ ایک واضح مثال ہمارے سامنے عربی لفظ ضاد کی قرأت کے متعلق ہے جسے ہم نے آج ایک بہت بڑا نزع اور فساد کا سبب بنا رکھا ہے ۔ ہم نہ جانے کیوں اس بارے میں لڑتے رہتے ہیں ، کوئی کہتا ہے اسے ظ کے مشابہ پڑھو اور کوئی کہتا ہے دال کی پڑھو ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے دیوبندی ، اہل حدیث ہو یا بریلوی مکتب فکر کے لوگ، کسی میں کوئی اختلاف امت میں نہیں ہے ۔ سبھی مکاتب فکر متفق ہیں کہ یہ لفظ ’’ض‘‘ زبان کی کروٹ جب اوپر داڑھوں سے دائیں یا بائیں طرف لگانے سے ادا ہوتا ہے، اس مخرج میں کسی قسم کا کہیں اختلاف نہیں ہے۔لاعلمی کی بناء پر بعض لوگوں نے اسے نزع بنا دیا ہے ۔ میں ان لوگوں سے انتہائی عاجزی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو اس موضوع کو بنا سمجھے جھگڑے کا سبب بنالیتے ہیں کہ براہِ کرم اس معاملے میں جھگڑنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ حقیقت کیا ہے، اور ہمارے اکابر علماء نے اس بارے میں کیا فرمایاہے۔
اہل سنت والجماعت کے بریلوی مکتب فکر کے امام حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’ظاد اور دواد دونوں محض غلط ہیں، اور اس کا مخرج بھی نہ زبان کو دانتوں سے لگا کر ہے نہ زبان کی نوک کو داڑھ سے لگا کہ، بلکہ اس کا مخرج زبان کی ایک طرف کی کروٹ اسی طرف بالائی داڑھوں سے مل کر درازی کے ساتھ ادا ہونا اور زبان کو اوپر کو اٹھا کر تالو سے ملنا اور ادا میں سختی وقوف ہونا ہے۔ اس کا مخرج سیکھنا مثل تمام حرفوں کے ضروری ہے جو شخص مخرج سیکھ لے اور اپنی قدرت تک اس کا استعمال کرے اور ظ یا ذ کا قصد نہ کرے بلکہ اسی حرف کا جو اللہ عزوجل کی طرف سے اترا ہے پھر جو کچھ نکلے بوجہ آسانی صوت پر نماز کا فتویٰ دیا جائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ‘‘ (فتاویٰ رضویہ۔ جلد ۳، صفحہ ۱۰۰)
’’یہ حرف دشوار ترین حرف ہے اور اس کی ادا خصوصاً عجم پر کہ ان کی زبان کا حرف نہیں سخت مشکل (ہے)۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کا مخرج صحیح سے ادا کرنا سیکھیں اور کوشش کریں کہ ٹھیک ادا ہو اپنی طرف سے نہ ظاد کا قصد کریں نہ دواد کا کہ دونوں محض غلط ہیں اور جب اسے حسب وسع و طاقت جہد کیا اور حرف صحیح ادا کرنے کا قصد یا پھر کچھ نکلے اس پر مواخذہ نہیں ، لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا خصوصاً ظا سے اس حرف کا جدا کرنا تو سخت مشکل ہے پھر ایسی جگہ ان سخت حکموں کی گنجایش نہیں تکفیر دینا امر عظیم ہے لا یخرج الانسان من الاسلام الا حجور ما ادخلہ فیہ اور جمہور متاخرین کے نزدیک فساد نماز کا بھی حکم نہیں ہے۔ (فتاویٰ رضویہ۔ جلد ۳، صفحہ ۱۰۱)
بالکل یہی بات اہل سنت والجماعت کے دوسرے مکتب فکر علماء دیوبندکے ایک جیّد عالم دین حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں:
جب مخرج معلوم ہوگیا تو ضاد کے ادا کرنے یہی طریقہ ہے کہ اس کے مخرج سے نکالا جاوے۔ اس نکالنے سے بوجہ عدم مہارت خواہ کچھ ہی نکلے عفو ہے اور اگر قصداً دال یا ظا پڑھے وہ جائز نہیں ، جیسا کہ بعض نے دال پڑھنے کی عادت کرلی ہے اور بعض فقہاء کے کلام میں دیکھ کر کہ ضاد مشابہ ظا ہے ظا پڑھنا شروع کردیا حالانکہ مشابہت کی حقیقت صرف مشارکت فی بعض الصفات ہے اور مشارکت فی بعض الصفات سے اتحاد لازم نہیں آتا۔ (امداد الفتاویٰ۔ جلد ۱، صفحہ ۱۷۶)
دونوں فتاویٰ کو پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا خلاصہ کلام ایک ہی ہے ۔ض کی ادائیگی نہ ظا ہے نہ داد ہے بلکہ یہ دونوں کے قریب ایک علاحدہ حرف ہے جس کی ادائیگی اہل عجم کے لیے ایک مشکل کام ہے، اور اس بارے میں علمائے کرام کا صحیح مذہب یہ ہی ہے کہ یہ عذر ہے چنانچہ معاف ہے‘ البتہ کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اس لفظ کی صحیح ادائیگی کے دو طریقے ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر زبان کی کروٹ داڑھ کے ساتھ لگے تو سختی کے ساتھ لگا کر ادا کیا جائے تو یہ دال کے مشابہ ادا ہوگا یہ بھی صحیح اور جائز ہے اس لیے کہ اس کی ادائیگی درست مخرج سے کی جارہی ہے ، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زبان کی کروٹ کو داڑھوں کے ساتھ لگا کر نرمی سے ادا کیا جائے تو یہ ظا کے مشابہ ادا ہوتا ہے اور یہ بھی بلاشک و شبہ صحیح ہے۔ مختصراً اس لفظ کی ادائیگی کے لیے اہم امر مخرج ہے اگر مخرج درست ہے تو پھر ظا یا دال کے مشابہ پڑھنے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا دونوں ہی صحیح ہیں لیکن اسے اپنے مخرج سے ادا نہ کیا جائے تو پھر چاہے اسے دال کی طرح پڑھ لیں یا ظا کے، دونوں مکتب فکر کے نزدیک غیر صحیح ہوگا۔ چنانچہ اس بارے میں اب جھگڑنے سے بہتر ہے کہ ہم اس کے درست مخرج کے ساتھ صحیح ادائیگی کے لیے کسی ماہر قاری (مثلاً امام کعبہ شیخ عبد الرحمن السدیس، شیخ سعد الغامدی) کی تلاوت سنیں اور مشق کرتے رہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
حافظ محمد شارق 




حافظ محمد شارق

Tuesday, 17 April 2012

قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اﷲ علیہ کی ذہانت



بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اﷲ علیہ ریل کے سفر کے دوران اپنے لیے دو برتھ ریزرو کرایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی نے ان سے اسکی وجہ دریافت کی تو جواب میں انہوں نے اپنا ایک دلچسپ واقعہ سنایا ۔ کہتے ہیں !
’’میں شروع میں ایک ہی برتھ ریزرو کرایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بمبئی سے لکھنؤ جا رہا تھا۔ کسی چھوٹے سٹیشن پر ٹرین رکی تو ایک اینگلو انڈین لڑکی میرے ڈبے میں آکر دوسرے برتھ پر بیٹھ گئی۔ چونکہ میں نے ایک ہی برتھ روزرو کرائی تھی اس لیے خاموش رہا۔‘‘
ٹرین نے رفتار پکڑی تو اچانک لڑکی بولی ’’ تمہارے پاس جو کچھ ہے فوراً میرے حوالے کردو ورنہ ابھی زنجیر کھینچ کر لوگوں سے کہہ دونگی کہ یہ شخص میرے ساتھ زبردستی کرنا چاہتا ہے ۔‘‘
میں نے کاغذوں سے سر ہی نہ اٹھایا ۔ اس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ میں پھر خاموش رہا۔ آخر تنگ آکر اس نے مجھے جھنجوڑا تو میں نے سر اٹھایا اور اشارے سے کہا کہ ’’ میں بہرہ ہوں‘ مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ جو کچھ کہنا ہے لکھ کر دو۔‘‘
اس نے اپنا مدعا کاغذ پر لکھ کر میرے حوالے کردیا میں نے فوراً زنجیر کھینچ دی اور اسے بمع اس کی تحریر کے ریلوے حکام کے حوالے کردیا جو اس کے جرم کا ثبوت تھی۔ اس دن کے بعد سے میں ہمیشہ دو برتھ ریزرو کراتا ہوں۔ ‘‘
یہ واقعہ نہ صرف قائد کی ذہانت بلکہ مشکل ترین حالات میں خود پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

حافظ محمد شارق

Friday, 13 April 2012

Evidence For God From Logic


Evidence For God From Logic

Evidence For God From Logic
The Transcendental Argument
 Jim Wallace:

The Necessity of Logic

All of us get up every day and live our lives without giving much thought to the physical and non-physical laws of the universe that have to be in place in order for us to exist and live in our world. We take for granted the law of gravity, for example; it doesn’t really matter to us how this law exists or what forces lie behind the law. We simply know that we live in a world where gravity is a reality. In a similar way, there are many conceptual truths that exist in our universe that we take for granted! These conceptual truths also order and establish our world and limit our exploration and experience of all that

we see and understand. One area of conceptual truth is simply the body of concepts that we call the Laws of Logic.
All rational discussion, for example, requires the pre-existence of logical absolutes. You would have a hard time making sense of any conversation if there weren’t Laws of Logic to guide the conversation and provide rational boundaries. Here are three of the most important Laws of Logic that you and I use every day to engage each other rationally:
The Law of Identity
Something is what it is. ‘A’ is ‘A’. Things that exist have specific properties that identify them
The Law of Non-Contradiction
‘A’ cannot be both ‘A’ and ‘Non-A’ at the same time, in the same way and in the same sense
The Law of Excluded Middle
A statement is either true or false. There is no middle position. For example, the claim that “A tatement is either true or false” is either true or false!
These are simple laws; we use them all the time. These logical ‘rules’ are necessary in order for us to examine truth statements and point out when someone is reasoning illogically. These are important laws and they are known as the First, Second and Third Laws of Logic. We use the Laws of Logic all the time; you couldn’t even begin to read and reason through this website if you didn’t use these laws. In fact, you’ve never had an intelligent, rational  conversation in your entire life without using these laws. These laws TRANSCEND us as humans (they apply to all of us in the same way, regardless of location, culture or time in history). So the question we have to ask ourselves is simple: “Where do the transcendent laws of logic come from?”
An Evidence for the Existence of God?
Most of the atheists that I know like to think that they are actually far more rational than Christians. But they are basing this ‘rationality’ on their command of the Laws of Logic. Can they even account for these transcendent laws without the existence of a transcendent God? Let’s see. Let’s begin by presenting the Transcendental Argument in its complete form and then we’ll examine some atheistic
responses to the argument:
(1) The Absolute Laws of Logic Exist
We cannot deny that the Laws of Logic exist. In fact, any ‘reasonable’ or ‘logical’ argument that these laws don’t exist, requires their existence in the first place 
The Absolute Laws of Logic Are Conceptual Laws That Govern Mental Processes.
These laws are not physical; they are conceptual. They cannot be seen under a microscope, and they do not govern matter. They are conceptual laws that guide logical thought processes
The Absolute Laws of Logic Are Transcendent And these laws transcend space and time. If we go forward a million years or backward a million years, the laws of logic still exist and apply! 
The Absolute Laws of Logic Pre-Existed Mankind.
The transcendent and timeless nature of logical laws dictates that they pre-exist mankind. Even before men were ever able to understand the law of non-contradiction, “A” could not be “Non-A”! The law was discovered by humans, not created by humans.
(2) All Conceptual Laws Reflect the Mind of a Law Giver
Conceptual laws require lawgivers. We know this from our common experience in the world in which we live. The laws that govern our society and culture, for example, are the result and reflection of ‘minds’. But more importantly, the conceptual Laws of Logic govern thought processes and rationality, and for this reason, they require the existence of a mind.
(3) The Best and Most Reasonable Explanation for the Kind of Mind Necessary for the Existence of the Transcendent, Absolute, Conceptual Laws of Logic is God
The only lawgiver that can account for non-physical, transcendent laws that preexist mankind must also be a non-physical, transcendent and pre-existent mind. This description fits what we commonly think of when we think of a creator God.
The Christian Worldview has the ability to ACCOUNT for the existence of the transcendent Laws of Logic. Christianity proposes that God exists and that he is the absolute, transcendent ‘standard’ of truth. The transcendent Laws of Logic are simply a reflection of the nature of this absolute God. Now it’s important to understand that Christianity does NOT propose that God CREATED these laws. They are simply a reflection of God’s thinking, and for this reason, they are as eternal as God Himself. You and I, as humans, have the ability to DISCOVER these laws because we have been created in the image of God, but we don’t create or invent the laws. These laws are evidence that a transcendent God exists because there is no other satisfactory way to account for the existence of transcendent laws without the existence of a transcendent law maker. But this last statement is hotly debated by atheists. Many would argue that the Laws of Logic can be accounted for in some other way that does not necessitate the existence of God.
Is There Some Other Explanation?
When the Transcendental Argument is offered to those who doubt the existence of God, a number of objections are usually raised in an effort to find some other explanation for the Laws of Logic. Let’s examine some of the objections to see I any of them might truly be a viable alternative to the existence of God.
Objection 1:
Aren’t the “Laws of Logic” simply the ‘brute’ characteristics of existence? Both material and immaterial things must abide by boundaries of existence in order to exist in the first place. The “Laws of Logic” are simply among the boundaries and characteristics of existence. They are not transcendent laws from a transcendent mind; they are just a few of the natural boundaries of existence.
Both the theist and the atheist would agree that the Laws of Logic are brute ‘somethings’. The atheist would claim that Logic is a brute, innate FACT of existence, while the theist would argue that Logic is a brute, innate reflection of the nature and thinking of God. In either case, these laws would have to be
ETERNAL, UNCAUSED and NECESSARY by nature, right? Nothing can exist without the simultaneous existence of these laws. But let’s now look at how both sides ACCOUNT for their existence:
The Atheist
The brute Laws of Logic simply exist. They are eternal and uncaused. Nothing can exist without them. That’s just the way it is.
The Theist
If there is any God at all, he would, by definition, be eternal, uncaused, omniscient and omnipotent; he would be the all-knowing and all-powerful God that is the necessary, uncaused first cause of all matter, space and time. He would have attributes like thoughts, character, essence and nature, and if he is truly as powerful and all-knowing as we say he is, these attributes would be ‘perfect’ (an all-powerful and all-knowing God has the power to eliminate imperfection!) Logic then is simply an attribute of God’s perfect existence; it is innate and intrinsic to God’s own perfect thought processes (God’s thoughts would, by necessity, be consistent within Himself). God does not ‘create’ these Laws of Logic, they are an innate and immutable aspect of His nature. As God is necessary for all else to exist, so are the Laws of Logic. They are merely a reflection of God’s nature, and they permeate all of his creation.
Now look at these two responses for a minute. Both the atheist and the theist agree that ‘something’ is eternal, uncaused and necessary. But when the atheist says that the Laws of Logic ‘simply exist’, he is really ‘begging the question’; he’s not providing an explanation for their eternal, uncaused and necessary existence (just saying they exist does not provide us with an accounting of their existence). In addition, the atheist fails to explain how these laws can be eternal and uncaused and what role they play in causing all other contingent realities. The theist, on the other hand, can account for the existence of the Laws of Logic by pointing to the existence of an omniscient and omnipotent uncaused first cause’ that possesses perfect rationality (by virtue of His limitless power) and can also act as the first cause of all other contingent creations.


Objection 2:
Aren’t the “Laws of Logic” simply the result of observations we make of the world in which we live? We discovered the laws of physics from our observations of the natural world; can’t we discover the Laws of Logic in a similar way?
Remember that the Laws of Logic are conceptual. They only exist in the mind. They don’t describe physical behaviors or actions of matter, but instead describe ‘truth’. The Laws of Logic are statements that deal with conceptual patterns and processes of thought. Now let’s think about the analogy to physics for a minute. Newton’s three Laws of Motion (as an example) may be conceptual as statements, but they describe actual physical behaviors that we can observe. This is an important difference relative to the Laws of Logic. Logical absolutes (especially those that have to do with mathematics) cannot be observed and do not describe the behavior or actions of material things because the Laws of Logic exist completely in the mind.
Now let’s take a look at an example that an atheist might present as proof that we learn the Laws of Logic from our observations of the natural world.
Someone might argue that our careful observations of a sea shell, for example, can reveal to us a Law of Logic. Observing that the shell does nothing but exist as a shell (it is not a fish – nor does it ever become a fish) we might then posit and formulate the Law of Identity or the Law of Non-Contradiction. From this simple example, the atheist will claim that Laws of Logic can be discovered
from observations of matter.
But let’s think carefully about this. Yes, it is correct to say that the shell does not change. And yes, it is correct to say that we can observe this physical reality. But we then do something very interesting; we assign a logical absolute to the observation we just made. We assign something that is conceptual (and requires a mind) to our observation of matter. But the mere fact that we made an observation and then assigned a logical absolute to that observation does not then ACCOUNT for the existence of all logical absolutes in the first place. The fact that our observations SUPPORT the PRE-existence of the logical absolute does not mean that our observation ESTABLISHES the Law of Logic. Can you see the difference? We don’t form the Law of Logic from the observation, we instead confirm the pre-existing logical truth with our observation.


Objection 3:
Aren’t the Laws of Logic simply human conventions?
When people make this kind of objection, they are typically referring to a ‘convention’ as a ‘principle that everyone has agreed on’. But if Laws of Logic are simply ideas about truth that people have agreed on, two things are required before we could ever have a single Law of Logic: people, and agreement! Now think about that; are we really saying that the Law of Identity (for example) did not exist before people were here to think it up? Are we really saying that prior to the existence of people “A” could be “Non-A”? And we all recognize that people disagree on what is true and untrue. We disagree with each other and our positions often contradict each other. How then, can the Laws of Logic be  ‘transcendent’ unless they exist for all of us, whether we agree with them or not? If the Laws of Logic are merely agreed upon conventions, they cannot be absolute because they would, in essence, be subject to a “vote”; the laws could be changed if enough people agreed!
Objection 4:
If God created the Laws of Logic, then they are dependant on God. They are not ‘necessary’ truths but ‘contingent’ truths, and this means that they are not foundational to the universe. And if God ‘created’ the Laws of Logic, wouldn’t this mean that He could change them whenever He wanted? Couldn’t God then arrange things so that “A” is also “Non-A”? After all, He created the Laws, so He should be able to change them! But the idea that “A” could also be “Non-A” is crazy and leads us to conclude, therefore, that Logic is not actually dependent on God at all.
Once again, we need to remember that, as Christians, we are not claiming that God created the Laws of Logic. It is not our position that he created something with particular properties, so He could therefore change these properties. Instead, we believe that the Laws of Logic are simply a reflection of the thoughts of God, and as such, they reveal his logical, perfect nature. We understand that God is limited by His own nature; He is not self contradictory. Just as there is no such thing as a ‘square’ circle (because this violates the nature of what a circle is all about), God cannot exist outside His nature, which includes the nature of his perfect thoughts. Logic is necessary simply because God is the necessary Being that He is. The Laws of Logic are absolute, unchangeable, internally consistent and transcendent simply because God Himself is absolute, unchangeable, internally consistent and transcendent.
Objection 5:
Aren’t there different kinds of Logic? If this is true, there are a variety of differing views and laws, so the idea of transcendence is not really true, and there is no need, therefore, for a transcendent source of these Laws.
While it is true that there are different categories of Logic that apply to different aspects of propositional truth, mathematics and reasoning, the basic underlying principles of Logic remain intact. In addition, it’s true that many ‘laws of thought’ have been proposed over time by great thinkers (i.e. Plato, Aristotle, Locke, Leibniz, Schopenhauer, Boole, Welton, and even Russell), but these laws
merely reflect, in one way or another, the same universal and absolute logical truths that are pre-existent. In essence, we continue to find ourselves restating and reformulating the same Laws of Logic over and over again. When an atheist says that “there are different kinds of logic” he is failing to see that the underlying logical absolutes remain constant and the existence of these universal absolutes has not been explained by atheism.
So, Are We Being Consistent?


Maybe by now your head is starting to spin as we think through the nature of transcendent principles, trying to account for them and trying to decide why any of this should matter to us in the first place! But these are important issues because they help us to form our foundational view of the world. In the end, each of us wants to live in a way that is consistent with our own worldview, so we need to begin by understanding what we believe and why we believe it! Only then we can ask ourselves the important question: “Are we living and behaving in a way that is consistent with what we say
we believe?”
Let me give you an example. Let’s say that you and I are sitting on the beach. We hear the sound of an airplane overhead, but we ignore it. Later, we look up and see cloudy formations in the sky, forming the words, “DIAL *88 TO WIN $1,000,000”. I say to you, “Wow, look at how well that sky-writer wrote that sentence!” You look at me with a disgusted look on your face and say, “What makes you believe that a sky-writer was involved at all? Those may simply be clouds that just happened to form the shapes of what appear to be letters!” I respond, “Are you kidding? Didn’t you hear that airplane earlier?” You’re unconvinced, “You and I never actually SAW the sky-writer as he was writing the letters,” you say, “So you really don’t know if those are written words or just natural clouds! In fact, I think those are simply clouds.” I think you’re acting irrationally, but I do have to admit that we didn’t actually SEE the sky-writer write the words in the sky. I do, however, believe that this is the most reasonable and logical conclusion from the evidence and my ‘sky-writer theory’ seems far more likely
from the standpoint of probability and far less subjective than your ‘accidental cloud’ theory, but I remain silent at this point. Minutes later, I watch you as you pull out your cell phone and dial *88. “What are you doing?” I ask. You respond, “Well, I can really use the $1,000,000!” This is ridiculous. I say, “Just moments ago you told me that those words were just accidental cloud formations and now you’re dialing *88 as if the words were written by a sky-writer!”
Do you see the problem here? In this simple illustration, it is clear that one of us is acting in a way that is inconsistent with our own view of how those words came to be. You are claiming that they are accidental and have no meaning, yet dialing the cell phone as if they DID have meaning. See the inconsistency?
In a similar way, if the transcendental Laws of Logic exist because a transcendental God exists, we cannot then use these laws to argue ‘rationally’ that there is no God in the first place. To do so is just like arguing that the words in the sky are accidental clouds, and then acting what these words are saying as if they were placed there by a sky-writer. When atheists use their reasoning ability to  examine the world and draw conclusions, they are first assuming and presupposing that there is a rational basis to the universe. They are presupposing that the Laws of Logic exist and are transcendent. But atheism as a world view cannot account for the transcendent Laws of Logic that it employs to draw conclusions and make arguments in the first place. In other words, atheists must dip their feet in the rational, logical constructs and principles of theism in order to attempt to rationally deny theism! Do you see the inconsistency here? Rationality and logic exist and can only be accounted for in a theistic worldview. When atheists use logic to try to disprove God’s existence, they are assuming absolute Laws of Logic; they are borrowing from the Christian worldview.
Another Important Evidence


The transcendent Laws of Logic can best be accounted for in a theistic worldview, and you and I can be consistent in our behavior if we recognize that the nature of logic dictates the existence of God. The transcendental evidence for the existence of God is a powerful addition to the circumstantial umulative case for God’s existence, and the Laws of Logic make it possible for us to reason about God’s existence in the first place.
حافظ محمد شارق

Sunday, 8 April 2012

Rare photos of Qaid e Azam Muhammad Ali Jinnah r.a and Migration of 1947CE


Qaid e Azam Muhammad Ali Jinnah r.a
Founder of Pakistan










































































































































































حافظ محمد شارق
محمد علی جناح
New Collection



































ہجرت جنگ آزادی 1947